Wednesday 31 August 2016

اسلام اور انسانی حقوق: مال کا تحفّظ ۲۔۳

رسول الّٰلہ ﷺ نے دشمنوں کے مالی حقوق کی پاسداری کی جو مثال پیش کی اس کی نظیر نہیں ملتی۔ غزوہ خیبر میں رسول الّٰلہ ﷺ اور ان کے صحابہ قلعہ خیبر کے گرد محاصرہ کئے ہوئے تھے۔ وہیں ایک چرواہا اجرت پہ بکریاں چرایا کرتا تھا۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ "محمد" ﷺ کا نام بہت سنا ہے۔ جا کے دیکھوں تو سہی کہ وہ کیسے آدمی ہیں۔ لوگوں نے بتایا کہ رسول الّٰلہ ﷺ فلاں خیمے کے اندر ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اس کو یقین نہیں آیا کہ مسلمانوں کا اتنا بڑا سردار اتنی معمولی سی کھجور کی جھونپڑی کےاندر ہے۔ اس نے جا کر پوچھا کہ آپ کیا پیغام لے کر آئے ہیں۔ آپ نے توحید کے عقیدے کی وضاحت فرمائی۔ اس نے پوچھا کہ اگر میں آپ کے اس پیغام کو قبول کر لوں تو میرا کیا مقام ہو گا؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہم تہیں سینے سے لگائیں گے، تم ہمارے بھائ ہو جاؤ گے اور جو حقوق سب کو حاصل ہوں گے وہ تمہیں بھی حاصل ہوں گے۔ قصّہ مختصر یہ کہ اس کے دل پہ ان باتوں کا ایسا اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا۔

مسلمان ہونے کے بعد اس نے عرض کیا کہ اب آپ جو حکم دیں گے میں وہ کرنے کو تیّار ہوں۔ آپ ﷺ نے پہلا حکم یہ نہیں دیا کہ نماز پڑھو، یہ نہیں دیا کہ روزہ  رکھو۔ پہلا حکم یہ دیا کہ جو بکریاں تم چرانے کے لئے لے کر آئے ہو یہ تمہارے پاس امانت ہیں۔ پہلے ان کو واپس دے کر آؤ اور اس کے بعد آ کر پوچھنا کہ کیا کرنا ہے۔ اس نے حیران ہو کر پوچھا کہ یا رسول الّٰلہ ﷺ، یہ بکریاں تو ان دشمنوں کی ہیں جن پر آپ حملہ کرنے آئے ہیں۔ آپ ان کو واپس لوٹاتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ مالِ غنیمت جنگ کی حالت میں چھیننا تو جائز تھا، لیکن تم انہیں ایک معاہدے کے تحت، ایک وعدہ کر کے لے کر آئے ہو۔ اس معاہدے کا حق یہ ہے کہ ان کے مال کاتحفّظ کیا جائے۔ لہذا ان کو واپس کر کے آؤ۔ چنانچہ وہ چرواہا وہ بکریاں واپس کر کے آیا، پھر جہاد میں شامل ہوا، اور الّٰلہ تعالیٰ نے اسی جہاد میں انہیں شہادت عطا فرمائ۔ 

رسول الّٰلہ ﷺ نے عملاً کر کے یوں دکھایا کہ معاہدہ چاہے دشمن سے ہی کیوں نہ ہو، جب ایک دفعہ معاہدہ ہو گیا تو اب دشمن کے بھی مال کا تحفّظ کرنا ہے۔

ماخوذ از بیان "اسلام اور انسانی حقوق" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Tuesday 30 August 2016

اسلام اور انسانی حقوق: ۲۔ مال کا تحفّظ

لا تاکلو اموالکم بینکم بالباطل
باطل کے ساتھ ناحق طریقے سے کسی کا مال مت کھاؤ



اپنے مال کا تحفّظ انسان کا دوسرا بنیادی حق ہے۔ جیسے کہ پچھلی ایک حالیہ تحریر میں عرض کیا گیا تھا جن اعمال کے کرنے سے ثواب ملتا ہے ان کے تین درجات ہیں۔ فرائض و واجبات، سنّت، اور مستحب۔ فرض و واجب مالی عبادات کی مثال زکوٰة، حج، قربانی، یا گھر والوں کا نان نفقہ ہے۔ ان سب عبادات کے لئے بعض صورتوں میں حکومت کا زور دینا بھی جائز ہے، اور انسان کا جس پر اثر ہو اور امید ہے کہ وہ اس کے کہنے سے سن لے گا اس کا کہنا بھی جائز ہے۔ لیکن شریعت نے دوسروں کے مال کی اتنی شدید حفاظت فرمائ ہے کہ ان چند فرائض و واجبات کے علاوہ کسی انسان کو کسی نفلی صدقہ خیرات کے لئے مجبور کرنا بھی شرعاً جائز نہیں۔ اگر کسی پہ دباؤ ڈال کر یا شرما شرمی میں زبردستی مال کسی نیک مقصد کے لئےلے بھی لیا جائے تو ایسے مال کا لیناحرام ہے، اور اس سے ثواب کیا ملتا، الٹا گناہ ہو گا۔ 
شریعت میں ایک اصطلاح "طیبِ خاطر" استعمال ہوئ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئ اپنے دل کی خوشی سے کسی دوسرے کو کوئ مال یا تحفہ دے دے۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ کسی کی طیبِ خاطر کے بغیر اس کا مال لینا حرام ہے۔ (تقسیم سے پہلے) ہندوستان میں جائیداد میراث میں بھائ لے لیتے تھے اور بہنوں سے معاف کروا لیتے تھے۔ حضرت تھانویؒ اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتے تھے کہ ایسی معافی معتبر نہیں کیونکہ بہنیں بیچاری جانتی ہیں کہ ملنا تو کچھ ہے نہیں، منع کر کے بھائیوں سے بری کیوں بنیں۔ حضرت فرماتے تھے کہ جب جائیداد بہنوں کے نام منتقل کر دی جائے، وہ سال دو سال اس سے فائدہ اٹھائیں اور پھر اپنی خوشی سے بھائیوں کے نام منتقل کر دیں، اصلی طیبِ خاطر تب معتبر ہے۔
جاری ہے۔۔۔
ماخوذ از بیان "اسلام اور انسانی حقوق" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہمٓ

اسلام اور انسانی حقوق: مال کا تحفّظ ۲۔۱

اسلام نے غیر مسلموں کے مال حقوق کا بھی اسی طرح سے تحفّظ کیا ہے جیسے مسلمانوں کے حقوق کا۔ جس طرح مسلمانوں کا مال ان کے دل کی خوشی "طیبِ خاطر" کے بغیر لے لینا حرام ہے اسی طرح کسی عام مسلمان کے لئے کسی غیر مسلم کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر لے لینا بھی ویسے ہی حرام ہے۔ اس معاملے میں رسول الّٰلہ ﷺ نے جس سختی سے اس اصول کی پابندی کی وہ اتّباع کرنے کے لائق ہے۔ 

عام طور سے یہ بات مسلمانوں کو معلوم ہے کہ رسول الّٰلہ ﷺ کو تمام مکّہ والے صادق (ہمیشہ سچ بولنے والا) اور امین (دوسروں کے امانت رکھائے گئے مال کی پوری پاسداری کرنے والا) کہتے تھے۔ جب سے رسول الّٰلہ ﷺ نے اپنی رسالت کا اعلان عام طور سے مشرکینِ مکّہ ان کے دشمن ہو گئے تھے لیکن عجیب بات یہ تھی کہ اس کے باوجود ان کو رسول ﷺ پہ اتنا بھروسہ تھا کہ اپنی امانتیں پھر بھی ان کے پاس رکھواتے تھے۔ جس رات رسول الّٰلہ ﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی اس وقت بھی کفّارِ مکّہ کی امانتیں ان کے پاس تھیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آپ کی جان کے درپے ہیں۔ آپ کو ایک عرصے تک ایک گھاٹی میں محصور کر دیا اور مسلمانوں نے پتّے کھا کے گزارا کیا۔ لیکن رسول الّٰلہ ﷺ جب ہجرت فرماتے ہیں تو پہلے اپنے چچا زاد بھائ حضرت علی رضی الّٰلہ عنہ کو ایک ایک امانت کی تفصیل بتاتے ہیں، اور ان کو ہدایت کرتے ہیں کہ پہلے سب مکّہ والوں کی امانتیں ان کو واپس کرنا اور پھر میرے پاس آ جانا۔ ان کو یہ خیال نہیں آتا کہ یہ لوگ میرے جانی دشمن ہیں۔ میں ان کا مال استعمال کر لوں تو کیا غلط ہے؟ یہ خیال نہیں آتا کہ میں کفّار کے مال کی حفاظت کے لئے اپنے چچازاد بھائ کی جان خطرے میں ڈال رہا ہوں کہ کہیں وہ مجھے نہ پا کر غصّے میں ان کو نقصان نہ پہنچائیں؟ دشمنوں کے مال کی ایسی حفاظت کی مثال دنیا میں کہاں ملے گی۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از بیان "اسلام اور انسانی حقوق" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Saturday 27 August 2016

اسلام اور انسانی حقوق: ۱۔ جان کا تحفّظ

اسلام میں پانچ قسم کے انسانی حقوق کا تحفّظ کیا گیا ہے۔
۱۔ جان کا تحفّظ
۲۔ مال کا تحفّظ
۳۔ آبرو کا تحفّظ
۴۔ عقیدے کا تحفّظ
۵۔ معاش کا تحفّظ

ان پانچوں حقوق کی انشاءاللہ الگ الگ تحریر میں تفصیل بیان کی جائے گی۔

انسانی حقوق میں سے سب سے پہلا حق انسان کی جان کا تحفّظ ہے کہ کوئ اس کی جان پہ دست درازی نہ کرے۔ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا: لا تقتلو النفس التی حرم الّٰلہ الّا بالحق۔ کسی بھی جان کے اوپر دست درازی نہیں کی جا سکتی۔

حضرت عبدالّٰلہ ابن مسعود رضی الّٰلہ عنہ نے روایت کیا کہ ایک دن وہ رسول الّلہ ﷺ کے ساتھ طواف کر رہے تھے کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے کعبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے بیت الّٰلہ تو کتنا معظّم ہے، کتنا مقدّس ہے۔ پھر حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مسعود ؓ سے خطاب کرکے فرمایا، "اے عبدالّٰلہ! یہ کعبتہ الّٰلہ بڑا مقدّس بڑا مکرّم ہے، لیکن اس کائنات میں ایک ایسی چیز ہے جس کا تقدّس اس کعبتہ الّٰلہ سے بھی زیادہ ہے اور وہ چیز ہے ایک مسلمان کی جان، مال اور آبرو کہ اس کا تقدّس کعبہ سے بھی زیادہ ہے۔" گویا سرکار ِ دو عالم ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق اگر کوئ شخص کسی دوسرے کی جان، مال یا آبرو پہ حملہ کرتا ہے تو وہ کعبہ کو ڈھا دینے سے بھی زیادہ بڑا جرم ہے۔


