Sunday 30 April 2017

سورہٴ بقرہ: ٢٥٦ . دوسرا حصّہ

اسلام نے عین میدانِ جہاد میں بھی عورتوں، بچّوں، بوڑھوں، اور جسمانی طور پر معذور لوگوں کے قتل سے بہت سختی سے روکا ہے، کیونکہ وہ فساد کرنے پر قادر نہیں ہوتے۔ ایسے ہی ان لوگوں کے قتل سے بھی روکا ہے جو جزیہ ادا کرنے کا وعدہ کر کے قانون کے پابند ہو گئے ہوں۔

حضرت عمر رضی الّٰلہ تعالیٰ عنہ نے ایک بوڑھی نصرانی عورت کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے اس کے جواب میں کہا کہ، "میں ایک قریب المرگ بڑھیا ہوں، آخری وقت میں اپنا مذہب کیوں چھوڑوں؟" حضرت عمر رضی الّٰلہ عنہ نے یہ سن کر اس کو ایمان پر مجبور نہیں کیا بلکہ یہی آیت تلاوت فرمائ، "لا اکراہ فی الدین" یعنی "دین میں زبردستی نہیں ہے۔"

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

سورہٴ بقرہ: ٢٥٦ . پہلا حصّہ

لَآ إِكۡرَاهَ فِى ٱلدِّينِ‌ۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّشۡدُ مِنَ ٱلۡغَىِّ‌ۚ فَمَن يَكۡفُرۡ بِٱلطَّـٰغُوتِ وَيُؤۡمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسۡتَمۡسَكَ بِٱلۡعُرۡوَةِ ٱلۡوُثۡقَىٰ لَا ٱنفِصَامَ لَهَا‌ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔

"دین کے معاملے میں کوئ زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہو کر واضح ہو چکا۔ اس کے بعد جو شخص طاغوت کا انکار کر کے الّٰلہ پر ایمان لے آئے گا اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا جس کے ٹوٹنے کا کوئ امکان نہیں۔ اور الّٰلہ خوب سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔"

اس آیت کو دیکھتے ہوئے بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں زبردستی نہیں ہے، حالانکہ اسلام میں جہاد کی تعلیم اس کے خلاف ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اسلام میں جہاد کی تعلیم لوگوں کو قبولِ ایمان پر مجبور کرنے کے لئے نہیں ہے، ورنہ جزیہ لے کر غیر مسلموں کو اپنی حفاظت میں رکھنے، اور ان کی جان و مال و آبرو کی حفاظت کرنے کے اسلامی احکام کیوں جاری ہوتے۔ بلکہ یہ حکم دفعِ فساد کے لئے ہے کیونکہ فساد الّٰلہ تعالیٰ کو ناپسند ہے، چنانچہ قرآن کریم میں الّٰلہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"یہ لوگ زمین میں فساد کرتے پھرتے ہیں اور الّٰلہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔" (۵: ۶۴)

اس لئے الّٰلہ تعالیٰ نے جہاد کے ذریعے فساد کرنے والوں کے فساد کو دور کرنے کا حکم دیا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Friday 28 April 2017

مریض کی راحت کا خیال کریں

ہم لوگوں میں یہ بیماری ہے کہ یا تو کوئ اچھا کام کرتے نہیں، یا کرتے ہیں تو اتنا زیادہ کرنے لگتے ہیں کہ سامنے والا تنگ آ جاتا ہے۔ رسول الّٰلہ ﷺ نے ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال کا سبق سکھایا ہے۔ اسی طرح آپ نے عیادت کے بھی آداب سکھائے ہیں۔ چنانچہ فرمایا: 

"من عاد منکم فلیخفف"

"جب تم کسی کی عیادت کرنے جاؤ تو ہلکی پھلکی عیادت کرو۔" یعنی ایسا نہ ہو کہ اپنے خیال میں تو ہمدردی کی خاطر اس کی عیادت کرنے جاؤ، لیکن طریقہ ایسا اختیار کرو کہ اس کو تکلیف پہنچا دو۔

جب انسان کسی کی عیادت کے لئے جانے کا ارادہ کرے تو پہلے یہ دیکھ لے کہ یہ وقت عیادت کے لئے مناسب ہے کہ نہیں۔ کہیں یہ وقت اس کے آرام کا تو نہیں؟ کہیں یہ وقت اس کا گھر والوں کے ساتھ رہنے کا تو نہیں؟ اس وقت جانے میں اس کو تکلیف تو نہیں ہو گی؟ 

پھر یہ کہ جب انسان کسی کی عیادت کے لئے جائے تو اس کے پاس تھوڑا بیٹھے، اتنا زیادہ نہ بیٹھے کہ اس کو گرانی ہونے لگے۔ بیمار کا دل چاہتا ہے کہ وہ آرام سے بے تکلفی سے رہے، ہر کام اپنی مرضی سے بے تکلفی سے انجام دے، مثلاً پیر پھیلا کر جیسے اس کو آرام ہو ویسے لیٹے، لیکن جب کوئ مہمان آ جاتا ہے تو اس کی وجہ سے طبیعت میں تکلّف آجاتا ہے۔ اب وہ اتنے آرام سے پیر پھیلا کر نہیں لیٹ سکتا، یا اپنے گھر والوں سے ذاتی باتیں کرنا چاہتا ہے وہ نہیں کر سکتا۔ ہم تو اس کی عیادت کی نیّت سے ثواب کمانے گئے لیکن اتنا دیر بیٹھے رہے کہ اس کی وجہ سے وہ تکلیف میں پڑ گیا۔ اسی لئے رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ عیادت میں ایسا طریقہ مت اختیار کرو کہ بیمار کو گرانی ہو، بلکہ ہلکی پھلکی عیادت کرو، مریض کے پاس جاؤ، مسنون طریقے سے اس کا حال چال پوچھو، اور تھوڑی دیر میں رخصت ہو جاؤ۔ کسی کی عیادت کے لئے اس کے پاس جا کر گھنٹوں بیٹھنا جس سے بیمار کو تکلیف ہو جائے، یہ طریقہ سنّت کے خلاف ہے اور اس سے بجائے ثواب کے گناہ ہونے کا اندیشہ ہے۔

ہاں البتّہ کسی کی مریض سے بہت زیادہ بے تکلّفی اور دوستی ہو اور اسے اچھی طرح پتہ ہو کہ میرے دیر تک بیٹھنے سے مریض کا دل خوش ہو گا، اس کے دیر تک بیٹھنے میں کوئ حرج نہیں۔

ماخوذ از بیان "بیمار کی عیادت کے آداب"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Thursday 27 April 2017

سورہ البقرہ: ۳۷

چوتھا حصّہ

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ توبہ قبول کرنے اور گناہوں کو معاف کرنے کا اختیار سوائے الّٰلہ تعالیٰ کے کسی اور کے پاس نہیں۔ بعض مذاہب میں لوگ اس بات سے غفلت کی وجہ سے سخت گمراہی میں مبتلا ہو گئے کہ اپنے مذہبی پیشواؤں کے پاس جاتے اور ان کو کچھ مال دے کر یا کسی اور طرح ان کو راضی کر کے ان سے اپنے گناہ معاف کرا لیتے، اور سمجھتے کہ انہوں نے معاف کر دیا تو الّٰلہ تعالیٰ نے بھی معاف کر دیا۔ آج بہت سے مسلمان بھی اسی غلط فہمی اور گمراہی میں مبتلا ہیں کہ پیروں فقیروں کے پاس جا کے یا کسی بزرگ کے مزار پہ جا کے سمجھتے ہیں کہ ان سے گناہ معاف کروا لیں گے تو الّٰلہ تعالیٰ بھی معاف کر دیں گے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کوئ پیر فقیر یا مرشد کسی کے گناہ معاف نہیں کر سکتا، زیادہ سے زیادہ الّٰلہ تعالیٰ سے اس کے لئے دعا کر سکتا ہے۔ وہ تو خود اپنے گناہوں کی معافی کے لئے بھی الّٰلہ تعالیٰ کے رحم و کرم اور عفو و درگزر کا محتاج ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ
جس سے ناراضگی ہو اس کی عیادت کا ثواب

اگر کوئ ایسا شخص بیمار ہے جس کے لئے ہمارے دل میں ناراضگی ہےاور دل اس سے ناخوش ہے، طبیعت کو اس سے مناسبت نہیں ہے، اگر انسان ایسے شخص کی عیادت کے لئے جائے تو انشاٴ الّٰلہ دوہرا ثواب ملے گا۔ ایک تو بیمار کی عیادت کرنے کاثواب۔ دوسرے ایک ایسا شخص جس کی طرف دل میں ناراضگی تھی، اس ناراضگی کے ہوتے ہوئے انسان اس کے ساتھ ہمدردی کا معاملہ کرے گا تو اس پر علیحدہ ثواب ملے گا۔

