Monday 28 November 2016

و اقیمو الصلوٰة و اتو الزکوٰة وارکعو مع الرکعین

"اور نماز قائم کرو، اور زکوٰة ادا کرو، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔" (سورة البقرة:۴۳)


اقیمو الصلوٰة
صلوٰة کے لفظی معنی دعاء کے ہیں۔ اصطلاحِ شرع میں صلوٰة وہ خاص عبادت ہے جس کو نماز کہا جاتا ہے۔

قرآن کریم میں  عموماً نماز کی جتنی مرتبہ تاکید آئ ہے لفظ اقامت کے ساتھ آئ ہے۔ اقامت کے لفظی معنی سیدھا کرنے اور ثابت رکھنے کے ہیں۔ اس کے علاوہ اقامت کے معنی دائم اور قائم کرنے کے بھی آتے ہیں۔ قرآن و سنّت کی اصطلاح میں اقامتِ صلوٰة  کے معنی نماز کو اس کے وقت میں پابندی کے ساتھ اس کے پورے آداب و شرائط کی رعایت کر کے ادا کرنا ہیں۔ نماز کے جتنے فضائل اور آثار و برکات قرآن و حدیث میں آئے ہیں وہ سب اقامتِ صلوٰة کے ساتھ مقید ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں ہے: ترجمہ: یعنی نماز انسان کو بے حیائ اور برے کاموں سے روک دیتی ہے۔" (۴۵:۳۹) اس لئے بہت سے نمازیوں کو برائیوں اور بے حیائیوں میں مبتلا دیکھ کر اس آیت پر کوئ شبہ نہ کرنا چاہیے، کیونکہ ان لوگوں نے نماز پڑھی تو ہے مگر اس کو قائم نہیں کیا۔

اتو الزکوٰة
لفظ زکوٰة کے لغت میں دو معنی ہیں، پاک کرنا، اور بڑھنا۔ اصطلاحِ شریعت میں مال کے اس حصہ کو زکوٰة کہا جاتا ہے جو شریعت کے احکام کے مطابق کسی مال میں سے نکالا جائے اور اس کے مطابق صرف کیا جائے۔

وارکعو مع الرکعین
رکوع کے لغوی معنی جھکنے کے ہیں۔ اصطلاحِ شرع میں اس خاص جھکنے کو رکوع کہتے ہیں جو نماز میں معروف و مشہور ہے۔ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ نماز پڑھو نماز پڑھنے والوں کے ساتھ، یعنی جماعت کے ساتھ۔

حضرت عبدالله ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ کل (محشر میں) الله تعالیٰ سے مسلمان ہونے کی حالت میں ملے تو اس کو چاہئے کہ ان (پانچ) نمازوں کے ادا کرنے کی پابندی اس جگہ کرے جہاں اذان دی جاتی ہے (یعنی مسجد میں)، کیونکہ الله تعالیٰ نے تمہارے نبی ﷺ کے لئے کچھ ہدایت کے طریقے بتلائے ہیں، اور ان پانچ نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا انہی سننِ ہدیٰ میں ہے۔ اور اگر تم نے یہ نمازیں اپنے گھر میں پڑھ لیں جیسے یہ جماعت سے الگ رہنے والا اپنے گھر میں پڑھ لیتا ہے (کسی خاص شخص کی طرف اشارہ کر کے فرمایا) تو تم اپنے نبی ﷺ کی سنّت کو چھوڑ بیٹھو گے۔ اور اگر تم نے اپنے نبی ﷺ کی سنّت کو چھوڑ دیا تو تم گمراہ ہو جاؤ گے۔ (اور جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح پاکی حاصل کرے) پھر کسی مسجد کا رخ کرے تو الله تعالیٰ اس کے ہر قدم پر نیکی اس کے نامہٴ اعمال میں درج فرماتے ہیں، اور اس کا ایک درجہ بڑھا دیتے ہیں، اور ایک گناہ معاف کر دیتے ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ البقرہ، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Sunday 27 November 2016

حضرت ابو حازم ؒ اور سلیمان عبدالملک کے درمیان مکالمہ۔ حصہٴ چہارم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

سلیمان نے پھر سوال کیا، "اچھا اب ہمارے درست ہونے کا کیا طریقہ ہے؟" حضرت ابو حازمؒ نے فرمایا، "تکبّر چھوڑو، مروّت اختیار کرو، اور حقوق والوں کو ان کے حقوق انصاف کے ساتھ تقسیم کرو۔"

سلیمان نے کہا، "ابو حازم! کیا یہ ہو سکتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ رہیں؟" فرمایا، "خدا کی پناہ!" سلیمان نے پوچھا یہ کیوں؟ فرمایا کہ اس لئے کہ مجھے خطرہ یہ ہے کہ میں تمہارے مال و دولت اور عزّت و جاہ کی طرف کچھ مائل ہو جاؤں جس کے نتیجے میں مجھے عذاب بھگتنا پڑے۔

سلیمان نے کہا کہ اچھا آپ کی کوئ حاجت ہو تو بتلائیے کہ ہم اس کو پورا کریں۔ فرمایا،" ہاں ایک حاجت ہے کہ مجھے جہنّم سے نجات دلا دو اور جنّت میں داخل کر دو۔" سلیمان نے کہا کہ یہ تو میرے اختیار میں نہیں۔ فرمایا کہ پھر مجھے آپ سے اور کوئ حاجت مطلوب نہیں۔ 

آخر میں سلیمان نے کہا کہ اچھا میرے لئے دعا کیجئے، تو ابو حازم ؒ نے یہ دعا کی، یا الله اگر سلیمان آپ کا پسندیدہ ہے تو اس کے لئے دنیا و آخرت کی بہتری کو آسان بنا دے، اور اگر وہ آپ کا دشمن ہے تو اس کے بال پکڑ کر اپنی مرضی اور محبوب کاموں کی طرف لے آ۔

سلیمان نے کہا کہ مجھے کچھ وصیّت فرما دیں۔ ارشاد فرمایا کہ مختصر یہ ہے کہ اپنے رب کی عظمت و جلال کو اس درجے میں رکھو کہ وہ تمہیں اس مقام پرنہ دیکھے جس سے منع کیا ہے، اور اس مقام سے غیر حاضر  نہ پائے جس کی طرف آنے کا اس نے حکم دیا ہے۔

