Tuesday 31 January 2017

اختلاف بین المسلمین۔ حصّہ پنجم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

لیکن دوسری اور تیسری طرح کے احکام میں ایسا ہوتا آیا ہے کہ مختلف مجتہدوں اور آئمہ نے واضح احکام کی غیر موجودگی میں قرآن و حدیث میں غور و فکر کر کے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ اس معاملے میں صحیح طریقہ کیا ہے۔ ایک ہی معاملے میں ایک امام ایک نتیجے میں پہنچے اور دوسرے دوسرے نتیجےپہ۔ مثال کے طور پہ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں سورة فاتحہ پڑھی جانی ہے، لیکن سرّی (جس میں قراٴت آہستہ سے کی جاتی ہے) نمازوں کی جماعت میں ہر مقتدی کو اسے الگ الگ پڑھنا ہے یا امام سب کی طرف سے پڑھے گا، یہ قرآن اور حدیث میں صرحاً نہیں بیان کیا گیا۔ ایک امام اس نتیجے پہ پہنچے کہ ہر مقتدی کو الگ الگ پڑھنا چاہئے۔ دوسرے امام نے یہ فرمایا کہ ہر مقتدی کو زبان سے نہیں پڑھنا چاہئے، امام سب کی طرف سے پڑھے گا۔ 

ان معاملات کا حکم یہ ہے کہ چونکہ الله اور الله کے رسول ﷺ نے ایسے معاملات میں واضح حکم نہیں دیا اس لئے ان معاملات میں یہ سمجھنا کہ میرا طریقہ سو فیصد صحیح ہے اور باقی ہر طریقہ سو فیصد غلط ہے، صحیح نہیں۔ جو عالمِ ربّانی قرآن و حدیث میں غور و فکر کے بعد جس نتیجے پہ پہنچا اس کے لئے وہی صحیح ہے، اور جس شخص نے اسے حق پہ سمجھتے ہوئے اتّباعِ شریعت کی نیّت سے اس کا اتّباع کیا اس کے لئے وہی حق ہے۔ اس میں اپنے یا اپنے امام کے طریقے کے علاوہ دوسروں کے طریقوں کو غلط سمجھنا صحیح نہیں۔ جس معاملے میں الله اور الله کے رسول نے کسی طریقے کو واضحًا سو فیصد صحیح قرار نہیں دیا، اس معاملے میں کسی اور انسان کو یہ حق کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ ایسے معاملات میں انسان اتّباعِ حق کی نیّت سے جو طریقہ اختیار کرے گا انشاٴالله اس میں خیر ہی ہو گی۔ بس انسان خود رائ سے پرہیز کرے اور کسی معتبر عالم کی اتّباع کرے، اور کسی دوسرے پہ اعتراض نہ کرے۔

جاری ہے۔۔۔

اختلاف بین المسلمین۔ حصّہ چہارم

دوسری بات یہ ہے کہ اسلام کے احکامات تین طرح کے ہیں۔ ایک تو وہ احکام ہیں جس میں الله تعالیٰ اور الله کے رسول ﷺ کی طرف سے واضح حکم آ گیا جس کو نص کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن میں یہ حکم آگیا کہ نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا فرض ہے، شراب پینا اور سوّر کھانا حرام ہے۔ دوسری طرح کے احکام وہ ہیں جس میں الله تعالیٰ اور الله کے رسول ﷺ نے اصولی احکام بیان کئے ہیں لیکن جزئیات بیان نہیں کیں۔ تیسری طرح کے احکام وہ ہیں جن کے بارے میں قرآن و حدیث خاموش ہیں چاہے اس لئے کہ اس زمانے میں یہ مسائل موجود نہیں تھے اور یہ جدید دور کی پیداوار ہیں مثلاً ایک انسان کا گردہ دوسرے انسان کے جسم میں لگا دینا، یا اس لئے کہ یہ تحقیق اور غور وفکر کا میدان ہے جو الله تعالیٰ نے انسان کے لئے کھلا چھوڑ دیا ہے۔

 پہلی طرح کے احکام  یعنی نصوص میں قیامت تک تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ چاہے کوئ بڑے سے بڑا مجتہد ہو، فقیہ ہو، مفتی ہو یا قاضی ہو، وہ شراب پینے کو یا سوّر کھانے کو حلال قرار نہیں دے سکتا، یا یہ نہیں کہہ سکتا کہ آج کے زمانے میں روزہ رکھنے یا زکوٰة دینے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ جس بات کو واضح طور پہ الله اور الله کے رسول ﷺ نے حلال یا حرام قرار دے دیا وہ ہمیشہ کے لئے حلال اور حرام رہیں گے۔ ان معاملات میں صحیح طریقہ ایک ہی ہے اور اس کے علاوہ ہر طریقہ غلط ہے۔ 

جاری ہے۔۔۔

Monday 30 January 2017

اختلاف بین المسلمین۔ حصّہ سوئم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

 اگلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ کسی کام کے کرنے کے دو طریقے ہونے کا ہمیشہ مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ان میں سے ایک طریقہ صحیح ہے اور ایک غلط ہے۔ ہمارے دوست نے خود ہی مثال دی تھی کہ بعض مسلمان ہاتھ باندھ کر اور بعض ہاتھ چھوڑ کر نماز کیوں پڑھتے ہیں؟ ہمیں کیسے پتہ چلے کہ ان میں سے کون سا طریقہ صحیح ہے؟ خادم نے عرض کیا کہ رسول الله ﷺ نے بعض دفعہ ہاتھ باندھ کر بھی نماز پڑھی اور بعض دفعہ ہاتھ چھوڑ کر بھی پڑھی، رفع یدین (مثلاً سجدے میں جانے سے پہلے کانوں تک ہاتھ اٹھانا) کیا بھی اور بعض دفعہ نہیں بھی کیا۔ اسی طرح رسول الله ﷺ کی بہت سی سنّتیں ہیں جن میں مختلف موقعوں پہ انہوں نے مختلف طریقہ اختیار کیا۔ الله تعالیٰ کو رسول الله ﷺ کی تمام سنتّوں کو زندہ رکھنا مقصود ہے، اسی لئے بعض لوگوں نے ایک سنّت کو اختیار کیا اور بعض نے دوسری سنّت کو۔ اس لئے یہ سمجھنا کہ جس طریقے سے میں نماز پڑھتا ہوں وہی درست ہے اور اس کے علاوہ کوئ بھی طریقہ درست نہیں، ایسا سمجھنا درست نہیں۔ اس کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ہم ایک سنّت پر عمل کر رہے ہیں اور دوسرا دوسری سنّت پر عمل کر رہا ہے۔ الله تعالی دونوں کی عبادات کو قبول فرمائیں۔ آمین

جاری ہے۔۔۔

Sunday 29 January 2017

اختلاف بین المسلمین۔ حصّہ دوئم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

احقر نے عرض کیا کہ سب سے پہلی بات تو سمجھنے کی یہ ہے کہ دین میں کچھ اصول ہوتے ہیں یعنی بنیادی باتیں ہوتی ہیں اور کچھ فروع ہوتے ہیں جو ان کی شاخیں ہوتی ہیں یا غیر بنیادی باتیں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پہ نماز پڑھنا، یا یہ بات کہ دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں  دین کے اصولوں میں سے ہے۔ لیکن مثلاً وتر کی تینوں رکعتیں ایک ساتھ پڑھنی ہیں یا تیسری الگ سے پڑھنی ہے، یا تیسری رکعت میں دعا ہاتھ باندھ کر کرنی ہے یا ہاتھ دعائیہ انداز میں اٹھا کر کرنی ہے، یہ دین کا فروع ہے۔

اگر آپ پچھلی پندرہ صدیوں میں مسلمانوں کے اختلافات کی تفصیل دیکھ لیں تو اس میں اصول کا اختلاف بہت کم ملے گا، اور زیادہ تر اختلاف جو ملے گا وہ فروعی اختلاف ہے۔ مثلاً آج تک کبھی مسلمانوں میں اس بات پر اختلاف نہیں ہوا کہ دن میں پانچ نمازیں پڑھنی ہوتی ہیں، یا مغرب کی فرض نماز میں تین رکعتیں ہوتی ہیں، یا رمضان کے پورے مہینے میں روزے رکھنے ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کا کوئ فرقہ ایسا نہیں جو مجموعی طور سے یہ کہہ دے کہ اب زکوٰة فرض نہیں رہی، یا روزے رمضان میں صرف پندرہ دن رکھنے ہوتے ہیں، یا حج کی فرضیت اب ختم ہو گئ ہے۔ ہم لوگ ہر وقت اختلافات پہ نظر رکھتے ہیں لیکن یہ کبھی کسی نے سوچا کہ کتنی حیران کن بات ہے کہ رسول الله ﷺ کی بعثت کو تقریباً ڈیڑھ ہزار سال ہو گئے، اس عرصے میں مسلمانوں کی تعداد چند نفوس سے بڑھ کر تقریباً ڈیڑھ ارب ہو گئ اور جزیرہ نما عرب سے نکل کے پوری دنیا میں پھیل گئ، اس کے باوجود دینِ اسلام کی بنیادی باتیں بالکل وہی ہیں جو ڈیڑھ ہزار سال پہلے تھیں اور مسلمانوں کے کسی بڑے گروہ اور فرقے میں ان بنیادی باتوں پر آج تک کبھی اختلاف نہیں ہوا۔

جاری ہے۔۔۔

اختلاف بین المسلمین۔ حصّہ اوّل

(راقم کی ننانوے فیصد کوشش یہی ہوتی ہے کہ بزرگوں کی باتیں ہی نقل کروں اور اپنی طرف سے کچھ نہ لکھوں کیوں دین میں کم علم لوگوں کی خود آرائ سے جتنا نقصان ہوتا ہے اتنا شاید کسی اور چیز سے نہیں ہوتا۔ لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دوستوں سے کچھ ایسی بات ہوتی ہے جس سے انہیں کافی اطمینان ہوتا ہے۔ بہت ڈرتے ڈرتے ان باتوں کو لکھ دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ ان سے کسی کو نقصان نہ ہو۔ باتیں تو یہ بھی بزرگوں سے سنی ہوئ اور سمجھی ہوئ ہی ہیں لیکن براہ راست ان کے الفاظ نہیں ہیں۔ الله تعالیٰ حفاظت فرمائے۔ آمین)

حال میں دو بہت ہی قریبی دوستوں نے راقم سے ایک ہی طرح کی الجھن ظاہر کی کہ ان کو دین کے راستے پہ چلنے میں ایک خیال مانع ہے اور وہ یہ کہ مختلف مسلمانوں کا، چاہے وہ افراد ہوں، کوئ فرقہ ہوں، یا کوئ اسلامی ملک ہو، عبادت کرنے کا طریقہ ایک دوسرے سے اتنا الگ کیوں ہے۔ ان کو ایسا وہم ہوتا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کے عبادت کرنے کے طریقے ایک دوسرے سے اتنے مختلف ہیں اس لئے ان میں سے کوئ بھی صحیح نہیں، اور چونکہ ان میں سے کوئ بھی صحیح نہیں تو ہم کس کی تقلید کریں اور اس کے طریقے کو اختیار کریں۔ اس الجھن کا شکار ہو کر بہت سے وہ مسلمان بھی جو اخلاصِ نیّت سے دین پہ چلنا چاہتے ہیں ، دین کے راستے کو چھوڑ بیٹھتے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔

Saturday 28 January 2017

حصّہ دوئم

"اور لڑو الله کی راہ میں ان سے جو لڑتے ہیں تم سے اور کسی پر زیادتی مت کرو۔ بیشک الله تعالیٰ ناپسند کرتا ہے زیادتی کرنے والوں کو۔" (سورة البقرہ: ۱۹۰)

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

رسولِ کریم ﷺ کی ہدایات جو مجاہدینِ اسلام کو بوقتِ جہاد دی جاتی تھیں ان میں اس حکم کی واضح تشریحات مذکور ہیں۔ صحیح بخاری و مسلم میں بروایتِ حضرت عبدالله بن عمرؓ ایک حدیث میں ہے:

"رسول الله ﷺ نے عورتوں اور بچّوں کے قتل سے منع فرمایا ہے۔"

اور ابو داؤد میں بروایتِ حضرت انسؓجہاد پر جانے والے صحابہؓ کو رسول کریم ﷺ کی یہ ہدایات منقول ہیں، تم الله کے نام پر اور رسول الله ؐ کی ملّت پر جہاد کے لئے جاؤ، کسی بوڑھے ضعیف کو اور چھوٹے بچّے کو یا کسی عورت کو قتل نہ کرو۔ (مظہری)

حضرت صدّیقِ اکبرؓ نے جب یزید بن ابی سفیانؓ کو ملکِ شام بھیجا تو ان کو یہی ہدایت دی، اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ عبادت گذار اور راہبوں کو اور غیر مسلموں کی مزدوری کرنے والوں کو بھی قتل نہ کریں، جبکہ وہ قتال میں حصّہ نہ ڈالیں۔ (قرطبی)

آیت کے آخر میں "ولا تعتدوا" کا بھی جمہور مفسّرین کے نزدیک یہی مطلب ہے کہ قتال میں حد سے تجاوز نہ کرو کہ عورتوں بچّوں وغیرہ کو قتل کرنے لگو۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

وَقَـٰتِلُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ يُقَـٰتِلُونَكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوٓاْ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلۡمُعۡتَدِينَ O سورة البقرة:۱۹۰)

حصّہ اوّل

"اور لڑو الله کی راہ میں ان سے جو لڑتے ہیں تم سے اور کسی پر زیادتی مت کرو۔ بیشک الله تعالیٰ ناپسند کرتا ہے زیادتی کرنے والوں کو۔" (سورة البقرہ: ۱۹۰)

اس آیت میں حکم یہ ہے کہ مسلمان صرف ان غیر مسلموں سے قتال کریں جو ان کے مقابلہ پہ قتال کے لئے آئیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ عورتیں، بچّے، بوڑھے اور اپنے مذہبی شغل میں دنیا سے یکسو ہو کر لگے ہوئے عبادت گزار راہب، پادری وغیرہ، اور ایسے ہی اپاہج و معذور لوگ، یا وہ لوگ جو غیر مسلموں کے یہاں محنت و مزدوری کا کام کرتے ہیں ان کے ساتھ جنگ میں شریک نہیں ہوتے، ایسے لوگوں کو جہاد میں قتل کرنا جائز نہیں، کیونکہ اس آیت میں صرف ان لوگوں سے قتال کرنے کا حکم ہے جو مسلمانوں کے مقابلے میں قتال کریں، اور مذکورہ قسم کے سب افراد قتال کرنے والے نہیں۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ
حضورِ اقدس ﷺ نے فرمایا کہ:

"کلکم خطاٴون، و خیر الخطائین التوابون" (ترمذی)

"تم میں سے ہر شخص بہت خطا کار ہے، لیکن خطا کاروں میں سے بہترین خطاکار وہ ہے جو توبہ بھی بہت کرتا ہے۔ "

عربی میں "خاطی" اسکو کہتے ہیں جو معمولی غلطی کرے، اور جو بہت زیادہ غلطیاں کرے اس کو "خطاء" کہتے ہیں، تو یہ فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص بہت خطا کار ہے۔ اسی طرح "تائب" کے معنی ہیں توبہ کرنے والا، جبکہ "توّاب" کے معنی ہیں بہت توبہ کرنے والا۔ مطلب یہ ہے کہ صرف ایک مرتبہ توبہ کر لینا کافی نہیں، بلکہ ہر مرتبہ جب بھی گناہ ہو جائے تو الله تعالیٰ کے حضور توبہ کرتے رہو۔ جب کثرت سے توبہ کرو گے تو پھر انشاء الله شیطان کا داؤ نہیں چلے گا، اور شیطان سے حفاظت رہے گی۔

ماخوذ از بیان "توبہ: گناہوں کا تریاق"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Friday 27 January 2017

جن گناہوں سے توبہ کر چکے ان کو بھول جاؤ

حضرت ڈاکٹر عبدالحئ ؒ قدس الله سرّہ فرمایا کرتے تھے کہ جب تم دونوں قسم کی توبہ (توبہ اجمالی اور توبہ تفصیلی) کر لو تو اس کے بعد اپنے چپھلے گناہوں کو یاد بھی نہ کرو بلکہ ان کو بھول جاؤ۔ اس لئے کہ جن گناہوں سے توبہ کر چکے ہو ان کو یاد کرنا ایک طرف تو الله تعالیٰ کی مغفرت کی ناقدری ہے کیونکہ الله تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ جب تم توبہ کر لو گے تو میں تمہارے گناہوں کو معاف کر دوں گا اور تمہارے نامہ اعمال سے مٹا دوں گا۔  اب الله تعالیٰ نے تمہارے گناہوں کو معاف کر دیا لیکن تم الٹا ان کو یاد کر کے ان کا وظیفہ پڑھ رہے ہو۔ یہ ان کی رحمت کی ناقدری ہے۔ 

دوسرے یہ کہ پچھلے گناہوں کو زیادہ یاد کرنے سے بعض اوقات ان کی یاد حجاب اور رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس لئے ان کو یاد مت کرو بلکہ بھول جاؤ۔

ماخوذ از بیان "توبہ: گناہوں کا تریاق"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Thursday 26 January 2017

توبہ تفصیلی۔ حصّہ ششم

مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اسی سنّت پر عمل کرتے ہوئے "العذر و النظر" کے نام سے ایک رسالہ لکھ کر اپنے تمام اہلِ تعلّقات کے نام بھیجا جس میں حضرت نے یہ لکھا کہ چونکہ آپ سے میرے تعلّقات رہے ہیں، خدا جانے کس وقت کیا غلطی مجھ سے وہئ ہو، یا کوئ واجب حق میرے ذمّے باقی ہو۔ خدا کے لئے آج مجھ سے وہ حق وصول کر لیں، یا معاف کر دیں۔

حقوق العباد باقی رہ جائیں تو؟

حضرت تھانوی ؒ فرماتے تھے کہ ایک آدمی سے زندگی میں حقوق العباد ضائع ہوئے۔ بعد میں الله تعالیٰ نےتوبہ کی توفیق عطا فرمائ اور ان حقوق کی ادائیگی کی فکر عطا فرمائ۔ اب وہ لوگوں سے معلوم کر رہا ہے کہ میرے ذمّے کس شخص کے کیا حقوق باقی رہ گئے ہیں تا کہ میں ان کو ادا کر دوں۔ لیکن ابھی ان حقوق کی ادائیگی کی تکمیل نہیں کر پایا تھا کہ اس سے پہلے ہی اس کا انتقال ہو گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ چونکہ اس نے حقوق کی ادائیگی مکمل نہیں کی تھی اور حقوق معاف بھی نہیں کروائے تھے تو کیا آخرت کے عذاب سے اس کی نجات اور بچاؤ کی کوئ صورت نہیں ہے؟ حضرت تھانویؒ فرماتے تھے کہ اس شخص کو بھی مایوس ہیں ہونا چاہئے، اس لئے کہ جب یہ شخص حقوق کی ادائیگی اور توبہ کے راستے پہ چل پڑا تھا اور کوشش بھی شروع کر دی تھی تو انشاٴ الله تعالیٰ اس کوشش کی برکت سے آخرت میں الله تعالیٰ اس کے اصحابِ حقوق کو راضی فرما دیں گے اور وہ اصحابِ حقوق اپنا حق معاف فرما دیں گے۔

ماخوذ از بیان "توبہ: گناہوں کا تریاق"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

يَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلۡأَهِلَّةِ‌ۖ قُلۡ هِىَ مَوَٲقِيتُ لِلنَّاسِ وَٱلۡحَجِّ‌ۗ وَلَيۡسَ ٱلۡبِرُّ بِأَن تَأۡتُواْ ٱلۡبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـٰكِنَّ ٱلۡبِرَّ مَنِ ٱتَّقَىٰ‌ۗ وَأۡتُواْ ٱلۡبُيُوتَ مِنۡ أَبۡوَٲبِهَا‌ۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّڪُمۡ تُفۡلِحُونَ O (سورة البقرة ۱۸۹)

"لوگ آپ سے نئے مہینوں کے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ انہیں بتا دیجئے کہ یہ لوگوں کے (مختلف معاملات کے) اور حج کے اوقات متعیّن کرنے کے لئے ہیں۔ اور یہ کوئ نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے داخل ہو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ انسان تقوٰی اختیار کرے، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو، اور الله سے ڈرتے رہو تا کہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔" (سورة البقرة:۱۸۹)

چاند کے معاملے میں جو الفاظ قرآن کریم نے استعمال کیے ان سے واضح اشارہ اس طرف نکلتا ہے کہ شریعتِ اسلام میں حساب چاند ہی کا متعیّن ہے، خصوصاً ان عبادات میں جن کا تعلّق کسی خاص مہینے اور اس کی تاریخوں سے ہے، جیسے رمضان کے روزے، حج کے مہینے، حج کے ایّام، محرّم وغیرہ سے جو احکام متعّلق ہیں وہ سب رویتِ ہلال سے متعلّق کئے گئے ہیں، گو کہ یہ حساب سورج سے بھی معلوم ہو سکتا ہے۔

شریعتِ اسلام نے چاند کے حساب کو اس لئے اختیار فرمایا کہ اس کو ہر آنکھوں والا افق پر دیکھ کر معلوم کر سکتا ہے۔ عالم، جاہل، دیہاتی، پہاڑوں یا جنگل میں رہنے والے، سب کے لئے اس کا حساب آسان ہے، بخلاف شمسی حساب کے وہ آلاتِ رصدیہ اور قواعدِ ریاضیہ پہ موقوف ہے جس کو ہر شخص آسانی سے معلوم نہیں کر سکتا۔

پھر عبادات کے معاملے میں تو قمری حساب کو بطورِ فرض متعیّن کر دیا، اور عام معاملاتِ تجارت میں بھی اسی کو پسند کیا جو عبادتِ اسلام کا ذریعہ ہے اور ایک طرح کا اسلامی شعار ہے، اگرچہ شمسی حساب کو بھی ناجائز قرار نہیں دیا۔ شرط یہ ہے کہ اس کا حساب اتنا عام نہ ہو جائے کہ لوگ قمری حساب کو بالکل بھلا دیں، کیونکہ ایسا کرنے میں عباداتِ روزہ و حج وغیرہ میں خلل لازم آتا ہے۔ اگر مسلمان دفتری معاملات میں جن کا تعلّق غیر مسلموں سے بھی ہے ان میں صرف شمسی حساب رکھیں، باقی نجی خط و کتابت اور روز مرّہ کی ضروریات میں قمری اسلامی تاریخوں کا استعمال کریں تو اس میں فرضِ کفایہ کی ادائیگی کاثواب بھی ہوگا اور اپنا قومی شعار بھی محفوظ رہے گا۔

اس آیت کے دوسرے حصّے سے یہ مسئلہ بھی نکل آیا کہ جس چیز کو شریعتِ اسلام نے ضروری یا عبادت نہ سمجھا ہو  اس کو اپنی طرف سے ضروری اور عبادت سمجھ لینا جائز نہیں۔ اسی طرح جو چیز شرعاً جائز ہو اس کو گناہ سمجھنا بھی گناہ ہے۔ ان لوگوں نے یہی غلطی کر رکھی تھی کہ گھر کے دروازوں سے داخل ہونا جو جائز تھا اس کو گناہ قرار دے لیا تھا، اور پیچھے کی دیوار کو توڑ کر آنا جو ضروری نہیں تھا اس کو ضروری سمجھ رکھا تھا۔ بدعات کے ناجائز ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ جس چیز کو شریعت نے ضروری قرار نہیں دیا اس کو ضروری سمجھ لیا جاتا ہے، یا جس چیز کو شریعت نے جائز کیا ہے اس کو ناجائز سمجھ لیا جاتا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ

Tuesday 24 January 2017

توبہ تفصیلی۔ حصّہ پنجم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

ایک دوسری حدیث میں حضورِ اقدس ﷺ نے فرمایا:

"اگر کسی شخص نے دوسرے شخص پر ظلم کر رکھا ہے چاہے وہ جانی ظلم ہے یا مالی ظلم ہے، آج وہ اس سے معافی مانگ لے، یا سونا چاندی دے کر اس دن کے آنے سے پہلے حساب صاف کر لے جس دن نہ درہم ہو گا، اور نہ دینار ہو گا، کوئ سونا چاندی کام نہیں آئے گا۔"

ماخوذ از بیان "توبہ: گناہوں کا تریاق: از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Monday 23 January 2017

حصّہ گیارہ

"اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقوں سے نہ کھاؤ، اور نہ ان کا مقدمہ حاکموں کے پاس اس غرض سے لے جاؤ کہ لوگوں کے مال کا کوئ حصّہ جانتے بوجھتے ہڑپ کرنے کا گناہ کرو۔" (سورہٴ البقرہ:۱۸۸)

حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنه فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے ایک دفعہ خطبہ دیا جس میں فرمایا:

"اے جماعتِ مہاجرین! پانچ خصلتیں ہیں جن کے متعلّق میں الله تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ تمہارے اندر پیدا ہو جائیں۔

ایک یہ ہے کہ جب کسی قوم میں بے حیائ پھیلتی ہے تو ان پر طاعون اور وبائیں اور ایسے نئے نئے امراض مسلّط کر دیے جاتے ہیں جو ان کے آباؤ اجداد نے سنے بھی نہ تھے۔
دوسرے یہ کہ جب کسی قوم میں ناپ تول کے اندر کمی کرنے کا مرض پیدا ہو جائے تو ان پر قحط اور گرانی اور مشقّت و محنت اور حکّام کے مظالم مسلّط کر دیئے جاتے ہیں۔
تیسرے یہ کہ جب کوئ قوم زکوٰة ادا نہ کرے تو بارش بند کر دی جاتی ہے۔
 چوتھے یہ کہ جب کوئ قوم الله تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے عہد کو توڑ ڈالے تو الله تعالیٰ ان پر اجنبی دشمن مسلّط فرما دیتے ہیں جو ان کے مال بغیر کسی حق کے چھین لیتا ہے۔
پانچویں یہ کہ جب کسی قوم کے ارباب و اقتدار کتاب الله کے قانون پر فیصلہ نہ کریں، اور الله تعالیٰ کے نازل کردہ احکام ان کے دل کو نہ لگیں تو الله تعالیٰ ان کے آپس میں منافرت اور لڑائ جھگڑے ڈال دیتے ہیں۔" (یہ روایت ابنِ ماجہ اور بیہقی نے نقل کی ہے اور حاکم نے اس کو صحیح علیٰ شرط مسلم فرمایا ہے)

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ
حصّہ دہم

"اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقوں سے نہ کھاؤ، اور نہ ان کا مقدمہ حاکموں کے پاس اس غرض سے لے جاؤ کہ لوگوں کے مال کا کوئ حصّہ جانتے بوجھتے ہڑپ کرنے کا گناہ کرو۔" (سورہٴ البقرہ:۱۸۸)

حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنه فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:

"قیامت کے روز محشر میں کوئ بندہ اپنی جگہ سے سرک نہ سکے گا جب تک کہ اس سے چار سوالوں کا جواب نہ لیا جائے۔
ایک یہ کہ اس نے اپنی عمر کس کام میں فنا کی،
دوسرے یہ کہ اپنی جوانی کس شغل میں برباد کی،
تیسرے یہ کہ اپنا مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور
چوتھے یہ کہ اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ

توبہ تفصیلی۔ حصّہ چہارم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

شریعت کا اصول یہ ہے کہ حقوق العباد کے معاملے میں جب تک صاحبِ حق، یعنی جس کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئ ہو، معاف نہ کرے اس وقت تک الله تعالیٰ توبہ کے باوجود حقوق العباد معاف نہیں کرتے۔ لہذا زندگی میں اب تک جن جن لوگوں سے تعلّقات رہے، یا لین دین کے معاملات رہے، یا اٹھنا بیٹھنا رہا، یا عزیز و اقارب ہیں، ان سب سے رابطہ کر کے یا خط لکھ کے ان سے معلوم کریں، اور اگر ان کا آپ کے ذمّے مالی حق نکلے تو اس کو ادا کریں۔ اگر مالی حق نہیں ہے بلکہ کسی کو تکلیف پہنچائ تھی مثلاً غیبت کی تھی، یا برا بھلا کہہ دیا تھا، یا کسی کو صدمہ پہنچایا تھا، اس صورت میں ان سب لوگوں سے معافی مانگنا ضروری ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از بیان "توبہ: گناہوں کا تریاق"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
حصّہ نہم

"اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقوں سے نہ کھاؤ، اور نہ ان کا مقدمہ حاکموں کے پاس اس غرض سے لے جاؤ کہ لوگوں کے مال کا کوئ حصّہ جانتے بوجھتے ہڑپ کرنے کا گناہ کرو۔" (سورہٴ البقرہ:۱۸۸)

حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنه فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:

"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ کوئ بندہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوتا جب تک اس کا قلب اور زبان مسلم نہ ہو جائے، اور جب تک اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے محفوظ نہ ہو جائیں۔ اور جب کوئ بندہ مالِ حرام کماتا ہے پھر اس کو صدقہ کرتا ہے تو وہ قبول نہیں ہوتا، اور اگر اس میں سے خرچ کرتا ہے تو برکت نہیں ہوتی، اور اگر اس کو اپنے وارثوں کے لئے چھوڑ جاتا ہے تو وہ جہنّم کی طرف جانے کے لئے اس کا توشہ ہوتا ہے۔ بیشک الله تعالیٰ بری چیز سے برے عمل کو نہیں دھوتے، ہاں اچھے عمل سے برے عمل کو دھو دیتے ہیں۔"

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ

توبہ تفصیلی۔ حصّہ سوئم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

اس کے بعد حقوق العباد کا جائزہ لیں  کہ کسی کا کوئ جانی یا مالی حق اپنے ذمّہ واجب ہو اور اس کو ادا نہ کیا ہو تو اس کو ادا کریں یا معاف کرائیں، یا کسی کو کوئ تکلیف پہنچائ ہو تو اس سے معاف کروائیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ حضورِ اقدس ﷺ نے باقاعدہ صحابہ کرام کے مجمع میں کھڑے ہو کر یہ اعلان فرمایا کہ:

"اگر میں نے کسی کو کوئ تکلیف پہنچائ ہو، یا کسی کو کوئ صدمہ پہنچایا ہو، یا کسی کا کوئ حق میرے ذمّے ہو تو آج میں آپ سب کے سامنے کھڑا ہوں، وہ شخص آ کر مجھ سے بدلہ لے لے، یا معاف کر دے۔"

جب رسول الله ﷺ نے اس طرح سے معافی مانگی تو ہم آپ کس شمار میں ہیں۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از بیان "توبہ: گناہوں کا تریاق"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Sunday 22 January 2017

توبہ تفصیلی۔ حصّہ دوئم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

اسی طرح روزوں کا جائزہ لیں۔ جب سے بالغ ہوئے ہیں اس وقت سے اب تک روزے چھوٹے ہیں یا نہیں۔ اگر چھوٹے ہیں تو ان کا حساب لگا کر اپنے پاس وصیّت نامے کی کاپی میں لکھ لیں کہ آج فلاں تاریخ کو میرے ذمّے اتنے روزے باقی ہیں۔ میں ان کی ادائیگی شروع کر رہا ہوں۔ اگر میں اپنی زندگی میں ان کو ادا نہیں کر سکا تو میرے مرنے کے بعد میرے ترکہ میں سے ان روزوں کا فدیہ ادا کر دیا جائے۔ اس کے بعد جتنے روزے ادا کرتے جائیں، اس وصیّت نامے کی کاپی میں لکھتے جائیں کہ اتنے روزے ادا کر لئے، اتنے باقی ہیں، تا کہ حساب صاف رہے۔

اسی طرح زکوٰة کا جائزہ لیں۔ بالغ ہونے کے بعد اگر اپنی ملکیت میں قابلِ زکوٰة اشیاء تھیں اور ان کی زکوٰة ادا نہیں کی تھی، تو اب جتنے سال گزرے ہیں ہر سال کی علیحدہ علیحدہ زکوٰة نکالیں اور اس کا باقاعدہ حساب لگائیں، اور پھر زکوٰة ادا کریں۔ اگر یاد نہ ہو تو پھر احتیاط کر کے اندازہ کریں جس میں زیادہ ہو جائے تو کچھ حرج نہیں، لیکن کم نہ ہو۔ اور پھر اس کی ادائیگی کی فکر کریں۔ اس کو اپنے وصیّت نامے کی کاپی میں لکھ لیں اور جتنی زکوٰة ادا کریں اس کو کاپی میں لکھتے چلے جائیں، اور جلد از جلد ادا کرنے کی فکر کریں۔

اسی طرح اگر حج فرض ہے اور اب تک ادا نہیں کیا تو جلد از جلد اس سے بھی سبکدوش ہونے کی فکر کریں۔ یہ سب حقوق الله ہیں، ان کو ادا کرنا توبہ تفصیلی کا ایک حصّہ ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از بیان "توبہ: گناہوں کا تریاق"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
حصّہ ہشتم

"اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقوں سے نہ کھاؤ، اور نہ ان کا مقدمہ حاکموں کے پاس اس غرض سے لے جاؤ کہ لوگوں کے مال کا کوئ حصّہ جانتے بوجھتے ہڑپ کرنے کا گناہ کرو۔" (سورہٴ البقرہ:۱۸۸)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنه نے آنحضرت ﷺ سے درخواست کی کہ میرے لئے یہ دعا فرما دیجئے کہ میں مقبول الدعاء ہو جاؤں، جو دعا کیا کروں قبول ہوا کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، اے سعد! اپنا کھانا حلال اور پاک بنا لو، مستجاب الدعوات ہو جاؤ گے۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے بندہ جب اپنے پیٹ میں حرام لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس روز تک اس کا کوئ عمل قبول نہیں ہوتا، اور جس شخص کا گوشت حرام مال سے بنا ہو اس گوشت کے لئے تو جہنّم کی آگ ہی لائق ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ

Saturday 21 January 2017

توبہ تفصیلی۔ حصّہ اوّل

توبہ اجمالی کے بعد اگلا قدم توبہ تفصیلی ہے۔ توبہ تفصیلی کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں اب تک جتنے گناہ کیے تھے، ان میں سے جن گناہوں کی تلافی ممکن ہے، ان گناہوں کی تلافی کرنا شروع کر دے، اور جتنے فرائض چھوڑے تھے، ان میں سے جتنے فرائض کی ادائیگی ممکن ہے ان کاحساب لگا کر ان کی ادائیگی شروع کردے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

