Tuesday 27 June 2017

سورہ آلِ عمران: ۱ تا ۵ - تیسرا حصّہ

دوسری آیت میں توحید کی ایک معروضی دلیل بیان فرمائ گئ ہے "نَزَّلَ عَلَيۡكَ الۡـكِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيۡنَ يَدَيۡهِ وَاَنۡزَلَ التَّوۡرٰٮةَ وَالۡاِنۡجِيۡلَۙ‏" یعنی "اس نے تم پر وہ کتاب نازل کی ہےجو حق پر مشتمل ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے، اور اسی نے تورات اور انجیل اتاریں"۔ 

اس کی تشریح یہ ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید کا مضمون انسانوں میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام لے کر آئے۔ پھر ایک زمانہٴ دراز گزر جانے کے بعد حضرت نوحؑ تشریف لاتے ہیں اور بعینہ اسی تعلیم کی دعوت دیتے ہیں جس کی طرف حضرت آدم ؑ نے لوگوں کو بلایا تھا۔ پھر زمانہٴ دراز گزر جانے کے بعد حضرت ابراہیم، اسمٰعیل ، اسحٰق اور یعقوب علیہما السلام ملک عراق و شام میں پیدا ہوتے ہیں اور ٹھیک وہی دعوت لے کے اٹھتے ہیں۔ پھر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام اور ان کے سلسلے کے انبیاء آتے ہیں اور سب کے سب وہی ایک کلمہٴ توحید لے کر آتے ہیں، اور وہی دعوت دیتے ہیں۔ ان پر زمانہٴ دراز گزر جانے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہی دعوت لے کے اٹھتے ہیں۔ ان کے گزر جانے کے سینکڑوں سالوں کے بعد سید الانبیاء سیدنا محمد مصطفےٰ  وہی دعوت لے کر تشریف لاتے ہیں۔

اگر کوئ آدمی انصاف سے غور کرے تو اس کے دل میں ضرور یہ سوال پیدا ہو گا کہ آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء ﷺ کے زمانے تک تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہماالسّلام مختلف زبانوں میں، مختلف ملکوں میں، اور مختلف قوموں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کو ایک دوسرے سے ملنے کا اتّفاق بھی پیش نہیں آیا۔ وہ زمانہ بھی تصنیف و تالیف اور کتابت کا نہ تھا کہ ان کو ایک دوسرے کی کتابیں اور تحریریں مل جاتی ہوں اور وہ اس کو دیکھ کر ایک دوسرے کی دعوت اپنا لیتے ہوں۔ اس کے باوجود یہ سوا لاکھ پیغمبر ایک ہی دعوت دیتے ہیں کہ ہم سب کو الّٰلہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، وہ ایک ہی ہے اور اس کا کوئ شریک نہیں، اور اس کے سوا کوئ عبادت کے لائق نہیں۔ اور پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کا صدق و عدل کا معیار ایسا تھا کہ ان کے مخالفین نے ان پہ اور جو بھی الزامات لگائے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی مانا کہ وہ صادق اور امین ہیں، اسی سے انسان کو ضرور یہ خیال ہوتا ہے کہ کوئ ایک ذات ہے جس نے اتنے مختلف زمانوں، قوموں اور زبانوں اور ہزاروں سالوں کے اوپر پیدا ہونے والے ان تمام انسانوں کو ایک ہی تعلیم دی۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ 

Saturday 24 June 2017

سورہ آلِ عمران: ۱ تا ۵ - دوسرا حصّہ

سورہٴ آلِ عمران کی ابتدائ پانچ آیتوں میں اس مقصدِ عظیم کا ذکر ہے جس کی وجہ سے مسلمان غیر مسلموں سے مختلف ہیں ، اور وہ الّٰلہ جلّ شانہ‘ کی توحید ہے۔ اس کے ماننے والے موٴمن اور نہ ماننے والے غیر مسلم کہلاتے ہیں۔ 

پہلی آیت میں ارشاد ہے، "الٓمّٓ ۚۙ‏۔ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ الۡحَىُّ الۡقَيُّوۡمُؕ‏ " اس میں لفظ الٓمّٓ تو متشابہاتِ قرآنیہ میں سے ہے جس کے معنی صرف الّٰلہ تعالیٰ اور رسول الّٰلہ ﷺ کو ہی معلوم ہیں۔ اس کے بعد اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ الۡحَىُّ الۡقَيُّوۡمُؕ میں مضمونِ توحید کو ایک دعوے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے، معنی یہ ہیں کہ الّٰلہ تعالیٰ ایسے ہیں کہ ان کے سوا کوئ معبود بنانے کے قابل نہیں۔ 

اس کے بعد الّٰلہ تعالی کی صفات الۡحَىُّ الۡقَيُّوۡمُؕ لا کر توحید کی عقلی دلیل بیان کی گئ ہے۔ حَىُّ کا مطلب عربی زبان میں ہے "زندہ"۔ جب یہ لفظ الّٰلہ تعالیٰ کے اسمائے الٰہیہ (الّٰلہ تعالیٰ کے نام) میں استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے وہ ذات جو ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والی ہے، جو موت سے بالاتر ہے۔ لفظ قَيُّوم قیام سے نکلا ہے۔ قیام کے معنی ہیں کھڑے ہونا، قائم کھڑا ہونے والے کو کہتے ہیں۔ قیّوم اور قیّام مبالغے کے صیغے کہلاتے ہیں، انکے معنی ہیں وہ جو خود قائم رہ کر دوسروں کو قائم رکھتا اور سنبھالتا ہے۔

