Sunday 30 July 2017

تبلیغ و دعوت کے اصول۔ پانچواں حصّہ

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرضِ عین ہے


سورہٴ آلِ عمران: ۲۹ تا ۳۰


اجتہاد کیا ہے؟ چھٹا حصّہ

اس شبہے کے دو جواب ہیں، ایک علمی اور ایک عملی۔ 

اس کا علمی جواب ایک دفعہ حضرت مفتی شفیعؒ نے بیان فرمایا کہ اخلاق و کردار کی بعض صفات ایسی ہیں کہ الّٰلہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں قوموں کی ترقّی اور عزّت کے ساتھ مشروط فرما دیا ہے۔ وہ صفات ہیں سچ بولنا، کبھی جھوٹ نہ بولنا، دیانتداری، معاشرے میں انصاف کا ہونا اور نا انصافی اور ظلم کا نہ ہونا۔ جس قوم میں بھی یہ صفات ہوں گی، چاہے وہ صاحبِ ایمان ہو یا نہ ہو، الّٰلہ تعالیٰ اسے اس دنیا میں عزت، سربلندی اور ترقی عطا فرمائیں گے۔ اس کے برعکس کچھ اخلاقی صفات ایسی ہیں کہ الّٰلہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں ذلّت اور خواری کے ساتھ مشروط فرما دیا ہے۔ وہ صفات ہیں جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، چوری کرنا، معاشرے میں ظلم کا عام ہو جانا۔ یہ صفات جس معاشرے میں بھی عام ہو جائیں گی، وہ اس دنیا میں ذلیل و خوار ہو گی اور اس کی کوئ عزّت نہیں ہو گی، چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ہو۔ 

آج کی اس دنیا میں، بالکل تاریخ کے کسی دور میں بھی، کسی قوم کے عروج و زوال کو سمجھنے کے لیے صرف یہ دیکھ لینا کافی ہے اس میں اوپر بیان کی گئ صفات میں سے کون سی صفات موجود ہیں۔ انصاف اور دیانتداری والے معاشرے دنیا میں عزت پاتے ہیں اور ظلم اور فریب جن معاشروں میں عام ہو جاتا ہے وہ دنیا میں ذلیل ہوتے ہیں۔ اور جو معاشرے کبھی دنیا میں عزت والے تھے جب ان میں ظلم اور جھوٹ بولنا بڑھ جاتا ہے تو وہ زوال کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ہم مسلمان لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید الّٰلہ تعالیٰ کا ہم سے کوئ ایسا مقصد اٹکا ہوا ہے جو معاذ الّٰلہ ہمارے بغیر پورا نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ قرآن کریم میں الّٰلہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ اگر تم ہماری نافرمانی کرو گے تو ہم تمہیں ختم کر دیں گے اور تمہاری جگہ ایسی قوم لے آئیں گے جو ہماری فرماں بردار ہو گی۔ الّٰلہ تعالیٰ ہم آج کے مسلمانوں کو ان آیات کی مثال بننے سے بچائے۔ آمین

جاری ہے۔۔۔

اجتہاد کیا ہے؟ پانچواں حصّہ

بات اجتہاد کے موضوع سے تھوڑی ہٹتی جا رہی ہے لیکن یہاں بہت سے مسلمانوں کو ایک شبہ ہوتا ہے جس کا دور ہونا ضروری ہے۔ پچھلی پوسٹ میں غیر مسلموں سے مرعوب اور متاثّر ہونے کی بات ہوئ تھی۔ آج کے دور میں، خاص طور سے مغربی ممالک میں رہنے والے، بہت سے مسلمان کہتے ہیں کہ ہم غیر مسلموں سے مرعوب کیوں اور کیسے نہ ہوں۔ آج جس طرف دیکھو مسلمان مغلوب اور تباہ حال ہیں۔ مسلمان ملکوں کا یہ حال ہے کہ جو مسلمان اپنے ملک کے حالات سے تنگ کر ملک چھوڑنے کا ارادہ کرتے ہیں ان میں سے بیشتر کسی مسلمان ملک میں جا کر آباد ہونے کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے، اور نہ ہی وہ مسلمان ملک کسی دوسرے ملک کے مسلمان کو مستقلاً آباد کرنے کے لیے تیّار ہیں۔ اس کے علاوہ اخلاقی اقدار کا بھی حال دیکھیں تو چوری، دھوکہ دہی، رشوت، جھوٹ بولنا، یہ سب مسلمان ملکوں میں مغربی ممالک سے کہیں زیادہ نظر آتے ہیں، بلکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی دیکھیں تو مسلمانوں میں یہ خرابیاں انہی ملکوں کے مقامی باشندوں سے زیادہ نظر آتی ہیں۔ ایسے میں مسلمان غیر مسلموں سے مرعوب نہ ہوں تو کیوں نہ ہوں؟