توبہ تفصیلی کے اندر سب سے پہلا معاملہ نماز کا ہے۔ بالغ ہونے کے بعد سے آج تک جتنی نمازیں قضا ہوئ ہیں ان کا حساب لگائے کہ اندازاً میرے ذمّے کتنی نمازیں باقی ہیں۔ اگر ٹھیک ٹھیک حساب لگانا ممکن نہ ہو  تو اس صورت میں ایک محتاط اندازہ کر کے اس طرح حساب لگائے کہ اس میں نمازیں کچھ زیادہ تو ہو جائیں، کم نہ ہوں۔ پھر اس کو ایک کاپی میں لکھ لے کہ "آج اس تاریخ کو میرے ذمّے اتنی نمازیں فرض ہیں  اور آج سے میں ان کو ادا کرنا شروع کر رہا ہوں۔ اگر میں ان نمازوں کو اپنی زندگی میں ادا نہ کر سکا تو میں وصیّت کرتا ہوں کہ میرے انتقال کے بعد میرے ترکے سے ان نمازوں کا فدیہ ادا کر دیا جائے۔"

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از بیان "توبہ: گناہوں کا تریاق"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم


توبہ تفصیلی۔ حصّہ دوئم

گذشتہ سے پیوستہ

یہ وصیّت کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اگر وصیّت نہیں لکھی اور قضا نمازوں کو ادا کرنے سے پہلے آپ کا انتقال ہو گیا تو اس صورت میں یہ ورثاء کے ذمّے ضروری نہیں ہو گا بلکہ ان کی مرضی ہو گی کہ وہ آپ کی نمازوں کا فدیہ ادا کریں۔ 

اس وصیّت کو لکھنے کے بعد ان قضا نمازوں کو ادا کرنا شروع کر دے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر نماز کے ساتھ ایک قضا نماز پڑھ لے، گو وقت ہو تو زیادہ بھی پڑھ سکتا ہے۔ نمازوں کے ساتھ جو نفل ہوتے ہیں ان کی جگہ بھی قضا نماز پڑھ سکتا ہے لیکن سنّتِ موکدہ پڑھنی چاہیے۔ اس کو چھوڑنا صحیح نہیں۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از بیان "توبہ: گناہوں کا تریاق"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

توبہ اور استغفار کی قسمیں۔ حصّہ دوئم

حضرات مشائخ فرماتے ہیں کہ تکمیلِ توبہ کے دو درجے ہیں، ایک "توبہ اجمالی" اور دوسری "توبہ تفصیلی"۔

"توبہ اجمالی" یہ ہے کہ انسان ایک مرتبہ اطمینان سے بیٹھ کر اپنی پچھلی زندگی کے تمام گناہوں کو اجمالی طور پہ یاد کر کے دھیان میں لا کر ان سب سے الله تعالیٰ کے حضور توبہ کرے۔ توبہ اجمالی کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے صلوٰة التوبہ کی نیّت سے دو رکعت نماز پڑھے۔ اس کے بعد الله تعالیٰ کے حضور عاجزی، انکساری، ندامت اور شرمندگی اور الحاح و زاری کے ساتھ ایک ایک گناہ کو یاد کر کے یہ دعا کرے کہ یا الله، اب تک میری پچھلی زندگی میں مجھ سے جو کچھ گناہ ہوئے ہیں، چاہے وہ ظاہری گناہ ہوں یا باطنی، حقوق الله سے متعلّق ہوئے ہوں یا حقوق العباد سے متعلّق ہوئے ہوں، چھوٹے گناہ ہوئے ہوں یا بڑے گناہ ہوئے ہیں، یا الله میں ان سب سے توبہ کرتا ہوں۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از بیان "توبہ: گناہوں کا تریاق"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
حصّہ ہفتم


"اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقوں سے نہ کھاؤ، اور نہ ان کا مقدمہ حاکموں کے پاس اس غرض سے لے جاؤ کہ لوگوں کے مال کا کوئ حصّہ جانتے بوجھتے ہڑپ کرنے کا گناہ کرو۔" (سورہٴ البقرہ:۱۸۸)

ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عبدالله ابن عمرؓ سے فرمایا کہ چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جب وہ تمہارے اندر موجود ہوں تو پھر دنیا میں کچھ بھی حاصل نہ ہو تو وہ تمہارے لئے کافی ہیں۔ وہ چار خصلتیں یہ ہیں،
۱۔ امانت کی حفاظت
۲۔ سچ بولنا
۳۔ حسنِ خلق
۴۔ کھانے میں حلال کا اہتمام

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ

Sunday 15 January 2017

توبہ اور استغفار کی قسمیں۔ حصّہ اوّل

توبہ اور استغفار کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) ایک گناہوں سے توبہ و استغفار (۲) دوسرے طاعات اور عبادات میں ہونے والی کوتاہیوں سے استغفار (۳) تیسرے استغفار سے استغفار، یعنی استغفار کا بھی حق ادا نہیں کر سکے، اس سے بھی استغفار کرتے ہیں۔

پہلی قسم یعنی گناہوں سے استغفار کرنا ہر انسان پر فرضِ عین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تصوّف اور طریقت میں سب سے پہلا قدم تکمیلِ توبہ ہے۔ اگلے تمام درجات تکمیلِ توبہ پہ موقوف ہیں۔ اسی لئے جب کوئ شخص اپنی اصلاح کے لئے کسی بزرگ کے پاس جاتا ہے تو وہ بزرگ سب سے پہلے توبہ کی تکمیل کراتے ہیں۔ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں:
ھو اول اقدام المریدین
یعنی جو شخص کسی شیخ کے پاس مرید ہونے کے لئے جائے تو اس کا سب سے پہلا کام تکمیلِ توبہ ہے۔

جاری ہے۔۔۔

حصّہ دوئم

حضرات مشائخ فرماتے ہیں کہ تکمیلِ توبہ کے دو درجے ہیں، ایک "توبہ اجمالی" اور دوسری "توبہ تفصیلی"۔

"توبہ اجمالی" یہ ہے کہ انسان ایک مرتبہ اطمینان سے بیٹھ کر اپنی پچھلی زندگی کے تمام گناہوں کو اجمالی طور پہ یاد کر کے دھیان میں لا کر ان سب سے الله تعالیٰ کے حضور توبہ کرے۔ توبہ اجمالی کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے صلوٰة التوبہ کی نیّت سے دو رکعت نماز پڑھے۔ اس کے بعد الله تعالیٰ کے حضور عاجزی، انکساری، ندامت اور شرمندگی اور الحاح و زاری کے ساتھ ایک ایک گناہ کو یاد کر کے یہ دعا کرے کہ یا الله، اب تک میری پچھلی زندگی میں مجھ سے جو کچھ گناہ ہوئے ہیں، چاہے وہ ظاہری گناہ ہوں یا باطنی، حقوق الله سے متعلّق ہوئے ہوں یا حقوق العباد سے متعلّق ہوئے ہوں، چھوٹے گناہ ہوئے ہوں یا بڑے گناہ ہوئے ہیں، یا الله میں ان سب سے توبہ کرتا ہوں۔ 

ماخوذ از بیان "توبہ: گناہوں کا تریاق"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

وَلَا تَأۡكُلُوٓاْ أَمۡوَٲلَكُم بَيۡنَكُم بِٱلۡبَـٰطِلِ وَتُدۡلُواْ بِهَآ إِلَى ٱلۡحُڪَّامِ لِتَأۡڪُلُواْ فَرِيقً۬ا مِّنۡ أَمۡوَٲلِ ٱلنَّاسِ بِٱلۡإِثۡمِ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (سورہٴ البقرہ: ١٨٨)

"اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقوں سے نہ کھاؤ، اور نہ ان کا مقدمہ حاکموں کے پاس اس غرض سے لے جاؤ کہ لوگوں کے مال کا کوئ حصّہ جانتے بوجھتے ہڑپ کرنے کا گناہ کرو۔" (سورہٴ البقرہ:۱۸۸)

شریعتِ اسلام میں جتنے معاملات باطل یا فاسد یا گناہ کہلاتے ہیں ان سب کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان میں کسی نہ کسی طرح کا خلل ہوتا ہے۔ کہیں دھوکہ فریب ہوتا ہے، کہیں نامعلوم چیز یا نامعلوم عمل کا معاوضہ ہوتا ہے، کہیں کسی کا حق غصب ہوتا ہے، کہیں کسی کو نقصان پہونچا کر اپنا نفع کیا جاتا ہے، کہیں حقوقِ عامّہ میں ناجائز تصرّف ہوتا ہے۔ سود، قمار (جوا) وغیرہ کو حرام قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ حقوقِ عامّہ کے لئے مضر ہیں۔ انکے نتیجے میں چند افراد پلتے بڑھتے ہیں اور پوری امّت مفلس ہوتی ہے۔ ایسے معاملات فریقین کی رضامندی سے بھی اس لئے حلال نہیں کیونکہ وہ پوری ملّت کے خلاف ایک جرم ہیں۔ 