مریض کی عیادت کوئ معمولی عمل نہیں ہے۔ یہ ایک بڑی عبادت ہے۔ اس عمل کو رسم اور بدلے کا ذریعہ بنا کر ضائع نہیں کرنا چاہئے کہ فلاں نے میری بیماری میں میری عیادت کی تھی اس لئے میں بدلے میں اس کی عیادت کروں گا، فلاں مجھے دیکھنے کے لئے نہیں آیا تھا اس لئے میں بھی اس کو دیکھنے کے لئے نہیں جاؤں گا۔ انسان صرف اس نیّت سے عیادت کرے کہ یہ ایک عظیم الشان عبادت ہے، یہ حضورِ اقدس ﷺ کا حکم ہے، آپ کی سنّت ہے، اور اس پر الّٰلہ تعالیٰ اجر عطا فرماتے ہیں۔

ماخوذ از بیان "بیمار کی عیادت کے آداب"، از مفتی محمد تقی عثمانی دام برکاتہم

Wednesday 26 April 2017

سورہ البقرہ: ۳۷

تیسرا حصّہ

بعض سلف (پچھلے زمانے کے بزرگ) سے پوچھا گیا کہ جس شخص سے گناہ سرزد ہو جائے وہ کیا کرے؟ فرمایا، وہی کام کرے جو اس کے پہلے والدین آدم و حوّا علیہما السّلام نے کیا، کہ اپنے کئے پر ندامت محسوس کی، اور آئندہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ الّٰلہ تعالیٰ سے معافی کے لئے عرض کیا: رَبَّنَا ظَلَمۡنَآ أَنفُسَنَا وَإِن لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلۡخَـٰسِرِينَ ( ہمارے پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کر لیا ہے، اگر آپ معاف نہ کریں اور ہم پر رحم نہ کریں تو ہم سخت خسارے والوں میں داخل ہو جائیں گے) (۷: ۲۳)


اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: قَالَ رَبِّ إِنِّى ظَلَمۡتُ نَفۡسِى فَٱغۡفِرۡ لِى فَغَفَرَ لَهُ (۲۸: ۱۶) "اے میرے پالنے والے میں نے اپنی جان پر ظلم کر لیا ہے، تو آپ ہی میری مغفرت فرمائیے۔"

اور حضرت یونس علیہ السلام سے جب لغزش ہو گئ تو عرض کیا:  لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّآ أَنتَ سُبۡحَـٰنَكَ إِنِّى ڪُنتُ مِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ (۲۱ :۸۷) "الّٰلہ کے سوا کوئ عبادت کے لائق نہیں، آپ ہر برائ سے پاک ہیں، میں ظلم کرنے والوں میں داخل ہو گیا ہوں۔" (مطلب یہ کہ مجھ پر رحم فرمائیے) (قرطبی)

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ
سورہ البقرہ: ۳۷

دوسرا حصّہ

تَابَ، توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے کے ہیں۔ جب توبہ کی نسبت بندہ کی طرف کی جاتی ہے تو اس کے معنی تین چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے؛

۱۔ اپنے کئے ہوئے گناہ کو گناہ سمجھنا
۲۔ اس گناہ کو بالکل چھوڑ دینا
۳۔ آئندہ کے لئے اس گناہ کو دوبارہ کبھی نہ کرنے کا پختہ عزم و ارادہ کرنا

اگر ان تینوں چیزوں میں سے ایک چیز کی بھی کمی ہو تو ایسی توبہ خالص توبہ نہیں ہوتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب تک یہ تینوں چیزیں جمع نہ ہوں یعنی ماضی میں اس عمل کے کرنے پر ندامت، حال میں اس کو فوراً ترک کر دینا، اور مستقبل میں اسے آئندہ کبھی نہ کرنے کا پختہ عزم، اس وقت تک محض زبان سے توبہ کے الفاظ بول دینا کافی نہیں ہوتا۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

Tuesday 25 April 2017

بیمار کی عیادت کی فضیلت

ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائ کی عیادت کرتا ہے، جتنی دیر وہ عیادت کرتا ہے وہ مسلسل جنّت کے باغ میں رہتا ہے۔" (صحیح مسلم، کتاب البروالصلة)

ایک دوسری حدیث میں حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"جب کوئ مسلمان اپنے مسلمان بھائ کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو صبح سے لے کر شام تک  ستّر ہزار فرشتے اس کے حق میں مغفرت کی دعا کرتے رہے ہیں، اور اگر شام کے وقت عیادت کرتا ہے تو شام سے لے کر صبح تک ستّر ہزار فرشتے اس کے حق میں مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور الّٰلہ تعالیٰ جنّت میں اس کے لئے ایک باغ متعیّن فرما دیتے ہیں۔" (ترمذی، کتاب الجنائر)

ماخوذ از بیان "بیمار کی عیادت کے آداب" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
سورہ البقرہ: ۳۷

فَتَلَقَّىٰٓ ءَادَمُ مِن رَّبِّهِۦ كَلِمَـٰتٍ۬ فَتَابَ عَلَيۡهِ‌ۚ إِنَّهُ ۥ هُوَ ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ

"پھر آدم نے اپنے پروردگار سے (توبہ کے) کچھ الفاظ سیکھ لئے (جن کے ذریعے انہوں نے توبہ کی) چنانچہ الّٰلہ نے ان کی توبہ قبول کر لی۔ بیشک وہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔"

پہلا حصّہ

وہ کلمات جو حضرت آدم علیہ السلام کو بغرضِ توبہ بتلائے گئے وہ کیا تھے، اس میں کئ روایات منقول ہیں۔ مشہور قول حضرت ابن عبّاس رضی الّٰلہ عنہ کا ہے کہ وہ کلمات وہی ہیں جو جو قرآن مجید میں دوسری جگہ منقول ہیں۔

رَبَّنَا ظَلَمۡنَآ أَنفُسَنَا وَإِن لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلۡخَـٰسِرِينَ (۷:۲۳)

"اے ہمارے پروردگار! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گذرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا، اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم نامراد لوگوں میں شامل ہو جائیں گے۔"

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

Monday 24 April 2017

صلہ رحمی کیا ہے؟

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو مکافات کرے اور بدلہ دے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا درحقیقت وہ شخص ہے جو دوسرے شخص کے قطع رحمی کرنے کے باوجود اس کے ساتھ صلح رحمی کرے۔ (صحیح بخاری، کتاب الادب)

یعنی صلہ رحمی کرنے والا وہ شخص نہیں ہے جو ہر وقت ناپ تول میں لگا رہے اور حساب رکھے کہ دوسرے نے میرے ساتھ کس موقع پہ کیسا سلوک کیا تھا، میں بھی ا سکے ساتھ ایسا ہی سلوک کروں گا۔ اصل صلہ رحمی تو یہ ہے کہ مثلاً دوسرا شخص تو اس کے لئے کبھی تحفہ نہیں لایا، لیکن انسان اس کو اس نیّت سے تحفہ دے کہ ہدیہ دینا تو رسول الّٰلہ ﷺ کی سنّت ہے، میں اس کو اس لئے تحفہ دے رہا ہوں کہ اس سے الّٰلہ تعالیٰ راضی ہوں گے۔ اب دوسرا شخص ہدیہ دے یا نہ دے میں تو اس کو صرف الّٰلہ تعالیٰ کو خوش کرنے کی نیّت سے تحفہ دوں گا۔

صلہ رحمی تو ایک عبادت ہے۔ جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو ہم یہ تو نہیں سوچتے کہ اگر میرا دوست نماز پڑھے گا تو میں پڑھوں گا، اگر وہ نماز نہیں پڑھے گا تو میں بھی نہیں پڑھوں گا۔ اس کی نماز اس کے ذمّے، ہماری نماز ہمارے ذمّے۔ بالکل اسی طرح سے صلہ رحمی بھی ایک عبادت ہے۔ چاہے دوسرا شخص یہ عبادت انجام دے یا نہ دے، ہمیں تو یہ عبادت انجام دینا ہی ہے اور اور الّٰلہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرنا ہی ہے۔

ماخوذاز بیان "بیمار کی عیادت کے آداب"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Sunday 23 April 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷

تیسرا حصّہ

 "يَنقُضُونَ عَهۡدَ ٱللَّہ" سے یہ معلوم ہوا کہ جن تعلّقات کو قائم رکھنے کا شریعتِ اسلام نے حکم دیا ہے ان کا قائم رکھنا ضروری اور قطع (ختم) کرنا حرام ے۔ غور کیا جائے تو دین و مذہب نام ہی ان حدود و قیود کا ہے جو حقوق الّٰلہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے مقرر کی گئ ہیں، اور اس عالم کا صلاح و فساد انہیں تعلّقات کو درست رکھنے یا توڑنے پر موقوف ہے۔ 

اس میں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بہت سے مسلمان جو ظاہری اعمال اور عبادات کی بہت پابندی کرتے ہیں، وہ بھی حقوق العباد کے پورے نہ کرنے اور ان کے ضائع ہونے کی کوئ فکر نہیں کرتے اور اسے کوئ اہمیت نہیں دیتے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ چونکہ حقوق الّٰلہ کی نسبت الّٰلہ تعالیٰ کی طرف اور حقوق العباد کی نسبت بندوں کی طرف ہوتی ہے، اس لئے وہ الّٰلہ کے حقوق کو عظیم اور بندوں کے حقوق کو معمولی سمجھتے ہوں۔ حالانکہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ حقوق العباد بھی دراصل حقوق الّٰلہ ہی ہیں کیونکہ وہ بھی الّٰلہ تعالیٰ ہی کے متعّین کئے ہوئے ہیں اور الّٰلہ تعالیٰ ہی نے طے فرما دیا ہے کہ فلاں رشتے کا یہ حق ہے اور فلاں رشتے کا یہ حق ہے۔ اس لئے ان کی تو اور زیادہ فکر کرنا چاہئے کیونکہ وہ حق الّٰلہ بھی ہیں اور حق العبد بھی۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ
سورہٴ البقرہ: ۲۷

دوسرا حصّہ

اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ان نافرمان لوگوں نے ان تمام تعلّقات کو قطع کر ڈالا ہے جن کو جوڑے رکھنے کا الّٰلہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔ ان تعلّقات میں وہ تعلّق بھی داخل ہے جو بندے اور الّٰلہ کے درمیان ہے، اور وہ تعلّق بھی جو انسان کا اپنے ماں باپ اور دوسرے عزیزوں سے ہے، وہ تعلّق بھی جو ایک انسان کا اپنے پڑوسی اور دوسرے شرکاء کار کے ساتھ ہے، اور وہ تعلّق بھی جو عام مسلمانوں یا تمام انسانوں کے ساتھ ہے۔ ان تمام تعلّقات کے پورے حقوق ادا کرنے ہی کا نام اسلام، یا شریعتِ اسلام ہے، اور انہی میں کوتاہی کرنے سے زمین میں فساد آتا ہے۔ اسی لئے اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ "وَيُفۡسِدُونَ فِى ٱلۡأَرۡضِ‌ۚ" یعنی "یہ لوگ زمین میں فساد مچاتے ہیں"۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Friday 21 April 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷

ٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهۡدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعۡدِ مِيثَـٰقِهِۦ وَيَقۡطَعُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦۤ أَن يُوصَلَ وَيُفۡسِدُونَ فِى ٱلۡأَرۡضِ‌ۚ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلۡخَـٰسِرُونَ۔ 

"وہ جو الّٰلہ سے کئے ہوئے عہد کو پختہ کرنے کے بعد بھی توڑ دیتے ہیں، اور جن رشتوں کو الّٰلہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹ ڈالتے ہیں، اور زمین میں فساد مچاتے ہیں، ایسے ہی لوگ بڑا نقصان اٹھانے والے ہیں۔"

پہلا حصّہ

اس آیت میں پچھلی آیت کے مضمون کی مزید تشریح ہےکہ قرآن کی ان مثالوں سے جن پر مشرکین نے اعتراض کیا ہے صرف وہی لوگ گمراہ ہوتے ہیں جو حق تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری سے سرکشی کرتے ہیں، جس کی دو وجوہات ہیں۔

اوّل یہ کہ ایسا کرنے والے اس ازلی معاہدے کو توڑ ڈالتے ہیں جو تمام انسانوں نے اپنے رب سے باندھا تھا، جبکہ تمام انسانوں کی اس عالم میں پیدائش سے پہلے حق تعالیٰ نے تمام پیدا ہونے والے انسانوں کی ارواح کو جمع کر کے ایک سوال فرمایا تھا کہ "الست بربّکم" یعنی "کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟" اس پر سب نے یک زبان ہو کر کہا تھا "بلیٰ" یعنی آپ ہمارے رب کیوں نہ ہوتے۔ اس عہد میں بڑی تاکید کے ساتھ اس کا اقرار ہے کہ الّٰلہ جل شانہ ہمارے رب اور پروردگار ہیں۔ اور اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کی اطاعت سے سرِ مو تجاوز نہ کریں۔ اب جس انسان نے اس معاہدے کو ہی توڑ ڈالا، اس سے کیا توقّع کی جا سکتی ہے کہ وہ کسی پیغمبر یا آسمانی کتاب سے فائدہ اٹھائے؟

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ 

Tuesday 18 April 2017

سورہ البقرہ: ۲۶

دوسرا حصّہ

"وَمَا يُضِلُّ بِهِۦۤ إِلَّا ٱلۡفَـٰسِقِينَ" یعنی "وہ گمراہ انہی کو کرتا ہے جو نافرمان ہیں"

فسق کے لفظی معنی باہر نکل جانے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں الّٰلہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے کو فسق کہتے ہیں۔ اطاعتِ الٰہیہ سے نکل جانا کفرو انکار کے ذریعے بھی ہوتا ہے، اور عملی نافرمانی کے ذریعے بھی۔ قرآن کریم میں بیشتر لفظ فاسقین کافروں کے لئے ہی استعمال ہوا ہے، اور مومن گناہگار کو بھی فاسق کہا جاتا ہے۔ فقہاء کی اصطلاح میں عموماً لفظ فاسق اسی دوسرے معنی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ جو شخص کسی گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرے اور پھر اس سے توبہ نہ کرے، یا صغیرہ گناہ پر اصرار کرے اور اس کی عادت بنا لے، وہ فقہاء کی اصطلاح میں فاسق کہلاتا ہے۔ (مظہری) اور جو شخص یہ فسق کے کام اور گناہ علانیہ جراٴت کے ساتھ کرتا پھرے اس کو فاجر کہا جاتا ہے۔ 

معنی اس آیت کے یہ ہوئے کہ قرآن کی ان مثالوں سے بہت سے لوگوں کو ہدایت ہوتی ہے، اور بہت سے لوگوں کے حصّے میں گمراہی آتی ہے، مگر گمراہی صرف انہی لوگوں کاحصّہ ہوتا ہے جو فاسق یعنی اطاعتِ خداوندی سے نکل جانے والے ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Monday 17 April 2017

اعمال کا دارومدار نیّت پر ہے

بہت سے اعمال ایسے ہیں کہ اگر وہ صحیح نیّت سے کئے جائیں تو بہت بڑی عبادت ہیں، لیکن اگر نیّت خراب ہو جائے تو ان کا سارا ثواب برباد ہو جاتا ہے۔ مثلاً عزیزوں، رشتہ داروں اور دوست احباب سے میل ملاقات کرنا، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا، ان کو ہدیہ اور تحفہ دینا، اگر ان کاموں کو اس نیّت سے کیا جائے کہ یہ دین کا حصّہ ہیں اور الّٰلہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں تو یہ سب بڑے اجرو ثواب کے کام ہیں۔ لیکن اگر انسان کی نیّت بدلے کی ہو جائے اور وہ اس طرح سے سوچنے لگے کہ جو شخص میرے ساتھ جیسا سلوک کرے گا میں اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کروں گا، مثلاً فلاں شخص نے مجھے کبھی کوئ ہدیہ نہیں دیا تو میں اسے ہدیہ کیوں دوں، جب میں بیمار تھا تو فلاں مجھے پوچھنے نہیں آیا تھا تو میں اس کی بیماری پہ اس کی عیادت کرنے کے لئے کیوں جاؤں، تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے اعمال جن کی رسول الّٰلہ ﷺ نے بڑی فضیلت بیان فرمائ تھی، ان کا اجر و ثواب خاک میں مل جاتا ہے۔ 

ماخوذ از بیان "بیمار کی عیادت کے آداب"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
سورہ البقرہ: ۲۶

پہلا حصّہ

إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَسۡتَحۡىِۦۤ أَن يَضۡرِبَ مَثَلاً۬ مَّا بَعُوضَةً۬ فَمَا فَوۡقَهَا‌ۚ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَيَعۡلَمُونَ أَنَّهُ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّهِمۡ‌ۖ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ ڪَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَـٰذَا مَثَلاً۬‌ۘ يُضِلُّ بِهِۦ ڪَثِيرً۬ا وَيَهۡدِى بِهِۦ كَثِيرً۬ا‌ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِۦۤ إِلَّا ٱلۡفَـٰسِقِينَ۔ 

"بیشک الّٰلہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ (کسی بات کو واضح کرنے کے لئے) کوئ بھی مثال دے، چاہے وہ مچھر (جیسی معمولی چیز) کی ہو، یا کسی ایسی چیز کی جو مچھر سے بھی زیادہ (معمولی) ہو، اب جو لوگ مومن ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ایک حق بات ہے جو ان کے پروردگار کے طرف سے آئ ہے۔ البّہ جو لوگ کافر ہیں، وہ یہی کہتے ہیں کہ بھلا اس (حقیر) مثال سے الّٰلہ کا کیا مطلب ہے؟ (اس طرح) الّٰلہ اس مثال سے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے، اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے۔ (مگر) وہ گمراہ انہی کو کرتا ہے جو نافرمان ہیں۔" (سورہ البقرہ: ۲۶)

اس آیت میں منکرینِ قرآن کا ایک شبہ ذکر کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے۔ شبہ یہ تھا کہ قرآن کریم میں مکھی اور مچھر جیسے حقیر جانوروں کا ذکر آیا ہے۔ یہ الّٰلہ کی اور اس کے کلام کی عظمت کے خلاف ہے۔ اگر یہ الّٰلہ تعالیٰ کا کلام ہوتا تو اس میں ایسی حقیر چیزوں کا ذکر نہ ہوتا۔

