Saturday 27 August 2016

اسلام اور انسانی حقوق: ۱۔ جان کا تحفّظ

اسلام میں پانچ قسم کے انسانی حقوق کا تحفّظ کیا گیا ہے۔
۱۔ جان کا تحفّظ
۲۔ مال کا تحفّظ
۳۔ آبرو کا تحفّظ
۴۔ عقیدے کا تحفّظ
۵۔ معاش کا تحفّظ

ان پانچوں حقوق کی انشاءاللہ الگ الگ تحریر میں تفصیل بیان کی جائے گی۔

انسانی حقوق میں سے سب سے پہلا حق انسان کی جان کا تحفّظ ہے کہ کوئ اس کی جان پہ دست درازی نہ کرے۔ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا: لا تقتلو النفس التی حرم الّٰلہ الّا بالحق۔ کسی بھی جان کے اوپر دست درازی نہیں کی جا سکتی۔

حضرت عبدالّٰلہ ابن مسعود رضی الّٰلہ عنہ نے روایت کیا کہ ایک دن وہ رسول الّلہ ﷺ کے ساتھ طواف کر رہے تھے کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے کعبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے بیت الّٰلہ تو کتنا معظّم ہے، کتنا مقدّس ہے۔ پھر حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مسعود ؓ سے خطاب کرکے فرمایا، "اے عبدالّٰلہ! یہ کعبتہ الّٰلہ بڑا مقدّس بڑا مکرّم ہے، لیکن اس کائنات میں ایک ایسی چیز ہے جس کا تقدّس اس کعبتہ الّٰلہ سے بھی زیادہ ہے اور وہ چیز ہے ایک مسلمان کی جان، مال اور آبرو کہ اس کا تقدّس کعبہ سے بھی زیادہ ہے۔" گویا سرکار ِ دو عالم ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق اگر کوئ شخص کسی دوسرے کی جان، مال یا آبرو پہ حملہ کرتا ہے تو وہ کعبہ کو ڈھا دینے سے بھی زیادہ بڑا جرم ہے۔


جہاں تک غیر مسلموں کی جان کے تحفّظ کا معاملہ ہے شریعت کے ارشاد کے مطابق غیر مسلم دو طرح کے ہیں، ایک حربی (یعنی جس قوم سے مسلمان حالتِ جنگ میں ہوں) اور ایک غیر حربی (یعنی جس قوم سے مسلمانوں کا امن کا معاہدہ ہو، اگر بالفرض معاہدہ نہ بھی ہو تو جنگ نہ ہو، یا وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ملک میں امن سے رہتے ہوں اور ان کے قانون کے پابند ہوں)۔ غیر حربی غیر مسلموں کی جان، مال اور آبرو کی حرمت اور ان کے حقوق مسلمانوں کے لئے بالکل ویسے ہی ہیں جیسے کسی مسلمان کی جان، اس کا مال، اور اس کی آبرو۔ دونوں میں کوئ فرق نہیں۔
حربی غیر مسلموں کے لئے بھی رسول الّٰلہ نے بہت ساری ہدایات جاری فرمائیں اور عین حالتِ جنگ میں بھی غیر مسلم عورتوں، بچّوں، بوڑھوں اور ان کے مذہبی پیشواؤں پر ہاتھ نہ اٹھانے کا حکم دیا۔ پھر یہ بھی حکم فرما دیا کہ عین حالتِ جنگ میں بھی اگر کوئ کافر کلمہ پڑھ لےتو اپنا ہاتھ روک لو۔ ایک دفعہ ایسا واقعہ پیش آیا کہ ایک صحابی نے حالتِ جنگ میں ایک محارب کو کلمہ پڑھ لینے کے باوجود یہ سمجھ کے کہ وہ جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھ رہا ہے، قتل کر دیا۔ جب صحابہ واپس رسول الّٰلہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ واقعہ عرض کیا تو رسول الّٰلہ ﷺ نے شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا اور کچھ اس طرح کے الفاظ ادا فرمائے کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ وہ دل سے کلمہ پڑھ رہا ہے یا دھوکہ دے رہا ہے۔


جو مسلمان غیر مسلم ممالک میں رہتے ہیں ان کے لئے بھی غور کرنے کی خاص باتیں ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ ہےجس کے بارے میں قرآن کی آیت کی مفتی محمد شفیعؒ نے تفسیر فرمائ ہے۔ انہوں نے اپنی قوم کے ایک آدمی کی حمایت میں ایک قبطی (فرعون کی قوم کا ایک آدمی) کو مکّہ مار دیا جس سے وہ مر گیا۔ آپ ساری عمر اس سے استغفار فرماتے رہے۔ حضرت مفتی محمد شفیع ؒ نے فرمایا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص غیر مسلم تھا، اور غیر مسلم بھی حربی، یعنی جس سے ان کی قوم جنگ کی حالت میں تھی۔ پھر حضرت موسیؑ نے اس سے استغفار کیوں کیا؟ پھر خود ہی اس کا جواب دیا کہ چونکہ حضرت موسیؑ ان کے ملک میں رہ رہے تھے اس لئے عملاً ان سے وعدہ کر رکھا تھا کہ ان کے ملکی قانون کی پابندی کریں گے۔ اور چونکہ ان کے قانون میں قتل کرنا جرم تھا اس لئےحضرت موسیؑ نے اسے گناہ سمجھا اور اس سے استغفار کیا۔


اس آیت اور اس کی تفسیر کو آج کے حالات پہ منطبق کر کے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ایک مسلمان جو غیر مسلموں کے ملک میں ان کے امن میں رہتا ہو اور ان کے قانون کی پابندی کا عہد کئے ہوئے ہو، پھر اس کے لئے بلا جواز اس ملک کے ایسے مردوں، عورتوں، بچّوں، بوڑھوں کی جان لے لینا کیسے جائز ہو سکتا ہےجنہوں نے اس کی جان پہ حملہ نہ کیا ہو، جبکہ الّٰلہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر غیر ارادی طور پہ ایسا ہو جانے پہ ساری عمر استغفار فرماتے رہے؟ بعض لوگ اس کو جہاد سمجھتے ہیں حالانکہ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جہاد ایک عبادت ہےاور عبادت وہی مقبول ہے جو الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق کی جائے۔ جو "جہاد" الّٰلہ تعالیٰ اور الّٰلہ کے رسول ﷺ کے احکامات کو نظرانداز کر کے اور ان کی خلاف ورزی کر کے کیا جائے وہ جہاد کیسے ہو سکتا ہے۔
اسلام میں جو انسانی جان کے تحفّظ کی تعلیم دی گئ ہے، اس میں اور آج کل کے مروجّہ انسانی حقوق میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ اسلام میں اپنوں اور غیروں کی جان کی حرمت برابر ہے۔ دونوں میں کوئ فرق نہیں۔


(یہ تحریر بنیادی طور پہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کے بیان "اسلام اور انسانی حقوق" سے ماخوذ ہے لیکن اس میں بہت سارے الفاظ راقم کے ہیں۔ باتیں تو یہ امید ہے کہ ساری وہی ہیں جو راقم نے بزرگوں سے سنی یا ان کی کتابوں میں پڑھی ہیں لیکن اگر پھر بھی کوئ غلطی ہوئ ہو تو برائے مہربانی مجھے بلا تکلّف مطلع فرما دیں۔ الّٰلہ تعالیٰ کسی نادانستہ غلطی کو معاف فرمائیں۔ آمین)

No comments:

Post a Comment