Wednesday 2 November 2016

مالی حقوق کا بیان۔ حصہ اوّل

"ْاور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ پھٹکو، مگر ایسے طریقے سے جو ( اس کے حق میں) بہترین ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کو پہنچ جائے۔ اور عہد کو پورا کرو، یقین جانو کہ عہد کے بارے میں (تہاری) بازپرس ہونے والی ہے۔ اور جب (کسی کو کوئ چیز) پیمانے سے ناپ کر دو تو پورا ناپو، اور صحیح ترازو سے تولا کرو۔ یہی طریقہ درست ہے، اور انجام کے لحاظ سے بہتر۔" (سورہٴ بنی اسرائیل:۳۴۔۳۵)

پہلی آیت میں یتیموں کے اموال کی حفاظت اور ان میں احتیاط کا حکم ہے کہ کوئ ایسا کام نہ کرو جو بچّوں کی مصلحت کے خلاف ہو۔ یتیموں کے مال کی حفاظت اور انتظام جن کے ذمّہ ہے ان پر لازم ہے کہ ان میں بڑی احتیاط سے کام لیں۔ صرف یتیموں کی مصلحت کو دیکھ کر خرچ کریں، اپنی خواہش یا بے فکری سے نہ خرچ کریں۔ اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے جب تک یتیم بچّے جوان ہو کر اپنے مال کی حفاظت خود نہ کر سکیں۔ 

ناجائز طریقے پر کسی کا مال خرچ کرنا بھی جائز نہیں۔ یہاں یتیموں کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ وہ خود تو کوئ حساب لینے کے قابل نہیں، اور دوسروں کو اس کی خبر نہیں ہو سکتی۔ جس جگہ کوئ انسان اپنے حق کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو وہاں حق تعالیٰ کا مطالبہ زیادہ شدید ہو جاتا ہے اور اس میں کوتاہی عام لوگوں کے حقوق کی نسبت سے زیادہ بڑا گناہ ہو جاتی ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

No comments:

Post a Comment