Sunday 30 July 2017

اجتہاد کیا ہے؟ چوتھا حصّہ


بعض لوگ اس طرح کے کام کرنے والوں سے غصّہ اور ناراض ہو جاتے ہیں، انہیں برا بھلا کہنے لگتے ہیں، ان پر تشدّد کرنے لگتے ہیں، حالانکہ یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ لوگ ایسے کام کیوں کرتے ہیں۔ اگر انسان یہ سمجھ جائے تو اسے ان لوگوں پہ ترس آئے، رحم آئے، ان سے ہمدردی ہو، غصّہ نہ آئے۔
اگر ایک انسان جو ایک کلچر، ایک مذہب میں پیدا ہوا ہو، اسے دوسرے کلچر یا مذہب والے بہت زیادہ اچھے لگنے لگیں، وہ ان سے بہت متّاثر اور مرعوب ہو جائے، اپنے کلچر یا مذہب کو کمتر سمجھنے لگے، تو پھر وہ ایک شدید اندرونی کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے اور ڈھونڈتا ہے کہ میں ایسا کیا کروں کہ وہ دوسرے لوگ مجھے اپنوں میں سے سمجھنے لگیں، میں ان کے قریب ہو جاؤں۔ اپنی جلد کی رنگت، اپنی شکل و صورت، اور ایک خاص عمر کے بعد اپنا لہجہ، تو کوئ انسان بدل نہیں سکتا۔ البتّہ انسان اپنا بیہیویئر (behaviour) یعنی اعمال و حرکات ضرور بدل سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں لوگ اپنا حلیہ بدل لیتے ہیں، زبان بدل لیتے ہیں، اپنا مذہب بدل لیتے ہیں، یا دوسرا مذہب اختیار نہیں بھی کرتے تو اپنے مذہب کو چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ بعض لوگ اس حد تک نہیں جانا چاہتے تو وہ ڈھونڈتے ہیں کہ میں اپنے مذہب میں رہتے ہوئے ایسا کیا کروں کہ یہ دوسرے گروپ والے سمجھ جائیں کہ میں اپنے مذہب یا کلچر والوں سے الگ ہوں اور ان کی طرح ہوں، باطنی طور پہ ان ہی میں سے ہوں۔ پھر وہ اپنے مذہب میں اسی طرح کی تحریفات کرنے لگتے ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔ وہ اپنے آپ کو یہ تسلّی دیتے ہیں کہ میں اپنے دین کے اندر بہتری لا رہا ہوں، اس میں ریفارم کر رہا ہوں، لیکن حقیقتاً یہ ان کے اندر کا احساسِ کمتری ہوتا ہے جو انہیں یہ سب کرنے پر مجبور کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں پہ غصّہ نہیں کرنا چاہیے، ان کے لیے دعا کرنا چاہیے تا کہ الّٰلہ تعالیٰ ان کو اندر کی تکلیف اور کشمکش سے نجات عطا فرمائیں اور ان کو صراطِ مستقیم عطا فرمائیں۔ آمین
جاری ہے۔۔۔

No comments:

Post a Comment