جاری ہے۔۔۔

اجتہاد کیا ہے؟ چوتھا حصّہ


بعض لوگ اس طرح کے کام کرنے والوں سے غصّہ اور ناراض ہو جاتے ہیں، انہیں برا بھلا کہنے لگتے ہیں، ان پر تشدّد کرنے لگتے ہیں، حالانکہ یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ لوگ ایسے کام کیوں کرتے ہیں۔ اگر انسان یہ سمجھ جائے تو اسے ان لوگوں پہ ترس آئے، رحم آئے، ان سے ہمدردی ہو، غصّہ نہ آئے۔
اگر ایک انسان جو ایک کلچر، ایک مذہب میں پیدا ہوا ہو، اسے دوسرے کلچر یا مذہب والے بہت زیادہ اچھے لگنے لگیں، وہ ان سے بہت متّاثر اور مرعوب ہو جائے، اپنے کلچر یا مذہب کو کمتر سمجھنے لگے، تو پھر وہ ایک شدید اندرونی کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے اور ڈھونڈتا ہے کہ میں ایسا کیا کروں کہ وہ دوسرے لوگ مجھے اپنوں میں سے سمجھنے لگیں، میں ان کے قریب ہو جاؤں۔ اپنی جلد کی رنگت، اپنی شکل و صورت، اور ایک خاص عمر کے بعد اپنا لہجہ، تو کوئ انسان بدل نہیں سکتا۔ البتّہ انسان اپنا بیہیویئر (behaviour) یعنی اعمال و حرکات ضرور بدل سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں لوگ اپنا حلیہ بدل لیتے ہیں، زبان بدل لیتے ہیں، اپنا مذہب بدل لیتے ہیں، یا دوسرا مذہب اختیار نہیں بھی کرتے تو اپنے مذہب کو چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ بعض لوگ اس حد تک نہیں جانا چاہتے تو وہ ڈھونڈتے ہیں کہ میں اپنے مذہب میں رہتے ہوئے ایسا کیا کروں کہ یہ دوسرے گروپ والے سمجھ جائیں کہ میں اپنے مذہب یا کلچر والوں سے الگ ہوں اور ان کی طرح ہوں، باطنی طور پہ ان ہی میں سے ہوں۔ پھر وہ اپنے مذہب میں اسی طرح کی تحریفات کرنے لگتے ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔ وہ اپنے آپ کو یہ تسلّی دیتے ہیں کہ میں اپنے دین کے اندر بہتری لا رہا ہوں، اس میں ریفارم کر رہا ہوں، لیکن حقیقتاً یہ ان کے اندر کا احساسِ کمتری ہوتا ہے جو انہیں یہ سب کرنے پر مجبور کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں پہ غصّہ نہیں کرنا چاہیے، ان کے لیے دعا کرنا چاہیے تا کہ الّٰلہ تعالیٰ ان کو اندر کی تکلیف اور کشمکش سے نجات عطا فرمائیں اور ان کو صراطِ مستقیم عطا فرمائیں۔ آمین
جاری ہے۔۔۔

اجتہاد کیا ہے؟ تیسرا حصّہ


اس معاملے میں اجتہاد کی گنجائش تو اس وقت ہوتی جب آج سے پہلے جماعت سے نماز کبھی پڑھی ہی نہ گئ ہوتی، یا پچھلے زمانے میں مردوں یا عورتوں کا وجود ہی نہ ہوتا، تو کہا جا سکتا کہ آج ایسے حالات ہیں جو آج سے پہلے کبھی پیش ہی نہیں آئے اس لیے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ یہ الگ سوال ہے جس کی تفصیل آگے آئے گی کہ اجتہاد کرنے کا حق کس کو حاصل ہے اور اجتہاد کس کا معتبر ہے، لیکن ایسی عبادت کے لیے جو ڈیڑھ ہزار سال سے انجام دی جا رہی ہے اور جس کے تفصیلی احکامات موجود ہیں اس میں اجتہاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اگر کچھ لوگ اپنا عبادت کا نیا طریقہ نکالنا چاہتے ہیں، اور یا کسی نئے طریقے سے عبادت کرنا چاہتے ہیں، تو اس دنیا کی حد تک کون کسی کو ایسا کرنے سے روک سکتا ہے۔ ہر ایک کو پورا اختیار ہے کہ وہ جیسے اس کی مرضی چاہے عبادت کرے، جس کی چاہے عبادت کرے۔ البتّہ یہ ذرا زیادتی ہے کہ لوگ عبادت میں ایسے طریقے بھی اختیار کریں جو اسلام کی تاریخ میں کبھی دیکھنے، سننے میں نہیں آئے، جو نہ الّٰلہ تعالیٰ نے سکھائے اور نہ رسول الّٰلہ ﷺ نے ان کی تعلیم دی، اور پھر یہ بھی اصرار کریں کہ یہ عین اسلام ہے۔ اگر وہ ان نئے طریقوں کے ساتھ اس عبادت کا کوئ اچھا سا نیا نام بھی رکھ لیتے تو کسی کو بھی اعتراض نہ ہوتا۔ اسلام تو اسی دین کو کہتے ہیں جس کی بنیاد قرآن کریم کی تعلیمات اور رسول الّٰلہ ﷺ کی سنّت ہیں۔ جو عبادات نہ الّٰلہ تعالیٰ کے احکام سے ثابت ہوں اور نہ رسول الّٰلہ تعالیٰ کی سنّت سے انہیں اسلام کا حصّہ کیسے مانا جا سکتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔

اجتہاد کیا ہے؟ دوسرا حصّہ



اجتہاد کیا ہے؟ دوسرا حصّہ

یہاں پہ میں اس مثال کا ذکر کرنا چاہوں گا جو میرے عزیز نے دی تھی کہ آج کل بعض مغربی ممالک میں بعض جگہ یہ نیا رواج شروع ہوا ہے کہ کہیں کہیں مرد اور عورتیں مل کر یعنی ایک ہی کمرے میں شانہ بہ شانہ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہیں، یا کسی جگہ عورت مردوں اور عورتوں کی مشترکہ جماعت کی امامت کرتی ہے۔ اس سوال کا عالمانہ جواب تو علماء ہی دے سکتے ہیں کہ ایسا کرنا شریعت کے اصولوں کی رو سے صحیح ہے کہ نہیں، اور اگر غلط ہے تو کیوں غلط ہے۔ ایک بات البتّہ ہم جیسے جاہل اور عامی کے ذہن میں بھی آتی ہے، وہ یہ کہ اسلام کو نازل آئے ہوئے الحمدالّٰلہ تقریباً ڈیڑھ ہزار سال ہو گئے۔ اس میں رسول الّٰلہ ﷺ کی نبوت کا تئیس سالہ زمانہ گزرا۔ اس کے بعد وہ تین زمانے گزرے جن کے بارے میں رسول الّٰلہ ﷺ نے خود بشارت فرمائ کہ دین تین زمانوں تک اپنی صحیح حالت میں رہے گا، میرے اصحاب کے زمانے میں، ان کو دیکھنے والوں کے زمانے میں (یعنی تابعین)، اور ان کے دیکھنے والوں کے زمانے میں (یعنی تبع تابعین)۔ اس کے بعد مزید تقریباً ایک ہزار سال گزر گئے جس میں بہت بڑے اور عظیم عالم اور صوفی گزرے۔اگر اس طویل عرصے میں کوئ عبادت کبھی ایک دفعہ بھی اس طرح سے ادا نہیں کی گئ جس طرح سے آج ہم ادا کر رہے ہیں تو ہمیں یہ سوچنا تو چاہیے کہ ہم کیا دعویٰ کر رہے ہیں۔ کیا ہم یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس تمام عرصے میں عبادت کا یہ صحیح طریقہ کسی صحابی، کسی عالم، کسی بزرگ کے خیال میں بھی نہیں آیا جو آج ہمارے خیال میں آیا ہے۔ کیا ہمارا دین کا فہم (معاذالّٰلہ) رسول الّٰلہ ﷺ، اصحابِ ﷺ، تابعین اور تبع تابعین سے بھی زیادہ ہے کہ آج ہم عبادت کے وہ طریقے اختیار کر رہے ہیں جو ان کے زمانے میں کبھی اختیار نہیں کیے گئے؟


جاری ہے۔۔۔

اجتہاد کیا ہے؟ پہلا حصّہ

ابھی چند دن پہلے ایک قریبی عزیز نے اس کا تذکرہ کیا کہ آج کل خصوصاً مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمان عبادات میں ایسے طریقے اختیار کرنے لگے ہیں جن کا اسلام میں پہلے کبھی رواج نہیں رہا۔ اس کو بعض لوگ اجتہاد سے تعبیر کرتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ جب پہلے زمانے کے مسلمانوں کو اجتہاد کا حق حاصل تھا تو ہمیں کیوں نہیں ہے۔ اسی بات سے خیال ہوا کہ اجتہاد کی تھوڑی سی حقیقت عرض کر دوں۔

شریعت میں احکام کے چار مآخذ یعنی سورسز ہیں۔ سب سے پہلے تو قرآن کریم، پھر حدیث و سنّت، پھر امّتِ مسلمہ کا اجماع یعنی ایک بات پر جمع ہو جانا، اور پھر اجتہاد یعنی ایک شخص کا خود قرآن و سنّت کی تعلیم میں غور کر کے کسی نئ صورتحال کے بارے میں حکم استنباط یا اخذ کرنا۔


اس میں سب سے پہلے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان مآخذ کی اسی ترتیب سے درجہ بندی ہے جس میں انہیں اوپر لکھا گیا ہے۔ جس چیز کا حکم قرآن میں واضح طور پر آ گیا، جس کو نص کہتے ہیں، آپ کو کسی حدیث میں اس کے خلاف حکم نہیں ملے گا۔ اسی طرح پوری امّت کو یا کسی فردِ واحد کو یہ اختیار نہیں کہ وہ مل کے یا الگ الگ اس نص کو تبدیل کر دے۔ وہ حکم قیامت تک اسی طرح ویسے ہی جاری رہے گا۔ مثلاً قرآن میں نماز پڑھنے کا حکم بہت مرتبہ آیا ہے۔ اب اگر آج کے سارے مسلمان مل کر آپس میں مشورہ کریں کہ آج کل تو لوگ بہت مصروف ہو گئے ہیں، ان حالات میں پانچ دفعہ نماز پڑھنا تو سب کے لیے بہت مشکل ہے (معاذ الّٰلہ) اس لیے آج سے یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ تین دفعہ نماز پڑھنا کافی ہے، تو ایسے اجماع کی کوئ حیثیت نہیں ہو گی اور اس سے الّٰلہ تعالیٰ کا حکم تبدیل نہیں ہو سکتا۔

بالکل اسی طرح سے جو حکم قرآن کریم میں نہیں آیا لیکن رسول الّٰلہ ﷺ نے اپنے قول یا عمل سے اس کی صراحت فرما دی وہ اب کسی اجماع یا اجتہاد سے تبدیل نہیں ہو سکتا۔ مثلاً قرآن کریم میں نماز پڑھنے کا حکم ساٹھ سے زیادہ مرتبہ آیا ہے لیکن یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ فجر میں کتنی رکعتیں پڑھی جائیں گی اور ظہر میں کتنی رکعتیں پڑھی جائیں گی۔ یہ ساری تفصیل رسول الّٰلہ ﷺ نے تعلیم فرمائ۔ اب اگر آج کے سارے مسلمان یہ مل کر فیصلہ کرنا چاہیں کہ رات کے وقت تو انسان بہت تھکا ہوا ہوتا ہے، اس لیے عشاء کی چار رکعتیں تو بہت زیادہ ہیں (نعوذ بالّٰلہ)، بس اب سے دو رکعتیں پڑھنا کافی ہے، تو سارے مسلمان مل کر بھی یہ حکم تبدیل نہیں کر سکتے۔

اس لیے سب سے پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اجتہاد صرف اس معاملے میں کرنا جائز ہے جو معاملہ اتنا نیا ہو کہ اس کے بارے میں نہ قرآن کریم میں اور نہ حدیث میں کوئ حکم آیا ہو، اور نہ ہی اس معاملے میں مسلم امّہ کا کوئ اجماع موجود ہو۔ اس کی ایک مثال آج کے معاشی معاملات ہیں۔ آج کل جس طرح سے بزنس کیا جاتا ہے اس کی بہت سی صورتیں قرونِ اولیٰ میں موجود نہیں تھیں اور ان کے بارے میں کوئ واضح احکام موجود نہیں ہیں کہ ان میں کون سی صورتیں شریعت کے اعتبار سے جائز ہیں اور کون سی ناجائز۔ اس لیے ان کے بارے میں اجتہاد کرنا اور غور و فکر کرنا بالکل جائز ہے کہ ان صورتیں میں سے کون سی جائز ہیں اور کون سی ناجائز۔

جاری ہے۔۔۔



Tuesday 25 July 2017

تبلیغ و دعوت کے اصول۔ پہلا حصّہ


ماخوذ از بیان "تبلیغ و دعوت کے اصول" از حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم۔

سورہٴ آلِ عمران: ۱۵۔ دوسرا حصّہ

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

حدیث شریف میں ہے کہ جب سب اہلِ جنّت جنّت پہنچ کر مسرور و مطمئن ہو چکیں گے، اور کوئ تمنّا نہ رہے گی جو پوری نہ کر دی گئ ہو، تو اس وقت حقِ تعالیٰ خود ان اہلِ جنّت کو خطاب فرمائیں گے کہ اب تم راضی اور مطمئن ہو، کسی اور چیز کی ضرورت تو نہیں؟ وہ عرض کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار! آپ نے اتنی نعمتیں عطا فرما دی ہیں کہ اس کے بعد اور کسی چیز کی کیا ضرورت رہ سکتی ہے؟ حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ اب میں تم کو ان سب نعمتوں سے بالاتر ایک اور نعمت دیتا ہوں، وہ یہ کہ تم سب کو میری رضا اور قرب دائمی طور پر حاصل ہے، اب ناراضی کا کوئ خطرہ نہیں، اس لیے نعمائے جنّت کے سلب ہو جانے کا یا کم ہو جانے کا بھی خطرہ نہیں۔

جاری ہے۔۔۔

Monday 24 July 2017

سورہٴ آلِ عمران: ۱۵۔ پہلا حصّہ

قُلۡ اَؤُنَبِّئُكُمۡ بِخَيۡرٍ مِّنۡ ذٰ لِكُمۡ‌ؕ لِلَّذِيۡنَ اتَّقَوۡا عِنۡدَ رَبِّهِمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا وَاَزۡوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَّرِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ‌ؕ وَاللّٰهُ بَصِيۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ‌ۚ‏۔

ترجمہ: "کہہ دو! کیا میں تمہیں وہ چیزیں بتاؤں جو ان سب سے کہیں بہتر ہیں؟ جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے لیے ان کے ربّ کے پاس وہ باغات ہیںجن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور پاکیزہ بیویاں ہیں، اور الّٰلہ کی طرف سے خوشنودی ہے۔ اور تمام بندوں کو الّٰلہ اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔"

تفسیر: اس آیت میں پچھلی آیت کے مضمون کی مزید توضیح بیان کی گئ ہے۔ اہلِ جنّت کے لیے قرآن کریم میں یہ وعدہ بھی ہے کہ "وَفِيۡهَا مَا تَشۡتَهِيۡهِ الۡاَنۡفُسُ" (٤٣: ٧١) یعنی "ان کو ہر وہ چیز ملے گی جس کی وہ خواہش کریں گے۔" اس آیت میں ان چند نعمتوں کا ذکر ہے جو ہر جنّتی کو ملیں گی اور ان کے بعد ایک سب سے بڑی نعمت کا ذکر کیا گیا جس کا عام طور پر انسان کو تصوّر بھی نہیں ہوتا، اور وہ الّٰلہ تعالیٰ کی دائمی رضا اور خوشنودی ہے جس کے بعد ناراضی کا خطرہ نہیں رہتا۔ 

جاری ہے۔۔۔

Sunday 23 July 2017

سورہٴ آل عمران: ۱٤- پانچواں اور آخری حصّہ

قرآن کریم میں ایسے ہی لوگوں کے متعلّق ارشاد ہے:

فَلَا تُعۡجِبۡكَ اَمۡوَالُهُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُهُمۡ‌ؕ اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمۡ بِهَا فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَتَزۡهَقَ اَنۡفُسُهُمۡ وَهُمۡ كٰفِرُوۡنَ۔ (۹: ۵۵)

"آپ ان کافروں کے مال اور اولاد سے متعجّب نہ ہوں کیونکہ ان نافرمانوں کو مال، اولاد دینے سے کچھ ان کا بھلا نہیں ہوا، بلکہ یہ اموال و اولاد آخرت میں تو ان کے لیے عذاب بنیں گے ہی، دنیا میں بھی رات دن کی فکروں اور مشاغل کے باعث عذاب ہی بن جاتے ہیں۔"

اس کا مطلب یہ نہیں کہ مال و اولاد اپنی ذات میں بری چیزیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ الّٰلہ تعالی نے انسان کو جو دنیاوی نعمتیں عطا فرمائ ہیں، شریعت کے مطابق اور اعتدال کے ساتھ ان کو جمع کرنا اور خرچ کرنا دنیا و آخرت کی فلاح ہے، لیکن ناجائز ذرائع سے ان کو جمع کرنا، الّٰلہ تعالی کی نافرمانیوں میں اس کو خرچ کرنا، یا جائز طریقوں میں  بھی اس قدر غلو اور انہماک ہو جانا کہ جس کے سبب انسان کی توجّہ فرائض و واجبات سے ہٹ جائے، باعثِ ہلاکت ہے۔

مولانا روم ؒ نے اس کی مثال مثنوی میں یوں بیان فرمائ ہے:

آب اندر زیرِ کشتی پستی است
آب در کشتی ہلاکِ کشتی است

یعنی دنیا کا سازوسامان پانی کے مانند ہے اور انسان کا دل کشتی کے مانند ہے۔ جب تک پانی کشتی کے نیچے اور اس کے آس پاس موجود رہے گا تو کشتی کے لیے مفید و معین ہے اور اس کے مقصدِ وجود کو پورا کرنے والا ہے۔ لیکن اگر وہی پانی کشتی کے اندر داخل ہو جائے تو اس کی بربادی اور ہلاکت کا سامان ہو جاتا ہے۔

ختم شد

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Saturday 22 July 2017

سورہٴ آلِ عمران: ۱٤ - چوتھا حصّہ

تیسری حکمت، اور وہی یہاں سب سے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان چیزوں کی محبّت  طبعی طور پہ انسان کے دل میں پیدا کر کے اس کا امتحان لیا جائے کہ کون سا انسان ان چیزوں کی محبّت میں مبتلا ہو کے آخرت کو بھلا بیٹھتا ہے اور صرف ان ہی کو اصل مقصود اور ساری تگ و دو کا حاصلِ اصلی سمجھ بیٹھتا ہے، اور کون ہے جو ان چیزوں کی اصل حقیقت اور ان کے فانی اور ناپائیدار ہونے کو سمجھتا ہے، اور اس لیے ان کی بقدرِ ضرورت فکر اور حاصل کرنے کی کوشش تو کرتا ہےلیکن ساتھ ہی ساتھ ان کو آخرت کی بہتری کے لیے استعمال کرتا ہے۔ قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ خود اس تزئین کی یہی حکمت بتلائ گئ ہے۔ 

اِنَّا جَعَلۡنَا مَا عَلَى الۡاَرۡضِ زِيۡنَةً لَّهَا لِنَبۡلُوَهُمۡ اَ يُّهُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلاً۔ (۱۸: ۷)


"ہم نے بنایا جو زمین پر ہیں زمین کی زینت، تا کہ ہم لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں سے کون اچھا عمل کرتا ہے۔"


جس نے صرف ان دنیاوی نعمتوں کو ہی مقصودِ اصلی سمجھا اس کے لیے یہ دنیاوی نعمتیں حیاتِ آخرت کی بربادی اور دائمی عذاب کا سبب بن گئیں، اور جس نے ان کی اصلیت کو سمجھا اور ان کو صحیح طریقے سے استعمال کیا اس نے دنیا میں ان نعمتوں سے فائدہ اٹھایا اور انشاٴ الّٰلہ یہی نعمتیں آخرت میں بھی اس کی کامیابی کا سبب بنیں گی۔

جاری ہے۔۔۔

Friday 21 July 2017

سورہٴ آلِ عمران: ۱٤ - تیسرا حصّہ

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

دوسری حکمت یہ ہے کہ اگر انسان کے دل میں کچھ احساسات ہی نہ ہوتے، اگر اس کے دل میں دنیاوی نعمتوں کی کوئ محبّت، کوئ قدر، کوئ رغبت ہی نہ ہوتی، تو پھر اس کو جنّت کی نعمتوں کی طرف کیا کشش ہوتی اور کیا رغبت ہوتی۔ پھر اس کو کیا ضرورت ہوتی کہ وہ نیک اعمال میں محنت کر کے جنّت اور اس کی نعمتوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا، اور برے اعمال چھوڑنے کی ہمّت کر کے دوزخ سے بچنے کی کوشش کرتا۔ 

جاری ہے۔۔۔

Thursday 20 July 2017

سورہٴ آلِ عمران: ۱٤ - دوسرا حصّہ

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

اس آیت میں دنیا کی چند اہم مرغوب چیزوں کا نام لے کر بتلایا گیا ہے کہ لوگوں کی نظر میں ان کی محبّت خوش نما بنا دی گئ ہے، اس لئے بہت سے لوگ ان کی محبّت میں مبتلا ہو کے آخرت کو بھلا بیٹھتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلے عورت کو اور اس کے بعد اولاد کو بیان کیا گیا ہے، کیونکہ دنیا میں انسان جتنی چیزوں کے حاصل کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے اس کا ایک بہت بڑا سبب گھر والوں اور اولاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ ہر جائز و ناجائز ذریعے سے اتنا مال جمع کرنے کی فکر میں پڑے رہتے ہیں جس کے بارے میں انہیں خود بھی پتہ ہوتا ہے کہ اتنا مال وہ عمر بھر کبھی بھی خرچ نہیں کر سکتے، ان سے پوچھا جائے تو وہ بھی یہی جواز دیتے ہیں کہ وہ یہ مال اپنی اولاد اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے جمع کر رہے ہیں۔ اس کےبعد سونے چاندی، مویشیوں، اور کھیتی کا ذکر ہے جو کہ دوسرے درجے میں بہت سے لوگوں کے دلوں میں بسے ہوئے ہوتے ہیں۔

مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ نے ان چیزوں کی محبّت طبعی طور پہ انسانوں کے دلوں میں ڈال دی ہے جس میں ہزاروں حکمتیں ہیں۔ ان میں سے ایک حکمت تو یہ ہے کہ اگر انسان طبعی طور پر ان چیزوں کی طرف مائل اور ان سے محبّت کرنے والا نہ ہوتا تو دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔ اگر انسان کی دل میں پیسہ کمانے کی اور اپنی اور اپنے گھر والوں کی خواہشات کو پورا کرنے کی خواہش نہ ہوتی تو وہ صبح سویرے اٹھ کر گھر سے مشقّت کرنے کے لیے کیوں نکلتا؟ مزدور مزدوری کیوں کرتا، مالدار اس مزدور کو اپنا کام نکلوانے کے لیے کیوں مزدوری دیتا، تاجر دکان کیوں کھولتا، اور خریدار پیسے لے کر دکان سے اپنی ضرورت اور خواہشات کا سامان خریدنے کے لیے کیوں جاتا؟ غور کیا جائے تو انہیں مرغوبات کی محبّت کی وجہ سے دنیا کا یہ تمدّنی نظام قائم ہے۔

جاری ہے۔۔۔

Wednesday 19 July 2017

سورہٴ آلِ عمران: ۱٤ - پہلا حصّہ

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالۡبَـنِيۡنَ وَالۡقَنَاطِيۡرِ الۡمُقَنۡطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالۡفِضَّةِ وَالۡخَـيۡلِ الۡمُسَوَّمَةِ وَالۡاَنۡعَامِ وَالۡحَـرۡثِ‌ؕ ذٰ لِكَ مَتَاعُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ‌ۚ وَاللّٰهُ عِنۡدَهٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ‏۔

"لوگوں کے لیے ان چیزوں کی محبّت خوشنما بنا دی گئ ہے جو ان کی نفسانی خواہش کے مطابق ہوتی ہیں، یعنی عورتیں، بچّے، سونے چاندی کے لگے ہوئے ڈھیر، نشان لگائے ہوئے گھوڑے، چوپائے، اور کھیتیاں۔ یہ سب دنیاوی زندگی کا سامان ہے (لیکن) ابدی انجام کا حسن تو صرف الّٰلہ کے پاس ہے۔"

حدیث میں ارشاد ہے: "حب الدنیا راس کل خطیئة" یعنی "دنیا کی محبّت ہر برائ کا سرچشمہ ہے۔"

جاری ہے۔۔۔

Tuesday 18 July 2017

سورہٴ آلِ عمران: ۸ - دوسرا حصّہ

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

اسی لئے جن لوگوں کو یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کا خاتمہ ایمان پر ہو وہ ہمیشہ الّٰلہ تعالیٰ سے استقامت کی دعا مانگتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ ہمیشہ استقامت کی دعا مانگا کرتے تھے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے: "یَا مقلِبَ ا’لقلوبِ ثَبِت قلوبَنَا عَلیٰ دِینِکَ"۔ یعنی "اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر قائم رکھ۔" (مظہری)

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Monday 17 July 2017

سورہٴ آلِ عمران: ۸ - پہلا حصّہ

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ هَدَيۡتَنَا وَهَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ رَحۡمَةً ‌ ۚ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡوَهَّابُ‏۔

"اے ہمارے ربّ! تو نے ہمیں جو ہدایت عطا فرمائ ہے اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ نہ پیدا ہونے دے، اور خاص ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما۔ بیشک تیری، اور صرف تیری ذات وہ ہے جو بے انتہا بخشش کی خوگر ہے۔"

اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ہدایت اور گمراہی الّٰلہ ہی کی جانب سے ہے۔ الّٰلہ تعالیٰ جس کو ہدایت دینا چاہتے ہیں اس کے دل کو نیکی کی جانب مائل کر دیتے ہیں اور جس کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں اس کے دل کو سیدھے راستے سے پھیر لیتے ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ "کوئ دل ایسا نہیں ہے جو الّٰلہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان نہ ہو، وہ جب تک چاہتے ہیں اس کو حق پر قائم رکھتے ہیں، اور جب چاہتے ہیں اس کو حق سے پھیر دیتے ہیں۔"

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