اس آیت میں جواب دیا گیا کہ جب کسی حقیر وذلیل چیز کی مثال دینی ہو تو کسی ایسی ہی حقیر چیز سے مثال دینا مقتضائے عقل و بلاغت ہے۔ اور یہ بھی بتلا دیا گیا کہ ایسے احمقانہ اعتراضات ان ہی لوگوں کو ہوتے ہیں جن کے قلوب اور دماغ سے ان کے کفر کی وجہ سے سمجھنے بوجھنے کی صلاحیت مفقود ہو گئ، ایمان والوں کو کبھی ایسے شبہات نہیں ہوتے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Sunday 16 April 2017

سات احکام

حضرت براء ابن عازب رضی الّٰلہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا، نمبر ایک: مریض کی عیادت کرنا، دوسرے: جنازوں کے پیچھے چلنا، تیسرے: چھینکنے والے کے "الحمدالّٰلہ" کہنے کے جواب میں "یر حمک الّٰلہ" کہنا، چوتھے: کمزور آدمی کی مدد کرنا، پانچویں: مظلوم کی امداد کرنا، چھٹے: سلام کو رواج دینا، ساتویں: قسم کھانے والے کی قسم کو پورا کرنے میں تعاون کرنا۔ (صحیح بخاری، کتاب الستئذان)

ماخوذ از بیان "بیمار کی عیادت کے آداب"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
گیارھواں حصّہ ۔  (آیت الکرسی)

نواں جملہ ہے "وَلَا يَـُٔودُهُ ۥ حِفۡظُهُمَا‌"، یعنی "الّٰلہ تعالیٰ کو ان دونوں عظیم مخلوقات آسمان و زمین کی حفاظت کچھ گراں نہیں معلوم ہوتی"، کیونکہ اس قادرِ مطلق کی قدرتِ کاملہ کے سامنے یہ سب چیزیں نہایت آسان ہیں۔

دسواں اور آخری جملہ ہے وَهُوَ ٱلۡعَلِىُّ ٱلۡعَظِيمُ یعنی "وہ عالی شان اور عظیم الشان ہے۔ 

ان دس جملوں میں الّٰلہ جلّ شانہ‘ کی صفاتِ کمال اور اس کی توحید کا مضمون پوری وضاحت اور تفصیل کے ساتھ آ گیا۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Saturday 15 April 2017

دسواں حصّہ ۔  (آیت الکرسی)

آٹھواں جملہ ہے "وَسِعَ كُرۡسِيُّهُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضَ‌ۖ" یعنی "اس کی کرسی اتنی بڑی ہے جس کی وسعت کے اندر ساتوں آسمان اور زمین سمائے ہوئے ہیں"۔ 

الّٰلہ جلّ شانہ نشست و برخاست اور قیام و مکان سے بالاتر ہیں۔ اس قسم کی آیات کو اپنے معاملات پہ قیاس نہ کیا جائے۔ اس کی کیفیت و حقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاتر ہے۔ البتّہ مستند روایاتِ حدیث سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ عرش اور کرسی بہت عظیم الشان جسم ہیں جو تمام آسمان اور زمین سے بدرجہا بڑے ہیں۔

ابنِ کثیر ؒ نے بروایتِ حضرت ابو ذر غفّاری رضی الّٰلہ عنہ نقل کیا ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ کرسی کیا اور کیسی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، "قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ ساتوں آسمانوں اور زمینوں کی مثال کرسی کے مقابلے میں ایسی ہے کہ جیسے ایک بڑے میدان میں کوئ حلقہ انگشتری جیسا ڈال دیا جائے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ
قرضدار کو سہولت دینے کی اہمیت

حضرت عائشہ رضی الّٰلہ عنھا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور اقدس ﷺ گھر میں تشریف فرما تھے۔ اتنے میں باہر سے دو آدمیوں کے جھگڑنے کی آواز سنی۔ جھگڑا اس بات کا تھا کہ ان میں سے ایک آدمی نے دوسرے سے قرضہ لیا تھا۔ قرض خواہ قرضدار سے مطالبہ کر رہا تھا کہ میرا قرضہ واپس کرو۔ مقروض یہ کہہ رہا تھا کہ اس وقت میرے پاس سارا قرضہ واپس کرنے کی حیثیت نہیں ہے، تم کچھ قرضہ لیلو، کچھ چھوڑ دو۔ اس جھگڑنے کے اندر دونوں کی آوازیں بھی بلند ہو رہی تھیں۔ جھگڑنے کے دوران اس قرض خواہ نے یہ قسم کھا لی کہ خدا کی قسم میں قرضہ کم نہیں کروں گا۔

اس دوران حضور اقدس ﷺ گھر سے باہر تشریف لے آئے اور آ کر آپ نے پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے جو الّٰلہ کی قسم کھا کر یہ کہہ رہا ہے کہ میں نیک کام نہیں کروں گا؟ اسی وقت وہ قرض خواہ آگے بڑھا اور کہاں کہ میں ہوں یا رسول الّٰلہ۔ اور پھر فوراً دوسرا جملہ یہ کہا کہ یہ شخص جتنا چاہے اس قرض میں سے کم دیدے، میں چھوڑنے کے لئے تیّار ہوں۔

صحابہٴ کرام رضی الّٰلہ عنہما کی اطاعت کی یہ حالت تھی کہ کہاں تو قرض چھوڑنے کو تیّار نہیں تھے، اور کہاں جیسے ہی رسول الّٰلہ ﷺ کی زبان ِ مبارک سے یہ سن لیا کہ یہ نیکی کا کام ہے تو فوراً اس کو چھوڑ دیا۔

ماخوذ از بیان "بھائ بھائ بن جاؤ"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Thursday 13 April 2017

نواں حصّہ ۔  (آیت الکرسی)

ساتواں جملہ ہے "وَلَا يُحِيطُونَ بِشَىۡءٍ۬ مِّنۡ عِلۡمِهِۦۤ إِلَّا بِمَا شَآءَ‌" ہے، یعنی "انسان اور تمام مخلوقات الّٰلہ کے علم کے کسی حصّے کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے، مگر الّٰلہ تعالیٰ ہی خود جس کو جتنا حصّہٴ علم عطا کرنا چاہیں صرف اتنا ہی اس کو علم ہو سکتا ہے۔" اس میں یہ بتا دیا گیا کہ تمام کائنات کے ذرّے ذرّے کا علم ِ محیط صرف الّٰلہ تعالیٰ ہی کی خصوصی صفت ہے، انسان یا کوئ مخلوق اس میں شریک نہیں ہو سکتی۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ
لوگوں کے درمیان صلح کروانا

"لیس الکذاب الذی یصلح بین الناس فینمی خیرًا او یقول خیراً" (صحیح بخاری، کتاب الصلح)

حضرت امّ ِکلثوم رضی الّٰلہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے حضورِ اقدس ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص لوگوں کے درمیان مصالحت کی خاطر کوئ اچھی بات ادھر سے ادھر پہنچا دیتا ہے، یا ایک کی بات دوسرے کو اس انداز سے نقل کرتا ہے کہ اس کے دل میں دوسرے کی قدر پیدا ہو، اور نفرت دور ہو جائے، ایسا شخص کذّاب (جھوٹا) نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ شخص ایسی بات کہہ رہا ہے جو بظاہر سچ نہیں ہے، لیکن وہ بات اس لیے کہہ رہا ہے کہ ایک انسان کے دل سے دوسرے انسان کی برائ نکل جائے، آپس کے دل کا غبار دور ہو جائے، اور نفرتیں ختم ہو جائیں۔ اس مقصد سے اگر وہ ایسی بات کہہ رہا ہے تو ایسا شخص جھوٹوں میں شمار نہیں ہو گا۔

ماخوذ از بیان "بھائ بھائ بن جاؤ"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Wednesday 12 April 2017

آٹھواں حصّہ ۔  (آیت الکرسی)

چھٹا جملہ ہے يَعۡلَمُ مَا بَيۡنَ أَيۡدِيهِمۡ وَمَا خَلۡفَهُمۡ‌ۖ یعنی "الّٰلہ تعالیٰ ان لوگوں کے آگے پیچھے کے تمام حالات و واقعات سے واقف و باخبر ہے"۔ آگے اور پیچھے کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے پیدا ہونے سے پہلے اور پیدا ہونے کے بعد کے تمام حالات و واقعات حق تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ اور یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ آگے سے مراد وہ حالات ہیں جو انسان کے لئے کھلے ہوئے ہیں، اور پیچھے سے مراد اس سے مخفی واقعات و حالات ہوں گے، تو معنی یہ ہوں گے کہ انسان کا علم تو بعض چیزوں پر ہے اور بعض چیزوں پر نہیں، مگر الّٰلہ جل شانہ‘ کے سامنے یہ سب چیزیں برابر ہیں۔ اس کا علم ان سب چیزوں کو یکساں محیط ہے۔ ان دونوں مفہوموں میں کوئ تعارض نہیں، آیت کی وسعت میں یہ دونوں داخل ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ
صلح کرانا صدقہ ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی الّٰلہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انسان کے جسم میں جتنے جوڑ ہیں، ہر جوڑ کی طرف سے انسان کے ذمّے روزانہ ایک صدقہ کرنا واجب ہے۔ لیکن الّٰلہ تعالیٰ نے اس صدقے کو اتنا آسان فرمایا کہ انسان کے چھوٹے چھوٹے عمل کو صدقہ کے اندر شمار فرما دیا ہے۔ چنانچہ رسول الّٰلہ ﷺ فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں کے درمیان جھگڑا اور رنجش تھی، تم نے ان دونوں کے درمیان مصالحت کرا دی، یہ مصالحت کرانا ایک صدقہ ہے۔ ایک شخص اپنے گھوڑے یا سواری پر سوار ہونا چاہ رہا تھا، لیکن کسی وجہ سے اس سے سوار نہیں ہوا جا رہا تھا۔ تم نے سوار ہونے میں اسکی مدد کر دی اور اسکو سہارا دے دیا۔ یہ سہارا دینا اور سوار کرا دینا ایک صدقہ ہے۔ ایک شخص اپنی سواری پر سامان لادنا چاہ رہا تھا، لیکن اس بیچارے سے لادا نہیں جا رہا تھا۔ اب تم نے اس کی مدد کرتے ہوئے وہ سامان لدوا دیا، یہ بھی ایک صدقہ ہے۔ اسی طرح کسی شخص سے کوئ اچھا کلمہ کہہ دیا، مثلاً کوئ غمزدہ آدمی تھا، تم نے اس کو کوئ تسلّی کا کلمہ کہہ دیا۔، یا کسی سے ایسی بات کہہ دی جس سے اس کا دل خوش ہو گیا، یہ بھی ایک صدقہ ہے۔ اسی طرح جب نماز کے لئے تم مسجد کی طرف جا رہے ہو، تو ہر وہ قدم جو مسجد کی طرف اٹھ رہا ہے وہ ایک صدقہ شمار ہو رہا ہے۔ اسی طرح راستے میں کوئ تکلیف دہ چیز پڑی ہے جس سے لوگوں کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ آپ نے اسکو راستے سے ہٹا دیا۔ یہ بھی ایک صدقہ ہے۔ (مسند احمد)

ماخوذ از بیان "بھائ بھائ بن جاؤ"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Tuesday 11 April 2017

ساتواں حصّہ ۔  (آیت الکرسی)

چوتھا جملہ ہے  "لَهُ  مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلۡأَرۡضِ‌"۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تمام چیزیں جو آسمانوں یا زمین میں ہیں سب الّٰلہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں، وہ مختار ہے، جس طرح چاہے ان میں تصرّف فرمائے۔

پانچواں جملہ ہے "مَن ذَا ٱلَّذِى يَشۡفَعُ عِندَهُ ۥۤ إِلَّا بِإِذۡنِهِ"۔ یعنی "ایسا کون ہے جو اس کے آگے کسی کی سفارش کر سکے بدون اس کی اجازت کے"۔  

اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب الّٰلہ تعالیٰ تمام کائنات کا مالک ہے، کوئ اس سے بڑا اور اس کے اوپر حاکم نہیں، تو کوئ اس سے کسی کام کے بارے میں باز پرس کرنے کا بھی حقدار نہیں۔ وہ جو حکم جاری فرمائیں اس میں کسی کو چون وچراں کی مجال نہیں۔ ہاں یہ ہو سکتا تھا کہ کوئ شخص کسی کی سفارش و شفاعت کرے۔ سو اس کو بھی واضح فرما دیا کہ بارگاہِ عزّت و جلال میں کسی کو بغیر اجازت بولنے کا بھی اذن نہیں۔ ہاں کچھ خاص بندے ہیں جن کو خاص طور پر کلام اور شفاعت کی اجازت دے دی جائے گی، غرض بلا اجازت کوئ کسی کی سفارش و شفاعت بھی نہ کر سکے گا۔ حدیث میں ہے کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ محشر میں سب سے پہلے میں ساری امّتوں کی سفارش کروں گا۔ اسی کا نام مقامِ محمود ہے جو حضور ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Monday 10 April 2017

بدلے کی امید مت رکھو

اسی طرح حضرت تھانوی رحمتہ الّٰلہ علیہ نے دوسرا اصول یہ بیان فرمایا کہ جب تم کسی کے ساتھ کوئ نیکی کرو، یا اچھا سلوک کرو، تو صرف الّٰلہ کو راضی کرنے کے لئے کرو۔ مثلاً کسی کی مدد کرو، یا کسی کی سفارش کرو، یا کسی کی عزّت کرو، تو یہ سوچ کر کرو کہ میں یہ کام صرف الّٰلہ کو راضی کرنے کے لئے کر رہا ہوں، اور اپنی آخرت سنوارنے کے لئے کر رہا ہوں۔

ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس رواج یہ ہو گیا ہے کہ ہم جب کسی کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرتے ہیں، یا احسان کرتے ہیں، تو اب بیٹھ کر اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ یہ ہمارے احسان کا بدلہ کب دے گا۔ اور بالفرض کوئ ایسا موقع آیا کہ اس سے امید ہوئ کہ اب یہ جواباً ہماری مدد کرے گا، اور اس نے نہیں کی، تو اب شکایتوں کا انبار شروع ہو جاتا ہے کہ جب اس کا وقت تھا تو ہم نے تو اس کے ساتھ ایسا ایسا کیا تھا، لیکن اب جب ہماری مدد کرنے کا وقت آیا تو اس نے احسان فراموشی کا معاملہ کیا اور ہمارے احسان کا بدلہ نہیں دیا۔ پھر پہلے دل میں شکایت ہوتی ہے، پھر زبانی شکوہ کلامی ہوتی ہے، اور کبھی کبھی لڑائ جھگڑے اور تعلّقات کے ختم ہونے کی نوبت آ جاتی ہے۔ 

اسی لئے حضرت تھانوی ؒ فرما رہے ہیں کہ بندے سے امید ہی مت رکھو۔ بدلے کی امید صرف الّٰلہ تعالیٰ سے رکھو۔ جب کسی کے ساتھ اچھا سلوک صرف الّٰلہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیّت سے کرو گے تو کسی کے برے سلوک سے آئندہ کبھی شکایت نہیں ہو گی۔

ماخوذ از بیان "بھائ بھائ بن جاؤ"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
چھٹا حصّہ ۔  (آیت الکرسی)

تیسرا جملہ ہے "سِنَةٌ۬ وَلَا نَوۡمٌ۬‌ۚ"۔ لفظ سِنَةٌ۬ اونگھ کو کہتے ہیں جو نیند کے ابتدائ آثار ہوتے ہیں، اور نَوۡمٌ۬‌ۚ مکمل نیند کو۔ پچھلے جملے میں لفظ 'قیّوم' نے جب انسان کو یہ بتلایا کہ الّٰلہ تعالیٰ سارے آسمانوں، زمینوں، اور ان میں سمانے والی تمام کائنات کو تھامے اور سنبھالے ہوئے ہیں تو ایک انسان کا خیال اپنی جبلّت و فطرت کے مطابق اس طرف جانا ممکن ہے کہ جو ذاتِ پاک اتنا بڑا کام کر رہی ہے اس کو کسی وقت تھکان بھی ہونا چاہئے، کچھ وقت آرام اور نیند کے لئے بھی ہونا چاہیے۔ اس جملے میں محدود علم و بصیرت اور محدود قدرت رکھنے والے انسان کو اس پر متنبّہ کر دیا کہ الّٰلہ جل شانہ کو اپنے یا دوسری مخلوقات پر قیاس نہ کرے، اپنے جیسا نہ سمجھے۔ وہ مثل و مثال سے بالاتر ہے۔ اس کی قدرتِ کاملہ کے سامنے یہ سارے کام نہ کچھ مشکل ہیں، نہ اس کے لئے تکان کا سبب ہیں، اور اس کی ذاتِ پاک تمام تاثرات اور تھکان، نیند اور اونگھ سے بالاتر ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Sunday 9 April 2017

کسی سے امید مت باندھو ۔ دوسرا حصّہ

اسی لئے حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں کہ جھگڑے کی جڑ اس طرح کاٹو کہ کسی انسان سے کوئ توقع ہی مت رکھو۔ انسان مخلوق سے توقع ہی کیوں رکھے کہ فلاں یہ دیدے گا، فلاں میرا یہ کام بنا دے گا۔ ساری توقعات انسان صرف اسی سے رکھے جو سب کا خالق اور مالک ہے، اور جس کے اختیار میں سب کچھ ہے۔

دنیا والوں سے تو انسان یہی توقع رکھے کہ انسان انسان ہے، اس سے تو زیادہ تکلیف ہی پہنچتی ہے۔ اور پھر اگر تکلیف کی توقع رکھنے کے بعد کسی انسان سے اگر اچھائ پہنچ جائے تو انسان الّٰلہ کا شکر ادا کرے کہ یا الّٰلہ! آپ کا شکر ہے اور احسان ہے۔ اور اگر کسی انسان سے تکلیف پہنچے تو یہ سوچو کہ مجھے تو پہلے ہی تکلیف پہنچنے کی توقع تھی، اس میں نئ بات کیا ہوئ۔ اب اس کے نتیجے میں دل میں شکایت اور بغض نہیں پیدا ہوں گے، اور جھگڑا نہیں ہو گا۔

ماخوذ از بیان "بھائ بھائ بن جاؤ"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
پانچواں حصّہ ۔  (آیت الکرسی)

دوسرا جملہ ہے ٱلۡحَىُّ ٱلۡقَيُّومُ‌ۚ۔ لفظ حَىُّ کے معنی عربی زبان میں ہیں "زندہ"۔ اسمائے الٰہیہ (الّٰلہ تعالیٰ کے نام) میں سے یہ لفظ لا کر یہ بتلانا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والا ہے، وہ موت سے بالا تر ہے۔ 

لفظ قَيُّوم قیام سے نکلا ہے۔ قیام کے معنی ہیں کھڑے ہونا، قائم کھڑا ہونے والے کو کہتے ہیں۔ قیّوم اور قیّام مبالغے کے صیغے کہلاتے ہیں، انکے معنی ہیں وہ جو خود قائم رہ کر دوسروں کو قائم رکھتا اور سنبھالتا ہے۔ قیّوم حق تعالیٰ کی خاص صفت ہے جس میں کوئ مخلوق شریک نہیں ہو سکتی۔  جو چیزیں خود اپنے وجود و بقاء میں کسی دوسرے کی محتاج ہوں وہ کسی دوسری چیز کو کیا سنبھال سکتی ہیں؟ 

الّٰلہ تعالیٰ کے اسماءِ صفات میں حیّ و قیّوم کا مجموعہ بہت سے حضرات کے نزدیک اسمِ اعظم ہے۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی الّٰلہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہٴ بدر میں میں نے ایک وقت یہ چاہا کہ حضور ﷺ کو دیکھوں کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ پہنچا تو دیکھا کہ آپ سجدے میں پڑے ہوئے بار بار یا حّی یا قیّوم یا حّی یا قیّوم کہہ رہے ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ
چوتھا حصّہ ۔  (آیت الکرسی)

اس آیت میں دس جملے ہیں۔

پہلا جملہ ہے "ٱللَّهُ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ"۔ اس میں لفظ الّٰلہ اسمِ ذات ہے، جس کے معنی ہیں "وہ ذات جو تمام کمالات کی جامع اور تمام نقائص سے پاک ہے"۔ ٱللَّهُ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ میں اسی ذات کا بیان ہے کہ قابلِ عبادت اس ذات کے سوا کوئ چیز نہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Saturday 8 April 2017

کسی سے امید مت باندھو ۔ پہلا حصّہ

حضرت تھانوی ؒ کا ایک ارشاد ہے جس پر انسان عمل کر لے تو لوگوں کے آپس کے پچھتّر فیصد جھگڑے ختم ہو جائیں۔ حضرت تھانوی ؒ فرماتے تھے کہ:

"ایک کام یہ کر لو کہ دنیا والوں سے امید باندھنا چھوڑ دو۔ جب امید چھوڑ دو گے تو پھر انشاٴ الّٰلہ دل میں کبھی بغض اور جھگڑے کا خیال نہیں آئے گا۔"

دوسرے لوگوں سے جو شکایات ہوتی ہیں وہ عوماً اس طرح شروع ہوتی ہیں کہ لوگوں سے جو امیدیں باندھی ہوئ ہوتی ہیں، جب وہ پوری نہیں ہوتیں تو انسان کو شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً فلاں شخص کو میرے ساتھ جیسا سلوک کرنا چاہیے تھا ویسا نہیں کیا، جیسی میری عزّت کرنی چاہئے تھی ویسی میری عزّت نہیں کی، جیسی میری خاطر مدارات کرنی چاہئے تھی ویسی خاطر مدارات نہیں کی، یا میں نے اس کے ساتھ احسان کیا تھا، اس نے آج تک اس کا بدلہ نہیں دیا۔ یہ شکایتیں پیدا ہی اس لئے ہوتی ہیں کہ اپنے ذہن میں بٹھا رکھا ہے کہ لوگوں کو میرے ساتھ ایسا ایسا کرنا چاہئے۔ جب وہ توقع پوری نہیں ہوتی تو شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از بیان "بھائ بھائ بن جاؤ"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
تیسرا حصّہ ۔  (آیت الکرسی)

حضرت ابو ہریرہ رضی الّٰلہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ سوہٴ بقرہ میں ایک آیت ہے جو سیدہٴ آیات القرآن ہے، وہ جس گھر میں پڑھی جائے شیطان اس سے نکل جاتا ہے۔

نسائ کی ایک روایت میں ہے کہ جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھا کرے تو اس کو جنّت میں داخل ہونے کے لئے سوائے موت کے اور کوئ مانع نہیں ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ
دوسرا حصّہ ۔  (آیت الکرسی)

مسند احمد کی روایت میں ہے کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے آیت الکرسی کو سب آیات سے افضل آیت فرمایا ہے۔ 

ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے ابی بن کعب رضی الّٰلہ عنہ سے دریافت کیا کہ قرآن میں کونسی آیت سب سے زیادہ عظیم ہے؟ حضرت ابی بن کعب رضی الّٰلہ عنہ نے عرض کیا کہ آیت الکرسی۔ آنحضرت ﷺ نے ان کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا کہ اے ابو المنذر تمہیں علم مبارک ہو۔ 

حضرت ابوذر رضی الّٰلہ عنہ نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا، "یا رسول الّٰلہ ﷺ! قرآن میں عظیم تر آیت کون سی ہے؟" فرمایا، "آیت الکرسی۔" (ابنِ کثیر عن احمد فی المسند)

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Friday 7 April 2017

جنّت میں گھر کی ضمانت

ایک حدیث میں رسول الّٰلہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"جو شخص حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے میں اس کو جنّت کے بیچوں بیچ گھر دلوانے کا ذمّہ لیتا ہوں۔" (ترمذی، باب ماجاء فی المراء)

یعنی جو شخص حق پر ہونے کے باوجود یہ سوچتا ہے کہ اگر میں حق کا زیادہ مطالبہ کروں گا تو جھگڑا بڑھ جائے گا اس لئے چلو اس حق کو چھوڑ دو تا کہ جھگڑا ختم ہو جائے، اس آدمی کے لئے رسول الّٰلہ ﷺ فرما رہے ہیں کہ میں اسکو جنّت کے بیچوں بیچ گھر دلوانے کا ذمّہ دار ہوں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرکارِ دو عالم ﷺ کو جھگڑا ختم کرانے کی کتنی فکر تھی کہ آپس کے جھگڑے ختم ہو جائیں۔ ہاں، اگر کسی کا دوسرے پہ ظلم بہت بڑھ جائے اور قابلِ برداشت نہ ہو، ایسی صورت میں یہ بھی اجازت ہے کہ مظلوم ظالم سے اپنا بچاؤ بھی کرے، اور اس سے بدلہ لینا بھی جائز ہے، لیکن حتّی الامکان یہ کوشش ہو کہ جھگڑا ختم ہو جائے۔

ماخوذ از بیان "بھائ بھائ بن جاؤ"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
پہلا حصّہ ۔  (آیت الکرسی)


ٱللَّهُ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلۡحَىُّ ٱلۡقَيُّومُ‌ۚ لَا تَأۡخُذُهُ ۥ سِنَةٌ۬ وَلَا نَوۡمٌ۬‌ۚ لَّهُ ۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلۡأَرۡضِ‌ۗ مَن ذَا ٱلَّذِى يَشۡفَعُ عِندَهُ ۥۤ إِلَّا بِإِذۡنِهِۦ‌ۚ يَعۡلَمُ مَا بَيۡنَ أَيۡدِيهِمۡ وَمَا خَلۡفَهُمۡ‌ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَىۡءٍ۬ مِّنۡ عِلۡمِهِۦۤ إِلَّا بِمَا شَآءَ‌ۚ وَسِعَ كُرۡسِيُّهُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضَ‌ۖ وَلَا يَـُٔودُهُ ۥ حِفۡظُهُمَا‌ۚ وَهُوَ ٱلۡعَلِىُّ ٱلۡعَظِيمُ۔ (سورہٴ البقرہ: ۲۵۵)

"الّٰلہ وہ ہے جس کے سوا کوئ معبود نہیں، جو سدا زندہ ہے، جو پوری کائنات سنبھالے ہوئے ہے؛ جس کو نہ کبھی اونگھ لگتی ہے، نہ نیند۔ آسمانوں میں جو کچھ ہے (وہ بھی) اور زمین میں جو کچھ ہے (وہ بھی)، سب اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کر سکے؟ وہ سارے بندوں کے تمام آگے پیچھے کے حالات کو خوب جانتا ہے، اور وہ لوگ اس کے علم کی کوئ بات اپنے علم کے دائرے میں نہیں لا سکتے، سوائے اس بات کے جسے وہ خود چاہے۔ اس کی کرسی نے سارے آسمانوں اور زمینوں کو گھیرا ہوا ہے؛ اور ان دونوں کی نگہبانی سے اسے ذرا بھی بوجھ نہیں ہوتا، اور وہ بڑا عالی مقام، صاحبِ عظمت ہے۔ (سورہٴ البقرہ: ۲۵۵)

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Thursday 6 April 2017

بدلہ لینے کے معاملے میں رسول الّٰلہ ﷺ کی سنّت

مشرکینِ مکّہ نے حضورِ اقدس ﷺ اور صحابہٴ کرام پر ظلم کرنے اور آپ کو تکلیف دینے، ایذاء پہنچانے میں کوئ کسر نہیں چھوڑی، یہاں تک کہ آپ کے خون کے پیاسے ہو گئے، اعلان کر دیا کہ جو شخص آپ کو پکڑ کر لائے گا، اس کو سو اونٹ انعام میں ملیں گے۔ غزوہٴ احد کے موقع پہ آپ ﷺ پہ تیروں کی بارش کی حتیٰ کہ آپ کا چہرہٴ انور زخمی ہو گیا، دندان مبارک شہید ہوئے لیکن اس موقع پہ آپ ﷺ کی زبان پہ یہ دعا تھی کہ:

"الّٰلھمہ اھد قومی فانھم لا یعلمون"

اے الّٰلہ میری قوم کو ہدایت عطا فرمائیے۔ ان کو علم نہیں ہے۔ 

وہ لوگ بہت ظالم تھے اور ان کے ظلم میں کوئ شک نہیں تھا لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ کے دل میں ان کی طرف سے بغض اور کینہ کا خیال بھی پیدا نہیں ہوا۔ تو یہ بھی نبی کریم ﷺ کی عظیم سنّت ہے اور آپ کا اسوہ ہے کہ بدخواہی کا بدلہ بدخواہی سے نہ دیں بلکہ اس کے حق میں دعا کریں، اور یہی حسد اور بغض کو دور کرنے کا بہترین علاج ہے۔ 

ماخوذ از بیان "بھائ بھائ بن جاؤ"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقۡنَـٰكُم مِّن قَبۡلِ أَن يَأۡتِىَ يَوۡمٌ۬ لَّا بَيۡعٌ۬ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ۬ وَلَا شَفَـٰعَةٌ۬‌ۗ وَٱلۡكَـٰفِرُونَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ۔ (سورہٴ البقرہ: ۲۵۴)

"اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں وہ دن آنے سے پہلے پہلے (الّٰلہ کے راستے میں) خرچ کر لو جس دن نہ کوئ سودا ہو گا، نہ کوئ دوستی (کام آئے گی) ، اور نہ کوئ سفارش ہو سکے گی۔۔۔" (سورہٴ البقرہ: ۲۵۴)

سورہٴ بقرہ میں الّٰلہ تعالیٰ نے عبادات اور معاملات سے متعلّق بہت سارے احکام بیان فرمائے ہیں، جن میں سب کی تکمیل نفس کو ناگوار اور بھاری ہے، اور تمام اعمال میں سب سے زیادہ مشکل انسان کو جان اور مال کا خرچ کرنا لگتا ہے۔ الّٰلہ تعالیٰ کے زیادہ تر احکام جو نازل ہوئے ہیں وہ یا تو جان سے متعلّق ہیں یا مال سے۔ اور اکثر جان یا مال ی محبّت ہی بندہ کو گناہ میں مبتلا کرتی ہے، گویا ان دونوں کی محبّت سے گناہوں میں ابتلاٴ ہونے کا اندیشہ بڑھتا ہے اور ان کی محبّت سے نجات سے طاعات اور الّٰلہ تعالیٰ کے احکام بجا لانے میں سہولت ہوتی ہے۔

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ عمل کا وقت ابھی ہے جب تک سانس چل رہی ہے۔ جب آخرت آ گئ تو پھر نہ عمل بکتے ہیں، نہ کوئ دوستی میں اپنی نیکیاں دوسرے کو دے گا، اور نہ ہی کسی کی سفارش کام آئے گی۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ
حسد اور بغض کا بہترین علاج

بغض حسد سے پیدا ہوتا ہے۔ دل میں پہلے دوسرے کی طرف سے حسد پیدا ہوتا ہے کہ وہ آگے بڑھ گیا، میں پیچھے رہ گیا، اور پھر اس کے آگے بڑھ جانے کی وجہ سے دل میں جلن اور کڑھن پیدا ہوتی ہے، اور دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اس کو کسی طرح کا نقصان پہنچ جائے، یہ مزید آگے نہ بڑھ سکے۔ اب اس کو نقصان پہنچانا اختیار میں نہیں ہے، اس کے نتیجے میں جو گھٹن پیدا ہوتی ہے اس سے انسان کے دل میں بغض پیدا ہو جاتا ہے۔ لہذا بغض سے بچنے کا پہلا راستہ یہ ہے کہ اپنے دل سے پہلے حسد کو ختم کرے۔

بزرگوں نے حسد دور کرنے کا علاج یہ بیان فرمایا کہ جس شخص کے آگے بڑھ جانے کی وجہ سے جلن ہو رہی ہو اس شخص کے حق میں دعا کرے کہ یا الّٰلہ اس کو اور ترقّی عطا فرمائیے۔ جس وقت یہ دعا کرے گا تو اس کے دل پہ آرے چل جائیں گے کیونکہ دل تو یہ چاہ رہا ہے کہ اس کا نقصان ہو، اور دعا یہ کر رہا ہے کہ اس کی ترقّی ہو، لیکن زبردستی یہ دعا کرتا رہے۔ بلکہ اس کو اطلاع بھی کردے کہ میں تمہارے حق میں ترقّی کی دعا کرتا ہوں۔ انشاٴ الّٰلہ اس علاج کے کرتے رہنے سے حسد دور ہو جائے گا۔

ماخوذ از بیان "بھائ بھائ بن جاؤ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Wednesday 5 April 2017

چوتھا حصّہ ۔ "کون ہے جو الّٰلہ کو اچھے طریقے پر قرض دے، تا کہ وہ اسے اس کے مفاد میں اتنا بڑھائے چڑھائے کہ وہ بدرجہا زیادہ ہو جائے؟ اور الّٰلہ ہی تنگی پیدا کرتا ہے، اور وہی وسعت دیتا ہے، اور اسی کی طرف تم سب کو لوٹایا جائے گا۔" (سورہٴ  البقرہ: ۲۴۵)

قرض کی واپسی کے وقت اگر جتنا قرض دیا گیا تھا اس سے زیادہ واپس کرنے کی شرط نہ ٹھہرائ گئ ہو، اور واپس کرنے والے نے اپنی خوشی سے قرض سے کچھ زیادہ ادا کر دیا تو یہ پسندیدہ ہے۔ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:

"تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے حق (قرض) کو اچھے طریقے سے اداء کرے۔"

لیکن اگر پہلے سے یہ شرط ٹھہرائ گئ ہو کہ جتنا قرض دیا گیا تھا اس سے زیادہ واپس لیا جائے گا، تو وہ حرام ہے اور سود ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Tuesday 4 April 2017

پانچواں حصّہ ۔ مسلمان بھائ بھائ ہیں  

بغض کی حقیقت یہ ہے کہ دوسرے شخص کی بدخواہی کی فکر کرنا کہ اس کو کسی طرح نقصان پہنچ جائے، یا اس کی بدنامی ہو، لوگ اس کو برا سمجھیں، اس پر کوئ بیماری آجائے، اس کی تجارت بند ہو جائے، یا اس کو تکلیف پہنچ جائے۔ لیکن اگر ایک شخص مظلوم ہے، تو ظاہر ہے کہ مظلوم کے دل میں ظالم کے خلاف جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں الّٰلہ تعالیٰ نے اس ظالم سے ظلم کا بدلہ لینے کی اور اپنے سے ظلم کا دفاع کرنے کی بھی اجازت دی ہے۔ اس وقت بھی مظلوم اس ظالم کے ظلم کو تو اچھا نہ سمجھے لیکن اس ظالم کی ذات سے کوئ کینہ نہ رکھے، اس کی ذات سے بغض نہ رکھے، اور نہ اس کی بدخواہی کی فکر کرے، تو مظلوم کا یہ عمل بغض میں داخل نہ ہو گا۔ 

ماخوذ از بیان "بھائ بھائ بن جاؤ"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
چوتھا حصّہ ۔ مسلمان بھائ بھائ ہیں  

صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر پیر اور جمعرات کے دن تمام انسانوں کے اعمال الّٰلہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں اور جنّت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ اعمال پیش ہونے کے بعد جب کسی انسان کے بارے میں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ شخص اس ہفتے کے اندر ایمان کی حالت میں رہا اور اس نے الّٰلہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا تو الّٰلہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں آج کے دن اس کی مغفرت کا اعلان کرتا ہوں۔ یعنی یہ شخص ہمیشہ جہنّم میں نہیں رہے گا بلکہ کسی نہ کسی وقت جنّت میں ضرور داخل ہو جائے گا لہذا اس کے لئے جنّت کے دروازے کھول دئے جائیں۔ لیکن ساتھ ہی الّٰلہ تعالیٰ یہ اعلان بھی فرما دیتے ہیں:

"لیکن جن دو شخصوں کے درمیان آپس میں کینہ اور بغض ہو ان کو روک لیا جائے۔ ان کے جنّتی ہونے کا فیصلہ میں ابھی نہیں کرتا، یہاں تک کہ ان دونوں کے درمیان آپس میں صلح نہ ہو جائے۔" (ابو داؤد، کتاب الادب)

ماخوذ از بیان "بھائ بھائ بن جاؤ"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
تیسرا حصّہ ۔ "کون ہے جو الّٰلہ کو اچھے طریقے پر قرض دے، تا کہ وہ اسے اس کے مفاد میں اتنا بڑھائے چڑھائے کہ وہ بدرجہا زیادہ ہو جائے؟ اور الّٰلہ ہی تنگی پیدا کرتا ہے، اور وہی وسعت دیتا ہے، اور اسی کی طرف تم سب کو لوٹایا جائے گا۔" (سورہٴ  البقرہ: ۲۴۵)

جب یہ آیت نازل ہوئ تو حضرت ابوالدّحاح ؓ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا، "اے الّٰلہ کے رسول ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ کیا الّٰلہ تعالی ہم سے قرض مانگتے ہیں، حالانکہ وہ قرض سے مستغنی ہیں؟" آپ ﷺ نے فرمایا، "ہاں، الّٰلہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ اس کے ذریعے سے تم کو جنّت میں داخل کر دیں۔" ابو الدّحاح ؓ نے یہ سن کر کہا، "اے الّٰلہ کے رسول ہاتھ بڑھائیں۔" آپﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ ابوالدّحاحؓ نے کہنا شروع کیا، "میں کھجور کے دو باغوں کا مالک ہوں۔ اس کے علاوہ میری ملک میں کچھ نہیں۔ میں اپنے یہ دونوں باغ الّٰلہ تعالیٰ کو قرض دیتا ہوں۔"

آپﷺ نے ان سے فرمایا، "ایک باغ الّٰلہ کے راستے میں وقف کردو اور دوسرا اپنے اہل و عیال کی معاشی ضروریات کے لئے باقی رکھو۔" حضرت ابو الدّحاح نے کہا، "آپ گواہ رہیے۔ ان دونوں میں سے بہترین باغ جس میں کھجور کے چھ سو درخت ہیں، اس کو میں الّٰلہ کے راستے میں خرچ کرتا ہوں۔" آپ ﷺ نے فرمایا، "الّٰلہ تعالیٰ اس کے بدلے میں تمہیں جنّت عطا کریں گے۔"

ابو الدّحاح ؓ اپنے گھر آئے اور بیوی کو اس کی اطلاع دی تو وہ بھی ان کے اس بہترین سودے پر بہت خوش ہوئیں۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا، "کھجوروں سے لبریز بے شمار درخت اور کشادہ محلّات کس قدر ابو الدّحاح ؓکے لئے تیّار ہیں (یعنی جنّت میں)۔" (قرطبی)

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Monday 3 April 2017

دوسرا حصّہ ۔ "کون ہے جو الّٰلہ کو اچھے طریقے پر قرض دے، تا کہ وہ اسے اس کے مفاد میں اتنا بڑھائے چڑھائے کہ وہ بدرجہا زیادہ ہو جائے؟ اور الّٰلہ ہی تنگی پیدا کرتا ہے، اور وہی وسعت دیتا ہے، اور اسی کی طرف تم سب کو لوٹایا جائے گا۔" (سورہٴ  البقرہ: ۲۴۵)

الّٰلہ کو قرض دینے کا یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس کے بندوں کو قرض دیا جائے اور ان کی ضروریات پوری کی جائیں۔ حدیث میں قرض دینے کی بہت فضیلت وارد ہوئ ہے۔ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا:

"جو مسلمان دوسرے مسلمان کو قرض دے دیتا ہے، یہ قرض دینا الّٰلہ کے راستے میں اس مال کے دو دفعہ صدقہ کرنے کے برابر ہے۔" (مظہری بحوالہٴ ابنَ ماجہ)

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Sunday 2 April 2017

تیسرا حصّہ ۔ مسلمان بھائ بھائ ہیں  

بزرگوں نے فرمایا کہ آپس میں لڑائ جھگڑا کرنا، اور ایک دوسرے سے بغض و عداوت رکھنا یہ انسان کے باطن کو اتنا زیادہ تباہ کرتا ہے کہ اس سے زیادہ تباہ کرنے والی چیز کوئ اور نہیں ہے۔ انسان نماز بھی پڑھ رہا ہے، روزے بھی رکھ رہا ہے، تسبیحات بھی پڑھ رہا ہے، وظیفے اور نوافل کا بھی پابند ہے، لیکن ان تمام باتوں کے ہونے کے باوجود اگر وہ انسان لڑائ جھگڑے میں لگ جاتا ہے تو یہ لڑائ جھگڑا اس کے باطن کو تباہ و برباد کر دے گا اور اس کو اندر سے کھوکھلا کر دے گا۔ اس لئے کہ اس لڑائ کے نتیجے میں اس کے دل میں دوسرے کی طرف سے بغض ہو گا اور اس بغض کی خاصیت یہ ہے کہ یہ انسان کو کبھی انصاف پر قائم نہیں رہنے دیتا۔ لہذا وہ انسان دوسرے کے ساتھ کبھی ہاتھ سے زیادتی کرے گا، کبھی زبان سے زیادتی کرے گا، اور کبھی دوسرے کا مالی حق چھیننے کی کوشش کرے گا۔ 

ماخوذ از بیان "بھائ بھائ بن جاؤ"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
پہلا حصّہ ۔ مَّن ذَا ٱلَّذِى يُقۡرِضُ ٱللَّهَ قَرۡضًا حَسَنً۬ا فَيُضَـٰعِفَهُ ۥ لَهُ ۥۤ أَضۡعَافً۬ا ڪَثِيرَةً۬‌ۚ وَٱللَّهُ يَقۡبِضُ وَيَبۡصُۜطُ وَإِلَيۡهِ تُرۡجَعُونَ۔ (سورہ البقرہ: ۲۴۵) 

"کون ہے جو الّٰلہ کو اچھے طریقے پر قرض دے، تا کہ وہ اسے اس کے مفاد میں اتنا بڑھائے چڑھائے کہ وہ بدرجہا زیادہ ہو جائے؟ اور الّٰلہ ہی تنگی پیدا کرتا ہے، اور وہی وسعت دیتا ہے، اور اسی کی طرف تم سب کو لوٹایا جائے گا۔" (سورہٴ  البقرہ: ۲۴۵)

اس آیت میں "قرض دینا" سے مراد نیک عمل کرنا اور الّٰلہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ہے۔ اس کو قرض مجازاً کہہ دیا، ورنہ سب کچھ الّٰلہ تعالی ہی کی ملک ہے، الّٰلہ تعالیٰ کو کون قرض دے سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے قرض کا عوض دیا جانا ضروری ہے اسی طرح تم الّٰلہ کی راہ میں جو خرچ کرو گے اس کا عوض ضروری ملے گا۔ اور "بڑھانے" کا بیان ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک خرما الّٰلہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا جائے تو خدا تعالیٰ اس کو اتنا بڑھاتے ہیں کہ وہ احد پہاڑ سے بڑا ہو جاتا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Saturday 1 April 2017

مسلمان بھائ بھائ ہیں ۔ دوسرا حصّہ

ایک حدیث میں حضورِ اقدس ﷺ نے صحابہٴ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

"کیا میں تم کو وہ چیز نہ بتاؤں جو نماز، روزے اور صدقے سے بھی افضل ہے؟ پھر فرمایا، "لوگوں کے درمیان صلح کرانا، اس لئے کہ آپس کے جھگڑے مونڈنے والے ہیں۔"

یعنی لوگوں کے درمیان آپس میں جھگڑے کھڑے ہو جائیں، فساد برپا ہو جائے، ایک دوسرے کا نام لینے کے روادار نہ رہیں، ایک دوسرے سے بات نہ کریں، بلکہ ایک دوسرے سے زبان اور ہاتھ سے لڑائ کریں، یہ چیزیں انسان کے دین کو مونڈ دینے والی ہیں، یعنی انسان کے اندر جو دین کا جذبہ ہے، الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول کی اطاعت کا جو جذبہ ہے وہ اس کے ذریعے ختم ہو جاتا ہے اور بالآخر انسان کا دین تباہ ہو جاتا ہے ۔

ماخوذ از بیان "بھائ بھائ بن جاؤ"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
کیا تمہیں ان لوگوں کا حال معلوم نہیں ہوا جو موت سے بچنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل آئے تھے، اور وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ چنانچہ الّٰلہ نے ان سے کہا” "مر جاؤ"، پھر انہیں زندہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ الّٰلہ لوگوں پر بہت فضل فرمانے والا ہے، لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ (سورہ البقرہ: ۲۴۳)

چوتھا حصّہ

تیسرا مسئلہ جو اس آیت سے مستفاد ہوا وہ یہ ہے کہ موت کے خوف سے جہاد سے بھاگنا بھی حرام ہے۔ یہی مضمون ایک اور آیت میں جہاد سے بھاگنے والوں یا اس میں شامل نہ ہونے والوں کے بارے میں ان الفاظ میں آیا ہے:

ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے (شہید) بھائیوں کے بارے میں بیٹھے بیٹھے یہ باتیں بناتے ہیں کہ اگر وہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ ہوتے۔ کہہ دو کہ "اگر تم سچے ہو تو اپنے سے ہی موت کو ٹال دینا"۔ (سورہ آلِ عمران: ۱۶۸)

مطلب یہ کہ اوروں کی تو کیا فکر کرتے ہو تم خود اپنی فکر کرو اور اپنے آپ کو موت سے بچا لو۔ یعنی موت جہاد میں جانے یا نہ جانے پہ موقوف نہیں، تمہیں گھر بیٹھے ہوئے بھی بالآخر موت آئے گی۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