جہاں تک غیر مسلموں کی جان کے تحفّظ کا معاملہ ہے شریعت کے ارشاد کے مطابق غیر مسلم دو طرح کے ہیں، ایک حربی (یعنی جس قوم سے مسلمان حالتِ جنگ میں ہوں) اور ایک غیر حربی (یعنی جس قوم سے مسلمانوں کا امن کا معاہدہ ہو، اگر بالفرض معاہدہ نہ بھی ہو تو جنگ نہ ہو، یا وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ملک میں امن سے رہتے ہوں اور ان کے قانون کے پابند ہوں)۔ غیر حربی غیر مسلموں کی جان، مال اور آبرو کی حرمت اور ان کے حقوق مسلمانوں کے لئے بالکل ویسے ہی ہیں جیسے کسی مسلمان کی جان، اس کا مال، اور اس کی آبرو۔ دونوں میں کوئ فرق نہیں۔
حربی غیر مسلموں کے لئے بھی رسول الّٰلہ نے بہت ساری ہدایات جاری فرمائیں اور عین حالتِ جنگ میں بھی غیر مسلم عورتوں، بچّوں، بوڑھوں اور ان کے مذہبی پیشواؤں پر ہاتھ نہ اٹھانے کا حکم دیا۔ پھر یہ بھی حکم فرما دیا کہ عین حالتِ جنگ میں بھی اگر کوئ کافر کلمہ پڑھ لےتو اپنا ہاتھ روک لو۔ ایک دفعہ ایسا واقعہ پیش آیا کہ ایک صحابی نے حالتِ جنگ میں ایک محارب کو کلمہ پڑھ لینے کے باوجود یہ سمجھ کے کہ وہ جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھ رہا ہے، قتل کر دیا۔ جب صحابہ واپس رسول الّٰلہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ واقعہ عرض کیا تو رسول الّٰلہ ﷺ نے شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا اور کچھ اس طرح کے الفاظ ادا فرمائے کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ وہ دل سے کلمہ پڑھ رہا ہے یا دھوکہ دے رہا ہے۔


جو مسلمان غیر مسلم ممالک میں رہتے ہیں ان کے لئے بھی غور کرنے کی خاص باتیں ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ ہےجس کے بارے میں قرآن کی آیت کی مفتی محمد شفیعؒ نے تفسیر فرمائ ہے۔ انہوں نے اپنی قوم کے ایک آدمی کی حمایت میں ایک قبطی (فرعون کی قوم کا ایک آدمی) کو مکّہ مار دیا جس سے وہ مر گیا۔ آپ ساری عمر اس سے استغفار فرماتے رہے۔ حضرت مفتی محمد شفیع ؒ نے فرمایا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص غیر مسلم تھا، اور غیر مسلم بھی حربی، یعنی جس سے ان کی قوم جنگ کی حالت میں تھی۔ پھر حضرت موسیؑ نے اس سے استغفار کیوں کیا؟ پھر خود ہی اس کا جواب دیا کہ چونکہ حضرت موسیؑ ان کے ملک میں رہ رہے تھے اس لئے عملاً ان سے وعدہ کر رکھا تھا کہ ان کے ملکی قانون کی پابندی کریں گے۔ اور چونکہ ان کے قانون میں قتل کرنا جرم تھا اس لئےحضرت موسیؑ نے اسے گناہ سمجھا اور اس سے استغفار کیا۔


اس آیت اور اس کی تفسیر کو آج کے حالات پہ منطبق کر کے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ایک مسلمان جو غیر مسلموں کے ملک میں ان کے امن میں رہتا ہو اور ان کے قانون کی پابندی کا عہد کئے ہوئے ہو، پھر اس کے لئے بلا جواز اس ملک کے ایسے مردوں، عورتوں، بچّوں، بوڑھوں کی جان لے لینا کیسے جائز ہو سکتا ہےجنہوں نے اس کی جان پہ حملہ نہ کیا ہو، جبکہ الّٰلہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر غیر ارادی طور پہ ایسا ہو جانے پہ ساری عمر استغفار فرماتے رہے؟ بعض لوگ اس کو جہاد سمجھتے ہیں حالانکہ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جہاد ایک عبادت ہےاور عبادت وہی مقبول ہے جو الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق کی جائے۔ جو "جہاد" الّٰلہ تعالیٰ اور الّٰلہ کے رسول ﷺ کے احکامات کو نظرانداز کر کے اور ان کی خلاف ورزی کر کے کیا جائے وہ جہاد کیسے ہو سکتا ہے۔
اسلام میں جو انسانی جان کے تحفّظ کی تعلیم دی گئ ہے، اس میں اور آج کل کے مروجّہ انسانی حقوق میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ اسلام میں اپنوں اور غیروں کی جان کی حرمت برابر ہے۔ دونوں میں کوئ فرق نہیں۔


(یہ تحریر بنیادی طور پہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کے بیان "اسلام اور انسانی حقوق" سے ماخوذ ہے لیکن اس میں بہت سارے الفاظ راقم کے ہیں۔ باتیں تو یہ امید ہے کہ ساری وہی ہیں جو راقم نے بزرگوں سے سنی یا ان کی کتابوں میں پڑھی ہیں لیکن اگر پھر بھی کوئ غلطی ہوئ ہو تو برائے مہربانی مجھے بلا تکلّف مطلع فرما دیں۔ الّٰلہ تعالیٰ کسی نادانستہ غلطی کو معاف فرمائیں۔ آمین)

Friday 26 August 2016

حقوق العباد کی ادائیگی ضروری ہے

حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ حقوق العباد کا ادا کرنا اورادو وظائف (تسبیح پڑھنا) سے بدرجہا زیادہ ضروری ہے۔ اس سے مواخذہ ہو گا اور ترکِ وظائف سے کچھ مواخذہ نہیں۔ یہ (وظیفہ پڑھنا) تو مستحب ہے۔ لوگ ضروری کام چھوڑ کر غیر ضروری اختیار کرتے ہیں۔

ماخوذ از ملفوظاتِ حکیم الامّت

تشریح:جن کاموں کو کرنے سے ثواب ملتا ہے ان کے تین درجات ہیں۔

۱۔ فرائض و واجبات۔ فرائض ان کاموں کو کہا جاتا ہے جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں صریح اور واضح حکم آیا ہے مثلاً نماز پڑھنا، زکوٰة دینا، والدین کا حکم ماننا، بیوی بچّوں کے حقوق پورے کرنا۔ واجب ان کاموں کو کہا جاتا ہے جن کے بارے میں خود سے حکم نہیں آیا لیکن اگر رسول الّٰلہ ﷺ سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس کے کرنے کا امر کیا یا ان کے سامنے ذکر ہوا کہ فلاں نہیں کرتا ہے تو اس پہ نکیر فرمائ۔ فرائض و واجبات کا بلا عذر چھوڑنا گناہِ کبیرہ ہے۔ 

۲۔ سنّت۔ اس کے دو درجات ہیں۔ جو کام رسول الّٰلہ ﷺ نے ہمیشہ کیا اسکو سنّتِ موکدہ کہتے ہیں۔ جو کام رسول الّٰلہ ﷺ نے کبھی کیا اور کبھی نہیں کیا اسے سنّتِ غیر موکدہ کہتے ہیں۔ سنّتِ موکدہ واجب کے قریب ہے اور سنّت غیر موکدہ مستحب کے۔  

۳۔ مستحب۔ وہ کام جس کے کرنے سے ثواب ہوتا ہے لیکن نہ کرنے سے گناہ نہیں ہوتا، مثلاً نفل نماز پڑھنا یا نفلی صدقہ خیرات دینا۔

ان درجات کا جاننا دو وجہ سے ضروری ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جس عمل کا درجہ جتنا اونچا ہے اس کی پابندی کرنا اتنا ہی ضروری ہےاور اگر کبھی ایسا وقت آئے کہ ایک وقت میں دونوں عمل کرنے کا تقاضہ ہو تو اونچے درجے کے عمل کے لئے نچلے درجے کے عمل کو چھوڑنا ضروری ہے۔ مثلاً بعض دفعہ جب لوگوں کو نیا نیا دین کا شوق ہوتا ہے تو انہیں اس میں بہت مزا آتا ہے اور سوائے اس ایک بات کے کسی اور بات کا خیال نہیں رہتا۔ لیکن اس وقت یہ یاد رکھنا چاہیے کہ گھر والوں، بیوی بچوں، کا خرچہ پورا کرنا اور ان کے حقوق پورے کرنا شرعاً فرض ہے، اور نفلی عبادت کرنا مستحب۔ اب اگر وہ ہر وقت مسجد میں بیٹھا نفلی نماز، قرآن یا تسبیح پڑھتا رہے اور اپنے بیوی بچوں کو تکلیف میں اور تنگی میں ڈال دے تو نہ صرف اسے اس نفلی عبادت کا فائدہ نہیں ہو گا، بلکہ حقوق العباد کے فرض کو ترک کرنے کا شدید گناہ ہو گا۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر کوئ فرائض و واجبات چھوڑے تو اس کو اصرار سے نصیحت کرنا جائز ہے، لیکن کسی مستحب عبادت کے لئے کسی کو مجبور کرنا جائز نہیں۔ مثلاً اگر ایک شخص نماز نہ پڑھتا ہو تو جس انسان کی وہ بات سنتا ہو اس انسان کے لیے اسے سمجھانا جائز بلکہ ضروری ہے اور اصرار کرنا بھی جائز ہے۔ (اس میں بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اس میں سختی نہیں کرنی چاہیےاور سخت الفاظ نہیں استعمال کرنے چاہیئیں کیونکہ بعض دفعہ ضد میں انسان ایسا کلمہ کہہ بیٹھتا ہے جس سے کہنے والے کو تو گناہ ملتا ہی ہے لیکن جو سختی کر کے اس کا سبب بنا  وہ بھی گناہ گار ہوتا ہے)  لیکن کوئ انسان اگر کوئ مستحب کام نہ کرنا چاہے مثلاً کسی نفلی کارِ خیر میں چندہ نہ دینا چاہے یا کوئ نفلی عبادت نہ کرنا چاہےتو اس سے اصرار کرنا شرعاً جائز نہیں، اور نہ کرنے پہ ملامت کرنا بھی جائز نہیں۔

(اس عبارت میں بہت سارے الفاظ راقم کے ہیں۔ باتیں تو یہ امید ہے کہ ساری وہی ہیں جو راقم نے بزرگوں سے سنی یا ان کی کتابوں میں پڑھی ہیں لیکن اگر پھر بھی کوئ غلطی ہوئ ہو تو برائے مہربانی مجھے بلا تکلّف مطلع فرما دیں۔ الّٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔)

Thursday 25 August 2016

حضرت عبدالّٰلہ ابنِ عبّاس رضی الّٰلہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا:

الّٰلہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئ دو نعمتیں ایسی ہیں کہ بہت سے لوگ ان کے بارے میں دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ ایک صحت اور دوسرے فراغت۔