حصّہ دوئم

ایک بات یہ قابلِ غور ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں جو ’اموالکم‘ آیا ہے، جس کے معنی ہیں اپنے اموال، جس میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا کہ  تم جو کسی دوسرے کے مال میں ناجائز تصرّف کرتے ہو تو یہ غور کرو کہ دوسرے شخص کو بھی اپنے مال سے ایسی ہی محبّت اور تعلّق ہو گا جیسا تمہیں اپنے مال سے ہے۔ اگر وہ تمہارے مال میں ایسا ناجائز تصرّف کرتا تو تمہیں جو دکھ پہنچتا اس کا اس وقت بھی ایسا ہی احساس کرو کہ گویا وہ تمہارا مال ہے۔

حصّہ سوئم

شانِ نزول
یہ آیت ایک خاص واقعے میں نازل ہوئ ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرات صحابہٴ کرام میں سے دو صاحبوں کا آپس میں ایک زمین پر تنازعہ ہوا۔ مقدّمہ رسول الله ﷺ کی عدالت میں پیش ہوا۔ مدّعی کے پاس گواہ نہ تھے۔ آنحضرت ﷺ نے شرعی ضابطہ کے مطابق مدعا علیہ کو حلف کرنے کا حکم دیا۔ وہ حلف پر آمادہ ہو گیا۔ اس وقت آنحضرت ﷺ نے بطورِ نصیحت ان کو یہ آیت سنائ جس میں قسم کھا کر کوئ کوئ مال حاصل کرنے پر وعید مذکور ہے۔ صحابیؓ نے جب یہ آیت سنی تو قسم کھانے کو ترک کر دیا اور زمین مدّعی کے حوالے کردی۔ (روح المعانی)

حصّہ چہارم

ایک واقعہ میں آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا:

"یعنی میں ایک انسان ہوں اور تم میرے پاس اپنے مقدّمات لاتے ہو۔ اس میں یہ ہو سکتا ہے کہ کوئ شخص اپنے معاملے کو زیادہ رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کرے، اور میں اسی سے مطمئن ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں تو (یاد رکھو کہ حقیقتِ حال تو صاحبِ معاملہ کو خود معلوم ہوتی ہے) اگر فی الواقع ہو اس کا حق نہیں ہے تو اس کو لینا نہیں چاہئے، کیونکہ اس صورت میں جو کچھ میں اس کو دوں گا وہ جہنّم کا ایک قطعہ ہو گا۔" (بخاری اور مسلم بروایتِ حضرت امّ ِ سلمہ ؓ)

آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد میں واضح فرما دیا کہ اگر امام یا قاضی کسی مغالطہ کی وجہ سے کوئ فیصلہ کر دے جس میں ایک کا حق دوسرے کو ناجائز طور پر مل رہا ہو تو اس عدالتی فیصلہ کی وجہ سے وہ اس کے لئے حلال نہیں ہو جاتا۔ اگر کوئ شخص دھوکہ فریب یا جھوٹی گواہی یا جھوٹی قسم کے ذریعے کسی کا مال بذریعہ عدالت لے لے تو اس کا وبال اس کی گردن پر رہے گا۔

حصّہ پنجم

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، "اے گروہِ انبیاءؑ حلال اور پاک چیزیں کھاؤ، اور نیک عمل کرو۔۔۔" (۵۱:۲۳)

حضرت مفتی شفیعؒ نے فرمایا کہ اس آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ اعمالِ صالحہ کا صدور جب ہی ہو سکتا ہے جبکہ انسان کا کھانا پینا حلال ہو۔ رسول الله ﷺ نے ایک حدیث میں یہ فرمایا کہ یہ خطاب صرف انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ سب مسلمان اس کے مامور ہیں۔ اس حدیث کے آخر میں آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ حرام کھانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ بہت سے آدمی عبادت میں مشقّت بھی اٹھاتے ہیں، پھر الله تعالیٰ کے سامنے دعا کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں، اور یارب یارب پکارتے ہیں۔ مگر کھانا ان کاحرام، پینا ان کا حرام، لباس ان کا حرام، تو ان کی دعا کہاں قبول ہو سکتی ہے۔

حصّہ ششم

ایک حدیث میں رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے حلال کھایا، اور سنّت کے مطابق عمل کیا، اور لوگ اس کی ایذاؤں سے محفوظ رہے، وہ جنّت میں جائے گا۔ صحابہٴ کرام ؓ نے عرض کیا، یا رسول الله ﷺ آجکل تو یہ حالات آپ کی امّت میں عام ہیں۔ بیشتر مسلمان ان کے پابند ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا، ہاں! آعندہ بھی ہر زمانے میں ایسے لوگ رہیں گے جو ان احکام کے پابند ہوں گے۔ (یہ حدیث ترمذی نے روایت کی ہے اور اس کو صحیح فرمایا ہے)

Saturday 7 January 2017

لَّيۡسَ ٱلۡبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمۡ قِبَلَ ٱلۡمَشۡرِقِ وَٱلۡمَغۡرِبِ وَلَـٰكِنَّ ٱلۡبِرَّ مَنۡ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأَخِرِ وَٱلۡمَلَـٰٓٮِٕڪَةِ وَٱلۡكِتَـٰبِ وَٱلنَّبِيِّـۧنَ وَءَاتَى ٱلۡمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ ذَوِى ٱلۡقُرۡبَىٰ وَٱلۡيَتَـٰمَىٰ وَٱلۡمَسَـٰكِينَ وَٱبۡنَ ٱلسَّبِيلِ وَٱلسَّآٮِٕلِينَ وَفِى ٱلرِّقَابِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَى ٱلزَّڪَوٰةَ وَٱلۡمُوفُونَ بِعَهۡدِهِمۡ إِذَا عَـٰهَدُواْ‌ۖ وَٱلصَّـٰبِرِينَ فِى ٱلۡبَأۡسَآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَحِينَ ٱلۡبَأۡسِ‌ۗ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ ٱلَّذِينَ صَدَقُواْ‌ۖ وَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلۡمُتَّقُونَ (سورہٴ البقرہ:١٧٧)

"نیکی بس یہی تو نہیں ہے کہ اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کر لو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ الله  پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر اور الله کی کتابوں اور اس کے نبیوں پر ایمان لائیں، اور الله کی محبّت میں اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں کو دیں، اور غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کریں، اور نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں، اور جب کوئ عہد کر لیں تو اپنے عہد کو پورا کرنے کے عادی ہوں، اور تنگی اور تکلیف میں، نیز جنگ کے وقت، صبر و استقلال کے خوگر ہوں۔ ایسے لوگ ہیں جو سچّے ہیں، اور یہی لوگ ہیں جو متّقی ہیں۔" (سورہٴ البقرہ:۱۷۷)


Friday 6 January 2017

حصّہ دوئم


"ہاں اگر کوئ شخص انتہائ مجبوری کی حالت میں ہو (اور ان چیزوں میں سے کچھ کھا لے) جبکہ اس کا مقصد نہ لذّت حاصل کرنا ہو اور نہ وہ (ضرورت کی) حد سے آگے بڑھے، تو اس پر کوئ گناہ نہیں۔ یقیناً الله بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔" (سورہٴ البقرہ:۱۷۳)

مضطر شرعی اصطلاح میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کی جان خطرہ میں ہو۔ معمولی تکلیف یا ضرورت سے مضطر نہیں کہا جا سکتا۔ تو جو شخص بھوک سے ایسی حالت پر پہنچ گیا ہو کہ اگر کچھ نہ کھائے تو جان جاتی رہے گی اس کے لئے دو شرطوں کے ساتھ یہ حرام چیزیں کھا لینے کی گنجائش دی گئ ہے۔ ایک شرط یہ ہے کہ مقصود جان بچانا ہو، کھانے کی لذّت حاصل کرنا مقصود نہ ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ صرف اتنی مقدار کھائے جو جان بچانے کے لئے کافی ہو، پیٹ بھر کر کھانا یا قدرِ ضرورت سے زائد کھانا اس وقت بھی حرام ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Tuesday 3 January 2017

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ڪُلُواْ مِن طَيِّبَـٰتِ مَا رَزَقۡنَـٰكُمۡ وَٱشۡكُرُواْ لِلَّهِ إِن ڪُنتُمۡ إِيَّاهُ تَعۡبُدُونَ (١٧٢) إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيۡڪُمُ ٱلۡمَيۡتَةَ وَٱلدَّمَ وَلَحۡمَ ٱلۡخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ بِهِۦ لِغَيۡرِ ٱللَّهِ‌ۖ فَمَنِ ٱضۡطُرَّ غَيۡرَ بَاغٍ۬ وَلَا عَادٍ۬ فَلَآ إِثۡمَ عَلَيۡهِ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ۬ رَّحِيمٌ (١٧٣) سورہٴ البقرہ

"اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں رزق کے طور پہ عطا کی ہیں، ان میں سے (جو چاہو) کھاؤ، اور الله کا شکر ادا کرو، اگر واقعی تم صرف اسی کی بندگی کرتے ہو۔ اس نے تو تمہارے لئے صرف مردار جانور، خون، اور سوّر حرام کیا ہے، نیز وہ جانور جس پر الله کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔ ہاں اگر کوئ شخص انتہائ مجبوری کی حالت میں ہو (اور ان چیزوں میں سے کچھ کھا لے) جبکہ اس کا مقصد نہ لذّت حاصل کرنا ہو اور نہ وہ (ضرورت کی) حد سے آگے بڑھے، تو اس پر کوئ گناہ نہیں۔ یقیناً الله بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔" (سورہٴ البقرہ:۱۷۲۔۱۷۳)

آیاتِ مذکورہ میں جیسے حرام کھانے کی ممانعت کی گئ ہے اسی طرح حلال طیّب چیزوں کے کھانے اور اس پر شکر گذار ہونے کی ترغیب بھی ہے، کیونکہ جس طرح حرام کھانے سے اخلاقِ رذیلہ پیدا ہوتے ہیں، عبادت کا ذوق جاتا رہتا ہے، دعاء قبول نہیں ہوتی، اسی طرح حلال کھانے سے ایک نور پیدا ہوتا ہے، اخلاقِ رذیلہ سے نفرت، اخلاقِ فاضلہ کی رغبت پیدا ہوتی ہے، عبادت میں دل لگتا ہے، گناہ سے دل گھبراتا ہے، دعاء قبول ہوتی ہے. الله تعالیٰ نے اپنے سب رسولوں کو یہ ہدایت فرمائ ہے،

"اے (ہمارے) رسولو! تم پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور نیک عمل کرو" (۵۱:۳۳)

اسی طرح قبولِ دعاء میں حلال کھانا معین اور حرام مانعِ قبول ہے۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ بہت سے لوگ طویل السفر پریشان حال الله کے سامنے دعا کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور یا رب، یا رب پکارتے ہیں، مگر ان کا کھانا حرام ، پینا ان کا حرام، لباس ان کا حرام، غذا ان کی حرام، ان حالات میں ان کی دعا کہاں قبول ہو سکتی ہے۔ (صحیح مسلم، ترمذی، از ابن کثیر)

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

Monday 2 January 2017

کون صحیح اور کون غلط؟

کل ایک محب دوست نے فرمایا کہ وہ علماء کی کتابیں اس لئے نہیں پڑھتے کہ اب اتنے سارے فرقے ہو گئے ہیں، کیا پتہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ پھر انسان کیسے کسی ایک یا دو کی کتابیں پڑھے؟ اس سے بہتر ہے کہ کسی کی بھی کتاب نہ پڑھے اور خود قرآن کا ترجمہ پڑھ کر جو سمجھ میں آئے اس پہ عمل کر لے۔ راقم نے عرض کیا کہ پھر یہ کیسے پتہ چلے کہ اسلام صحیح ہے یا غلط؟ عیسائیوں کے اور یہودیوں کے بھی اتنے عالم ہیں، اتنی کتابیں ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ صحیح ہوں اور ہم غلط ہوں۔ اس کا کیسے پتہ چلے؟ راقم نے انہیں اس سوال کے دو جواب دیے۔ پھر خیال ہوا کہ وہ اپنے پڑھنے والوں سے بھی شیئر کر لوں۔ شائد کسی اور بھی اس علاج سے فائدہ ہو جس علاج سے مجھے فائدہ ہوا۔

پہلا تو یہ ہے کہ جیسا ایک حالیہ پوسٹ میں آیا تھا الله تعالیٰ نے قرآن میں ان لوگوں کی دو نشانیاں بیان کی ہیں جن کی اتّباع کی جانی چاہئے، ایک تو یہ وہ کہ ان کے پاس "ہدایت" ہو جس سے مراد ان احکام کا علم ہے جو الله تعالیٰ نے براہِ راست نازل کئے ہیں، اور دوسرے یہ کہ ان کے پاس "عقل" ہو جس سے مراد یہ ہے کہ ان میں قرآن و سنّت سے ان احکام کو استنباط (نکالنے) کرنے کی اہلیت ہو جو براہِ راست نہیں نازل کئے گئے۔ جس شخص نے عمر بھر دین کا علم حاصل نہ کیا ہو اور اس کے پاس یہ دونوں اہلیتیں نہ ہوں، اور نہ ہی اس کے پاس اتنی فرصت ہو کہ وہ باقاعدہ طور پہ دین کا علم حاصل کرے، اس کے پاس اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ وہ ایسے شخص کو ڈھونڈے جس کے پاس یہ دونوں اہلیتیں موجود ہوں اور وہ اس کا اتّباع کرے۔ خود صرف قرآن کا ترجمہ پڑھ کر خود کو عالم سمجھنا تو ایسا ہی ہے جیسے ایک وکیل پیڈیاٹرکس (بچوں کے امراض کے علاج کا علم) کی کتاب پڑھ کر اپنے بچے کے علاج کی کوشش کرے صرف اس لئے کہ اسے انگریزی آتی ہے۔ لیکن یہاں پھر وہی اوپر والا سوال دوبارہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے شخص کا پتہ کیسے چلے کہ اتنے سارے عالموں میں کون صحیح ہے اور کون غلط؟

بہت سارے پہلے جب راقم کو دین کی طرٖف آنے کا رجحان ہوا تو بہت شبہات ہوتے تھے کہ ہر انسان اپنے آپ کو اور اس مذہب اور فرقے کو  صحیح سمجھتا ہے جس میں وہ پیدا ہوتا ہے۔ اگر میں عیسائ یا ہندو پیدا ہوا ہوتا تو اسی کو صحیح سمجھتا رہتا اور اسی عقیدے پہ مر جاتا۔ یہ کیسے پتہ چلے کہ اسلام صحیح مذہب ہے اور اس میں بھی یہ علماء صحیح ہیں جن سے میں دین کا علم سیکھنے کو کوشش کر رہا ہوں؟ اس زمانے میں میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مواعظ اکثر پڑھتا رہتا تھا۔ پھر ایک دن ایک وعظ میں میں پڑھا کہ حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ جو شخص الله کے راستے پر چلنا چاہے اور اسے یہ سمجھ نہ آئے کہ دین کا صحیح راستہ کون سا ہے؟ ہندو صحیح ہیں، عیسائ صحیح ہیں یا مسلمان صحیح ہیں، یا مسلمانوں میں بھی شیعہ صحیح ہیں، سنّی صحیح ہیں، دیوبندی صحیح ہیں یا بریلوی صحیح ہیں۔ تو اس شخص کو چاہئے کہ دن میں صبح یا شام کا کچھ وقت مخصوص کر لے اور اس میں روز یہ دعا مانگا کرے کہ یا الله! میں آپ کے راستے پر چلنا چاہتا ہوں مگر مجھے سمجھ نہیں آتا کہ آپ کا صحیح راستہ کون سا ہے۔ میرے پاس نہ اتنا علم ہے، اور نہ اتنی فہم ہے کہ میں خود سے آپ کے صحیح راستے کو پہچان لوں۔ آپ محض اپنے فضل سے مجھے صحیح راستے پر پہنچا دیجیے۔

حضرت تھانویؒ نے مزید فرمایا تھا کہ انسان جب یہ دعا شروع کرے تو اگر فوراً اس کا اثر نظر نہ بھی آئے تو پھر بھی اس کو چھوڑے نہیں کیونکہ اس دعا کے دو فائدے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ الله تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔ پھر ایسا ہو نہیں سکتا کہ انسان ان سے دعا کرے، اور وہ بھی ہدایت کی دعا کرے، اور وہ قبول نہ ہو۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ بالفرض اس شخص کی زندگی تھوڑی سی رہ گئ تھی اور یہ دعا شروع کرنے کے کچھ ہی دن بعد اس کا انتقال ہو گیا۔ جب وہ الله تعالیٰ کے حضور میں پہنچے گا تو کہہ تو سکے گا کہ یا الله! میں اس سے بڑھ کے کیا کر سکتا تھا کہ آپ سے ہدایت کی دعا مانگتا۔ آپ مجھے اپنے فضل سے معاف فرما دیجیے۔ انشاء الله اس کی نجات ہو جائے گی۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ راقم کے سامنے ایک دوست کے ساتھ پیش آیا۔ راقم اپنے دوستوں کے ساتھ ایک بزرگ کی خدمت میں دین کے بارے میں جاننے کے لئے حاضر ہوا کرتا تھا۔ ایک دن ایک اور دوست ہمارے ہمراہ گئے۔ انہوں نے پوچھا کہ مجھے لگتا تو ہے کہ الله تعالیٰ ہیں لیکن مجھے یقین نہیں ہے۔ کبھی کبھی مجھے شبہ ہوتا ہے کہ پتہ نہیں الله تعالیٰ ہیں بھی کہ نہیں۔ ہم لوگوں کو یہ سن کے ڈر لگا کہ آج یہ دوست پٹوائیں گے لیکن بزرگ یہ سن کر ہنسے اور فرمایا، یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ نے یہ سوال پوچھا اور اپنا شبہ دور کرنے کی کوشش کی ورنہ اکثر لو گ تو یہ شبہات دل میں لیے بیٹھے رہتے ہیں اور کبھی کسی سے پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ دلالئل تو الله تعالیٰ کے وجود کے بارے میں بہت ہیں اور اتنے مضبوط ہیں کہ ان سے کسی بھی منکر کو ساکت کیا جا سکتا ہے، لیکن ان دلائل کو سمجھنے کے لئے کچھ بنیادی علوم کا جاننا ضروری ہے۔ بزرگ نے پھر ہمارے دوست سے پوچھا کہ کیا کبھی انہوں نے منطق (logic) پڑھی ہے؟ لیکن ہم میں سے کسی نے بھی باقاعدہ طور سے منطق نہیں پڑھی تھی۔

بزرگ نے ان سے دو چار سوال پوچھے اور پھر کہا، اچھا آپ ان سب کو چھوڑ دیجئے۔ میں آپ کو کچھ الفاظ بتاتا ہوں۔ آپ بس دن کا ایک وقت مقرّر کر کے ان الفاظ کو دہرا لیا کیجیے۔ وہ الفاظ یہ ہیں، "اے وہ ذات جسے لوگ خدا کہتے ہیں، اگر آپ ہیں تو مجھے اپنے ہونے کا یقین دلا دیجیے۔" بزرگ نے پھر ہنس کر فرمایا کہ ان الفاظ کے کہنے میں آپ پر کوئ جبر تو نہیں ڈالا جا رہا ہے۔ آپ سے تو یہ بھی نہیں کہا جا رہا کہ الله سے دعا کریں بلکہ صرف یہ کہنے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ اے وہ ذات جسے دوسرے لوگ خدا کہتے ہیں۔ بزرگ نے پھر فرمایا کہ کچھ عرصے تک یہ الفاظ کہتے رہیے۔ اگر وہ ہوں گے تو اپنے ہونے کا یقین دلا دیں گے۔ اگر نہیں ہیں تو آپ نے اپنا فرض ادا کر لیا اور آپ کی چھٹی ہوئ۔

راقم کا اگلا ایک سال اس حالت میں گزرا کہ ہدایت کی دعا کرتا رہتا تھا لیکن کسی چیز پر پکّا یقین نہیں تھا اور طرح طرح کے شبہات ہوتے رہتے تھے۔ اس عرصے میں مجھے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ میں مسلمان ہوں یا نہیں کیونکہ دعا شروع کرتے وقت میں نے یہ نیّت کی تھی کہ میں اسی بات کو مانوں گا جس کی گواہی میرا دل دے گا۔ پھر الله تعالیٰ نے اپنے فضل سے بہت اطمینان عطا فرمایا لیکن بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو الفاظ سے سمجھائ نہیں جا سکتیں، ان کو خود ان کا تجربہ کر کے ہی سمجھنا پڑتا ہے۔

ان واقعات کو سنانے کا مقصد کوئ دلیل دینا یا کسی کو قائل کرنا نہیں ہے۔ یہ کلام ان لوگوں سے ہے ہی نہیں جو الله تعالیٰ کے وجود اور مرنے کے بعد کی زندگی کے قائل نہیں، اور اس پر مطمئن ہیں۔ یہ کلام صرف ان لوگوں سے ہے جو دل میں خلش رکھتے ہیں کہ ان کے جو بھی  عقائد اور خیالات ہیں وہ صحیح ہیں کہ نہیں، اور ان کی تصدیق کا کیا ذریعہ ہو۔ مقصود صرف یہ ہے کہ جس انسان کے پاس اتنا علم اور اتنی معرفت نہ ہو کہ خود سے حق کو پہچان سکے اس کے پاس سب سے محفوظ راستہ یہی ہے کہ الله تعالی سے ہدایت کی دعا مانگے۔ اگر الله تعالیٰ پہ پورا یقین نہ ہو تو اس کے لئے بھی الله تعالیٰ سے ہی دعا کرے، اور اس کے بعد سب کچھ ان پہ چھوڑ دے۔ قرآن کریم میں بار بار اس مفہوم کی آیت آتی ہے کہ "لا یکلف الله نفساً الّا وسعھا" (ہم نے انسان کو کسی ایسی بات کا مکلّف (جوابدہ) نہیں بنایا جو اس کے اختیار میں نہ ہو۔) انشاٴالله جب انسان وہ سب کچھ کر لے گا جو اس کے اختیار میں ہے تو اس کی نجات ہو جائے گی۔ (آمین)

Sunday 1 January 2017

جو انسان مکمل توبہ نہ کر سکے وہ کیا کرے؟

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ مومن کے لئے اصل راستہ تو یہ ہے کہ وہ توبہ کرے، اور تینوں شرائط کے ساتھ کرے۔ لیکن بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص دین کی طرف آیا، اور آہستہ آہستہ اس اس نے بہت سے گناہ چھوڑ دیے لیکن  اس کی ملازمت ناجائز اور حرام ہے۔ اب اس کے بیوی بچّے ہیں  جن کے معاش اور حقوق کی ذمّہ داری اس کے ذمّے ہے۔ اگر وہ ملازمت چھوڑ کر الگ  ہو جائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ اور اس کے گھر والے شدید پریشانی اور تکلیف میں مبتلا ہو جائیں۔ اس وجہ سے وہ اپنی ناجائز ملازمت چھوڑنے پہ قادر نہیں ہو رہا ہے، گو کہ ساتھ ساتھ دوسری جائز ملازمت کی تلاش میں بھی لگا ہوا ہے۔ اب ایسا شخص کیا کرے؟ اس لئے کہ مجبوری کی وجہ سے ملازمت چھوڑ نہیں سکتا، جس کی وجہ سے چھوڑنے کا عزم بھی نہیں کر سکتا، جبکہ توبہ کے اندر چھوڑنے پر عزم کرنا شرط ہے۔ تو کیا ایسے شخص کے لئے توبہ کا کوئ راستہ نہیں؟

امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کے لئے بھی راستہ موجود ہے۔ وہ یہ کہ سنجیدگی سے کوشش کرنے کے باوجود جب تک کوئ جائز اور حلال روزگار نہیں ملتا اس وقت تک ملازمت نہ چھوڑے۔ لیکن ساتھ ساتھ اس پر استغفار بھی کرتا رہے۔ اس وقت توبہ نہیں کر سکتا کیونکہ ناجائز ملازمت فوراً نہیں چھوڑ سکتا۔ البتّہ الله تعالیٰ سے استغفار کرے اور یہ کہے کہ یا الله! یہ کام تو غلط ہے اور گناہ ہے۔ مجھے اس پر ندامت اور شرمندگی بھی ہے لیکن یا الله میں مجبور ہوں اور اس کے چھوڑنے پر قادر نہیں ہو رہا ہوں۔ مجھے اپنی رحمت سے معاف فرما دیجئے اور اس گناہ سے نکال دیجئے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ جو آدمی یہ کام کرے گا تو انشاء الله ایک نہ ایک دن آئندہ چل کر اس کو گناہ چھوڑنے کی توفیق ہو ہی جائے گی۔ اور اس حدیث سے استدلال فرمایا کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: "جو شخص استغفار کرے وہ اصرار کرنے والوں میں شمار نہیں ہوتا۔" (ترمذی، کتاب الدعوات، باب نمبر ۱۱۹، حدیث نمبر ۳۵۵۴)

ماخوذ از بیان "توبہ: گناہوں کا تریاق"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

توبہ اور استغفار میں فرق

توبہ کے اندر تین چیزیں شرط ہیں، ماضی کے گناہوں پہ ندامت ہونا، حال میں اس گناہ کو چھوڑ دینا، مستقبل میں  اس گناہ کو چھوڑنے کا عزم کر لینا۔ ان تین شرطوں کے بغیر توبہ کامل نہیں ہوتی۔ لیکن دوسری چیز ہے استغفار۔ یہ استغفار توبہ کے مقابلے میں عام ہے۔ استغفار کے معنی ہیں الله تعالیٰ سے مغفرت کی دعا مانگنا، الله تعالیٰ سے بخشش مانگنا۔ حضرت امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ استغفار کے اندر یہ تین چیزیں شرط نہیں، بلکہ استغفار ہر انسان ہر حالت میں کر سکتا ہے۔ جب کوئ غلطی ہو جائے، یا دل میں کوئ وسوسہ پیدا ہو جائے، عبادت میں کوتاہی ہو جائے، یا کسی بھی طرح کی کوئ غلطی سرزد ہو جائے تو فوراً استغفار کرے اور کہے کہ:

استغفر الله ربّیِ مِن کلّ ِ ذنبٍ وَّ اَ توب اِلَیهِ

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از بیان "توبہ: گناہوں کا تریاق"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم