Tuesday 15 November 2016

غیر مسلموں کی جان کی حرمت

"۔۔۔اور تم نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا، پھر ہم نے تمہیں اس گھٹن سے نجات دی، اور تمہیں کئ آزمائشوں سے گزارا۔۔۔" (سورہٴ طٰهٰ:۴۰)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک اسرائیلی مسلمان سے ایک فرعونی کافر کو لڑتا دیکھ کر فرعونی کو مکّہ مارا جس سے وہ مر گیا۔ اس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خود بھی  عملِ شیطان فرمایا اور الله تعالیٰ سے بھی اس خطا کی معافی طلب کی۔

یہاں ایک فقہی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فرعونی شخص ایک کافر حربی تھا جس سے موسیٰ علیہ السلام کا کوئ معاہدہ صلح بھی نہ تھا، نہ اس کو اہلِ ذمّہ کافروں کی فہرست میں داخل کیا جا سکتا ہے جن کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت مسلمانوں پر واجب ہوتی ہے۔ پھر یہاں اس کو عملِ شیطان اور خطا کس بنا پر قرار دیا گیا؟

مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ الله علیه نے اس کا جواب یہ دیا تھا کہ چونکہ اس وقت نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حکومت تھی اور نہ اس فرعونی کی، بلکہ دونوں حکومتِ فرعون کے شہری تھے اور ایک دوسرے کی طرف سے مطمئن تھے، اس لئے یہ ایک قسم کا عملی معاہدہ تھا۔ فرعونی کے قتل میں اس عملی معاہدے کی خلاف ورزی ہوئ اس لئے اس کو خطا قرار دیا گیا۔ اسی بنا پہ حضرت تھانویؒ مشترک ہندوستان میں جبکہ مسلمان اور ہندو دونوں انگریز کی حکومت میں رہتے تھے کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں سمجھتے تھے کہ وہ کسی ہندو کی جان و مال پہ ظلم کرے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

No comments:

Post a Comment