یہ حدیث "جوامع الکلم" یعنی جامع ترین کلاموں میں سے ہے۔ بزرگوں نے فرمایا کہ چند حدیثیں ایسی ہیں کہ اگر انسان صرف ان چند حدیثوں پہ عمل کر لے تو اس کی نجات کے لئے یہی کافی ہے۔ ان میں سے ایک حدیث یہ بھی ہے۔

 حضرت نے اس کی تشریح میں فرمایا کہ یہ دو چیزیں یعنی صحت اور فراغت ایسی ہیں کہ جب کسی انسان کو یہ حاصل ہوتی ہیں تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ مجھے ہمیشہ حاصل رہیں گی۔ جب ا سکو نیکی کا خیال آتا ہے تو یہ سوچتا ہے کہ ابھی جلدی کیا ہے، ابھی تو ساری عمر پڑی ہے۔ ابھی عیش کر لیں، مزے کر لیں۔ جب بڑھاپا آئے گا تو پھر عبادت کر کے سارے گناہ بخشوا لیں گے۔ روز اپنی نگاہوں سے تندرستوں کو شدید بیماری میں مبتلا ہوتے ہوئے دیکھتا ہے، جوانوں کو قبر میں جاتے ہوئے دیکھتا ہے، پھر بھی یہی سوچتا ہے کہ یہ تو ان کے ساتھ ایسا حادثہ ہو گیا۔ میرے ساتھ نہیں ہوگا۔ میری تو ابھی بہت عمر پڑی ہے۔ لیکن جب اچانک وقت آ جاتا ہے تو ایک لمحے کی مہلت نہیں ملتی۔

ماخوذ از بیان "وقت کی قدر کریں" از مفتی آھمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Wednesday 24 August 2016

حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مبارک ؒ کبھی رقہ شہر جاتے تو ایک نوجوان ان سے آ کر ملا کرتا اور مسائل وغیرہ پوچھتا۔ ایک مرتبہ جب رقہ جانا ہوا تو وہ نظر نہیں آیا۔ پوچھنے پہ لوگوں نے بتایا کہ اس پہ قرض بہت ہو گیا تھا۔ جس کا اس پہ قرض تھا اس نے اسے گرفتار کروا دیا اور اب وہ جیل میں ہے۔ حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مبارک کو بہت دکھ ہوا۔ انہوں نے پوچھا کہ کتنا قرضہ ہو گیا تھا اور کس کا قرض تھا؟ لوگ نے بتایا کہ دس ہزار دینار قرض تھا اور فلاں شخص کا قرض تھا۔ آپ اس شخص کی تلاش میں نکلے اور اس سے جا کر کہا کہ ہمارا ایک دوست تمہارے قرض کی وجہ سے جیل میں ہے۔ میں اس کا قرض ادا کردیتا ہوں لیکن ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ میرے جیتے جی کسی کو نہیں بتاؤ گے کہ اس کا قرض کس نے ادا کیا تھا۔ اس نے وعدہ کر لیا۔

جب وہ نوجوان رہا ہوا تو حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مبارک سے ملنے آیا۔ پوچھنے پہ اس نے بتایا کہ میں قرض نہ دے سکنے کی وجہ سے جیل میں تھا۔ پھر الّٰلہ تعالیٰ نے غیب سے ایک فرشتہ بھیج دیا جس نے میرا قرض ادا کر دیا اور مجھے رہائ مل گئ۔ حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مبارک نے کہا کہ بس اب الّٰلہ تعالیٰ کا اس پر شکر ادا کرو ، اور میں بھی تمہارے لئے دعائیں  کر رہا تھا کہ تمہیں رہائ مل جائے۔

وہ نوجوان بعد میں کہتے ہیں کہ جب تک عبدالّٰلہ ابنِ مبارک زندہ رہے مجھے عمر بھر پتہ نہیں چلا کہ میرا قرضہ ادا کرنے والا شخص کون تھا، اس لیے کہ جو قرض خواہ تھا اس نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی زندگی میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔ ان کے انتقال کے بعد مجھے پتہ چلا کہ میری رہائ کا ذریعہ بننے والے حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مبارک ہی تھے۔

ماخوذ از بیان "وقت کی قدر کریں" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Tuesday 23 August 2016

اپنے آپ کو پاکباز مت سمجھو

قرآن کریم میں ارشاد ہے؛

"کیا آپ نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو پاکیزہ کہتے ہیں، بلکہ الّٰلہ تعالیٰ ہی کا حق ہے کہ وہ جس کو چاہیں پاک قرار دیں"(۴:۴۹)

"تم اپنے نفس کی پاکی کے مدعی نہ بنو، الّٰلہ تعالیٰ ہی خوب جانتے ہیں کہ کون واقعی پرہیز گار و متّقی ہے. (۵۳:۳۲)

بعض لوگ شاید سوچیں کہ ہر کچھ دن بعد ایسی پوسٹ کیوں آ جاتی ہے جس میں لکھا ہوتا ہےکہ اپنے کو نیک مت سمجھو، لیکن اس بات کی ایک خاص اہمیت ہے۔ الّٰلہ تعالیٰ نے کئ جگہ فرمایا ہے کہ وہ اور سب گناہ معاف کر دیں گے لیکن دو گناہ ایسے ہیں جنہیں وہ نہیں معاف کریں گے، ایک شرک اور دوسرے تکبّر۔ بظاہر اس کی یہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ باقی سب گناہوں میں تو پھر انسان کو کبھی نہ کبھی غلطی کا، گناہ کا، احساس ہوجاتا ہے لیکن تکبّر میں یہ احساس تک نہیں ہوتا۔ اگر انسان کو یہ سمجھ آ جائے کہ میں اپنے کو دوسرے سے بہتر جو سمجھ رہا ہوں یہ میری غلطی ہے تو اس میں تکبّر رہے ہی کیوں۔ عافیت اسی میں ہے کہ انسان  چاہے جتنا عبادت گزار ہو، جتنے نیک عمل کرتا ہو، بس عاجزی اختیار کرے، ہر ایک کو اپنے سے اچھا سمجھے، اور یہ سوچ رکھے کہ یہ صرف الّٰلہ تعالیٰ کو معلوم پے کہ اب بھی کس کے دل کی حالت بہتر ہے، اور کل بھی کس کا خاتمہ اچھا ہو گا۔ پھر ناز کس بات پر۔

Monday 22 August 2016

حضرت عبدالّٰلہ ابن مبارک رحمتہ الّٰلہ علیہ ایک دفعہ حج کے لئے تشریف جا رہے تھے۔ ایک قافلہ بھی ساتھ تھا۔ راستے میں ایک جگہ پہ قافلے والوں کی ایک مرغی مر گئ تو انہوں نے وہ کوڑے کے ڈھیر پہ پھینک دی۔ حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مبارک قافلے والوں سے ذرا پیچھے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ قافلہ جب ذرا آگے نکل گیا تو تو قریب کی بستی سے ایک لڑکی نکلی اور تیزی سے اس مردہ مرغی کو اٹھا کے اپنے گھر میں لے گئ۔ حضرت عبدالّٰلہ ابن مبارکؒ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ وہ اس لڑکی کے گھر گئے اور پوچھا کہ وہ اس طرح مردہ مرغی اٹھا کر کیوں لائ۔ جب انہوں نے بہت اصرار کیا تو اس لڑکی نے بتایا کہ میرے والد جو گھر میں واحد کمانے والے تھے ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ میری والدہ اور میں تنہا ہیں اور گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ ہم کئ روز سے اس حالت میں ہیں جس میں شریعت نے مردار کھانے کی اجازت دے رکھی ہے۔ چنانچہ اس کوڑے کے ڈھیر پہ جو کوئ مردار پھینک دیتا ہے ہم اس کو کھا کر گزارا کر لیتے ہیں۔

یہ سن کر حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مبارک کے دل پر بہت چوٹ لگی کہ یہ الّٰلہ کے بندے تو اس حالت میں ہیں کہ مردار کھا کر گزارا کر رہے ہیں، اور میں حج پہ جا رہا ہوں۔ انہوں نے اپنے معاون سے کہا کہ ہمارے واپس گھر جانے کے لئے تقریباً بیس دینار کی ضرورت پڑے گی، وہ رکھ لو اور باقی جتنے تقریباً دو ہزار دینار ہیں وہ سب اس لڑکی کو دے دو۔ اس سال ہم حج  نہیں کرتے۔ ان دیناروں سے اس کے گھر والوں کو جو راحت ملے گی الّٰلہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ حج سے زیادہ اجرو ثواب اس پر عطا فرما دیں گے۔

ماخوذ از بیان "وقت کی قدر کریں" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Sunday 21 August 2016

نجات کے لئے تین کام

حضرت عقبہ بن عامر رضی الّٰلہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورِاقدس ﷺ سے سوال کیا کہ یا رسول الّٰلہ! نجات کا کیا طریقہ ہے؟ یعنی آخرت میں عذابِ جہنّم سے نجات ہو جائے، الّٰلہ تعالیٰ اپنی رضا مندی عطا فرما دیں، اور جنّت میں داخلہ فرما دیں۔ حضورِ اقدس ﷺ نے جواب میں تین جملے ارشاد فرمائے، جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے۔
تم اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔  زبان بے قابو نہ ہونے پائے۔
تمہارا گھر تمہارے لئے کافی ہو جائے۔ یعنی فضول اور بلا وجہ گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں، تا کہ باہر جو فتنے ہیں ان کے اندر مبتلا نہ ہو جاؤ۔
اگر کوئ غلطی، کوئ گناہ، کوئ خطا تم سے سرزد ہو جائے تو اس غلطی پر رو۔ رونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے توبہ کرو، اور ا سپر ندامت کا اظہا ر کر کے استغفار کرو۔ گناہ پہ دل سے نادم ہو کے الّٰلہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کرو کہ یا الّٰلہ مجھ سے غلطی ہو گئ، مجھے معاف فرما دیں۔

ماخوذ از بیان "زبان کی حفاظت کیجئے" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

کتنے لمحات باقی رہ گئے ہیں؟

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمةالّٰلہ علیہ کے ایک استاد حضرت میاں سیّد اصغر حسین صاحب قدس سرہ بڑے اونچے درجے کے بزرگوں میں سے تھے۔ مفتی شفیع صاحبؒ ان کی خدمت میں کثرت سے جایا کرتے تھے۔ ایک دن مفتی شفیع صاحبؒ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا، دیکھو مولوی شفیع صاحب، آج ہم دونوں اردو میں بات نہیں کریں گے، عربی میں بات کریں گے۔ حضرت مفتی شفیع صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے اس پہ بڑی حیرانی ہوئ کہ پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا۔ خیر حسبِ ارشاد دونوں عربی میں بات کرتے رہے۔ حضرت مفتی شفیع صاحب فرماتے ہیں کہ عربی پہ اردو جیسی قدرت تو تھی نہیں۔ ضروری ضروری نپی تلی باتیں ہوئیں اور پھر بات ختم ہوگئ۔ آخر بہت پوچھنے پہ حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ بات اصل میں یہ ہے کہ میں نے دیکھا ہے کہ ہم دونوں مل کے بیٹھتے ہیں تو بہت ادھر ادھر کی گفتگو شروع ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں بعض اوقات ہم لوگوں فضول باتوں کے اندر مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اگر عربی میں بات کریں گے تو عربی پوری روانی کے ساتھ نہ تمہیں آتی ہے اور نہ مجھے۔ سوچ سمجھ کر بات کریں گے، اور پھر بلا ضرورت فضول کی گفتگو نہیں ہو گی۔ صرف ضروری باتیں ہوں گی۔ 

پھر حضرت میاں صاحب ؒ نے فرمایا کہ بھائ دیکھو۔ ہماری مثال اس شخص کی سی ہے جو گھر سے بہت ساری اشرفیاں لے کر سفر پہ نکلا تھا۔ ابھی وہ راستے میں ہی تھا کہ اس کی بیشتر اشرفیاں ختم ہو گئیں اور کچھ ہی اشرفیاں باقی رہ گئیں۔ اب وہ ان اشرفیوں کو سنبھال سنبھال کے اور بہت زیادہ ضرورت کے موقع پہ خرچ کرتا ہے کہ کہیں وہ منزل پہ پہنچنے سے پہلے ہی ختم نہ ہو جائیں۔ 

پھر فرمایا کہ ہم نے اپنی اکثر عمر گزار دی اور اور یہ جو عمر کے قیمتی لمحات الّٰلہ تعالیٰ نے عطا فرمائے تھے یہ سب منزل تک پہنچنے کے لیے مال و دولت اور اشرفیاں تھیں۔ اگر ان کو صحیح طور پر استعمال کرتے تو منزل تک پہنچنا آسان ہو جاتا لیکن ہم نے یہ قیمتی لمحات نہ جانے کن فضول باتوں میں، مجلس آرائ میں اور محض گپ شپ میں خرچ کر دیے۔ اب پتہ نہیں کتنے لمحات رہ گئے ہیں اس لیے دل چاہتا ہے کہ ان کو بہت احتیاط کے ساتھ صرف ان کاموں اور باتوں میں خرچ کریں جن سے آگے کی منزل آسان ہو جائے۔ 

ماخوذ از بیان "زبان کی حفاظت کیجئے" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Saturday 20 August 2016

زبان کے ذریعے جنّت کیسے حاصل کی جائے؟

فرمایا کہ الّٰلہ تعالیٰ نے انسان کو زبان ایک ایسی زبردست نعمت عطا فرمائ ہے کہ اگر وہ اس کو صحیح طریقے سے استعمال کر لے تو اسی کے ذریعے جنّت خرید سکتا ہے۔ مثلاً ایک شخص تکلیف اور پریشانی میں مبتلا تھا۔ آپ نےاس کی پریشانی دور کرنے کی نیّت سے اس سے کوئ تسلّی کی بات کہہ دی یا تسلّی کا کلمہ کہہ دیا جس کے نتیجے میں اس کے دل کو کچھ ڈھارس  بندھ گئ، اس کے دل کو کچھ تسلّی ہو گئ۔  یہ ایک کلمہ کہنا انسان کے لیے عظیم اجر و ثواب کا سبب بن جاتا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں رسول الّٰلہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے، کہ اگر کوئ شخص ایسی عورت کے لئے تسلّی کے کلمات کہے جس کا بیٹا گم ہو گیا ہو یا مر گیا ہو، تو الّٰلہ تعالیٰ اس تسلّی دینے والے کو جنّت میں بیش بہا قیمتی جوڑے پہنائیں گے۔

اگر کوئ شخص جا رہا تھا اور اسے راستہ نہیں مل رہا تھا۔ آپ نے اس کی رہنمائ کر کے اسے صحیح راستہ بتا دیا۔ اب اسوقت انسان کو خیال بھی نہیں ہوتا کہ میں نے کوئ نیکی کا کام کیا لیکن الّٰلہ اس کے بدلے میں بے شمار اجر و ثواب عطا فرماتے ہیں۔ ایک شخص غلط طریقے سے نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے چپکے سے تنہائ میں، نرمی کے ساتھ، محبّت اور شفقت سے اس کو سمجھا دیا کہ بھائ صحیح طریقہ یہ ہے، تو اب ساری عمر وہ جتنی نمازیں ٹھیک طریقے سے پڑھے گا ان سب کا اجر و ثواب آپ کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا۔ 

اگر انسان صرف اسی ایک بات کا خیال کر لے کہ اس کی زبان سے جو بات نکلے اس سے الّلہ تعالی کی مخلوق کا فائدہ ہو، اس کو تسلّی ہو، خوشی ہو، سکون و اطمینان ہو، دکھ نہ ہو، دلآزاری نہ ہو، کسی کا دل نہ ٹوٹے، تو انشألّٰلہ یہی ایک بات اس کو جنّٰت میں لے جانے کا سبب بن جائے گی۔

ماخوذ از بیان "زبان کی حفاظت کیجئے" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

زبان کی حفاظت سے متعلّق کچھ احادیث

حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم سرورِ دو عالم ﷺ نے فرمایا، جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے، کہ جو شخص الّٰلہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اس کو چاہئے کہ یا تو وہ اچھی اور نیک بات کہے، یا خاموش رہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی الّٰلہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضورِاقدس ﷺ سے سنا، جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے، کہ ایک انسان سوچے سمجھے بغیر جب کوئ کلمہ زبان سے کہہ دیتا ہے تو وہ کلمہ اس شخص کو جہنّم کے اندر اتنی گہرائ تک گرا دیتا ہے جتنا مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلہ اور بعد ہے۔

ایک اور روایت میں آیا ہے، جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے، کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ بعض اوقات ایک انسان الّٰلہ تعالیٰ کی رضامندی کا کوئ کلمہ کہتا ہے، یعنی ایسا کلمہ زبان سے ادا کرتا ہے جو الّٰلہ تعالیٰ کو خوش کرنے والا ہے، الّٰلہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہے، لیکن جس وقت وہ کلمہ زبان سے ادا کرتا ہے، اس کو اس کلمہ کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا اور لاپرواہی سے وہ کلمہ زبان سے نکال دیتا ہے، مگر الّٰلہ تعالیٰ اس کلمہ کی بدولت جنّت میں اس کے درجات بلند فرمادیتے ہیں۔ ا سکے برعکس بعض اوقات ایک انسان زبان سے ایسا کلمہ نکالتا ہے جو الّٰلہ تعالی کو ناراض کرنے والا ہوتا ہے، اور وہ شخص لاپرواہی میں اس کلمے کو نکال دیتا ہے، لیکن وہ کلمہ اس کو جہنّم میں لے جا کر گرا دیتا ہے۔

ماخوذ از بیان "زبان کی حفاظت کیجئے" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Thursday 18 August 2016

نعمتِ تفویض

فرمایا کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے سونے سے پہلے پڑھنے کے لیے ایک دعا تلقین فرمائ جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اے الّٰلہ، میں نے اپنے نفس کو آپ کے حوالے کر دیا، میں نے اپنا رخ آپ کی طرف کر دیا، اور اے الّٰلہ میں نے اپنے سارے معاملات آپ کو سونپ دیئے۔

فرمایا کہ انسان کی فطرت ہے کہ جب سونے لیٹتا ہے تو دن بھر جو کچھ حالات گزرے اس کے بارے میں ضرور سوچتا ہے کہ خدا جانے کل ان باتوں کا کیا ہو گا۔ جو کام ادھورے چھوڑے ہیں ان کا کیا بنے گا؟ دکان چھوڑ کر آیا ہوں، کہیں رات کو چوری نہ ہو جائے؟ کام پہ جو مسائل چل رہے ہیں ان کا کیا ہو گا؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس لئے دعا کر لو کہ یا الّٰلہ! دن میں تو جو کام مجھ سے ہو سکے میں نے کر لیے، لیکن اب یہ سارے معاملات میں آپ کے سپرد کرتا ہوں۔ اب میرے بس میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ آپ ہی کی طرف رجوع کروں اور آپ ہی سے مدد مانگوں، کہ یا الّٰلہ جو معاملات میں نے شروع کئے ہیں ان کو اچھے انجام تک پہنچا دیجیے۔

یہی "تفویض" ہے اور اسی کا نام توکّل ہے کہ اپنے کرنے کا جو کام تھا وہ کر لیا اور اس کے بعد الٰلہ تعالیٰ کے حوالے کر دیا اور بیفکر ہو گئے۔ سپردگی اور تفویض کے لطف، اس کے کیف اور اس کے مزے کا اندازہ انسان کو اس وقت تک ہو نہیں سکتا جب تک یہ کیفیت انسان کے دل پہ نہ گزری ہو۔ دنیا میں عافیت، اطمینان اور سکون کا کوئ راستہ تفویض اور توکّل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ جس شخص کو الّٰلہ تعالیٰ تفویض کی دولت عطا فرماتے ہیں وہ اپنی ساری کوشش کر لیتا ہے اور پھر الّٰلہ میاں سے کہتا ہے کہ یا الّٰلہ! مجھ سے جتنی کوشش ہو سکتی تھی میں نے کر لی، اب سب آپ کے حوالے ہے اور میں آپ کی رضا میں راضی ہوں۔ جب انسان کے اندر تفویض کی یہ صفت پیدا ہو جاتی ہے تو دنیا کے اندر اس کو کبھی ناقابلِ برداشت پریشانی نہیں ہوتی، کیونکہ وہ ہر حالت میں الّٰلہ سے راضی رہتا ہے، اور الّٰلہ کی مرضی ہی اس کی مرضی ہو جاتی ہے۔

ماخوذ از بیان "تعلّق مع الّٰلہ کا طریقہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Wednesday 17 August 2016

تعلّق مع الّٰله حاصل کرنے کا آسان طریقہ

پرانے زمانے میں تعلق مع الّٰلہ کو حاصل کرنے کے لیےصوفیاء کرام کے ہاں بڑے لمبے چوڑے مجاہدے اور ریاضتیں کرائ جاتی تھیں۔ لیکن حضرت ڈاکٹر عبدالحئ ؒ فرماتے تھے کہ تم کہاں کرو گے وہ مجاہدے اور ریاضتیں۔ میں تمہیں اس تعلّق کو حاصل کرنے کا ایک آسان راستہ بتاتا ہوں۔ وہ یہ کہ الّٰلہ تعالیٰ سے ہر وقت مانگنے اور مانگتے رہنے کی عادت ڈالو۔ ہر چیز الّٰلہ تعالیٰ سے مانگو۔ جو دکھ اور تکلیف پہنچے، پریشانی ہو، جو ضرورت اور حاجت ہو، بس الّٰلہ تعالیٰ سے مانگو۔ گرمی لگ رہی ہے، کہو اے الّٰلہ اس گرمی کو دور فرما دیجئے۔ بجلی چلی گئ، اے الّٰلہ بجلی عطا فرما دیجیے۔ بھوک لگ رہی ہے، اے الّٰلہ اچھا کھانا عطا فرما دیجیے۔ گھر میں داخل ہو رہے ہو، کہو یا الّٰلہ گھر میں اچھا منظر سامنے آئے، عافیت کی خبر ملے۔ کام پہ جا رہے ہو، دعا کرو، یا الّٰلہ کام پہ جا رہا ہوں، حالات ٹھیک رہیں، طبیعت کے موافق رہیں، کوئ تکلیف کی بات پیش نہ آئے۔ حضرت فرماتے تھے کہ ہر وقت الّٰلہ سے باتیں کرنے کی عات ڈالو۔ پھر دیکھو کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔

بزرگوں نے مزید فرمایاہے  کہ دعا قبول ہونے میں کچھ وقت لگے تو جلدی مایوس نہ ہو۔ اوّل یہ کہ دعا بذاتِ خود ایک عظیم الشان عبادت ہے، بلکہ اس کو عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ جوں ہی دعا کے الفاظ منہ سے نکلے یا دل ہی دل میں ادا ہوئے، ایک عظیم عبادت کا ثواب حاصل ہو گیا۔ ان معنوں میں دعا کبھی ضائع نہیں ہوتی۔ دوسرے یہ کہ الّٰلہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ مجھ سے دعا کرو، میں قبول کروں گا۔ ایسے کریم کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنا وعدہ پورا نہ کرے۔ ہاں بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اس وقت، یا اس انسان کے حق میں، الّٰلہ تعالیٰ کے علم میں اس دعا کا پورا ہونا  اچھا نہیں ہوتا اس لیے اس کے بدلے اس سے بہتر کوئ چیز دے دی جاتی ہے یا اسے بعد میں عطا کر دیا جاتا ہے۔

ماخوذ از بیان "تعلّق مع الّٰلہ کا طریقہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Tuesday 16 August 2016

جی پی (پراویڈنٹ) فنڈ کی رقم لینا جائز ہے

(عام طور سے میں فقہ کے مسائل لکھنے سے بہت شدید پرہیز کرتا ہوں ایک تو میں عالمِ دین نہیں، اور دوسرے یہ  کہ تبلیغ اصول کی ہوتی ہے، فروع کی نہیں۔ اس پوسٹ کے لکھنے کی ایک خاص وجہ ہوئ اور وہ یہ کہ میں بعض ایسے بہت اچھے، بہت نیک دوستوں کو جانتا ہوں جو اپنی رائے میں پراویڈنٹ فنڈ کو سود سمجھتے ہیں اور اس لیے نہیں لیتے۔ اس پوسٹ کے لکھنے کا اصل مقصد صرف یہ اصول بتانا ہے کہ جس طرح حرام کو حلال قرار دے لینا گناہ ہے، بالکل اسی طرح حلال کو اپنی رائے سے حرام قرار دے لینا اور اس کو نیکی سمجھنا بھی اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔ جس انسان کو حرام حلال کی فکر ہو لیکن وہ خود علم نہ رکھتا ہو، اس کی عافیت اسی میں ہے کہ خودرائ کے بجائے کسی ایسے عالم سے پوچھ کر عمل کرے جو علم میں بھی کمال رکھتا ہو اور ایمانداری میں بھی کامل ہو۔) 

کسی نے مولانا اشرف علی تھانویؒ سے سوال کیا کہ یہ جو گورنمنٹ ملازمین کی تنخواہ میں سے نوکری کے دوران ہر ماہ کچھ رقم کاٹ کے، بعد ملازمت ختم ہونے کے وہ جمع شدہ رقم اور اس میں سے کچھہ اپنی طرف سے اضافہ کر کے دیتی ہے، اس کو بعض لوگ سود سمجھتے ہیں۔ کیا اس کا لینا جائز ہے؟

حضرت نے فرمایا کہ جائز ہے اور وہ اضافہ کا روپیہ لینا بھی جائز ہے۔ کیونکہ سود تو جب ہو جب کوئ اپنی ملکیت کا روپیہ کسی کو ادھار دے اور جب واپس لے تو زیادہ کر کے واپس لے۔ یہاں ایسا نہیں کیونکہ جب تک ملازم کی تنخواہ اس کے پاس نہیں آتی اس وقت تک وہ روپیہ اس کے قبضہ میں نہیں آیا اور اس کی ملکیت میں داخل نہیں ہوا۔ جتنا روپیہ اس کو مہینہ پورا ہونے پہ اس کو ملا وہ تو اس کی ملکیت ہے، اور جو کاٹ لیا گیا وہ اس کی ملکیت نہیں۔ جب اس کو ملے گا اس وقت اس کی ملکیت ہو گا۔ اس لیے جتنا کاٹا گیا اس سے جتنا زیادہ اس کو ملے گا وہ ایک طرح کا تحفہ ہو گا۔ ہاں اگر روپیہ اس کے قبضے میں آ جائے، پھر خود اس کو جمع کرائے اور واپس لیتے ہوئے زیادہ واپس لے تو پھر یہ سود ہو گا۔

ماخوذ از ملفوظاتِ اشرفیہ

Monday 15 August 2016

کسی بھی بظاہر گناہگار کو حقارت کی نظر سے مت دیکھو

حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ ایک شخص ان سے بیان کرتے تھے کہ گوالیار کی فوج میں ایک شخص ڈاڑھی منڈواتا تھا۔ لوگ اسے بہت ملامت کرتے لیکن وہ باز نہ آتا تھا۔ اس کے بعد ایک دن راجہ نے قانون نافذ کر دیا کہ فوجی آدمی سب ڈاڑھی منڈوایا کریں۔ اس پر لوگوں نے اس سے کہا کہ بھائ خوش ہو جا۔ ہم تو تجھے ملامت کیا کرتے تھے۔ اب سب کو تجھ جیسے ہی ہونے کا حکم ہو گیا۔ اس نے کہا کہ کیا ہو گیا۔ لوگوں نے بتایا کہ ایسا حکم ہو گیا ہے۔ اس نے کہا کہ پہلے تو میں شرارتِ نفس کی وجہ سے ایسا کرتا تھا۔ اب ایک کافر راجہ کا حکم ہے، اس کے حکم سے شرع کو نہ چھوڑوں گا اور ڈاڑھی نہ منڈواؤں گا۔ گھاس کھود کر یا کسی اور ذریعہ سے گزر کر لوں گا۔ چنانچہ اس نے فوراً نوکری چھوڑ دی اور جو لوگ اس پہ ملامت کرتے تھے ان سب نے ڈاڑھی منڈوائ۔

(حدیث شریف میں ہے کہ اگر کوئ حقارت سے کسی کے فعل پر نکیر (ملامت) کرے تو جب تک وہ شخص اس فعل میں مبتلا نہ ہو گا وہ اس وقت تک نہ مرے گا۔)

بزرگوں نے اسی لیے فرمایا ہے کہ چاہے کوئ انسان بظاہر دیکھنے میں کتنا ہی گناہگار دکھتا ہو، کبھی اس کو حقیر اور اپنے کو بہتر مت سمجھو، اور کبھی دوسروں کو تحقیر کے انداز میں ملامت مت کرو۔ ایک تو یہ صرف الّلہ ہی کو معلوم ہے کہ کس کے دل کی حالت کیا ہے اور کس کا ایمان زیادہ بہتر ہے۔ دوسرے کس کو معلوم کہ کس کاخاتمہ کیسا ہو گا اور جنّت و دوزخ کا فیصلہ اسی حالت پہ ہو گا جو مرنے کے وقت ہوگی۔ 

ماخوذ از ملفوظاتِ حکیم الامّت

Sunday 14 August 2016

دوسروں کی ذاتی باتیں امانت ہیں

امام غزالی ؒ نے احیائے علوم میں فرمایا ہے کہ دوسروں کا کوئ راز فاش کر دینا بھی نمیمتہ (چغلی، کسی کی برائ دوسرے کے سامنے اس نیّت سے بیان کرنا کہ وہ پہلے کو نقصان پہنچائے) کے اندر داخل ہے۔ اگر ایک آدمی نہیں چاہتا کہ اس کی کوئ ذاتی بات دوسروں پہ ظاہر ہو تو اس بات کو دوسروں کو بتا دینا شرعاً جائز نہیں۔  اس سے غرض نہیں کہ وہ بات اچھی ہو یا بری، مثلاً ایک آدمی نہیں چاہتا کہ دوسروں کو پتہ چلے کہ اس کے پاس کتنی دولت ہے۔ اب کسی نے سن گن کے ذریعے پتہ لگا لیا اور دوسروں سے کہتا پھر رہا ہے۔ یہ جو اس نے کسی کا راز فاش کر دیا یہ بھی نمیمتہ کے اندر داخل ہے اور حرام ہے۔  

ایک حدیث شریف میں رسولِ اقدس ﷺ نے فرمایا کہ مجلسوں کے اندر جو بات کہی جاتی ہے وہ بھی امانت ہے۔

مثلاً ایک شخص نے اپنے بھروسے کے لوگوں سے کسی ذاتی محفل میں کوئ راز کی بات کہی۔ اب اگر کوئ آدمی وہ بات  باہر جا کر دوسروں پہ ظاہر کردے تو یہ امانت میں خیانت ہے اور نمیمتہ کے اندر داخل ہے۔ 

ماخوذ از بیان "غیبت ۔ ایک عظیم گناہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

نمیمتہ (چغلی) ایک سنگین گناہ

عربی کا ایک لفظ ہے نمیمتہ جس کا اردو میں ترجمہ چغلی سے کیا جاتا ہے لیکن اس کا پورا مفہوم یہ ہے کہ کسی شخص کی کوئ برائ دوسرے کے سامنے اس نیّت سے کی جائے کہ سننے والا اس کو کوئ تکلیف پہنچائے، اور یہ شخص خوش ہو کہ اس کو تکلیف پہنچی۔ یہ ضروری نہیں کہ جو برائ اس نے بیان کی وہ دوسرے کے اندر موجود بھی ہو، لیکن برائ کرنے کی نیّت یہ ہو کہ دوسرا اس کو تکلیف پہنچائے۔ یہ نمیمتہ ہے جو غیبت سے بھی زیادہ سنگین اس لیے ہے کہ غیبت میں بہت دفعہ دوسرے کو نقصان پہنچانے کی نیّت نہیں ہوتی۔ نمیمتہ دو گناہوں کا مجموعہ ہے، ایک تو دوسرے کی برائ کرنا، اور دوسرے اس کو تکلیف پہنچنے کی خواہش اور نیّت ہونا، اس لیے اس میں دوہرا گناہ ہے۔ 

قرآن کریم اور حدیث میں اس پر سخت وعیدیں نازل ہوئ ہیں؛

"اور کسی بھی ایسے شخص کی باتوں میں نہ آنا جو بہت قسمیں کھانے والا، بے وقعت شخص ہے، طعنے دینے کا عادی ہے، چغلیاں لگاتا پھرتا ہے، بھلائ سے روکنے والا، زیادتی کرنے والا، بد عمل ہے، بدمزاج ہے۔۔۔" (ترجمہء سورة القلم:۱۰۔۱۳)

اس آیت میں الّٰلہ سبحانہ تعالیٰ نے ان اطوار کا ذکر فرمایا ہے جن کے حامل لوگ الّٰلہ تعالیٰ کی نظر میں سخت ناپسندیدہ ہیں۔ ہم سب کے لئے اپنے اعمال و اخلاق کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ خدانخواستہ ہم بھی تو ان میں سے کسی عادت کے مالک نہیں ہیں۔

رسول الّٰلہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "قتات" (یعنی چغل خور) جنّت میں داخل نہیں ہو گا۔ "قتات" بھی چغل خور کو کہتے ہیں۔

ماخوذ از بیان "غیبت ۔ ایک عظیم گناہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Saturday 13 August 2016

اسلام میں معاشرتی ذمّہ داریاں سب کی ہیں ۲

اسی اصول کے مطابق (جو پچھلی پوسٹ میں بیان کیا گیا کہ اسلام میں معاشرتی ذمّہ داریاں صرف حکومت کی نہیں بلکہ سب باشندوں کی ہیں) اگر کسی شخص کا گمشدہ مال کسی مسلمان کو مل جائے تو اس کی شرعی ذمّہ داری صرف اتنی ہی نہیں کہ اس کو چرائے نہیں، بلکہ یہ بھی اس کے ذمّے ہے کہ اس کو حفاظت سے اٹھا کر رکھے اور اعلان کر کے مالک کی تلاش کرے۔ اگر مالک مل جائے اور علامات وغیرہ بیان کرنے سے یہ اطمینان ہو جائے کہ یہ مال اسی کا ہے تو اس کو دیدے۔ اگر اعلان و تلاش کے باوجود مالک کا پتہ نہ چلے اور مال کی حیثیت کے مطابق یہ اندازہ ہو جائے کہ اب مالک اس کو تلاش نہ کرے گا اس وقت اگر وہ غریب و مفلس ہے تو اس اپنے استعمال میں لے آئے ورنہ مساکین پر صدقہ کر دے۔ دونوں صورتوں میں یہ مالک کی طرف سے صدقہ قرار دیا جائے گا، اس کا ثواب اسی کو ملے گا، گویا آسمانی بیت المال میں اس کے نام پر جمع کر دیا گیا۔

از معارف القرآن، تفسیرِ سورة یوسفؑ، از مفتی محمد شفیع ؒ

اسلام میں معاشرتی ذمّہ داریاں سب کی ہیں ۱

اسلامی نظام میں عام لوگوں کے جان و مال کی حفاظت، راستوں اور سڑکوں کی صفائ وغیرہ کو صرف حکومت کے محکموں کی ذمہ داری نہیں بنایا، بلکہ ہر شخص کو اس کا مکلّف بنایا ہے۔ راستوں اور سڑکوں میں کھڑے ہو کر یا اپنا کوئ سامان ڈال کر چلنے والوں کے لئے تنگی پیدا کرنے پر حدیث میں سخت وعید آئ ہے، فرمایا کہ، "جو شخص مسلمانوں کا راستہ تنگ کر دے اس کا جہاد مقبول نہیں۔" اسی طرح اگر راستہ میں کوئ ایسی چیز پڑی ہے جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچ جانے کا خطرہ ہے جیسے کانٹے یا کانچ کے ٹکڑے یا پتّھر وغیرہ، تو ان کو راستہ سےہٹانا صرف حکومت کی ذمّہ داری نہیں بنایا بلکہ ہر مسلمان کو ترغیبی انداز میں اس کا ذمّہ دار بنایا ہے، اور ایسا کرنے والوں کے لئے بڑے اجر و ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔

از معارف القرآن، تفسیر سورة یوسفؑ، از مفتی محمد شفیعؒ

Thursday 11 August 2016

غیبت کا کفّارہ

غیبت کا کفّارہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں یاد ہے کہ ان کی غیبت کی ہے، ان میں سے جتنے لوگ حیات ہیں، ان سے معافی مانگو۔ بزرگوں کی سنّت یہ ہے کہ انہوں نے ایک خط لکھ کر اپنے تمام اہلِ تعلقات کو بھیجا کہ زندگی میں معلوم نہیں آپ کے کتنے حقوق تلف ہوئے ہوں گے، کتنی غلطیاں ہوئ ہوں گی۔ میں اجمالی طور پہ آپ سے معافی مانگتا ہوں کہ الّٰلہ کے لیے مجھے معاف فرما دیجیے۔ امید ہے کہ ایسا کرنے سے الّٰلہ تعالیٰ اس کے ذریعے ان حقوق کو معاف کروا دیں گے۔

اگر بالفرض ایسے لوگوں کے حقوق تلف کیے ہوں جن سے اب رجوع کرنا ممکن نہیں رہا، یا تو ان کا انتقال ہو چکا ہے یا اب وہ ایسی جگہ چلے گئے ہیں کہ ان سے رابطہ کرنا ممکن نہیں رہا، تو ایسی صورت کے لئے حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کے حق میں خوب دعا کرو کہ یا الّٰلہ۔ میں نے اس کو جو غیبت کی تھی اس کو اس کے حق میں باعث ترقئ درجات بنا دیجیے۔ ا سکو دین و دنیا کی ترقیات عطا فرمائیے اور اس کے حق میں خوب استغفار کرو، تو یہ بھی اس کی تلافی کی ایک شکل ہے۔ 

حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر کوئ الّٰلہ کا بندہ کسی دوسرے سے معافی مانگے اور سچے دل سے مانگے تو اگر سامنے والا یہ دیکھ کر کہ یہ مجھ سے معافی مانگ رہا ہے، نادم اور شرمندہ ہو رہا ہے، اس کو معاف کردے، تو الّٰلہ تعالیٰ اس معاف کرنے والے کو اس دن معاف کرے گا جس دن اس کو معافی کی سب سے زیادہ حاجت ہو گی۔ اور اگر ایک شخص نادم ہو کر معافی مانگ رہا ہے لیکن یہ شخص معافی دینے سے انکار کر رہا ہے کہ میں معاف نہیں کروں گا تو الّٰلہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اس کو اس دن معاف نہیں کروں گا جس دن اس کو معافی کی سب سے زیادہ ضرورت ہو گی۔ جب تو میرے بندوں کو معاف نہیں کرتا تو تجھے کیسے معاف کیا جائے۔

ماخوذ از بیان "غیبت ایک عظیم گناہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

غیبت سے بچنے کا علاج

۱۔ غیبت اگر کبھی سرزد ہو جائے تو اس کا علاج یہ ہے کہ جس کی غیبت کی ہے اس سے کہہ دو کہ میں نے آپ کی غیبت کی ہے۔ اس وقت تو بہت شدید تکلیف ہو گی۔ اپنی زبان سے یہ کہنا تو بڑا مشکل کام ہے، لیکن علاج یہی ہے۔ دوچار مرتبہ اگر یہ علاج کر لیا تو انشاءالّٰلہ آئندہ کے لئے سبق ہو جائے گا۔

۲۔ حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ جب دوسرے کی برائ زبان پر آنے لگے فوراً اپنے عیوب کو یاد کرو۔ ۔ کوئ انسان ایسا نہیں ہے جو عیبوں سے خالی ہو۔ یہ خیال ذہن میں لاؤ کہ میرے اپنے اندر تو یہ یہ برائیاں ہیں، میں کسی دوسرے کی برائ کیا بیان کروں۔

۳۔ اس عذاب کا دھیان کرو جس کی غیبت کرنے پہ وعید نازل ہوئ ہے کہ ابھی یہ ایک کلمہ تو زبان سے نکال دوں گا لیکن اس کا انجام کتنا برا ہے۔ 

۴۔ الّٰلہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہو کہ یا الّٰلہ! اس بلا سے نجات عطا فرما دیجیے۔ جب کبھی مجلس میں غیبت شروع ہونے لگے تو فوراً الّٰلہ تعالی کی طرف رجوع کریں کہ یا الّٰلہ! اس مجلس میں غیبت شروع ہو رہی ہے۔ مجھے بچا لیجیے، کہیں میں اس کے اندر مبتلا نہ ہو جاؤں۔

ماخوذ از بیان "غیبت ۔ ایک عظیم گناہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Wednesday 10 August 2016

کسی بڑے سے بڑے گناہگار کی غیبت کرنا بھی جائز نہیں

حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک مجلس میں حضرت عبدالّٰلہ ابن عمر ؓ موجود تھے۔ اسی مجلس میں کسی شخص نے حجّاج بن یوسف کی برائیاں شروع کر دیں تو حضرت عبدالّٰلہ ابن عمر ؓ نے ٹوکا اور فرمایا کہ "دیکھو یہ جو تم ان کی برائیاں بیان کر رہے ہو، یہ غیبت ہے۔ اور یہ مت سمجھنا کہ اگر حجّاج بن یوسف کی گردن پر سینکڑوں انسانوں کا خون ہے تو اب اس کی غیبت حلال ہو گئی، حالانکہ اس کی غیبت حلال نہیں ہوئ بلکہ جہاں الّٰلہ تعالیٰ حجّاج بن یوسف سے ان سینکڑوں انسانوں کے خون کا حساب لیں گے جو اس کی گردن پر ہیں، تو وہاں تم سے اس غیبت کا حساب بھی لیں گے جو تم اس کے پیچھے کر رہے ہو۔"

ماخوذ از بیان "غیبت ۔ ایک عظیم گناہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

حضرت تھانوی ؒ نے ایک اور موقع پر فرمایا کہ ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ کیا یزید کی غیبت جائز ہے؟ انہوں نے فرایا کہ اس کے لئے جائز ہے جس کو یقین ہو کہ اس کا خاتمہ یزید سے اچھا ہو گا۔ یہ اس لئے کہ اعتبار صرف خاتمے کا ہے، اور خاتمے کا اعتبار نہیں۔

ناپ تول میں کمی

(ترجمہ سورة ہود:۸۵۔۸۶)

"اور اے میری قوم کے لوگو!ناپ تول پورا پورا کیا کرو، اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو، اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔ اگر تم میری بات مانو تو (لوگوں کا حق ان کو دینے کے بعد) جو کچھ الّٰلہ کا دیا بچ رہے، وہ تمہارے حق میں کہیں بہتر ہے۔"

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم پہ عذاب آنے کا ایک سبب انکا ناپ تول میں کمی کرنا تھا، اور قرآن کریم نے ایک اور آیت میں اس کے عذابِ شدید کا بیان فرمایا ہے۔ حضرت فاروق ِ اعظم کے ایک ارشاد کے تحت حضرت امام مالک ؒ نے موطأ میں فرمایا کہ ناپ تول میں کمی سے اصل مراد یہ ہے کہ کسی کا جو حق کسی کے ذمّہ ہو اسکو پورا ادا نہ کرے بلکہ اس میں کمی کرے، خواہ وہ ناپنے تولنے کی چیز ہو یا دوسری طرح کی۔ اگر کوئ ملازم اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے، کسی دفتر کا کوئ ملازم یا کوئ مزدور اپنے کام کے وقتِ مقرّر میں کمی کرتا ہے، وہ بھی اسی فہرست میں داخل ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ

Tuesday 9 August 2016

غیبت کرنا کن صورتوں میں جائز ہے؟

شریعت نے ہر چیز کی رعایت کی ہے، انسان کی فطرت کی بھی رعایت کی ہے اور اور اس کی جائز ضرورتوں کا بھی خیال رکھا ہے، لہذا غیبت سے چند صورتوں کو مستنثیٰ کر دیا ہے۔ اگرچہ صورتاً وہ غیبت ہیں لیکن شرعاً جائز ہیں۔ 

۱۔ دوسرے کے شر سے بچانے کے لئے غیبت کرنا
اگر کوئ شخص ایسے کام کرتا ہو جس سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہو، تو ایسے کسی انجان آدمی کو جس کو اس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، اس کے بارے میں بتا دینا کہ فلاں ںشخص سے ہوشیار رہیں، جائز ہے۔ کسی شخص کو کسی دوسرے کے ظلم سے بچانے کے لئے اگر اس کے پیٹھ پیچھے اس نقصان پہنچانے والے کے بارے میں بتا دیا جائے تو یہ غیبت میں داخل نہیں، ایسا کرنا جائز ہے۔

۲۔ اگر کسی کی جان کوخطرہ ہو 
اگر آپ کو کسی کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ کسی دوسرے پر حملہ کرنے اور اس کی جان لینے کی تیّاری  کر رہا ہے تو ایسے صورت میں اس دوسرے شخص کو بتانا کہ تمہاری جان کو خطرہ ہے تا کہ وہ اپنی جان کا تحفّظ کر سکے، جائز ہی نہیں بلکہ شرعاً واجب ہے۔

۳۔ ظالم کے ظلم کا تذکرہ غیبت نہیں
اگر ایک شخص نے کسی دوسرے پر ظلم کیا ہو اور وہ اس ظلم کا تذکرہ کسی دوسرے کے سامنے کرے کہ میرے ساتھ فلاں شخص نے یہ ظلم کیا ہے یا یہ زیادتی کی ہے، ایسا کہنا غیبت میں داخل نہیں، چاہے جس کے سامنے یہ کہا جائے وہ اس ظلم کا تدارک کر سکتا ہو یا نہ کر سکتا ہو۔

قرآن کریم میں الّٰلہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ترجمہ: "الّٰلہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی برائ علانیہ زبان پر لائ جائے، الّا یہ کہ کسی پہ ظلم ہوا ہو۔۔۔" (سورة النساء:۱۴۸)

ماخوذ از بیان "غیبت ایک عظیم گناہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
ایک روایت میں ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ کے زمانے میں دو خواتین تھیں۔ انہوں نے روزہ رکھا اور روزے کی حالت میں آپس میں بات چیت  کرنے میں مشغول ہو گئیں۔ تھوڑی دیر بعد حضورِ اقدس ﷺ کی خدمت میں کوئ صاحب آئے اور بتایا کہ یا رسول الّٰلہ، ان دو خواتین نے روزہ رکھا تھا مگر اب پیاس کی وجہ سے ان کی جان لبوں پہ آ رہی ہے اور وہ خواتین مرنے کے قریب ہیں۔ آنحضرت ﷺکو بذریعہ وحی یہ معلوم ھو گیا ہو گا کہ انہوں نے غیبت کی ہے، چنانچہ آپ نے حکم دیا کہ ان خواتین کو میرے پاس لے آؤ۔ جب ان خواتین کو آپ کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے حکم دیا کہ ایک بڑا پیالہ لاؤ۔ جب پیالہ آیا تو آپ نے ان میں سے ایک خاتون کو حکم دیا کہ تم اس پیالے میں قے کردو۔ جب اس نے قے کرنی شروع کی تو قے کے ذریعے اندر سے پیپ اور خون اور گوشت کے ٹکڑے خارج ہوئے۔ پھر دوسری خاتون سے فرمایا کہ تم قے کر دو۔ جب اس نے قے کی تو اس میں بھی خون اور پیپ اور گوشت  کےٹکڑے خارج ہوئے یہاں تک کہ وہ پیالہ بھر گیا۔ پھر حضورِ اقدس ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے ان بہنوں اور بہنوں کا خون اور پیپ اور گقشت ہے جو تم دونوں نے روزے کی حالت میں کھایا تھا۔

ماخوذ از بیان "غیبت ۔ ایک عظیم گناہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Sunday 7 August 2016

غیبت سے متعلق کچھ احادیث

حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ جس رات معراج میں مجھے اوپر لے جایا گیا تو وہاں میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جو ناخنوں سے اپنے چہرے نوچ رہے تھے۔ میں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام  سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب میں فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی غیبت کیا کرتے تھے، اور لوگوں کی آبروؤں پر حملے کیا کرتے تھے۔

ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ غیبت کرنے والے ہوں گے، انہوں نے بظاہردنیا میں بڑے اچھے اعمال کیے ہوں گے، نمازیں پڑھیں، روزے رکھے، عبادتیں کیں، لیکن جس وہ لوگ پلِ صراط پر سے گزریں گے تو غیبت کرنے والوں کو پل کے اوپر سے جانے سے روک دیا جائے گا، اور ان سے کہا جائے گا کہ تم آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک اس غیبت کا کفارہ نہیں ادا کردو گے۔ یعنی جس کی غیبت کی ہے اس سے معافی نہ مانگ لو گے، اور وہ تمہیں معاف نہ کردے اس وقت تک جنّت میں داخل نہیں ہو سکتے۔

ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سود اتنا زبردست گناہ ہے کہ اس کے اندر بے شمار خرابیاں ہیں اور بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہے، ۔۔۔ سب سے بدترین سود یہ ہے کہ کوئ شخص اپنے مسلمان بھائ کی آبرو پر حملہ کرے۔

ماخوذ از بیان "غیبت۔ ایک عظیم گناہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

غیبت ۲

بعض لوگ غیبت کو جائز ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ میں غیبت تھوڑا ہی کر رہا ہوں۔ میں تو اس کے منہ پہ یہ بات کہہ سکتا ہوں، اور اس سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب میں اس کے منہ پہ یہ بات کہہ سکتا ہوں تو یہ غیبت نہیں ہوئ۔ یاد رکھیے ہر وہ بات جو کسی کے پیٹھ پیچھے کہی جائے، جو وہ سنے تو اس کو ناگوار ہو، وہ غیبت ہے۔ اس کا منہ پہ کہہ سکنے یا نہ کہہ سکنے سے کوئ تعلق نہیں۔ 

غیبت گناہِ کبیرہ ہے اور ایسا ہی گناہِ کبیرہ ہے جیسے شراب پینا، ڈاکہ ڈالنا، بدکاری کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ دونوں میں کوئ فرق نہیں۔ بلکہ غیبت کا گناہ اس لحاظ سے ان گناہوں سے زیادہ سنگین ہے کہ غیبت کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اور حقوق العباد کی پامالی توبہ کرنے کے باوجود اس وقت تک معاف نہیں ہوتی جب تک وہ انسان معاف نہ کردے جس کے حقوق پامال کیے گئے ہوں۔ اس لیے اس کا اہتمام کریں کہ نہ غیبت کریں، نہ غیبت سنیں۔ جس محفل میں غیبت ہو رہی ہو اس میں گفتگو کا رخ بدلنے کی کوشش کریں، کوئ دوسرا موضوع چھیڑ دیں۔ اگر گفتگو کا رخ نہیں بدل سکتے تو پھر اس مجلس سے اٹھ کر چلے آئیں، اس لئے کہ غیبت کرنا بھی حرام ہے اور سننا بھی حرام ہے۔

ماخوذ از بیان "غیبت ۔ ایک عظیم گناہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

غیبت کیا ہے؟

رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا، "ایک دوسرے کی غیبت مت کرو۔ کیا تم میں سے کوئ اس کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردار بھائ کا گوشت کھائے؟ تم اس کو بہت برا سمجھتے ہو۔"

ایک صحابی نے حضورِ اقدس ﷺ سے سوال کیا کہ یا رسول الّٰلہ غیبت کیا ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا، "اپنے بھائ کا اس کے پیٹھ پیچھے ایسے انداز میں ذکر کرنا جس کو وہ ناپسند کرتا ہو۔" (یعنی اگر اس کو پتہ چلے کہ میرا ذکر اس طرح اس مجلس میں کیا گیا تھا تو اس کو تکلیف ہو اور وہ اس کو برا سمجھے، تو یہ غیبت ہے) ان صحابی نے پھر سوال کیا، "اگر میرے بھائ کے اندر وہ خرابی واقعتاً موجود ہے جو میں بیان کر رہا ہوں تو؟" آپ نے جواب میں فرمایا کہ اگر وہ خرابی واقعتاً موجود ہے تب تو یہ غیبت ہے۔ اور اگر وہ خرابی اس کے اندر موجود نہیں ہے، اور تم اس کی طرف جھوٹی نسبت کر رہے ہو، تو پھر یہ غیبت نہیں، پھر تو یہ بہتان بن جائے گا، اور دوہرا گناہ ہو جائے گا۔

ماخوذ از بیان "غیبت ۔ ایک عظیم گناہ" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Saturday 6 August 2016

حضرت ڈاکٹر عبدالحئ قدس الّٰلہ سرہ فرماتے تھے کہ "حقوق" تمام تر شریعت ہے، یعنی شریعت حقوق کا نام ہے، الّٰلہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق۔

اور "حدود" تمام تر سنٰت ہے۔ یعنی سنّت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کس حق کی کیا حد ہے، حق الّٰلہ کی حد کہاں تک ہے، اور بندوں کے حقوق کی حد کہاں تک ہے۔ حضورِ اقدس ﷺ کی سنّتیں یہ بتاتی ہیں کہ کس حق پر کہاں تک عمل کیا جائے گا۔ 

اور "حفظِ حدود" تمام تر طریقت ہے۔ یعنی طریقت جس کو تصوّف اور سلوک بھی کہا جاتا ہے، ان حدود کی حفاظت کا نام ہے۔ یعنی وہ حدود جو سنّت سے ثابت ہیں ان کی حفاظت تصوّف اور سلوک کے ذریعے ہوتی ہے۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ شریعت تمام تر حقوق، سنّت تمام تر حدود، اور طریقت تمام تر حفظِ حدود۔ بس اگر یہ تین چیزیں حاصل ہو جائیں تو پھر کسی چیز کی حاجت نہیں۔

(اس کی مزید تفصیل انشاءالّٰلہ آئندہ آئے گی)

ماخوذ از بیان "والدین کی خدمت" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کے بارے میں کچھ احادیث

حضرت عبدالّٰلہ بن عمروالعاص ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول الّٰلہ، میں آپ کے پاس دو چیزوں پر بیعت کرنے آیا ہوں۔ ایک ہجرت پر اور ایک جہاد پر، اور میں اپنے الّٰلہ تعالیٰ سے اجرو ثواب کا طلب گار ہوں۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے والدین میں سے کوئ زندہ ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ ہاں بلکہ والد اور والدہ دونوں زندہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم واقعی ثواب چاہتے ہو؟ اس نے جواب دیا، جی ہاں یا رسول الّٰلہ۔ آپ نے جواب دیا کہ میرے ساتھ جہاد کرنے کے بجائے تم اپنے والدین کے پاس واپس جاؤ اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ جہاد کی تیّاری ہو رہی تھی۔ ایک صاحب حضورِ اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول الّٰلہ ! میں جہاد میں شریک ہونے کے لیے آیا ہوں، اور فخر کے طور پر بیان کیا کہ میں جہاد میں شرکت کرنے کا اتنا سچّا طالب ہوں کہ جہاد میں شرکت کے لئے اپنے والدین کو روتا چھوڑ کر آیاہوں۔ مطلب یہ تھا کہ میرے والدین مجھے نہیں چھوڑ رہے تھے اور مجھے جہاد میں شرکت کی اجازت نہیں دے رہے تھے، لیکن اس کے باوجود میں ان کو اس حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ وہ میری جدائ کی وجہ سے رو رہے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے اس شخص سے فرمایا کہ واپس جاؤ، اور ان کو جس طرح روتا چھوڑا تھا، اب جا کر ان کو ہنساؤ اور ان کو راضی کرو۔ تمہیں میرے ساتھ جہاد پر جانے کی اجازت نہیں۔

ماخوذ از بیان "والدین کی خدمت" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Friday 5 August 2016

والدین کی وفات کے بعد تلافی کی صورت

بہت دفعہ یہ ہوتا ہے کہ والدین کے مرنے کے بعد اولاد کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کتنی بڑی نعمت کھو دی اور ہم نے اس کا حق ادا نہ کیا۔ اس کے لئے بھی الّٰلہ تعالیٰ نے راستہ رکھا ہے۔ اگر کسی نے والدین کے حقوق میں کوتاہی کی ہو، اور ان سے فائدہ نہ اٹھایا ہو، تو اس کی تلافی کے دو راستے ہیں۔

ایک ان کے لئے ایصالِ ثواب کی کثرت کرنا۔ جتنا ہو سکے ان کو ثواب پہنچائیں، صدقہ دے کر ہو، یا نوافل پڑھ کر ہو، یا قرآن کی تلاوت کے ذریعے ہو ۔ یہ عبادات کرنے کے بعد الّٰلہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ان کا ثواب ان کے مرحوم والدین کی روح کو مل جائے۔

دوسرے یہ کہ والدین کے جو اعزہ و اقرباء دوست احباب حیات ہیں، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، اور ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرنا چاہیے جیسا ماں باپ کے ساتھ کرنا چاہیےتھا۔ اس کے نتیجے میں الّٰلہ تعالیٰ اس کوتاہی کی تلافی فرما دیتے ہیں۔

ماخوذ از بیان "والدین کی خدمت" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Thursday 4 August 2016

والدین سے حسنِ سلوک کے بارے میں قرآن کریم کی کچھ آیات


(ترجمہ سورة بنی اسرائیل :۲۳،۲۴)

اور تمہارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سواکسی کی عبادت نہ کرو، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر والدین میں سے کوئ ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو، اور نہ انہیں جھڑکو، بلکہ ان سے عزّت کے ساتھ بات کیا کرو۔ اور ان کے ساتھ محبّت کا برتاؤ کرتے ہوئے ان کے سامنے اپنے آپ کو انکساری سے جھکاؤ، اور یہ دعا کرو: .یا رب! جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں مجھے پالا ہے، آپ بھی ان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کیجیے۔"

(ترجمہ سورة عنکبوت: ۸)

"اور ہم نے انسان کوحکم دیا ہے ک وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔" 

(ترجمہ سورة لقمان: ۱۵)

"اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے بارے میں یہ تاکید کی ہے، (کیونکہ) اس کی ماں نے اسے کمزوری پہ کمزوری برداشت کر کے پیٹ میں رکھا، اور دو سال میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے، تا کم میرا شکر ادا کرو، اور اپنے ماں باپ کا۔ اور اگر وہ تم پر یہ زور ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی کو (خدائ میں)  شریک قرار دو جس کی تمہارے پاس کوئ دلیل نہیں تو ان کی بات مت مانو، اور دنیا میں ان کے ساتھ بھلائ کے ساتھ رہو۔ اور ایسے شخص کا راستہ اپناؤ جس نے مجھ سے لو لگا رکھی ہو۔"

Wednesday 3 August 2016

MY KIND OF ISLAM

ایک بہت اچھے دوست نے حال میں کہا کہ دین کا فلاں حکم سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے عرض کیا کہ ہم نے اسکول میں ۱۲ سال لگاۓ، پھر کالج میں دو سال لگاۓ، پھر میڈیکل کالج میں ۵ سال لگاۓ، ہاؤس جاب میں ایک سال لگایا، پوسٹ گریجویشن میں چھ سات سال لگاۓ، اور اب کنسلٹنٹ بنے ہوۓ بھی سالوں ہو گۓ۔ پھر بھی کوئ پوچھتا ہے کہ تمہیں میڈیسن کا سارا علم آ گیا تو جواب یہی ہوتا ہے کہ ہمیں تو اس علم کا صرف ایک ذرہ آتا ہے۔ دین کے بارے میں جاننے کے لیے ہم نے کتنے سال لگاۓ کہ کہیں کہ بہت وقت لگایا پھر بھی سمجھ میں  نہیں آیا۔ اسی لیے ماری اگلی نسل کے لیے راقم نے ایک فیس بک ةیج شروع کیا ہے جس کا نام ہے
MY KIND OF ISLAM

یه اردو اور انگریزی دونوں میں ہے۔ بچے تھوڑا تھوڑا پڑھتے جائیں گے توامید ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کو دین سے مانوسیت ہو جاۓ گی اور دین کا بنیادی فہم آ جاۓ گا۔ قیامت کے روز اس سوال کا بھی جواب دینا ہو گا کہ اپنی اولاد کو صحیح راستہ دکھانے کے لیے ہم نے کیا کوششیں کیں؟ اس سے آگے اس پہ چلنے نہ چلنے کا جواب انہیں خود دینا ہو گا۔

ماں کی خدمت کا صلہ

حضرت اویس قرنی ؓ ایک مسلمان تھے جو رسول الّٰلہ ﷺ کے زمانے میں موجود تھے اور یمن میں رہتے تھے۔ ان کی بڑی شدید خواہش تھی کہ وہ رسول الّٰلہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی زیارت کریں۔ انہوں نے حضورِ اقدس ﷺ سے پوچھوایا کہ یا رسول الّٰلہ! میں آپ کی خمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں لیکن میری والدہ بیمار ہیں اور ان کو میری خدمت کی ضرورت ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو حاضر ہونے سے منع فرما دیا اور یہ فرما دیا کہ تم یہاں میری زیارت اور ملاقات کے لیے مت آؤ بلکہ والدہ کی خدمت کرو۔ حضرت اویس قرنی ؓ نے آپ کے حکم پر اس سعادت کو چھوڑ دیا اور گھر میں والدہ کی خدمت میں لگے رہے حتی کہ نبی کریم ﷺ کا وصال ہو گیا اور حضرت اویس قرنی ؓ ان کی زندگی میں ان کی زیارت نہ کر سکے۔

وصال سے پہلے حضورِ اقدس ﷺ نے حضرت عمر فاروق ؓ سے فرمایا کہ اے عمر! کسی زمانے میں قرن یعنی یمن کے علاقے سے ایک آدمی مدینہ آئے گا جس کی یہ نشانیاں ہو ں گی۔ جب یہ آدمی تمہیں مل جائے تو اپنے حق میں ان سے دعا کرانا کیونکہ الّٰلہ تعالیٰ ان کی دعائیں قبول فرمائیں گے۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ جب بھی یمن سے کوئ قافلہ آتا تو حضرت عمر ؓ جا کر ان سے سوال کرتے کہ اس میں اویس قرنی نام کے کوئ شخص ہیں؟ 

جب ایک دفعہ قافلہ آیا جس میں حضرت اویس قرنی ؓ موجود تھے تو حضرت عمر ؓ نے ان سے درخواست کی کہ میرے لیے دعا فرمائیں۔ حضرت اویس قرنی ؓ نے پوچھا کہ آپ مجھ سے دعا کروانے کے لیے کیوں تشریف لائے؟ جب حضرت عمرؓ نے بتایا کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے ان کے بارے میں کیا فرمایا تھا تو حضرت اویس قرنی ؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ الّٰلہ تعالیٰ نے ان کو والدہ کی خدمت اور رسول الّٰلہ ﷺ کی اطاعت کا اتنا بڑا درجہ عطا فرمایا کہ حضرت عمر ؓ جیسے جلیل القدر صحابی، جن کے بارے میں رسول الّٰلہ نے یہ فرمایا تھا کہ اگر میرے بعد کوئ نبی ہوتا تو عمر ہوتے، سے کہا گیا کہ ان سے جا کر دعا کروائیں۔

ماخوذ از بیان "والدین کی خدمت" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Monday 1 August 2016

دین اتباع کا نام ہے

حضرت نے فرمایا کہ حضرت ڈاکٹر عبد الحئ ؒ فرماتے تھے کہ دین اپنا شوق پورا کرنے کا نام نہیں، بلکہ الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول ﷺ کی اتّباع کا نام ہے۔ یہ دیکھو کہ الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول کی طرف سے اس وقت کا کیا تقاضہ ہے؟ دین اس تقاضے کو پورا کرنے کا نام ہے۔ مثلاً گھر کے اندر والدین یا بیوی بچے اتنے سخت بیمار ہیں کہ حرکت کرنے کے قابل نہیں، اور انسان کو شوق ہو گیا کہ مسجد میں جا کر صفِ اوّل میں نماز پڑھوں، یا تبلیغ کروں۔ صفِ اوّل میں نماز پڑھنا اور تبلیغ کرنا دونوں بے انتہا ثواب کے کام ہیں، لیکن اس وقت الّٰلہ تعالیٰ کی طرف سے تقاضہ صفِ اوّل میں نماز پڑھنے اور تبلیغ کرنے کا نہیں، اب اس وقت میں تمہارے لیے الّٰلہ تعالیٰ کی طرف سے تقاضہ یہ ہے کہ صفِ اوّل کی نماز چھوڑ دو، تبلیغ چھوڑ دو، اور والدین یا گھر والوں کی خدمت انجام دو اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔ اب اگر اس وقت تم نے والدین یا گھر والوں  کو اس حال میں چھوڑ دیا کہ وہ حرکت کرنے کے قابل نہیں اور تمہارے نہ ہونے سے ان کو شدید تکلیف ہو گی، اور تم اپنا شوق کرنے کے لیے مسجد جا کےصفِ اوّل میں شامل ہو گئے، یا گھر چھوڑ کے تبلیغ کرنے چلے گئے،  تو یہ دین کی اتّباع نہ ہوئ  بلکہ اپنا شوق پورا کرنا ہو گیا، اور دین اپنا شوق پورا کرنے کا نام نہیں بلکہ الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول کا حکم ماننے کا نام  ہے۔ اور اس وقت الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول کا حکم یہ ہے کہ اپنا شوق چھوڑ دو، اور جس کام کا تقاضہ ہے ا سوقت اس کام کو انجام دو۔

ماخوذ از بیان "والدین کی خدمت" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم