Friday 16 June 2017

سورہ البقرہ: ۲۸۵ تا ۲۸٦ - تیسرا حصّہ

ان دو آیتوں میں سے پہلی آیت میں ان اطاعت شعار موٴمنین کی تعریف کی گئ ہے جنہوں نے الّٰلہ جلّ شانہ کے تمام احکام پر لبّیک کہا، اور حکم کی تعمیل کے لیے تیّار ہو گئے۔

 دوسری آیت میں ایک شبہ کا جواب دیا گیا ہے جو ان دو آیتوں سے پہلی آیت میں صحابہٴ کرام رضی الّٰلہ عنہما کو پیدا ہو گیا تھا، اور ساتھ ہی اپنے بےحساب فضل و رحمت کا ذکر فرمایا گیا۔ وہ شبہ یہ تھا کہ جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئ کہ وَاِنۡ تُبۡدُوۡا مَا فِىۡۤ اَنۡفُسِكُمۡ اَوۡ تُخۡفُوۡهُ يُحَاسِبۡكُمۡ بِهِ اللّٰهُ‌ؕ کہ "جو تمہارے دلوں میں ہے تم اس کو ظاہر کرو یا چھپاؤ ہر حال میں الّٰلہ تعالیٰ تم سے اس کا حساب لیں گے"، آیت کی اصل مراد تو یہ تھی کہ اپنے اختیار و ارادہ سے جو کوئ عمل اپنے دل میں کرو گے اس کا حساب ہو گا، غیر اختیاری وسوسہ اور بھول چوک اس میں داخل نہ تھی۔ لیکن الفاظِ قرآن بظاہر عام تھے، ان کے عموم سے یہ شبہ ہوا کہ انسان کے دل میں غیر اختیاری طور پر کوئ خیال آ جائے گا تو اس کا بھی حساب ہو گا۔ صحابہٴ کرام رضی الّٰلہ عنہما یہ سن کر گھبرا اٹھے، اور آنحضرت ﷺ سے عرض کی کہ یا رسول الّٰلہ ﷺ! اب تک تو ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہم جو کام اپنے ارادہ و اختیار سے کرتے ہیں، حساب ان ہی اعمال کا ہو گا، غیر اختیاری خیالات جو دل میں آ جاتے ہیں ان کا حساب نہ ہو گا۔ مگر اس آیت سے معلوم ہوا کہ دل میں آنے والے ہر خیال کا حساب ہو گا، اس میں تو عذاب سے نجات پانا سخت دشوار ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

No comments:

Post a Comment