اس کی تشریح یہ ہے کہ عبادت نام ہے اپنے آپ کو کسی کے سامنے انتہائ عاجز و ذلیل کر کے پیش کرنے کا، اور اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ جس کی عبادت کی جائے وہ عزّت و جبروت کے انتہائ مقام کا مالک اور ہر اعتبار سے کامل ہو۔ اور ظاہر ہے کہ جو چیز خود وجود میں آنے کے لیے بھی اور قائم رہنے کے لیے بھی کسی دوسرے کی محتاج ہو اس کا عزّت و جبروت میں کیا مقام ہو سکتا ہے۔ اس لیے بالکل واضح ہو گیا کہ دنیا میں جتنی چیزیں ہیں جو نہ خود اپنے آپ کو وجود میں لا سکتی ہیں، نہ خود ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے آپ کو قائم رکھ سکتی ہیں، وہ خواہ پتھر کے گھڑے ہوئے بت ہوں، سورج ہو، آگ ہو، یا پیغمبر ہوں یا بزرگانِ دین ہوں، ان میں سے کوئ بھی عبادت کے لائق نہیں۔ عبادت کے لائق صرف وہی ذات ہو سکتی ہے جو ہمیشہ سے زندہ و موجود ہے اور ہمیشہ زندہ و قائم رہے گی۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Friday 23 June 2017

سورہ آلِ عمران: ۱ تا ۵ - پہلا حصّہ

بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ

الٓمّٓ ۚۙ‏ ﴿۱﴾ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ الۡحَىُّ الۡقَيُّوۡمُؕ‏ ﴿۲﴾ نَزَّلَ عَلَيۡكَ الۡـكِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيۡنَ يَدَيۡهِ وَاَنۡزَلَ التَّوۡرٰٮةَ وَالۡاِنۡجِيۡلَۙ‏ ﴿۳﴾ مِنۡ قَبۡلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَاَنۡزَلَ الۡفُرۡقَانَ  ؕ‌ اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ لَهُمۡ عَذَابٌ شَدِيۡدٌ  ‌ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ ذُو انۡتِقَامٍؕ‏ ﴿۴﴾ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَخۡفٰى عَلَيۡهِ شَىۡءٌ فِى الۡاَرۡضِ وَلَا فِى السَّمَآءِ﴿۵﴾ ؕ‏

"شروع الّٰلہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے"

"الٓمّٓ (۱) الّٰلہ وہ ہے جس کے سوا کوئ معبود نہیں، جو سدا زندہ ہے، جو پوری کائنات سنبھالے ہوئے ہے۔ (۲) اس نے تم پر وہ کتاب نازل کی ہےجو حق پر مشتمل ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے، اور اسی نے تورات اور انجیل اتاریں (۳) جو اس سے پہلے لوگوں کے لیے مجسم ہدایت بن کر آئ تھیں، اور اسی نے حق و باطل کو پرکھنے کا معیار نازل کیا۔ بیشک جن لوگوں نے الّٰلہ کی آیتوں کا انکار کیا ہےان کے لیے سخت عذاب ہے، اور الّٰلہ زبردست اقتدار کا مالک اور برائ کا بدلہ دینے والا ہے (۴) یقین رکھو کہ الّٰلہ سے کوئ چیز چھپ نہیں سکتی، نہ زمین میں نہ آسمان میں (۵)

جاری ہے۔۔۔

Thursday 22 June 2017

سورہ البقرہ: ۲۸۵ تا ۲۸٦ - نواں اور آخری حصّہ

اس سورت کے بالکل آخر میں قرآن کریم نے مسلمانوں کو ایک خاص دعا کی تلقین فرمائ ہے جس میں بھول چوک اور بلا واسطہ غلطی سے کسی فعل کے سرزد ہو جانے کی معافی طلب کی گئ ہے۔ فرمایا، "رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِيۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا" یعنی "اے ہمارے پروردگار بھول چوک اور خطاء پر ہم سے موٴاخذہ نہ فرما"۔ 

پھر فرمایا، "رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَيۡنَاۤ اِصۡرًا كَمَا حَمَلۡتَهٗ عَلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ‌‌ۚرَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ‌" یعنی اے ہمارے پروردگار ہم پر بھاری اور سخت اعمال کا بوجھ نہ ڈالیے جیسا ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا گیا ہے، اور ہم پر ایسے فرائض نہ عائد فرمائیے جن کی ہم طاقت نہیں رکھتے"۔ 

اس سے مراد وہ سخت اعمال ہیں جو بنی اسرائیل پر عائد تھے کہ کپڑا پانی سے پاک نہ ہو، بلکہ کاٹنا یا جلانا پڑے، اور قتل کے بغیر توبہ قبول نہ ہو، یا مراد یہ ہے کہ دنیا میں ہم پر عذاب نازل نہ کیا جائے جیسا کہ بنی اسرائیل پہ کیا گیا، اور یہ سب دعائیں حق تعالیٰ نے قبول فرمانے کا اظہار بھی رسول الّٰلہ ﷺ کے ذریعے کر دیا۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Wednesday 21 June 2017

سورہ البقرہ: ۲۸۵ تا ۲۸٦ - آٹھواں حصّہ

اس جملے کہ "انسان کو ثواب بھی اس کام کا ہوتا ہے جو ارادہ سے کرے اور عذاب بھی اس کام پر ہوتا ہے جو ارادہ سے کرے" سے مراد یہ ہے ابتداءً بلا واسطہ اس عمل کا ثواب یا عذاب ہو گا جو قصد و ارادے سے کرے۔ کسی ایسے عمل کا ثواب یا عذاب بالواسطہ ہو جانا جس کا اس نے ارادہ نہیں کیا اس کے منافی نہیں۔ اس سے اس شبہ کا جواب ہو گیا کہ بعض اوقات آدمی کو بلا قصد و ارادہ بھی ثواب یا عذاب ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن شریف کی دوسری آیات اور بہت سی روایاتِ حدیث سے ثابت ہے کہ جو آدمی کوئ ایسا نیک کام کرے جس سے دوسرے لوگوں کو بھی اس نیکی کی توفیق ہو جائے تو جب تک لوگ یہ نیک کام کرتے رہیں گے اس کا ثواب اس پہلے والے کو بھی ملتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کوئ طریقہ گناہ کا جاری کیا تو آئندہ جتنے لوگ اس گناہ میں مبتلا ہوں گے اس کا وبال اس شخص کو بھی پہنچے گا جس نے اوّل یہ برا طریقہ جاری کیا تھا۔ اسی طرح روایاتِ حدیث سے ثابت ہے کہ کوئ شخص اپنے عمل کا ثواب دوسرے آدمی کو دینا چاہے تو اس کو یہ ثواب پہنچتا ہے۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Tuesday 20 June 2017

سورہ البقرہ: ۲۸۵ تا ۲۸٦ - ساتواں حصّہ

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

اسی طرح وہ افعال جن کا تعلّق انسان کے باطن یعنی دل و ذہن کے ساتھ ہے ان کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک اختیاری جیسے کفر و شرک کا عقیدہ جس کو انسان نے سوچ سمجھ کر اپنے قصد و اختیار کے ساتھ اختیار کیا ہے، یا سوچ سمجھ کر اپنے آپ کو دوسرے انسانوں سے بڑا سمجھنا جس کو تکبّر کہا جاتا ہے، یا پختہ ارادہ کرنا کہ میں شراب پیوں گا۔ دوسرے غیر اختیاری، مثلاً بغیر قصد و ارادہ کے دل میں کسی برے خیال کا آجانا۔ ان میں بھی حساب کتاب و مواٴخذہ صرف اختیاری اعمال پر ہے، غیر اختیاری پر نہیں۔

اس تفسیر سے جو خود قرآن کریم نے بیان کردی صحابہٴ کرام رضی الّٰلہ عنہما کو اطمینان ہو گیا کہ غیر اختیاری وساوس و خیالات کا حساب و کتاب اور ان پر عذاب و ثواب نہ ہو گا۔ اس مضمون کو آخر میں اور زیادہ واضح کرنے کے لیے فرمایا ہے کہ "لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَعَلَيۡهَا مَا اكۡتَسَبَتۡ" یعنی "انسان کو ثواب بھی اس کام کا ہوتا ہے جو ارادے سے کرے اور عذاب بھی اس کام پر ہوتا ہے جو ارادے سے کرے۔"

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Monday 19 June 2017

سورہ البقرہ: ۲۸۵ تا ۲۸٦ - چھٹا حصّہ

دوسری آیت میں وہ شبہ دور کیا گیا ہے جو پچھلی آیت کے بعض جملوں سے پیدا ہو سکتا تھا، کہ غیر اختیاری طور پہ دل میں آنے والے ہر خیال پہ حساب  ہو تو عذاب سے کیسے بچیں گے۔ ارشاد فرمایا، "لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَهَا"، یعنی "الّٰلہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زائد کام کا حکم نہیں دیتے"، اس لیے غیر اختیاری طور پہ جو خیالات و وسوسے دل میں آ جائیں، اور پھر ان پہ کوئ عمل نہ ہو تو وہ سب الّٰلہ تعالیٰ کے نزدیک معاف ہیں، حساب اور موٴاخذہ صرف ان اعمال پر ہو گا جو اختیار اور ارادے سے کیے جائیں۔

اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ جس طرح انسان کے اعمال و افعال جو ہاتھ پیر، آنکھ اور زبان وغیرہ سے تعلّق رکھتے ہیں، جن کو اعمالِ ظاہرہ کہا جاتا ہے، ان کی دو قسمیں ہیں۔ ایک اختیاری یعنی جو اختیار اور ارادے سے کیے جائیں، جیسے ارادے سے کسی کی غیبت کرنا، ارادہ سے کسی کو مارنا۔ دوسرے غیر اختیاری، جو بلا ارادہ سرزد ہو جائیں، جیسے زبان سے کہنا کچھ چاہتا تھا لیکن نکل کچھ اور گیا، یا رعشہ سے بلا اختیار ہاتھ کی حرکت ہوئ اس سے کسی کو تکلیف پہنچ گئ، ان میں سب کو معلوم ہے کہ حساب و کتاب اور جزاء و سزاء صرف ان اعمال کے ساتھ مخصوص ہیں جو اپنے ارادے اور اختیاری نیّت کے ساتھ کیے جائیں۔ جو افعال انسان کے اختیار اور ارادے کے بغیر سرزد ہو جائیں نہ انسان ان کا مکلّف (جوابدہ) ہے اور نہ ان پہ ثواب یا عذاب ہوتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Sunday 18 June 2017

سورہ البقرہ: ۲۸۵ تا ۲۸٦ - پانچواں حصّہ

پہلی آیت میں اس ایمانِ مجمّل کی تفصیل بیان فرمائ گئ ہے جو آنحضرت ﷺ اور عام موٴمنین میں شریک ہے، کہ وہ ایمان ہے الّٰلہ تعالیٰ کے موجود اور ایک ہونے پر اور تمام صفات کاملہ کے ساتھ متّصف ہونے پر، اور فرشتوں کے موجود ہونے پر، اور الّٰلہ تعالیٰ کی کتابوں اور سب رسولوں کے سچّے ہونے پر۔

اس کے بعد اس کی وضاحت فرمائ گئ ہے کہ اس امّت کے موٴمنین پچھلی امّتیں کی طرح ایسا نہ کریں گے کہ الّٰلہ کے رسولوں میں باہمی تفرقہ ڈالیں کہ بعض کو نبی مانیں اور بعض کو نہ مانیں، جیسے یہود نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی مانا، مگر خاتم النبیاء ﷺ کو نبی نہ مانا۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

Saturday 17 June 2017

سورہ البقرہ: ۲۸۵ تا ۲۸٦ - چوتھا حصّہ

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

رسول کریم ﷺ کو اگر چہ آیت کی صحیح مراد معلوم تھی مگر الفاظ کے عموم کے پیشِ نظر آپ ؐ نے اپنی طرف سے کچھ کہنا پسند نہ فرمایا بلکہ وحی کا انتظار کیا، اور صحابہٴ کرام ؓ کو یہ تلقین فرمائ کہ الّٰلہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکم آئے خواہ آسان ہو یا دشوار، موٴمن کا کام یہ نہیں کہ اس کے ماننے میں ذرا بھی تامل کرے، تم کو چاہیے کہ الّٰلہ تعالیٰ کے تمام احکام سن کر یہ کہو کہ "سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَا‌ غُفۡرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيۡكَ الۡمَصِيۡرُ" یعنی "اے ہمارے پروردگار! ہم نے آپ کا حکم سنا اور اس کی اطاعت کی۔ اے ہمارے ہروردگار! اگر حکم کی تعمیل میں ہم سے کوئ کوتاہی یا غلطی ہوئ ہو تو اس کو معاف فرما دیجیے کیونکہ ہمارا سب کا آپ ہی کی طرف لوٹنا ہے"۔ 

صحابہٴ کرام ؓ نے آنحضرت ﷺ کے حکم کے مطابق ایسا ہی کیا اگر چہ ان کے ذہن میں یہ خیال کھٹک رہا تھا کہ بے اختیار دل میں آنے والے خیالات اور وساوس سے بچنا تو سخت دشوار ہے۔ اس پر الّٰلہ تعالیٰ نے سورہٴ بقرہ کی یہ آخری دو آیتیں نازل فرمائیں، جن میں سے پہلی آیت میں مسلمانوں کی تعریف، اور دوسری میں اس آیت کی اصلی تفسیر بتلائ گئ جس میں صحابہٴ کرام ؓ کو شبہ پیش آیا تھا۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Friday 16 June 2017

سورہ البقرہ: ۲۸۵ تا ۲۸٦ - تیسرا حصّہ

ان دو آیتوں میں سے پہلی آیت میں ان اطاعت شعار موٴمنین کی تعریف کی گئ ہے جنہوں نے الّٰلہ جلّ شانہ کے تمام احکام پر لبّیک کہا، اور حکم کی تعمیل کے لیے تیّار ہو گئے۔

 دوسری آیت میں ایک شبہ کا جواب دیا گیا ہے جو ان دو آیتوں سے پہلی آیت میں صحابہٴ کرام رضی الّٰلہ عنہما کو پیدا ہو گیا تھا، اور ساتھ ہی اپنے بےحساب فضل و رحمت کا ذکر فرمایا گیا۔ وہ شبہ یہ تھا کہ جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئ کہ وَاِنۡ تُبۡدُوۡا مَا فِىۡۤ اَنۡفُسِكُمۡ اَوۡ تُخۡفُوۡهُ يُحَاسِبۡكُمۡ بِهِ اللّٰهُ‌ؕ کہ "جو تمہارے دلوں میں ہے تم اس کو ظاہر کرو یا چھپاؤ ہر حال میں الّٰلہ تعالیٰ تم سے اس کا حساب لیں گے"، آیت کی اصل مراد تو یہ تھی کہ اپنے اختیار و ارادہ سے جو کوئ عمل اپنے دل میں کرو گے اس کا حساب ہو گا، غیر اختیاری وسوسہ اور بھول چوک اس میں داخل نہ تھی۔ لیکن الفاظِ قرآن بظاہر عام تھے، ان کے عموم سے یہ شبہ ہوا کہ انسان کے دل میں غیر اختیاری طور پر کوئ خیال آ جائے گا تو اس کا بھی حساب ہو گا۔ صحابہٴ کرام رضی الّٰلہ عنہما یہ سن کر گھبرا اٹھے، اور آنحضرت ﷺ سے عرض کی کہ یا رسول الّٰلہ ﷺ! اب تک تو ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہم جو کام اپنے ارادہ و اختیار سے کرتے ہیں، حساب ان ہی اعمال کا ہو گا، غیر اختیاری خیالات جو دل میں آ جاتے ہیں ان کا حساب نہ ہو گا۔ مگر اس آیت سے معلوم ہوا کہ دل میں آنے والے ہر خیال کا حساب ہو گا، اس میں تو عذاب سے نجات پانا سخت دشوار ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Wednesday 14 June 2017

سورہ البقرہ: ۲۸۵ تا ۲۸٦ - دوسرا حصّہ

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

یہ سورہٴ بقرہ کی آخری دو آیتیں ہیں۔ احادیث صحیحہ معتبرہ میں ان دو آیتوں کے بڑے بڑے فضائل مذکور ہیں۔ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے رات کو یہ دو آیتیں پڑھ لیں تو یہ اس کے لیے کافی ہیں۔

حضرت ابن عباس رضی الّٰلہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ الّٰلہ تعالیٰ نے دو آیتیں جنّت کے خزائن میں سے نازل فرمائ ہیں جس کو تمام مخلوق کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے خود رحمٰن نے اپنے ہاتھ سے لکھ دیا تھا۔ جو شخص ان کو عشاء کی نماز کے بعد پڑھ لے تو وہ اس کے لیے قیام الّلیل یعنی تہجّد کے قائم مقام ہو جاتی ہیں۔ 

مستدرک حاکم اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ الّٰلہ نے سورہٰ بقرہ کو ان دو آیتوں پر ختم فرمایا ہے جو مجھے اس خزانہٴخاص سے عطاء فرمائ ہیں جو عرش کے نیچے ہے۔ اس لیے تم خاص طور پر ان آیتوں کو سیکھو، اور اپنی عورتوں اور بچوں کو سکھاؤ۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Monday 12 June 2017

سورہ البقرہ: ۲۸۵ تا ۲۸٦ - پہلا حصّہ

اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡهِ مِنۡ رَّبِّهٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ‌ؕ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰٓٮِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ لَا نُفَرِّقُ بَيۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِهٖ‌ وَقَالُوۡا سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَا‌ غُفۡرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيۡكَ الۡمَصِيۡرُ‏ ﴿۲۸۵﴾ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَهَا ‌ؕ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَعَلَيۡهَا مَا اكۡتَسَبَتۡ‌ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِيۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ‌ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَيۡنَاۤ اِصۡرًا كَمَا حَمَلۡتَهٗ عَلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ‌‌ۚرَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ‌ ۚ وَاعۡفُ عَنَّا وَاغۡفِرۡ لَنَا وَارۡحَمۡنَا اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَى الۡقَوۡمِ الۡكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿۲۸۶﴾

یہ رسول (یعنی حضرت محمد ﷺ) اس چیز پر ایمان لائے ہیں جو ان کی طرف ان کے ربّ کی طرف سے نازل کی گئ ہے، اور (ان کے ساتھ) تمام مسلمان بھی۔ یہ سب الّٰلہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں۔ (وہ کہتے ہیں کہ) وہ اس کے رسولوں کے درمیان کوئ تفریق نہیں کرتے (کہ کسی پر ایمان لائیں، کسی پر نہ لائیں) اور وہ یہ کہتے ہیں کہ: "ہم نے (الّٰلہ اور رسول کے احکام کو توجّہ سے) سن لیا ہے، اور ہم خوشی سے (ان کی) تعمیل کرتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار! ہم آپ کی مغفرت کے طلب گار ہیں۔ اور آپ ہی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔" (۲۸۵) الّٰلہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمّہ داری نہیں سونپتا۔ اس کو فائدہ بھی اسی کام سے ہوگا جو وہ اپنے ارادے سے کرے، اور نقصان بھی اسی کام سے ہو گا جو اپنے ارادے سے کرے۔ (مسلمانو! الّٰلہ سے یہ دعا کیا کرو کہ:) "اے ہمارے پروردگار! ہم پر اس طرح کا بوجھ نہ ڈالیے جیسا آپ نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اور اے ہمارے پروردگار! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیے جسے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو۔ اور ہماری خطاہوں سے درگذر فرمائیے، ہمیں بخش دیجئے، اور ہم پر رحم فرمائیے۔ آپ ہی ہمارے حامی و ناصر ہیں، اس لیے کافر لوگوں کے مقابلے میں ہمیں نصرت عطا فرمائیے۔ (۲۸٦)

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Sunday 11 June 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٨٤ - ساتواں اور آخری حصّہ

یہ آیت سورہٴ بقرہ کے بالکل آخر میں لائ گئ، اس میں بڑی حکمت ہے۔ سورہٴ بقرہ قرآن کریم کی ایسی بڑی اور عظیم سورت ہے کہ اس میں احکامِ الٰہیہ کا بہت بڑا حصّہ آ گیا ہے۔ اس سورت میں اصولی اور فروعی معاش و معاد کے متعلّق اہم ہدایات، نماز، زکوٰة، روزہ، قصاص، حج، جہاد، طہارت، طلاق، عدّت، خلع، رضاعت، حرمتِ شراب، ربا اور قرض، لین دین کے جائز و ناجائز طریقوں کا تفصیلی بیان آ گیا ہے۔ اسی لیے حدیث میں اس سورت کا نام "سنام القرآن" بھی آیا ہے یعنی قرآن کا سب سے بلند حصّہ۔ 

اوپر جتنے بھی احکام آئے ہیں ان تمام احکام کی روح اخلاص ہے، یعنی کسی کام کو کرنا یا اس کو چھوڑ دینا دونوں خالص الّٰلہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہوں، ان میں نام و نمود یا دوسری نفسانی اغراض شامل نہ ہوں۔ یہ ظاہر ہے کہ اخلاص کا تعلّق انسان کے باطن اور قلب سے ہے، سب کی درستی اسی پر موقوف ہے، اس لیے سورت کے آخر میں اس آیت کے ذریعے انسان کو تنبیہ کر دی گئ کہ فرائض کی ادائیگی یا محرمات سے بچنے کے معاملے میں انسان لوگوں کو تو دھوکہ دے سکتا ہے لیکن الّٰلہ تعالی علیم و خبیر ہے۔ وہ ان تمام کاموں سے بھی واقف ہے جو انسان سب سے چھپ کر تنہائی میں کرتا ہے اور انسان کے دل میں چھپے ہوئے رازوں اور خیالات سے بھی باخبر ہے۔ اس لیے انسان جو کچھ بھی کرے یہ سوچ کر کرے کہ الّٰلہ تعالیٰ میرے سب حالات اور اعمال سے واقف ہیں اور سب دیکھ رہے ہیں، اور مجھے ان سب اعمال کا حساب قیامت کے روز دینا ہے۔ یہی وہ روح ہے جو قرآن کریم انسان کے دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب یہ پیدا ہو جائے تو انسان رات کے اندھیرے اور مکمل تنہائ میں بھی الّٰلہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے سے رکنے لگتا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

Saturday 10 June 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٨٤ - چھٹا حصّہ

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

تفسیرِ مظہری میں ہے کہ انسان پر جو اعمال الّٰلہ تعالیٰ کی طرف سے فرض کیے گئے ہیں یا حرام قرار دیے گئے ہیں وہ دو طرح کے ہیں۔ ان میں سے کچھ اعمال تو ایسے ہیں جن کو انسان اپنے بدن سے انجام دیتا ہے مثلاً نماز پڑھنا، زکوٰة دینا یا حج ادا کرنا۔ اسی طرح بہت سے ایسے کام جن سے منع کیا گیا ہے وہ بھی ظاہری اعضاء سے انجام دیے جاتے ہیں مثلاً جھوٹ بولنا، رشوت لینا، کسی کو تکلیف پہنچانا۔ دوسری قسم کے اعمال وہ ہیں جو بالکل اسی طرح فرض ہیں جیسے نماز پڑھنا یا روزہ رکھنا لیکن وہ دل سے اور باطن سے انجام دیے جاتے ہیں مثلاً الّٰلہ تعالیٰ پہ اور جن چیزوں پہ الّٰلہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان سب پہ ایمان لانا، تواضع اختیار کرنا، صبر کرنے کے مواقع پہ صبر کرنا وغیرہ۔ اسی طرح بہت سے گناہ ایسے ہیں جن کو حرام قرار دیا گیا ہے لیکن وہ جسم کا نہیں دل کا اور باطن کا فعل ہیں مثلاً کفر و شرک کرنا، تکبّر کرنا، حسد کرنا، دل میں بغض رکھنا، وغیرہ۔ 

اس آیت میں ہدایت کی گئ ہے کہ جس طرح قیامت میں اعمالِ ظاہرہ کا حساب لیا جائے گا، بالکل اسی طرح اعمالِ باطنہ کا بھی حساب لیا جائے گا اور اگر اس میں کوتاہی ہو گی تو اس پہ بھی مواخذہ ہو گا۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Friday 9 June 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٨٤ - پانچواں حصّہ

چونکہ اس آیت کے ظاہری الفاظ میں دونوں قسم کے خیالات داخل ہیں خواہ اختیاری ہوں یا غیر اختیاری، اس لیے جب یہ آیت نازل ہوئ تو صحابہٴ کرام رضی الّٰلہ عنہما کو کو سخت پریشانی لاحق ہوئ کہ اگر غیر اختیاری خیالات و وسوسوں پر بھی مواخذہ ہونے لگا تو کون نجات پائے گا۔ صحابہٴ کرامؓ نے اس پریشانی کو رسول الّٰلہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تو آپؐ نے سب کو تلقین فرمائ کہ جو کچھ حکمِ ربّانی نازل ہوا اس کی تعمیل و اطاعت کا پختہ قصد کرو اور کہو "سمعنا و اطعنا" یعنی "ہم نے حکم سن لیا اور تعمیل کی"۔ صحابہٴ کرام ؓ نے اس کے مطابق کیا اور اس پر یہ جملہ قرآن کا نازل ہوا "لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَهَا" یعنی "الّٰلہ تعالیٰ کسی بھی شخص کو اس کی قدرت سے زیادہ ذمّہ داری نہیں سونپتا"۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ جو خیالات اور وسوسے انسان کے اختیار کے بغیر یا خلاف آئیں اور جن میں اس کا نیّت اور ارادہ شامل نہ ہو، ان پر مواخذہ نہیں ہو گا۔ اس پر صحابہٴ کرام ؓ کا اطمینان  ہو گیا۔ (یہ حدیث صحیح مسلم میں بروایتِ ابن عبّاس ؓ نقل کی گئ ہے۔)

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Thursday 8 June 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٨٤ - چوتھا حصّہ

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

دوسرے حضرات علماٴ نے اس شبہ کا جواب یہ دیا ہے کہ جس حدیث میں دل کی چھپی ہوئ چیزوں کی معافی مذکور ہے اس سے مراد وہ وسوسے (وہم) اور غیر اختیاری خیالات ہیں جو انسان کے دل میں بغیر قصد اور ارادے کے آ جاتے ہیں، بلکہ ان کے خلاف کا ارادہ کرنے پہ بھی وہ آتے رہتے ہیں۔ ایسے غیر اختیاری خیالات اور وسوسوں کو اس امّت کے لیے حق تعالیٰ نے معاف کر دیا ہے۔ آیتِ مذکور میں جس محاسبہ کا ذکر ہے اس سے مراد وہ ارادے اور نیّتیں ہیں جن میں انسان کسی کام کے کرنے کا پورا ارادہ اور نیّت کرلیتا ہے، لیکن کسی عذر کے پیش آ جانے سے کر نہیں سکتا، قیامت کے دن ان کا محاسبہ ہو گا۔ پھر الّٰلہ تعالی جس کو چاہیں اپنے فضل و کرم سے بخش دیں، اور جس کو چاہیں عذاب دیں، جیسا کہ ابھی حدیث میں گذرا۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Wednesday 7 June 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٨٤ - تیسرا حصّہ

یہاں یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ حدیث میں رسول الّٰلہ ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ :

"الّٰلہ تعالیٰ نے میری امّت کو معاف کر دیا ہے وہ جو ان کے دل میں خیال آیا، جب تک اس کو زبان سے نہ کہا یا عمل نہ کیا ہو۔" (قرطبی)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دل کے ارادے پر کوئ عذاب و عتاب نہیں ہے۔ امام قرطبی ؒ نے فرمایا کہ یہ حدیث احکامِ دنیا کے متعلّق ہے، مثلاً طلاق، بیع (خرید و فروخت)، ہبہ (تحفہ) وغیرہ محض دل میں ارادہ کر لینے سے منعقد نہیں ہو جاتے جب تک ان کو زبان سے یا عمل سے نہ کیا جائے۔ اور اس آیت میں جو حکم ہے وہ احکامِ آخرت سے متعلّق ہے اس لیے دونوں میں کوئ اختلاف نہیں۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

Tuesday 6 June 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٨٤ - دوسرا حصّہ

ایک اور حدیث میں ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ قیامت کے روز فرمائے گا کہ یہ وہ دن ہے جس میں پوشیدہ اعمال کا جائزہ لیا جائے گا، اور دلوں کے پوشیدہ راز کھولے جائیں گے، اور یہ کہ میرے کاتبِ اعمال فرشتوں نے تو تمہارے صرف وہ اعمال لکھے ہیں جو ظاہر تھے، اور میں ان چیزوں کو بھی جانتا ہوں جن پر فرشتوں کو اطّلاع نہیں، اور نہ انہوں نے وہ چیزیں تمہارے نامہٴ اعمال میں لکھی ہیں، اور اب وہ سب تمہیں بتلاتا ہوں، اور ان پر محاسبہ کرتا ہوں، پھر جس کو چاہوں گا بخش دوں گا اور جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا، پھر موٴمنین کو معاف کر دیا جائے گا اور کفّار کو عذاب دیا جائے گا۔ (قرطبی)

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Monday 5 June 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٨٤ - پہلا حصّہ

لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ وَاِنۡ تُبۡدُوۡا مَا فِىۡۤ اَنۡفُسِكُمۡ اَوۡ تُخۡفُوۡهُ يُحَاسِبۡكُمۡ بِهِ اللّٰهُ‌ؕ فَيَـغۡفِرُ لِمَنۡ يَّشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ۔

"جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب الّٰلہ ہی کا ہے۔ اور جو باتیں تمہارے دلوں میں ہیں، خواہ تم ان کو ظاہر کرو یا چھپاؤ، الّٰلہ تم سے ان کا حساب لے گا۔ پھر جس کو چاہے گا معاف کر دے گا اور جس کو چاہے گا سزا دے گا۔ اور الّٰلہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔"

اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ الّٰلہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے تمام اعمال کا محاسبہ فرمائیں گے، وہ عمل بھی جس کو وہ کر گذرے ہیں، اور وہ بھی جن کا دل سے پختہ ارادہ کر لیا، اور اس کو دل میں چھپا کر رکھا، مگر عمل کی نوبت نہیں آئ۔ صحیح بخاری و مسلم میں بروایتِ حضرت ابن عمر ؓ منقول ہے کہ میں نے رسول الّٰلہ ﷺ سے سنا ہے کہ مومن قیامت کے روز اپنے رب عزو جل و علیٰ سے قریب کیا جائے گا یہاں تک کہ حق تعالیٰ اس کے ایک ایک گناہ کو یاد دلائیں گے، اور سوال کریں گے کہ تو جانتا ہے کہ تو نے یہ گناہ کیا تھا۔ بندہ موٴمن اقرار کرے گا۔ حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں نے دنیا میں بھی تیری پردہ پوشی کی اور تیرا گناہ لوگوں میں ظاہر نہیں ہونے دیا اور میں آج اس کو معاف کرتا ہوں، اور حسنات کااعمالنامہ اس کو دے دیا جائے گا، لیکن کفّار اور منافقین کے گناہوں کو مجمعِ عام میں بیان کیا جائے گا۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Sunday 4 June 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۸۲ - دوسرا حصّہ

اِذَا تَدَايَنۡتُمۡ بِدَيۡنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكۡتُبُوۡهُ۔ 

اس آیت میں پہلا اصول تو یہ بتلایا گیا کہ انسان جب ادھار کی بنیاد پہ کوئ معاملہ کرے تو اس کی دستاویز لکھ لینی چاہیے تا کہ اگر تفصیلات بعد میں یاد نہ رہیں یا آپس میں اختلاف ہو تو وہ دستاویز کام آئے۔

دوسرا مسئلیہ یہ بیان فرمایا گیا کہ جب ادھار کا معاملہ کیا جائے تو اس کی میعاد ضرور مقرّر کی جائے، غیر معیّن مدّت کے لیے ادھار دینا لینا جائز نہیں کیونکہ اس سے جھگڑے فساد کا دروازہ کھلتا ہے۔ فقہاء نے فرمایا کہ میعاد بھی ایسی مقرّر ہونا چاہیے جس میں کوئ ابہام نہ ہو، مہینہ اور تاریخ کے ساتھ متعیّن کی جائے۔ کوئ مبہم میعاد نہیں رکھی چاہیے مثلاً یہ کہ جیسا فصل کٹنے کا وقت کیونکہ وہ موسم کی تبدیلی سے آگے پیچھے ہو سکتا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Saturday 3 June 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۸۲ - پہلا حصّہ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَدَايَنۡتُمۡ بِدَيۡنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكۡتُبُوۡهُ ‌ؕ وَلۡيَكۡتُب بَّيۡنَكُمۡ كَاتِبٌۢ بِالۡعَدۡلِ‌ وَلَا يَاۡبَ كَاتِبٌ اَنۡ يَّكۡتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ‌ فَلۡيَكۡتُبۡ ‌ۚوَلۡيُمۡلِلِ الَّذِىۡ عَلَيۡهِ الۡحَـقُّ وَلۡيَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَلَا يَبۡخَسۡ مِنۡهُ شَيۡـــًٔا ‌ؕ فَاِنۡ كَانَ الَّذِىۡ عَلَيۡهِ الۡحَـقُّ سَفِيۡهًا اَوۡ ضَعِيۡفًا اَوۡ لَا يَسۡتَطِيۡعُ اَنۡ يُّمِلَّ هُوَ فَلۡيُمۡلِلۡ وَلِيُّهٗ بِالۡعَدۡلِ‌ؕ وَاسۡتَشۡهِدُوۡا شَهِيۡدَيۡنِ مِنۡ رِّجَالِكُمۡ‌ۚ فَاِنۡ لَّمۡ يَكُوۡنَا رَجُلَيۡنِ فَرَجُلٌ وَّامۡرَاَتٰنِ مِمَّنۡ تَرۡضَوۡنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنۡ تَضِلَّ اِحۡدٰٮهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحۡدٰٮهُمَا الۡاُخۡرٰى‌ؕ وَ لَا يَاۡبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوۡا ‌ؕ وَلَا تَسۡـــَٔمُوۡۤا اَنۡ تَكۡتُبُوۡهُ صَغِيۡرًا اَوۡ كَبِيۡرًا اِلٰٓى اَجَلِهٖ‌ؕ ذٰ لِكُمۡ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰهِ وَاَقۡوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَاَدۡنٰۤى اَلَّا تَرۡتَابُوۡٓا اِلَّاۤ اَنۡ تَكُوۡنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيۡرُوۡنَهَا بَيۡنَكُمۡ فَلَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ اَلَّا تَكۡتُبُوۡهَا ‌ؕ وَاَشۡهِدُوۡۤا اِذَا تَبَايَعۡتُمۡ وَلَا يُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّلَا شَهِيۡدٌ  ؕ وَاِنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاِنَّهٗ فُسُوۡقٌ ۢ بِكُمۡ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ‌ ؕ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ‌ ؕ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ۔

"اے ایمان والو! جب تم کسی معین میعاد کے لیے ادھار کا کوئ معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تم میں سے جو شخص لکھنا جانتا ہو انصاف کے ساتھ تحریر لکھے، اور جو شخص لکھنا جانتا ہو، لکھنے سے انکار نہ کرے۔ جب الّٰلہ نے اسے یہ علم دیا ہے تو اسے لکھنا چاہیے۔ اور تحریر وہ شخص لکھوائے جس کے ذمّے حق واجب ہو رہا ہو، اور اسے چاہیے کہ وہ الّٰلہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس (حق) میں کوئ کمی نہ کرے۔ ہاں اگر وہ شخص جس کے ذمّے حق واجب ہو رہا ہو نا سمجھ یا کمزور ہو (یا کسی اور وجہ سے) تحریر نہ لکھوا سکتا ہو تو اس کا سرپرست انصاف کے ساتھ لکھوائے۔ اور اپنے میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، ہاں اگر دو مرد موجود نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ان گواہوں میں سے ہو جائیں جنہیں تم پسند کرتے ہو، تا کہ ان دو عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ اور جب گواہوں کو (گواہی دینے کے لیے) بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں۔ اور جو معاملہ اپنی میعاد سے وابستہ ہو، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اسے لکھنے سے اکتاؤ نہیں۔ یہ بات الّٰلہ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف اور گواہی کو درست رکھنے کا بہتر ذریعہ ہے، اور اس بات کی قریبی ضمانت ہے کہ تم آئندہ شک میں نہیں پڑو گے۔ ہاں اگر تمہارے درمیان کوئ نقد لین دین کا سودا ہو تو اس کو نہ لکھنے میں تمہارے لیے کچھ حرج نہیں ہے۔ اور جب خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو۔ اور نہ لکھنے والے کو کوئ تکلیف پہنچائ جائے، نہ گواہ کو۔ اور اگر ایسا کرو گے تو یہ تمہاری طرف سے نافرمانی ہو گی۔ اور الّٰلہ کا خوف دل میں رکھو۔ الّٰلہ تمہیں تعلیم دیتا ہے، اور الّٰلہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔"

Thursday 1 June 2017

سود کے بارے میں رسول الّٰلہ ﷺ کے ارشادات - تیسرا حصّہ

- رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی بستی میں بدکاری اور سود کا کاروبار پھیل جائے تو اس نے نے الّلہ تعالیٰ کے عذاب کو اپنے اوپر دعوت دے دی۔ 

- رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی قوم میں سود کے لین دین کا رواج ہو جائے تو الّٰلہ تعالیٰ ان پر ضروریات کی گرانی مسلّط کر دیتا ہے، اور جب کسی قوم میں رشوت عام ہو جائے تو دشمنوں کا رعب و غلبہ ان پر ہو جاتا ہے۔

- رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ شبِ معراج میں جب ہم ساتویں آسمان پر پہنچے تو میں نے اپنے اوپر رعد و برق کو دیکھا۔ اس کے بعد ہم ایک ایسی قوم پر گذرے جن کے پیٹ رہائشی مکانات کی طرح پھولے اور پھیلے ہوئے ہیں، جن میں سانپ بھرے ہیں جو باہر سے نظر آ رہے ہیں۔ میں نے جبرئیل امین سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ سود خور ہیں۔

- رسول الّٰلہ ﷺ نے عوف بن مالک ؓ سے فرمایا کہ ان گناہوں سے بچو جو معاف نہیں کیے جاتے، ان میں سے ایک مالِ غنیمت کی چوری ہے، اور دوسرے سود کھانا۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