سلیمان نے اس مجلس سے فارغ ہونے کے بعد سو گنّیاں بطورِ ہدیہ کے ابو حازم کے پاس بھیجیں۔ ابو حازمؒ نے ایک خط کے ساتھ ان کو واپس کر دیا۔ خط میں لکھا تھا کہ اگر یہ سو دینار میرے کلمات کا معاوضہ ہیں تو میرے نزدیک خون اور خنزیر کا گوشت اس سے بہتر ہے، اور اگر اس لئے بھیجا ہے کہ بیت المال میں میرا حق ہے تو مجھ جیسے ہزاروں علماء اور دین کی خدمت کرنے والے ہیں۔ اگر سب کو آپ نے اتنا ہی دیا ہے تو میں بھی لے سکتا ہوں، رونہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔

ختم شد

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ البقرہ، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Saturday 26 November 2016

حضرت ابو حازم ؒ اور سلیمان عبدالملک کے درمیان مکالمہ۔ حصہٴ سوئم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

سلیمان نے پھر دریافت کیا، "کون سا مسلمان سب سے زیادہ ہوشیار ہے؟"

فرمایا، "وہ شخص جس نے الله تعالیٰ کی اطاعت کے تحت کام کیا ہو، اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دی ہو۔"

پھر پوچھا کہ "مسلمانوں میں کون شخص احمق ہے؟"

فرمایا، "وہ آدمی جو اپنے کسی بھائ کی اس کے ظلم میں امداد کرے، جس کا حاصل یہ ہو گا کہ اس نے دوسرے کی دنیا درست کرنے کے لئے اپنا دین بیچ دیا۔"

اس کے بعد سلیمان نے اور واضح الفاظ میں دریافت کیا کہ ہمارے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ابو حازمؒ نے فرمایا کہ مجھے اس سوال سے معاف رکھیں تو بہتر ہے۔

سلیمان نے کہا کہ نہیں آپ ضرور کوئ نصیحت کا کلمہ کہیں۔

ابو حازم ؒ نے فرمایا: "اے امیرالموٴمنین! تمہارے آباؤ اجداد نے بزورِ شمشیر لوگوں پہ تسلّط کیا، اور زبردستی ان کی مرضی کے خلاف ان پر حکومت قائم کی، اور بہت سے لوگوں کو قتل کیا، اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ کاش آپ کو معلوم ہوتا کہ اب وہ مرنے کے بعد کیا کہتے ہیں، اور ان کو کیا کہا جاتا ہے۔"

بادشاہ کے حاشہ نشینوں نے ابو حازم ؒ کی اس صاف گوئ کو سن کر کہا، "اے ابو حازم! تم نے یہ بہت بری بات کہی ہے۔"

ابو حازم ؒ نے فرمایا، "تم غلط کہتے ہو۔ بری بات نہیں کہی، بلکہ وہ بات کہی جس کا ہم کو حکم ہے۔ الله تعالیٰ نے علماء سے اس بات کا عہد لیا ہے کہ حق بات لوگوں کو بتلائیں گے اور چھپائیں گے نہیں۔ لتبیننه للناس ولا تکتمونہ۔ (۱۸۷:۳)

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ البقرہ، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله

Wednesday 23 November 2016

حضرت ابو حازم ؒ اور سلیمان عبدالملک کے درمیان مکالمہ۔ حصہٴ دوئم

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔

سلیمان نے پوچھا اے ابو حازمؒ! الله کے بندوں میں کون سب سے زیادہ عزّت والا ہے؟ فرمایا، وہ لوگ جو مروّت اور عقلِ سلیم رکھنے والے ہیں۔

پھر پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ فرمایا کہ فرائض و واجبات کی ادائیگی حرام چیزوں سے بچنے کے ساتھ۔

پھر دریافت کیاکہ کونسی دعا زیادہ قابلِ قبول ہے؟ تو فرمایا کہ جس شخص پر احسان کیا گیا ہو اس کی دعا اپنےمحسن کے لئے اقرب الی القبول ہے۔

پھر دریافت کیا کہ صدقہ کون سا افضل ہے؟ فرمایا کہ مصیبت زدہ سائل کے لئے باوجود اپنے افلاس کے جو کچھ ہو سکے اس طرح خرچ کرنا کہ نہ اس سے پہلے احسان جتائےاور نہ ٹال مٹول کر کے ایذاء پہونچائے۔

پھر دریافت کیا کہ کلام کون سا افضل ہے؟ تو فرمایا کہ جس شخص سے تم کو خوف ہو یا جس سے تمہاری کوئ حاجت ہو اور امید وابستہ ہو اس کے سامنے بغیر کسی رو رعایت کے حق بات کہہ دینا۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورةٴ البقرہ، تالیف مفت محمد شفیع رحمتہ الله علیه

حضرت ابو حازم ؒ اور سلیمان عبدالملک کے درمیان مکالمہ۔ حصہٴ اوّل

"اور مت ملاؤ صحیح میں غلط اور مت چھپاؤ سچ کو جان بوجھ کر۔" (سورة البقرہ: ۴۲)

حق بات کو غلط باتوں کے ساتھ ملا جلا کے اس طرح پیش کرنا جس سے مخاطب مغالطہ میں پڑ جائے جائز نہیں۔ اسی طرح کسی خوف یا لالچ کی وجہ سے حق بات کا چھپانا بھی حرام ہے۔

امام قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں حق کو چھپانے سے پرہیز کرنے کا ایک مفصّل مکالمہ حضرت ابو حازم تابعیؒ اور خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کا نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ سلیمان بن عبدالملک نے مدینہ طیّبہ میں چند روز قیام کیا تو لوگوں سے دریافت کیا کہ مدینہ طیّبہ میں اب کوئ ایسا آدمی موجود ہے جس نے کسی صحابی کی صحبت پائ ہو؟ لوگوں نے بتلایا کہ ہاں ابو حازمؒ ایسے شخص ہیں۔ سلیمان نے اپنا آدمی بھیج کر ان کو بلوا لیا۔ 

سلیمان نے ابو حازمؒ سے پوچھا کہ اے ابو حازمؒ! یہ کیا بات ہے کہ ہم موت سے گھبراتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ آپ نے اپنی آخرت کو ویران اور دنیا کو آباد کیا ہے، اس لئے آبادی سے ویرانے میں جانا پسند نہیں۔

سلیمان نے تسلیم کیا اور پوچھا کہ کل الله تعالیٰ کے سامنے حاضری کیسے ہو گی؟ فرمایا کہ نیک عمل کرنے والا تو الله تعالیٰ کے سامنے اس طرح جائے گا جیسے کوئ مسافر سفر سے واپس اپنے گھر والوں کے پاس جاتا ہے۔ اور برے عمل کرنے والا اس طرح پیش ہو گا جیسے کوئ بھاگا ہوا غلام پکڑ کر آقا کے سامنے حاضر کیا جائے۔

سلیمان یہ سنکر رو پڑا اور کہنے لگا، کاش ہمیں معلوم ہوتا کہ الله تعالیٰ نے ہمارے لئے کیا صورت تجویز کر رکھی ہے؟ ابو حازمؒ نے فرمایا کہ اپنے اعمال کو الله کی کتاب پر پیش کرو تو پتہ لگ جائے گا۔ سلیمان نے دریافت کیا کہ قرآن کی کس آیت سے یہ پتہ لگے گا؟ فرمایا کہ اس آیت سے: ترجمہ "یعنی بلاشبہ نیک عمل کرنے والے جنّت کی نعمتوں میں ہیں، اور نافرمان، گناہ شعار دوزخ میں۔" (۸۳:۱۳۔۱۴)

سلیمان نے کہا کہ الله کی رحمت تو بڑی ہے، وہ بدکاروں پہ بھی حاوی ہے۔ فرمایا، ترجمہ"یعنی الله کی رحمت نیک عمل کرنے والوں سے قریب ہے۔" (۵۶:۷)

جاری ہے۔۔۔

Tuesday 22 November 2016

(سورہٴ البقرہ:۳۸)

"...پھر اگر میری طرف سے کوئ ہدایت تمہیں پہونچے، تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کو نہ کوئ خوف ہو گا، اور نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے۔" 

اس آیت میں الله تعالیٰ کی ہدایات کی پیروی کرنے والوں کے لئے دو انعام مذکور ہیں، ایک یہ کہ ان پر کوئ خوف نہ ہو گا، دوسرے وہ غمگین نہ ہوں گے۔

"خوف" آئندہ پیش آنے والی کسی تکلیف و مصیبت کے اندیشے کا نام ہے اور "حزن" کسی مقصد و مراد کے فوت ہو جانے سے پیدا ہونے والے غم کو کہا جاتا ہے۔

اس آیت میں اشارہ اس طرف ہے کہ کسی چیز یا مراد کے فوت ہونے کے غم سے آزاد ہونا صرف انہی اولیاء الله کا مقام ہے جو الله تعالیٰ کی دی ہوئ ہدایات کی مکمل پیروی کرنے والے ہیں۔ ان کے سوا کوئ انسان اس غم سے نہیں بچ سکتا خواہ وہ ہفت اقلیم کا بادشاہ ہو یا دنیا کا بڑے سے بڑا مالدار، کیونکہ ان میں کوئ بھی ایسا نہیں ہوتا جس کو اپنی طبیعت اور خواہش کے خلاف کوئ بات پیش نہ آئے اور اس کا غم نہ ہو۔ بخلاف اولیاء الله کے کہ وہ اپنی مرضی اور ارادے کو الله ربّ العزّت کی مرضی اور ارادے میں فنا کر دیتے ہیں، اس لئے ان کو کسی چیز کے فوت ہونے کا غم نہیں ہوتا۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمته الله علیه

Monday 21 November 2016

ایمان اور اسلام میں فرق

لغت میں ایمان کسی چیز کی دل سے تصدیق کرنے کا نام ہے، اور اسلام اطاعت و فرمانبرداری کا۔ ایمان کا محل قلب ہے، اور اسلام کا قلب اور سب اعضاء و جوارح۔ لیکن شرعاً ایمان بغیر اسلام کے اور اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں، یعنی الله اور اس کے رسول ﷺ کی محض دل میں تصدیق کر لینا شرعاً اس وقت تک معتبر نہیں جب تک زبان سے اس تصدیق کا اظہار اور اطاعت و فرمانبرداری کا اقرار نہ کرے۔ اسی طرح زبان سے تصدیق کا اظہار یا فرمانبرداری کا اقرار اس وقت تک معتبر نہیں جب تک دل میں الله اور الله کے رسول ﷺ کی تصدیق نہ ہو۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہٴ البقر، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Sunday 20 November 2016

متّقین کی تین صفات: حصہ سوم

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔

متّقی لوگوں کی تیسری علامت جو بتلائ گئ وہ ہے الله کی راہ میں خرچ کرنا۔ اس میں ہر قسم کا وہ خرچ شامل ہے جو الله کی راہ میں کیا جائے، خواہ فرض زکوٰة ہو، یا دوسرے صدقات واجبہ یا نفلی صدقات و خیرات، کیونکہ قرآن کریم میں جہاں کہیں لفظ انفاق استعمال ہوا ہے عموماً نفلی صدقات میں یا عام معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ فرض زکوٰة کے لئے عموماً لفظ زکوٰة ہی آیا ہے۔ 

مِمَّا رَزَقنٰھم سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ مال ہمارے پاس ہے یہ سب خدا کا ہی عطا کیا ہوا ہے اور اسی کی امانت ہے۔ اگر ہم اس تمام مال کو بھی الله کی راہ میں اس کی رضا کے لئے خرچ کر دیں تو حق اور بجا ہے، اس میں بھی ہمارا کوئ احسان نہیں۔ اور مِمَّا کے معنے یہ ہیں کہ ہمارے دیے ہوئے مال کو بھی پورا خرچ نہیں کرنا، بلکہ اس کا کچھ حصّہ خرچ کرنا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرہ، تالیفِ مفتی محمد شفیع رحمتہ اللہ علیه

متّقین کی تین صفات: حصہ دوم

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔

ان آیات میں (جن کا ترجمہ پچھلی پوسٹ میں آیا) متّقی لوگوں کی دوسری علامت یہ بتائ گئ کہ وہ نماز کو قائم کرتے ہیں۔ اقامت کے معنی محض نماز پڑھنے کے نہیں بلکہ نماز کو ہر جہت اور ہر حیثیت سے درست کرنے کا نام اقامت ہے، جس میں نماز کے تمام فرائض، واجبات، مستحبات، اور پھر ان پر قائم رہنا، یہ سب اقامت کے مفہوم میں داخل ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ اس جگہ نماز سے کوئ خاص نماز مراد نہیں ، بلکہ تمام فرائض و واجبات اور نفلی نمازوں کو یہ لفظ شامل ہے۔ خلاصہٴ مضمون یہ ہوا کہ وہ لوگ جو نمازوں کی پابندی بھی قوائدِ شرعیہ کے مطابق کرتے ہیں، اور ان کے پورے آداب بھی بجا لاتے ہیں۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

Friday 18 November 2016

متّقین کی تین صفات: حصہ اوّل

"یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئ شک نہیں، یہ ہدایت ہے ان ڈر رکھنے والوں کے لئے جو اندیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے (الله کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔" (سورہٴ البقرہ:۱۔۴)

لغت میں کسی بات کو کسی کے اعتماد پر یقینی طور سے مان لینے کا نام ایمان ہے۔ جو تصدیق مشاہدے کی بنیاد پہ کی جائے اس کو تصدیق کرنا تو کہیں گے ایمان لانا نہیں کہا جائے گا۔ اصطلاحِ شرع میں خبرِ رسول کو بغیر مشاہدے اور محض رسول ﷺ کے اعتماد پر یقینی طور سے مان لینے کا نام ایمان ہے۔ 

قرآن میں لفظ غیب سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جن کی خبر رسول الله ﷺ نے دی ہے، اور ان کا علم بداہتِ عقل اور حواسِ خمسہ کے ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ اس میں الله تعالیٰ کی ذات و صفات بھی آ جاتی ہیں، اور تقدیری امور، جنّت و دوزخ کے حالات، قیامت اور اس میں پیش آنے والے حالات، فرشتے، تمام آسمانی کتابیں اور تمام انبیاء سابقینؑ بھی۔

تو اب ایمان بالغیب کے معنی یہ ہو گئے کہ رسول الله ﷺ جو ہدایات و تعلیمات لے کر آئے ہیں، ان سب کو یقینی طور پر دل سے ماننا۔ شرط یہ ہے کہ اس تعلیم کا رسول الله ﷺ سے منقول ہونا قطعی طور پر ثابت ہو۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ


خود اپنی مدح و ثناء بیان کرنا کسی انسان کے لئے جائز نہیں

خود اپنی مدح و ثناء کا بیان کرنا کسی انسان کے لئے جائز نہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

فلا تزکو آ انفسکم ھو اعلم بمن اتّقیٰ
"تم اپنی پاکی اور صفائ کا دعویٰ نہ کرو، الله ہی جانتا ہے کون متّقی ہے۔"(۵۳:۳۲)

مطلب یہ کہ انسان کی تعریف اور مدح کا مدار تقویٰ پر ہے، اور اس کا حال الله تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ کس کا تقویٰ کس درجے کا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Thursday 17 November 2016

"(اے الله!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔" (سورہٴ فاتحہ:۴)

اس آیت میں ارشاد یہ ہے کہ "ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں"، کس کام میں مدد مانگتے ہیں اس کا ذکر نہیں۔ جمہور مفسّرین نے لکھا ہے کہ اس کا ذکر نہ کرنے میں عموم کی طرف اشارہ ہے کہ ہم اپنی ہر عبادت اور ہر دنیاوی اور دینی کام اور ہر مقصد میں صرف آپ ہی کی مدد چاہتے ہیں۔ 

پھر عبادت صرف نماز روزے کا نام نہیں۔ امام غزالیؒ نے اپنی کتاب اربعین میں عبادت کی دس قسمیں لکھی ہیں: ۱۔ نماز، ۲۔ زکوٰة، ۳۔ روزہ، ۴۔ حج، ۵۔ تلاوتِ قرآن، ۶۔ ہر حالت میں الله کا ذکر کرنا، ۷۔ حلال روزی کے لئے کوشش کرنا، ۸۔ پڑوسی اور ساتھی کے حقوق ادا کرنا، ۹۔ لوگوں کو نیک کاموں کا حکم کرنا اور برے کاموں سے منع کرنا، ۱۰۔ رسول الله ﷺ کی سنّت کا اتّباع کرنا۔ 

اس لئے عبادت میں الله تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کے معنی یہ ہو گئے کہ نہ کسی کی محبّت الله تعالیٰ کی محبّت کے برابر ہو، نہ کسی کا خوف اس کے برابر ہو، نہ کسی سے امید اس کی طرح ہو، نہ کسی پر بھروسہ الله کے مثل ہو، نہ کسی کی اطاعت و خدمت اور کام کو اتنا ضروری سمجھے جتنا الله تعالیٰ کی عبادت کو، نہ الله تعالیٰ کی طرح کسی کی نذر اور منّت مانے، نہ الله تعالیٰ کی طرح کسی دوسرے کے سامنے اپنی مکمل عاجزی اور تذلّل کا اظہار کرے، نہ وہ افعال کسی دوسرے کے لئے کرے جو انتہائ تذلّل کی علامات ہیں، جیسے رکوع و سجدہ۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Wednesday 16 November 2016

سورہٴ فاتحہ

ترجمہ: "تمام تعریفیں الله کی ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ جو سب پر مہربان، بہت مہربان ہے۔ جو روزِ جزا کا مالک ہے۔ (اے الله!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما۔ ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا ہے، نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے، اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔" (سورہٴ فاتحہ)

صحیح مسلم میں بروایتِ حضرت ابو ہریرہؓ منقول ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: "حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نماز (یعنی سورہٴ فاتحہ) میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصّوں میں تقسیم کی گئ ہے، نصف میرے لئے ہے اور نصف میرے بندے کے لئے، اور جو کچھ میرا بندہ مانگتا ہے وہ اس کو دیا جائے گا۔" پھر رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ بندہ جب کہتا ہے الحمداللہ  رب العٰلمین تو الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ "میرے بندے نے میری حمد کی ہے"، اور جب بندہ کہتا ہے الرحمٰن الرحیم تو الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ "میر ے بندے نے میری تعریف و ثناء بیان کی ہے"، اور جب بندہ کہتا ہے مٰلک یوم الدین تو الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ "میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے"، اور جب بندہ کہتا ہے ایاک نعبد و ایاک نستعین تو الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ "یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے"، کیونکہ اس میں ایک پہلو الله تعالیٰ کی حمد و ثناء کا ہے اور دوسرا پہلو بندے کی دعا و درخواست کا۔ اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ: "میرے بندے کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی"۔ پھر جب بندہ کہتا ہے: اھدنا الصراط المستقیم (آخر تک) تو حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ "یہ سب میرے بندے کے لئے ہے، اور ا سکو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی"۔ (مظہری)

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Tuesday 15 November 2016

غیر مسلموں کی جان کی حرمت

"۔۔۔اور تم نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا، پھر ہم نے تمہیں اس گھٹن سے نجات دی، اور تمہیں کئ آزمائشوں سے گزارا۔۔۔" (سورہٴ طٰهٰ:۴۰)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک اسرائیلی مسلمان سے ایک فرعونی کافر کو لڑتا دیکھ کر فرعونی کو مکّہ مارا جس سے وہ مر گیا۔ اس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خود بھی  عملِ شیطان فرمایا اور الله تعالیٰ سے بھی اس خطا کی معافی طلب کی۔

یہاں ایک فقہی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فرعونی شخص ایک کافر حربی تھا جس سے موسیٰ علیہ السلام کا کوئ معاہدہ صلح بھی نہ تھا، نہ اس کو اہلِ ذمّہ کافروں کی فہرست میں داخل کیا جا سکتا ہے جن کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت مسلمانوں پر واجب ہوتی ہے۔ پھر یہاں اس کو عملِ شیطان اور خطا کس بنا پر قرار دیا گیا؟

مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ الله علیه نے اس کا جواب یہ دیا تھا کہ چونکہ اس وقت نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حکومت تھی اور نہ اس فرعونی کی، بلکہ دونوں حکومتِ فرعون کے شہری تھے اور ایک دوسرے کی طرف سے مطمئن تھے، اس لئے یہ ایک قسم کا عملی معاہدہ تھا۔ فرعونی کے قتل میں اس عملی معاہدے کی خلاف ورزی ہوئ اس لئے اس کو خطا قرار دیا گیا۔ اسی بنا پہ حضرت تھانویؒ مشترک ہندوستان میں جبکہ مسلمان اور ہندو دونوں انگریز کی حکومت میں رہتے تھے کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں سمجھتے تھے کہ وہ کسی ہندو کی جان و مال پہ ظلم کرے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Sunday 13 November 2016

"بیشک جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں، خدائے رحمٰن ان کے لئے دلوں میں محبّت پیدا کر دے گا۔" (سورہٴ مریم:۹۶)

اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع ؒ نے فرمایا کہ جب ایمان اور عملِ صالح مکمّل ہوں اور بیرونی عوارض سے خالی ہوں تو ان کاخاصّہ یہ ہے کہ موٴمنین صالحین کے درمیان آپس میں بھی الفت و محبّت ہو جاتی ہے۔ ایک نیک صالح آدمی دوسرے نیک آدمی سے مانوس ہوتا ہے اور دوسرے تمام لوگوں اور مخلوقات کے دلوں میں بھی الله تعالیٰ ان کی محبّت پیدا فرما دیتے ہیں۔

بخاری، مسلم، ترمذی، وغیرہ نے حضرت ابو ہریرہؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ حقِ تعالیٰ جب کسی بندے کو پسند فرماتے ہیں تو جبرئیل امین سے کہتے ہیں کہ میں فلاں آدمی سے محبّت کرتا ہوں، تم بھی ان سے محبّت کرو۔ جبرئیل امین سارے آسمانوں میں اس کی منادی کرتے ہیں اور سب آسمان والے اس سے محبّت کرنے لگتے ہیں۔ پھر یہ محبّت زمین زمین پر نازل ہوتی ہے (تو زمین والے بھی سب اس محبوبِ خدا سے محبّت کرنے لگتے ہیں)۔ اور فرمایا کہ قرآن کریم کی یہ آیت اس پر شاہد ہے۔ اور ہرم بن حیّانؒ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے پورے دل سے الله تعالیٰ کی طرف متوجّہ ہو جاتا ہے تو الله تعالیٰ تمام اہلِ ایمان کے دل اسکی طرف متوجّہ فرما دیتے ہیں۔ (قرطبی)

ماخوذ از معارف القرآن، تالیفِ مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Saturday 12 November 2016

ایفائے عہد

"اور اس کتاب میں اسمٰعیل کا بھی ذکر کرو۔ بیشک وہ وعدے کے سچّے تھے، اور رسول اور نبی تھے۔" (سورہٴ مریم:۵۴)

ایفاء عہد ایک ایسا حسنِ خلق ہے کہ ہر شریف آدمی اس کو ضروری سمجھتا ہے اور اس کے خلاف کرنے کو ایک بہت بری حرکت قرار دیا جاتا ہے۔  حدیث شریف میں وعدہ خلافی کو نفاق کی علامت بتلایا ہے، اس لئے الله کا کوئ نبی و رسول ایسا نہیں جو وعدے کا پکّا نہ ہو۔ 

حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ "وعدہ ایک قرض ہے" یعنی جس طرح قرض کی ادائیگی انسان پر لازم ہے اسی طرح وعدہ پورا کرنے کا اہتمام بھی لازم ہے۔ ایک اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ "مومن کا وعدہ واجب ہے"۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ اللہ علیه

Friday 11 November 2016

"رہی یہ دیوار، تو وہ اس شہر میں رہنے والے دو یتیم لڑکوں کی تھی، اور اس کے نیچے ان کا ایک خزانہ گڑا ہوا تھا، اور ان دونوں کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔۔۔" (سورہٴ الکھف: ۸۲)

یہ آیت سورہ کہف کی ان آیتوں میں سے ہے جن میں حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا پورا قصّہ بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابنِ عبّاس ؓ نے فرمایا کہ وہ (خزانہ جس کا اس آیت میں ذکر ہے) سونے کی ایک تختی تھی جس پر نصیحت کے مندرجہ ذیل کلمات لکھے ہوئے تھے، یہ روایت حضرت عثمان بن عفّان نے مرفوعاً رسول الله ﷺ سے بھی نقل فرمائ۔ (قرطبی) 

۱۔ بسم الله الرحمٰن الرحیم۔
۲۔ تعجّب ہے اس شخص پر جو تقدیر پر ایمان رکھتا ہے، پھر غمگین کیوں کر ہوتا ہے۔
۳۔ تعجّب ہے اس شخص پر جو اس پر ایمان رکھتا ہے کہ رزق کا ذمّہ دار الله تعالیٰ ہے، پھر ضرورت سے زیادہ مشقّت اور فضول قسم کی کوشش میں کیوں لگتا ہے۔
۴۔ تعجّب ہے اس شخص پر جو موت پر ایمان رکھتا ہے پھر خوش و خرّم کیسے رہتا ہے۔
۵۔ تعجّب ہے اس شخص پر جو حسابِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے پھر غفلت کیسے برتتا ہے۔
۶۔ تعجّب ہے اس شخص پر جو دنیا اور اس کے انقلابات کو جانتا ہے پھر کیسے اس پر مطمئن ہو کر بیٹھتا ہے۔
۷۔ لا الہٰ الا الله محمد رسول الله

ماخوذ از بیان القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه
حاکم نے مستدرک میں حضرت انس رضی الله تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے کہ جب رسول الله ﷺ کی وفات ہوئ تو ایک شخص سیاہ سفید داڑھی والے داخل ہوئے ، اور لوگوں کے مجمع کو چیرتے پھاڑتے اندر پہنچے اور رونے لگے۔ پھر صحابہٴ کرام کی طرف متوجّہ ہو کر یہ کلمات کہے:

"الله کی بارگاہ میں صبر ہے ہر مصیبت سے، اور بدلہ ہے ہر فوت ہونیوالی چیز کا، اور وہی قائم مقام ہے ہر ہلاک ہونے والے کا، اس لئے اسی کی طرف رجوع کرو، اسی کی طرف رغبت کرو، اور اس بات کو دیکھو کہ وہ تمہیں مصیبت میں مبتلا کر کے تم کو آزماتا ہے۔ اصل مصیبت زدہ وہ ہے جس کی مصیبت کی تلافی نہ ہو۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہٴ کہف، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Tuesday 8 November 2016

اختلافی معاملات میں طویل بحثوں سے اجتناب

"کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین آدمی تھے اور چوتھا ان کا کتّا تھا، اور کچھ کہیں گے کہ وہ پانچ تھے، اور چھٹا اور ان کا کتّا تھا۔ یہ سب اٹکل کے تیر چلانے کی باتیں ہیں۔ اور کچھ کہیں گے کہ وہ سات تھے، اور آٹھواں ان کا کتّا تھا۔ کہہ دو کہ:"میرا رب ہی ان کی صحیح تعداد کو جانتا ہے۔ تھوڑے سے لوگوں کے سوا کسی کو ان کا پورا علم نہیں۔" لہذا ان کے بارے میں سرسری گفتگو سے آگے بڑھ کر کوئ بحث نہ کرو، اور نہ ان کے بارے میں کسی سے پوچھ گچھ کرو۔" (سورہٴ کہف:۲۲)

حضرت مفتی محمد شفیع ؒ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اس میں رسول الله ﷺ کو جو تعلیم دی گئ ہے وہ درحقیقت علماء امّت کے لئے اہم رہنما اصول ہیں، کہ جب کسی معاملے میں اختلاف پیش آئے تو جس قدر ضروری بات ہے اس کو واضح کر کے بیان کر دیا جائے۔ اس کے بعد بھی لوگ غیر ضروری بحث میں الجھیں تو ان کے ساتھ سرسری گفتگو کر کے بحث ختم کر دی جائے۔ اپنے دعوے کے اثبات میں کاوش اور ان کی بات کی تردید میں بہت زور لگانے سے گریز کیا جئے کہ اس کا کوئ خاص فائدہ تو ہے نہیں۔ مزید بحث و تکرار میں وقت کا زیاں بھی ہے اور باہم تلخی پیدا ہونے کا خطرہ بھی۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Monday 7 November 2016

الله اور اللہ کے رسول ﷺ سے محبّت رکھنا

صحیح بخاری میں بروایتِ انس ؓ مذکور ہے کہ میں اور رسول الله ﷺ ایک روز مسجد سے نکل رہے تھے۔ مسجد کے دروازے پہ ایک شخص ملا اور اس نے سوال کیا کہ یا رسول الله ﷺ! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا کہ تم نے قیامت کے لئے کیا تیّاری کر رکھی ہے؟ (جو اس کے آنے کی جلدی کر رہے ہو) یہ بات سن کر یہ شخص دل میں کچھ شرمندہ ہوا اور پھر عرض کیا کہ میں نے قیامت کے لئے بہت نماز، روزے اور صدقات تو جمع نہیں کئے، مگر میں الله اور اس کے رسولؐ سے محبّت رکھتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر ایسا ہے تو تم (قیامت میں) اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبّت رکھتے ہو۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ہم یہ جملہٴ مبارکہ رسول الله ﷺ سے سن کر اتنے خوش ہوئے کہ اسلام لانے کے بعد سے اس سے زیادہ خوشی کبھی نہ ہوئ تھی۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِسورہٴ کہف، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Sunday 6 November 2016

الله کے خوف سے رونا

"(کافروں سے) کہہ دو کہ:"چاہے تم اس پہ ایمان لاؤ، یا نہ لاؤ، جب یہ (قرآن) ان لوگوں کے سامنے پڑھا جاتا ہے جن کو اس سے پہلے علم دیا گیا تھا تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں، اور کہتے ہیں: "پاک ہے ہمارا پروردگار! بے شک ہمارے پروردگار کا وعدہ تو پورا ہو کر ہی رہتا ہے۔" اور وہ روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گر جاتے ہیں، اور یہ (قرآن) ان کے دلوں کی عاجزی کو اور بڑھا دیتا ہے۔" (سورہٴ بنی اسرائیل: (۱۰۷۔۱۰۹)

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ جہنّم میں نہ جائے گا وہ شخص جو الله کے خوف سے رویا، جب تک کہ دوہا ہوا دودھ دوبارہ تھنوں میں نہ واپس لوٹ جائے( یعنی جیسے یہ نہیں ہو سکتا کہ تھنوں سے نکالا ہوا دودھ پھر تھنوں میں واپس ڈال دیا جائے، اسی طرح یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ الله کے خوف سے رونے والا جہنّم میں چلا جائے)۔

ایک روایت میں ہے کہ الله تعالیٰ نے دو آنکھوں پہ جہنّم کی آگ حرام کر دی، ایک وہ جو الله کے خوف سے روئے، اور دوسری وہ جو اسلامی سرحد کی حفاظت کے لئے رات کو بیدار رہے۔ (بیہقی و حاکم و صححہ)

حضرت نضر بن سعد ؓ فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ جس قوم میں کوئ الله کے خوف سے رونے والا ہو تو الله تعالیٰ اس قوم کو اس کی وجہ سے آگ سے نجات عطا فرما دیں گے۔ (روح عن الحکیم الترمذی)

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

آیاتِ بیّنات

ابو داؤد، نسائ، ترمذی، ابنِ ماجہ میں بسندِ صحیح حضرت صفوان بن عسال ؓ سے منقول ہے کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا کہ مجھے اس نبی کے پاس لے چلو۔ پھر یہ دونوں رسول الله ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ "موسیٰ علیہ السلام کو جو نو آیاتِ بیّنات دی گئ تھیں وہ کیا ہیں؟" رسول الله ﷺ نے فرمایا، "(۱) الله کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ (۲) چوری نہ کرو۔ (۳) زنا نہ کرو۔ (۴) جس جان کو الله نے حرام کیا ہے اس کو ناحق قتل نہ کرو۔ (۵) کسی بے گناہ پہ جھوٹا الزام لگا کر قتل و سزاء کے لئے پیش نہ کرو۔ (۶) جادو نہ کرو۔ (۷) سود نہ کھاؤ۔ (۸) پاکدامن عورت پہ بدکاری کا بہتان نہ باندھو۔ میدانِ جہاد سے جان بچا کر نہ بھاگو۔ اور اے یہود خاص کر تمہارے لئے یہ بھی حکم ہے کہ یومِ سبت (سنیچر) کے جو خاص احکام تمہیں دئے گئے ہیں انکی خلاف ورزی نہ کرو۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہٴ بنی اسرائیل، تالیف مفتی محد شفیع رحمتہ الله علیه

Saturday 5 November 2016

تکبّر کی ممانعت

"اور زمین پر اکڑ کر مت چلو۔ نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو، اور نہ بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتے ہو۔" (سورہٴ بنی اسرائیل: ۳۸)

تکبّر کے معنی اپنے آپ کو دوسروں سے افضل و اعلیٰ سمجھنا، اور دوسروں کو اپنے مقابلہ میں کمتر و حقیر سمجھنا ہے۔ حدیث میں اس پر سخت وعیدیں مذکور ہیں۔ انسان کے چال ڈھال میں جو چیزیں  تکبّر پر دلالت کرنے والی ہیں وہ بھی ناجائز ہیں۔ 

امام مسلم ؒ نے بروایت حضرت عیاض بن عمارؓ نقل کیا ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے میرے پاس بذریعہ وحی یہ حکم بھیجا ہے کہ تواضع اور پستی اختیار کرو۔ کوئ آدمی کسی دسرے آدمی پر فخر اور اپنی بڑائ کا طرز اختیار نہ کرے، اور کوئ کسی پر ظلم نہ کرے۔ (مظہری)

حضرت عبدالله ابنِ مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ وہ آدمی جنّت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرّہ کے برابر بھی تکبّر ہو گا۔ (مظہری بحوالہ صحیح مسلم)

حضرت فاروقِ اعظمؓ نے منبر پہ خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے رسول الله ﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص تواضع اختیار کرتا ہے الله تعالیٰ اسکو سربلند فرماتے ہیں کہ وہ اپنے نزدیک تو چھوٹا مگر سب لوگوں کی نظر میں بڑا ہوتا ہے۔ اور جو شخص تکبّر کرتا ہے الله تعالیٰ اسکو ذلیل کرتے ہیں کہ وہ خود اپنی نظر میں بڑا ہوتا ہے اور لوگوں کی نظر میں وہ کتّے اور خنزیر سے بدتر ہوتا ہے۔ (مظہری)

 ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ

مالی حقوق کا بیان۔ حصہ سوئم

"اور جب (کسی کو کوئ چیز) پیمانے سے ناپ کر دو تو پورا ناپو، اور صحیح ترازو سے تولا کرو۔ یہی طریقہ درست ہے، اور انجام کے لحاظ سے بہتر۔" (سورہٴ بنی اسرائیل:۳۵)

اس آیت میں لین دین کے معاملات میں ناپ تول پورا کرنےکی ہدایت اور اس میں کمی کرنے کی ممانعت کا حکم ہے۔ حضرات فقہاء نے فرمایا کہ اس آیت میں ناپ تول میں کمی کا جو حکم ہے اسکا حاصل یہ ہے کہ جس کا جتنا حق ہے اس سے کم دینا حرام ہے۔ اس لئے  اگر کوئ ملازم  اپنے تفویض کئے ہوئے اور مقرّرہ کام میں میں کمی کرے، یا جتنا وقت دینا ہے اس سے کم دے، یا مزدور اپنی مزدوری میں کام چوری کرے، یہ سب اس میں داخل ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Thursday 3 November 2016

مالی حقوق کا بیان۔ حصہ دوئم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

دوسرا حکم اس آیت میں (جس کی تفصیل پچھلی پوسٹ میں آئ) عہد پورا کرنے کی تاکید ہے۔ عہد دو طرح کے ہیں۔ ایک  عہد وہ ہے جو بندہ اور الله کے درمیان ہے، جسکا حاصل احکام الٰہیہ کا مکمّل اتّباع اور الله تعالیٰ کی رضا جوئ ہے۔ دوسرا عہد وہ جو ہے جو انسان کسی انسان سے کرتا ہے جس میں تمام سیاسی، تجارتی، معاملاتی معاہدات شامل ہیں جو افراد یا جماعتوں کے درمیان دنیا میں ہوتے ہیں۔ 

پہلی قسم کے تمام معاہدات کا پورا کرنا انسان پر واجب ہے۔ دوسری قسم میں جو معاہدات خلافِ شرع نہ ہوں ان کا پورا کرنا واجب ہے، اور جو خلافِ شرع ہوں ان کا فریقِ ثانی کو اطّلاع کر کے ختم کر دینا واجب ہے۔ معاہدہ کی حقیقت یہ ہے کہ دو فریقوں کے درمیان کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا عہد ہو۔ جو کوئ شخص کسی سے یکطرفہ وعدہ کر لیتا ہے کہ میں آپ کو فلاں چیز دوں گا، یا آپ کا فلاں کام کر دوں گا اس کا پورا کرنا بھی واجب ہے۔ بلا عذرِ شرعی کے کسی سے وعدہ کر کے جو خلاف ورزی کرے گا وہ شرعاً گناہ گار ہو گا۔ حدیث میں اس کو عملی نفاق قرار دیا گیا ہے۔

ماخوذ از بیان القرآن، الیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Wednesday 2 November 2016

مالی حقوق کا بیان۔ حصہ اوّل

"ْاور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ پھٹکو، مگر ایسے طریقے سے جو ( اس کے حق میں) بہترین ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کو پہنچ جائے۔ اور عہد کو پورا کرو، یقین جانو کہ عہد کے بارے میں (تہاری) بازپرس ہونے والی ہے۔ اور جب (کسی کو کوئ چیز) پیمانے سے ناپ کر دو تو پورا ناپو، اور صحیح ترازو سے تولا کرو۔ یہی طریقہ درست ہے، اور انجام کے لحاظ سے بہتر۔" (سورہٴ بنی اسرائیل:۳۴۔۳۵)

پہلی آیت میں یتیموں کے اموال کی حفاظت اور ان میں احتیاط کا حکم ہے کہ کوئ ایسا کام نہ کرو جو بچّوں کی مصلحت کے خلاف ہو۔ یتیموں کے مال کی حفاظت اور انتظام جن کے ذمّہ ہے ان پر لازم ہے کہ ان میں بڑی احتیاط سے کام لیں۔ صرف یتیموں کی مصلحت کو دیکھ کر خرچ کریں، اپنی خواہش یا بے فکری سے نہ خرچ کریں۔ اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے جب تک یتیم بچّے جوان ہو کر اپنے مال کی حفاظت خود نہ کر سکیں۔ 

ناجائز طریقے پر کسی کا مال خرچ کرنا بھی جائز نہیں۔ یہاں یتیموں کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ وہ خود تو کوئ حساب لینے کے قابل نہیں، اور دوسروں کو اس کی خبر نہیں ہو سکتی۔ جس جگہ کوئ انسان اپنے حق کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو وہاں حق تعالیٰ کا مطالبہ زیادہ شدید ہو جاتا ہے اور اس میں کوتاہی عام لوگوں کے حقوق کی نسبت سے زیادہ بڑا گناہ ہو جاتی ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

Tuesday 1 November 2016

خرچ میں بد نظمی ممنوع ہے

"اور نہ تو (ایسے کنجوس بنو کہ) اپنے ہاتھ کو گردن سے باندھ کر رکھو، اور نہ (ایسے فضول خرچ کہ) ہاتھ کو بالکل ہی کھلا چھوڑ دو جس کے نتیجے میں تمہیں قابلِ ملامت اور قلّاش ہو کر بیٹھنا پڑے۔
(سورہٴ بنی  اسرائیل:۲۹)

اس آیت میں مال خرچ کرنے میں میانہ روی کی تاکید کی گئ ہے۔ نہ اتنا کنجوس ہو جائے کہ حق دار ضرورت مندوں کی مدد سے بھی ہاتھ روک لے، نہ ہی اتنا فضول خرچ ہو جائے کہ بعد میں خود اپنے لئے، اور جن لوگوں کے حقوق اس کے ذمّہ واجب ہیں، ان کے لئے مشکل کھڑی ہو جائے۔

آخر میں اس آیت میں بد نظمی کے ساتھ خرچ کرنے کو منع کیا گیا ہے کہ آنے والے حالات سے قطع نظر کر کے جو کچھ پاس ہے اسے اسی وقت خرچ کر ڈالے۔ کل کو دوسرے ضرورت مند لوگ آئیں یا کوئ اہم دینی ضرورت پیش آ جائے تو اب اس کے لئے قدرت نہ رہے۔ (قرطبی) یا اہل و عیال جنکے حقوق اس کے ذمّہ واجب ہیں ان کے حقوق ادا کرنے کی استطاعت نہ رہے۔  (مظہری) ملوماً محسوراً کے الفاظ کے متعلّق تفسیرِ مظہری میں ہے کہ ملوم کا تعلّق پہلی حالت یعنی بخل سے ہے کہ اگر ہاتھ کو بخل سے بالکل روک لے گا تو لوگ ملامت کریں گے اور محسورا کا تعلّق دوسری حالت سے ہے کہ خرچ کرنے میں اتنی زیادتی کرے کہ خود فقیر ہو جائے تو یہ محسورا یعنی تھکا ماندہ، عاجز یا حسرت زدہ ہو جائے گا۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورہٴ بنی اسرائیل، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه