Wednesday 23 November 2016

حضرت ابو حازم ؒ اور سلیمان عبدالملک کے درمیان مکالمہ۔ حصہٴ اوّل

"اور مت ملاؤ صحیح میں غلط اور مت چھپاؤ سچ کو جان بوجھ کر۔" (سورة البقرہ: ۴۲)

حق بات کو غلط باتوں کے ساتھ ملا جلا کے اس طرح پیش کرنا جس سے مخاطب مغالطہ میں پڑ جائے جائز نہیں۔ اسی طرح کسی خوف یا لالچ کی وجہ سے حق بات کا چھپانا بھی حرام ہے۔

امام قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں حق کو چھپانے سے پرہیز کرنے کا ایک مفصّل مکالمہ حضرت ابو حازم تابعیؒ اور خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کا نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ سلیمان بن عبدالملک نے مدینہ طیّبہ میں چند روز قیام کیا تو لوگوں سے دریافت کیا کہ مدینہ طیّبہ میں اب کوئ ایسا آدمی موجود ہے جس نے کسی صحابی کی صحبت پائ ہو؟ لوگوں نے بتلایا کہ ہاں ابو حازمؒ ایسے شخص ہیں۔ سلیمان نے اپنا آدمی بھیج کر ان کو بلوا لیا۔ 

سلیمان نے ابو حازمؒ سے پوچھا کہ اے ابو حازمؒ! یہ کیا بات ہے کہ ہم موت سے گھبراتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ آپ نے اپنی آخرت کو ویران اور دنیا کو آباد کیا ہے، اس لئے آبادی سے ویرانے میں جانا پسند نہیں۔

سلیمان نے تسلیم کیا اور پوچھا کہ کل الله تعالیٰ کے سامنے حاضری کیسے ہو گی؟ فرمایا کہ نیک عمل کرنے والا تو الله تعالیٰ کے سامنے اس طرح جائے گا جیسے کوئ مسافر سفر سے واپس اپنے گھر والوں کے پاس جاتا ہے۔ اور برے عمل کرنے والا اس طرح پیش ہو گا جیسے کوئ بھاگا ہوا غلام پکڑ کر آقا کے سامنے حاضر کیا جائے۔

سلیمان یہ سنکر رو پڑا اور کہنے لگا، کاش ہمیں معلوم ہوتا کہ الله تعالیٰ نے ہمارے لئے کیا صورت تجویز کر رکھی ہے؟ ابو حازمؒ نے فرمایا کہ اپنے اعمال کو الله کی کتاب پر پیش کرو تو پتہ لگ جائے گا۔ سلیمان نے دریافت کیا کہ قرآن کی کس آیت سے یہ پتہ لگے گا؟ فرمایا کہ اس آیت سے: ترجمہ "یعنی بلاشبہ نیک عمل کرنے والے جنّت کی نعمتوں میں ہیں، اور نافرمان، گناہ شعار دوزخ میں۔" (۸۳:۱۳۔۱۴)

سلیمان نے کہا کہ الله کی رحمت تو بڑی ہے، وہ بدکاروں پہ بھی حاوی ہے۔ فرمایا، ترجمہ"یعنی الله کی رحمت نیک عمل کرنے والوں سے قریب ہے۔" (۵۶:۷)

جاری ہے۔۔۔

No comments:

Post a Comment