Thursday 6 April 2017

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقۡنَـٰكُم مِّن قَبۡلِ أَن يَأۡتِىَ يَوۡمٌ۬ لَّا بَيۡعٌ۬ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ۬ وَلَا شَفَـٰعَةٌ۬‌ۗ وَٱلۡكَـٰفِرُونَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ۔ (سورہٴ البقرہ: ۲۵۴)

"اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں وہ دن آنے سے پہلے پہلے (الّٰلہ کے راستے میں) خرچ کر لو جس دن نہ کوئ سودا ہو گا، نہ کوئ دوستی (کام آئے گی) ، اور نہ کوئ سفارش ہو سکے گی۔۔۔" (سورہٴ البقرہ: ۲۵۴)

سورہٴ بقرہ میں الّٰلہ تعالیٰ نے عبادات اور معاملات سے متعلّق بہت سارے احکام بیان فرمائے ہیں، جن میں سب کی تکمیل نفس کو ناگوار اور بھاری ہے، اور تمام اعمال میں سب سے زیادہ مشکل انسان کو جان اور مال کا خرچ کرنا لگتا ہے۔ الّٰلہ تعالیٰ کے زیادہ تر احکام جو نازل ہوئے ہیں وہ یا تو جان سے متعلّق ہیں یا مال سے۔ اور اکثر جان یا مال ی محبّت ہی بندہ کو گناہ میں مبتلا کرتی ہے، گویا ان دونوں کی محبّت سے گناہوں میں ابتلاٴ ہونے کا اندیشہ بڑھتا ہے اور ان کی محبّت سے نجات سے طاعات اور الّٰلہ تعالیٰ کے احکام بجا لانے میں سہولت ہوتی ہے۔

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ عمل کا وقت ابھی ہے جب تک سانس چل رہی ہے۔ جب آخرت آ گئ تو پھر نہ عمل بکتے ہیں، نہ کوئ دوستی میں اپنی نیکیاں دوسرے کو دے گا، اور نہ ہی کسی کی سفارش کام آئے گی۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment