Sunday 28 February 2016

فرمایا، "شادی کے لیے لڑکی ڈھونڈتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ لڑکی اگر مکمل دیندار نہ بھی ہو تو کم از کم دین بیزار بھی نہ ہو۔"
ایک خادم نے سوال کیا کہ، "الحمدالّٰلہ احقر نے گانے سننا چھوڑ دیا ہےلیکن ساتھ والے فلیٹ کے لوگ زور سے گانے بجاتے ہیں جس سے احقر کے کان میں بھی آواز جاتی ہے اور احقر ان کو منع بھی نہیں کر سکتا۔ اب کیا کروں؟" حضرت نے مسکرا کر فرمایا، "ایک اصطلاح ہوتی ہے گناہِ بے لذّت جو آپ نے سنی ہو گی۔ لیکن ایک اصطلاح ہے لذّتِ بے گناہ یعنی انسان گناہ بھی نہ کرے اور اسے لذّت بھی حاصل ہو۔ اگر آپ اپنے پڑوسیوں کو منع نہیں کرسکتے تو بس یہ اسی میں داخل ہے۔ بشرطیکہ اپنے قصد اور اختیار سے نہ سنیں، نہ اسکی طرف متوجّہ ہوں، بلکہ بے اختیار کان میں پڑ جائے۔"
ایک خادم نے عرض کیا کہ الحمدالّٰلہ حضرت سے تعلق کے بعد سے احقر کا ظاہری حلیہ تو شریعت کے مطابق ہو گیا ہے لیکن ساری عمر جن گناہوں میں مبتلا رہا ہوں وہ سارے کے سارے ایکدم سے تو نہیں چھوٹ سکتے۔ اب اگر کوئ ایسا کام کرتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ مولوی ہو کر ایسے کام کرتے ہو، اور مجھ کو بڑی پریشانی ہوتی ہے کہ میری وجہ سے حقیقی دیندار لوگ بدنام ہوتے ہیں۔" فرمایا، "اس بات کا خیال تو چھوڑ ہی دیجیے کہ لوگ کبھی آپ سے خوش ہونگے۔ لوگوں کا یہ حال ہے کہ مولوی اگر اچھے کپڑے پہنیں تو کہتے ہیں کہ ’مولویوں میں سادگی تو رہی نہیں‘، اور مولوی اگر خراب کپڑے پہنیں تو کہتے ہیں کہ ’یہ ہمارے دین کے نمائندے ہیں، ذرا ان کا حلیہ تو دیکھو‘۔ اس لیے اس خیال کو تو دل سے نکال ہی دیجیے کہ لوگ کبھی آپ سے خوش ہوں گے۔"
فرمایا کہ ورزش روزانہ کیا کیجیے چاہے جتنی بھی اور جو سی بھی کر سکیں۔ یہ جسم کا حق ہے۔
ایک سلسلہٴ گفتگو کے دوران مسکراتے ہوئے فرمایا، "جب کبھی مایوسی ہونے لگے اپنے ماضی کو دیکھ لیجیے، اور جب کبھی ناز پیدا ہونے لگے اپنے حال کو دیکھ لیجیے۔"
ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت نے نظام الاوقات قائم کرنے اور اس کی پابندی کرنے کی جو نصیحت فرمائ تھی اس پر عمل کرنے سے الحمدالّٰلہ وقت میں بہت برکت پیدا ہو گئ ہے اور بہت سے کام تھوڑے سے وقت میں ہو جاتے ہیں۔ حضرت نے اس پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور پھر اپنا ایک واقعہ سنایا۔ فرمایا کہ میرا ایک رسالہ ہے جو میں نے اس طرح تحریر کیا کہ روزانہ صرف پندرہ منٹ، دس منٹ عصر کی اذان سے پہلے اور پانچ منٹ اذان کے بعد وضو وغیرہ کرنے سے پہلے اسے تحریر کیا کرتا تھا۔ اس طرح کچھ دنوں میں پورا رسالہ تیّار ہو گیا۔
ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ انسان کی فطرت ہے کہ ہر نئے کام کو کرنے میں اسے جھجک ہوتی ہے۔ اس کا علاج یہی ہے کہ اپنے آپ پہ زور ڈال کر اور جھجک کو دبا کر اسے شروع کر دیا جائے۔ کچھ دن کرتے رہنے سے جھجک دور ہو جاتی ہے۔  

Friday 26 February 2016

ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ کوئ کتاب پڑھتے وقت اس بات کی فکر نہیں کرتے رہنا چاہیے کہ جو میں پڑھ رہا ہوں وہ یاد ہو رہا ہے کہ نہیں یا آئندہ یاد ہو گا کہ نہیں بلکہ صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ جو مضمون پڑھا جا رہا ہے وہ اچھی طرح سمجھ آ گیا ہے کہ نہیں۔ اگر دو تین دفعہ اچھی طرح سمجھ کر پڑھ لیا جائے تو تو انشاٴالّٰلہ ضرور یاد ہو جائے گا۔"  پھر تھوڑی دیر بعد مسکرا کر فرمایا، "ہم لوگوں میں یہ خرابی ہے کہ یا تو ماضی کی فکر میں گھلتے رہتے ہیں یا مستقبل کی۔ حال کی فکر نہیں کرتے، حالانکہ اصل فکر کرنے کی چیز حال ہے۔ اگر اسے درست کر لیا جائے تو ماضی بھی درست ہو جائے گا اور مستقبل بھی۔"
ایک سلسلہٴ گفتگو میں فرمایا کہ پردہ دار عورتوں کو تو مخلوط اجتماع میں بیٹھنے سے تکلیف ہوتی ہے، لیکن بے پردہ عورتوں کو عورتوں میں بیٹھنے سے کیا تکلیف ہے؟ اس میں ان کے حقوق کی تو کوئ خلاف ورزی نہیں۔
ایک صاحب نے حضرت سے اصلاحی تعلق قائم کرنے کی درخواست کی۔ حضرت نے انہیں جو نصیحتیں فرمائیں ان میں سے چند باتیں یہ ہیں:

  • روزانہ پانچ وقت نماز پڑھنا ہر حال میں فرض ہے چاہے انسان بیمار ہو یا کچھ بھی ہو، اس لیے روزانہ پانچ وقت کی نماز ضرور پڑھا کیجیے۔ اگر وقت پر کسی عذر سے نہ پڑھ پائیں تو قضا کر لیا کیجیے۔
  • گناہوں سے بچنے کی اپنی طرف سے پوری پوری کوشش کیجیے۔
  • روزانہ رات کو عشا کی نماز کے بعد الّٰلہ تعالیٰ سے اپنے ان گناہوں کی جو اس دن سرزد ہوئے ہیں معافی مانگ لیا کیجیے۔
  • دن مٰیں جتنا بھی تھوڑا بہت قرآن شریف پڑھ سکتے ہوں روز پڑھا کیجیے۔
ان ہی صاحب نے عرض کیا کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں ایک زندگی چھوڑ کر دوسری زندگی میں داخل ہو رہا ہوں۔" فرمایا، "بتاؤ بچّہ کب بالغ ہوتا ہے؟ کوئ بتا سکتا ہے کہ یہ بچّہ اس دن، اتنے بجے، اتنی عمر میں بالغ ہوا؟ بس وہ پیدا ہوتا ہے اور تھوڑا تھوڑا بڑھتے بڑھتے بالغ ہو جاتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ کب بالغ ہوا۔ دین میں بلوغ بھی اسی طرح ہوتا ہے۔"
ایک صاحب نے سوال کیا کہ کیا مجھے پتہ چل سکتا ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ مجھ سے خوش ہں یا ناخوش ہیں؟" فرمایا، "اس بات کا ایک وقت مقرّر ہے اور اس سے پہلے کسی کو بھی یہ بات معلوم نہیں ہو سکتی۔ جیسے انسان امتحان دیتا ہے تو نتیجہ نکلنے کے وقت تک اسے انتظار کرنا پڑتا ہے اور پھر جب وہ پاس ہوتا ہے تو اسے اچانک خوشی ملتی ہے۔ یہی حساب الّٰلہ تعالیٰ کے ہاں ہے۔ ہاں البتّہ اگر انسان کو گناہ کرتے ہوئے ندامت ہو اور اور نیکی کرتے ہوئے خوشی ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں ایمان ہے۔"

کم ہمّتی اور سستی کا علاج

فرمایا کہ کم ہمّتی اور سستی کا علاج بجز ہمّت کے استعمال کے کچھ اور نہیں ہے۔ اسی بات پر ایک قصّہ سنایا کہ خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں ایک شخص حاضر ہوا اور اپنا کچھ کمال دکھانے کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر اس نے دربار کے فرش میں ایک سوئ گاڑ دی۔ پھر کئ گز دور کھڑے ہو کر اس نے ایک سوئ پھینکی جو اس پہلی سوئ کے ناکے سے پار ہو گئ۔ پھر اسی طرح یکے بعد دیگرے کئ سوئیاں پھینکیں جو تمام کی تمام اس کھڑی ہوئ سوئ کے ناکے سے پار ہو گئیں۔ ہارون الرشید نے اس کمال کو دیکھنے کے بعد حکم دیا کہ اس شخص کو سو دینار انعام میں دیے جائیں اور دس کوڑے لگائے جائیں۔ درباریوں نے جب اس عجیب و غریب ’انعام‘ کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ انعام تو اس بات کا ہے کہ اس کا کمال واقعی حیرت انگیز ہے اور سزا اس بات کی ہے کہ اس نے اپنی تمامتر توانائیوں کو ایسے کام میں خرچ کیا جو بالکل فضول ہے اور جس سے کسی کا دو پیسے کا بھی کوئ فائدہ نہیں۔ اگر یہی محنت کسی مفید کام میں کرتا تو اس کا اپنا یا دوسروں کا کتنا فائدہ ہوتا۔

یہ قصّہ سنانے کے بعد حضرت نے فرمایا کہ الّٰلہ تعالیٰ نے انسان کی ہمّت میں اتنی قوّت رکھی ہے کہ ایسے اسے محیّرالعقول کام بھی کر لیتا ہے لیکن شرط یہی ہے کہ اس سے کام لے اور اسے استعمال میں لائےْ

صحبت کا اثر

ایک طالب نے عرض کیاکہ حضرت، میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ کیا تم کو صحبت کا کچھ اثر نہیں ہوا؟" حضرت بہت محظوظ ہوئے اور پھر مسکرا کر فرمایا، "اس سے کہنا تھا نا کہ یہی تو صحبت کا اثر ہے۔"
ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ والدین سے بحث تو ہونی ہی نہیں چاہیے۔ افہام و تفہیم تو ہو سکتی ہے لیکن بحث کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
فرمایا کہ اگر ایک آدمی بینک سے سود لے کر اس سے جائز کاروبار کرے تو اسے سود دینے کا گناہ تو ہوگا لیکن اس کی آمدنی حرام نہیں ہو گی اور ایسے آدمی کے ہاں کھانا پینا جائز ہے۔ ہاں اگر وہ رقم ادھار دے کر اس پر سود لیتا ہے اور اس کی آمدنی میں غالب حصہ اسی کا ہے تب اس کی آمدنی حرام ہے اور اس آدمی کے گھر کھانے پینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ 
ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ طبیعت کی مثال ایسی ہے جیسے شیر خوار بچہ ہوتا ہے کہ جب ماں کے دودھ کا عادی ہوتا ہے تو ایسا عادی ہوتا ہے کہ اسے چھڑانا مشکل ہوتا ہے اور چھڑا کر دوسری غذا پر ڈالنے میں اسے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ اور جب وہ طرح طرح کے مزیدار کھانے کھانے کا عادی ہو جاتا ہے تو بڑے ہونے کے بعد اگر وہی دودھ پیش کیا جائے تو اسے گھن آنے لگے اور کبھی اسے پینا پسند نہ کرے۔ اسی طرح انسان کی طبیعت الّلہ تعالی نے لچکدار بنائ ہے۔ جس سانچے میں چاہے اسے ڈھال لے۔ شروع میں گناہوں کی عادت ہو گی، لیکن گناہ زبردستی نفس سے چھڑا دیئے جائیں تو وہ چھوڑ کر صحیح مشغلے میں لگ جاتا ہے۔ 
ایک دفعہ گفتگو کے درمیان مزاحاً فرمایا، "نہ جانے لوگوں نے کیوں صدقے میں بکرا ذبح کر کے اس کا گوشت غریبوں کو کھلانے کا تعیّن کر لیا ہے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کسی غریب آدمی کا دل اس وقت مچھلی کھانے کو چاہ رہا ہو۔"
ایک سلسلہٴ گفتگو میں فرمایا، "حضرت ڈاکٹر صاحب (ڈاکٹر عبدالحئی عارفیؒ) قدس سرہ فرماتے تھے کہ نفس لذّت کا طالب ہے۔ جس کام میں اسے لذّت آتی ہے اسی کام کو کرنے پر انسان کو بار بار مجبور کرتا ہے۔ وہ گناہ پر انسان کو اسی لذّت کے لیے مجبور کرتا ہے۔ تم مجاہدے سے انسان کو ایسا کردو کہ اسے گناہوں سے رکنے میں لذّت آنے لگے۔ پھر وہ تمہیں گناہوں سے رکنے پر مجبور کرنے لگے گا۔"
ایک صاحب کو ایک دفعہ حضرت مد ظلّلہ کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد دین کا بہت جوش پیدا ہو گیا اور وہ اپنی وسعت سے بڑھ کر اعمال کرنے لگے۔ یہ سن کر فرمایا، "ان سے کہیے آرام آرام سے چلیں، ایک دم سے دوڑنا نہ شروع کر دیں۔"

Thursday 25 February 2016



(چونکہ میں مزید تعلیم کے سلسلے میں ملک سے باہر چلا گیا تھا اس لیے اس پوسٹ پہ حضرت مدظلّہ سے نظرِثانی نہیں کروا سکا۔ امید ہے کہ اس میں الفاظ قریب قریب حضرت کے ہی ہوں گے لیکن اگر اس کے مفہوم یا الفاظ میں کوئ غلطی ہو تو اس کے لیے بہت معافی کا خواست گار ہوں۔)


ایک طالب نے جو اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک مغربی ملک جا رہے تھے عرض کیا، "حضرت! بڑی حسرت ہوتی ہے کہ ہم لوگ اتنے عرصے حضرت سے دور اور حضرت کی صحبت سےمحروم رہیں گے۔ " فرمایا، "اصل چیز تو الّلہ تعالیٰ ہیں۔ وہ یہاں جتنے قریب ہیں وہاں بھی اتنے ہی قریب ہوں گے۔ اصل دینے والے تو وہ ہیں چاہے انسان یہاں رہے یا امریکہ میں رہے۔ واسطے کی اپنی کوئ ذاتی حیثیت نہیں۔ ہاں البتّہ الّلہ تعالیٰ کی سنّت یوں ہی جاری ہے کہ وہ کسی واسطے کے ذریعے سے ہی دیتے ہیں۔ یہ البتّہ آپ کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ آپ کا تعلق ایسے سلسلے سے ہے جو بغیر کسی انقطاع کے براہِ راست رسول الّلہﷺ تک پہنچتا ہے۔ اس کے بہت برکات اور فیوض ہوتے ہیں۔"

پھر فرمایا، "حضرت معاذ بن جبل ؓ رسول الّلہ ﷺ کے بہت محبوب صحابی تھے اور ان کو بھی رسول الّلہ ﷺ سے بہت زیادہ محبت تھی۔ حضور اکرم ﷺ کے ہر صحابی سے تعلق میں کچھ نہ کچھ الگ خصوصیت تھی۔ ان سے تعلق میں محبت کا رنگ بہت نمایاں تھا۔ رسول الّلہ ﷺ کے وصال سے تقریباً سال بھر پہلے ان کو کسی صوبے کا گورنر بنا کر بھیجا جانے لگا۔ رسولِ اکرم ﷺ کچھ دیر تک ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر چلتے رہے اور پھر رک کر فرمایا، ’معاذ! شاید یہ آخری موقع ہو جب تم مجھے دیکھ رہے ہو۔ اب تم آؤ تو شاید میری قبر پر آؤ۔‘ ان کو رسول الّلہ ﷺ سے بہت زیادہ محبت تو تھی ہی، ان کی حالت یہ سن کر خراب ہو گئ اور وہ رونے لگے۔ حضرت  مدظلّہ نے فرمایا کہ حدیث کی کتابوں میں میں نے شاید یہ واحد موقع دیکھا ہے کہ جب رسول الّلہ ﷺ پر جذباتیت طاری ہو گئ اور انہوں نے اپنا چہرہٴ مبارک دوسری طرف پھیر لیا اور فرمایا، ’معاذ! جو میری سنّت پر عمل کرتا ہے وہ مجھ سے دور ہو کر بھی مجھ سے قریب ہے، اور جو میری سنّت پر عمل نہیں کرتا وہ مجھ سے قریب ہو کر بھی مجھ سے دور ہے۔"

حضرت مدظلّہ نے مزید فرمایا کہ کیا کوئ یہ گمان کر سکتا ہے کہ اس کے بعد حضرت معاذؓ  جتنا عرصہ حضورِ اکرم ﷺ سے دور رہے تو کیا وہ حضورِ اکرم ﷺ کے فیوض و برکات سے محروم رہے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ ایسا گمان بھی نہیں ہو سکتا۔ تو بس انشاٴالّلہ تعالیٰ اگر آپ کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں مجبوراً یہاں سےدور جانا پڑا تو کیا الّلہ تعالیٰ آپ کو اس کی وجہ سے اس تعلق کے فیوض و برکات سے محروم فرما دیں گے؟ انشاٴالّلہ ایسا نہیں ہو گا۔"
ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ جن لوگوں کو پورا علم نہ ہو انہیں غیر مسلموں سے بحث میں نہیں الجھنا چاہیے بلکہ کہہ دینا چاہیے کہ چل کر ہمارے علماٴ سے بات کر لو۔
فرمایا کہ مولانا شبّیر احمد عثمانیؒ فرماتے تھے کہ اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ لوگوں پر تبلیغ کا اثر ہی نہ ہو۔ اگر اب بھی صحیح بات، صحیح طریقے سے، صحیح نیت سے کہی جائے تو انشاٴالّلہ تعالیٰ ضرور اثر ہو گا۔ 
ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ جن لوگوں کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ یہ لوگ اب دہریے ہو گئے ہیں اور ان کو الّلہ تعالیٰ پر (نعوذبالّلہ) ایمان نہیں رہا، ان سے دوستی کاتعلق نہ رکھنا چاہیے۔ البتّہ اگر کبھی کوئ بات کہنے کا موقع ملے تو نرمی سے صحیح بات ان کے کانوں میں ڈال دینا چایے۔

کوشرگوشت کا استعمال

ایک صاحب نے پوچھا کہ یہودیوں کا ذبیحہ جسے کوشر کہتے ہیں کھانا جائز ہے کہ نہیں؟ فرمایا، "یہودی لوگ عام طور سے اپنے دینی احکام کے پابند ہوتے ہیں اور اپنی دینی شرائط کے مطابق رگوں کو کاٹ کر اور الّلہ کا نام لے کر ذبح کرتے ہیں۔ جب تک وہ ان شرائط کے پابند رہیں، کوشر کا استعمال جائز ہو گا۔"

پتلون قمیص پہننا

ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ بعض چیزیں خود اپنی ذات میں حرام ہوتی ہیں، اور بعض کسی علّت کی بنا پر حرام ہوتی ہیں اور جب وہ علّت نہ رہے تو وہ حرام نہیں رہتیں۔ پتلون پہننے کو اس لیے شروع میں ناجائز قرار دیا گیا تھا کیوں کہ اس میں تشبّہ بالکفّار تھا اور لوگ انگریزوں سے مرعوب ہو کر اور ان کے اتّباع میں پتلون قمیص پہنا کرتے تھے۔اب لوگ عموماً اس نیّت سے پتلون نہیں پہنتے اس لیے اس کا پہننا ان کے لیے حرام نہیں، بشرطیکہ اس کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر ہوں، ٹخنے ڈھکے ہوئے نہ ہوں، اور ڈھیلی ہو، جسم زیادہ نمایاں نہ ہو۔"

غیر مسلم ملک میں دین پر ثابت قدم رہنا

فرمایا، "غیر مسلم ملک میں رہ کر بھی آدمی دین پر کاربند اور ثابت قدم رہ سکتا ہے بشرطیکہ اپنے گھر کا اور اردگرد کا ماحول صحیح رکھے، دین بیزار یا غیر مسلم لوگوں کے گھر زیادہ آنا جانا نہ رکھے اور صحیح لوگوں سے رابطے میں رہے۔ بہت سے لوگ جن کو یہاں اتنی فکر نہیں ہوتی ان کو وہاں جا کر جائز و ناجائز کی بہت زیادہ فکر ہو جاتی ہے اور وہ یہاں سے بہتر مسلمان ہو جاتے ہیں۔"

غیر مسلم ملک میں جا کر رہائش اختیار کر لینا

فرمایا، "جس کو یہ قوی گمان ہو کہ کسی غیر مسلم ملک میں جا کر رہنے سے اس کا ایمان سلامت نہ رہے گا اس کے لیے وہاں جانا جائز نہیں۔"

فرمایا، " اگر ایسی تعلیم حاصل کرنی ہو جو اپنے ملک میں نہ حاصل ہو سکتی ہو تو اس مقصد کے لیے کسی غیر مسلم ملک میں جانا جائز ہے۔ لیکن اگر ایک آدمی کی یہاں (پاکستان میں) اتنی آمدنی ہو ہو کہ اس کی تمام جائز ضروریات آرام سے پوری ہو سکتی ہوں تو صرف زیادہ پیسہ کمانے کی نیّت سے مسلم ملک سے غیر مسلم ملک میں جانا جائز نہیں۔"

Wednesday 24 February 2016

اپنا حال خراب ہونا تبلیغ سے مانع نہیں

(چونکہ میں مزید تعلیم کے سلسلے میں ملک سے باہر چلا گیا تھا اس لیے اس پوسٹ پہ حضرت مدظلّہ سے نظرِثانی نہیں کروا سکا۔ امید ہے کہ اس میں الفاظ قریب قریب حضرت کے ہی ہوں گے لیکن اگر اس کے مفہوم یا الفاظ میں کوئ غلطی ہو تو اس کے لیے بہت معذرت خواہ ہوں۔)


ایک خادم نے عرض کیا "حضرت! کسی دوسرے کو تبلیغ کرنے سے پہلے یہ خیال ہوتا ہے کہ کچھ گناہوں میں’ یہ‘ مبتلا ہے اور کچھ گناہوں میں ’میں‘ مبتلا ہوں، اور صرف الّلہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ کون زیادہ بڑے گناہوں میں مبتلا ہے۔ ایسی صورت میں کس منہ سے میں اس کو تبلیغ کروں؟" فرمایا، " اپنا حال خراب ہونا بالکل بھی تبلیغ سے مانع نہیں۔ اس صورت میں یہ ہونا چاہیے کہ ہم دوسروں کی ان کے گناہ چھڑانے میں مدد کریں اور وہ ہماری گناہ چھوڑنے میں مدد کریں۔ ’مومن مومن کا آئینہ ہے۔‘ اس کا یہی مطلب ہے۔ فرض کیجیے کہ دو دوست اپنی اپنی دنیاوی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ کیا کوئ دوست یہ کہے گا کہ پہلے میں اپنی پریشانیوں سے فارغ ہو لوں، پھر دوسرے کا حال پوچھوں گا۔ ظاہر ہے کوئ دوست ایسا نہیں کرے گا بلکہ دونوں ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔"

اسی سلسلے میں یہ بھی فرمایا کہ اپنے گناہوں کی وجہ سے دوسروں کو تبلیغ کرنا نہ چھوڑنا چاہیے بلکہ دوسروں کو تبلیغ کرنے کی وجہ سے اپنے گناہوں کو چھوڑنا چاہیے۔

فرمایا، "خود کسی خاص گناہ میں مبتلا ہونا بھی اس گناہ کو چھوڑنے کی نصیحت کرنے سے مانع نہیں۔ بلکہ اس صورت میں دوسرے سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھائ مجھ سے تو یہ گناہ چھوٹا نہیں لیکن شاید تمہارے حالات اس گناہ کو چھوڑنے کے لیے مجھ سے زیادہ سازگار ہوں۔ اس لیے تم سےکہہ رہا ہوں۔"

موقع محل دیکھ کر تبلیغ کرنا

(چونکہ میں مزید تعلیم کے سلسلے میں ملک سے باہر چلا گیا تھا اس لیے اس پوسٹ پہ حضرت مدظلّہ سے نظرِثانی نہیں کروا سکا۔ امید ہے کہ اس میں الفاظ قریب قریب حضرت کے ہی ہوں گے لیکن اگر اس کے مفہوم یا الفاظ میں کوئ غلطی ہو تو اس کے لیے بہت معذرت خواہ ہوں۔)

فرمایا کہ تبلیغ بغیر موقع مصلحت دیکھے نہ کرنا چاہیے۔ بعض اوقات تو ایک بات کہنے کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں دس دس ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اسی سلسلے میں یہ بھی فرمایا کہ تبلیغ کرنے سے پہلے یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ کہیں اس سے پہلے سے زیادہ بگاڑ تو نہیں پیدا ہو گا۔ مثلاً یہ کہ پہلے صرف اعمال میں خرابی تھی، اب عقائد بھی خراب ہو گئے۔ ایسی صورت میں تبلیغ نہ کرنا چاہیے۔

گھر والوں کو تبلیغ کرنا

(چونکہ میں مزید تعلیم کے سلسلے میں ملک سے باہر چلا گیا تھا اس لیے اس پوسٹ پہ حضرت مدظلّہ سے نظرِثانی نہیں کروا سکا۔ امید ہے کہ اس میں الفاظ قریب قریب حضرت کے ہی ہوں گے لیکن اگر اس کے مفہوم یا الفاظ میں کوئ غلطی ہو تو اس کے لیے بہت معذرت خواہ ہوں۔)۔)

ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ گھر والوں کو تبلیغ کرنے میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کو یہ احساس نہ ہو کہ آپ تو ان کے پیچھے ہی پڑ گئے ہیں اور آپ کے دماغ میں ہر وقت بس یہی ایک بات رہتی ہے۔ پھر ہنس کر فرمایا کہ ہونا تو حقیقتاً یہی چاہیے لیکن ان کو اس بات کا احساس نہ ہو۔

Tuesday 23 February 2016

الّلہ تعالیٰ کی محبت کے عکس

(چونکہ میں مزید تعلیم کے سلسلے میں ملک سے باہر چلا گیا تھا اس لیے اس پوسٹ پہ حضرت مدظلّہ سے نظرِثانی نہیں کروا سکا۔ امید ہے کہ اس میں الفاظ قریب قریب حضرت کے ہی ہوں گے لیکن اگر اس میں کوئ غلطی ہو تو اس کا ذمہ دار میں ہوں۔)

ایک خادم نے عرض کیا ک "مجھے حضرت تھانویؒ سے بہت زیادہ محبت محسوس ہوتی ہے۔ بعض اوقات تو ان کی محبت کا اتنا غلبہ ہوتا ہے کہ ڈر لگتا ہے کہ ان کی محبت حضرت کی محبت سے بڑھ نہ جائے اور اس میں میرے لیے خرابی نہ ہو۔" حضرت ہنسے اور فرمایا، "حضرت رابعہ بصریہؒ نے ایک دفعہ رسول الّلہ ﷺ کو خواب میں دیکھا یا شاید الہام ہوا تو ندامت سے عرض کیا’یا رسول الّلہ ﷺ! میرے دل پہ الّلہ تعالیٰ کی یاد نے اتنا غلبہ کر لیا ہے کہ مجھے آپ کی یاد ہی نہیں رہتی۔‘ رسول الّلہ ﷺ نے فرمایا. ’الّلہ تعالیٰ کی یاد بھی میری ہی یاد ہے۔‘" 

حضرت نے پھر فرمایا، "حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام محبتیں حقیقتاً ایک ہی کی محبت ہیں۔ یہ سب اسی کے عکس ہیں۔"

اپنے حال پر اطمینان ہونا

ایک سوال کے جواب میں فرمایا، "اس بات کا تو اطمینان ہونا چاہیے کہ جس راستے پر میں چل رہا ہوں یہ صحیح راستہ ہے کیوں کہ اگر انسان کو راستے پر ہی اطمینان نہ ہو تو وہ اس پر چلے گا کیسے۔ البتّہ اپنے حال پر اطمینان نہ ہونا چاہیے۔"

اپنے آپ کو گناہ گار سمجھنا

ایک صاحب نے سوال کیا کہ "حضرت یہ جو کہتے ہیں کہ اپنے کو گناہ گار سمجھنا چاہیے تو کیا ہر وقت اپنے گناہوں کا استحضار کرتے رہنا چاہیے یا ویسے ہی اجمالاً اپنے آپ کو گناہ گار سمجھنا چاہیے؟" حضرت نے ہنس کر فرمایا، "یہ تو خیال ہی غلط ہے کہ اپنے کو گناہ گار سمجھنا چاہیے۔ اپنے کو پر تقصیر اور خطا کار تو سمجھنا چاہیے لیکن گناہ گار کیوں سمجھیں۔ ہمارے شیخ حضرت ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے تھے کہ مسلمان گناہ گار رہے ہی کیوں؟ جب گناہ ہو جائے، توبہ کر لو۔ پھر گناہ ہو جائے، پھر توبہ کر لو۔ ہاں اپنے کو پر تقصیر، خطا کار اور غلطی میں مبتلا ضرور سمجھنا چاہیے۔ بتائیے، ہمارا کوئ عمل ایسا ہے جس میں ہم سے غلطی نہ ہوتی ہو؟" ان صاحب نے عرض کیا، "حضرت، واقعتاً ایک عمل بھی ایسا نہیں جس کے بارے میں انسان کہہ سکے کہ یہ غلطی سے پاک ہے۔" فرمایا، "بس پھر یہ سوال ہی کہاں رہا کہ اپنے گناہوں کو یاد کرتے رہیں کہ نہیں۔ بس اپنے آپ کو خطا کار، پر تقصیر اور غلطی میں مبتلا سمجھتے رہیں۔"

پھر فرمایا کہ "ایک دفعہ توبہ کر لینے کے بعد انہی گناہوں کو یاد کرتے رہنا کوئ اچھی بات نہیں۔"

بدگمانی

ایک صاحب نے سوال کیا، "میرے دل میں بعض دفعہ معمولی معمولی بات پر دوسروں کے بارے میں برے خیالات آ جاتے ہیں۔ کیا یہ بد گمانی میں شامل ہے؟" فرمایا، "اس طرح کے خیالات کے مختلف درجات ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی بات پر دوسرے کے بارے میں برا خیال آیا لیکن آپ نے فوراً سوچا کہ جب تک پوری بات معلوم نہ ہو اس وقت تک دوسرے کے بارے میں کوئ حتمی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے اور اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیا اور کسی دوسری بات کی طرف متوجّہ ہو گئے۔ یہ بدگمانی نہیں۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ جو خیال ذہن میں آیا ہے اسے حتمی سمجھ لیا اور دوسرے کے بارے میں قطعی رائے قائم کر لی کہ یہ تو ایسا ہی ہے۔ یہ بدگمانی ہےاور اس سے بچنا چاہیے۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ نہ صرف دوسرے کے بارے میں ایک حتمی بری رائے قائم کر لی بلکہ اب اس سے معاملہ بھی ایسا ہی کرنے لگے کہ گویا اس میں یقیناً وہ برائ موجود ہے۔ یہ دوسرے درجے سے بھی بڑھ کر ہے۔"

تواضع اور احساسِ کمتری

ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ تواضع اور احساسِ کمتری میں فرق یہ ہے کہ احساسِ کمتری والا شخص ناشکرا ہوتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ میں مستحق تو اس سے بہت زیادہ کا تھا جتنا مجھے ملا ہے، میرے ساتھ بہت ناانصافی ہوئ کہ مجھے اتنا کم ملا۔ اس کے بر عکس متواضع شخص شکر گزار ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں تو کسی چیز کا مستحق نہ تھا، الّلہ تعالیٰ نے مجھے جتنی نعمتیں عطا فرمائیں یہ میرے استحقاق سے بہت زیادہ ہیں اور ان کا احسان ہیں۔

Monday 22 February 2016

حق مہر

فرمایا، "مہر نہ اتنا کم ہونا چاہیے کہ عورت کی تحقیر ہو اور نہ اتنا زیادہ ہونا چاہیے کہ خود ادا کرنے کی استطاعت ہی نہ ہو۔" یہ بھی فرمایا کہ دیکھ لینا چاہیے کہ گھر کی باقی خواتین کا مہر کتنا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ مہر ایک تو معجل ہے جو یا فوراً ادا کر دیا جاتا ہے یا عندالطلب ہوتا ہے اور دوسرا مؤجل ہے جس کی یا تو کوئ مدّت مقرر کی جاتی ہے یا مرنے کے پہلے تک ادا کر سکتے ہیں۔ واجب تو دونوں ہیں ہی، صرف دونوں کے واجب ہونے کے وقت میں فرق ہے۔ دونوں میں سے جو چاہیں مقرر کر سکتے ہیں اور چاہیں تو آدھا آدھا بھی مقرر کر سکتے ہیں۔" اس پر ان صاحب نے سوال کیا کہ "کیا اس صورت میں آدھا مہر رخصتی سے پہلے ادا کرنا پڑے گا؟" حضرت نے ہنس کر فرمایا، اگر انہوں نے مانگ لیا تو دینا پڑے گا۔"

Sunday 21 February 2016

بیوی کے حقوق اور ان میں اعتدال

ایک صاحب نے پوچھا کہ بیوی کے حقوق کا خیال کیسے رکھا جائے اور اس میں اعتدال کیسے حاصل ہو؟ فرمایا، "کلیات تو آپ کو معلوم ہیں ہی اور جزئیات ہر ایک کے لیے الگ ہوتی ہیں اور اسی وقت معلوم ہوتی ہیں  جب انسان کو ان معاملات سے سابقہ پڑتا ہے۔ البتّہ کچھ موٹی موٹی باتیں یہ ہیں۔

  • فرمایا کہ بیوی پر ہر وقت تنقید نہ کرنا چاہیے کہ ابھی اس بات پر ٹوک دیا، پانچ منٹ بعد کسی اور بات پر ٹوک دیا، دس منٹ بعد کسی اور بات پر ٹوک دیا۔ بلکہ خاموشی سے سب کچھ دیکھتے اور نوٹ کرتے رہیے۔ پھر ایک دن جب کہ مناسب موقع ہو اس کو تنہائ میں بٹھا کر سنجیدگی سے بتائیے کہ فلاں فلاں کام کرنے کا صحیح طریقہ یہ نہیں بلکہ یہ ہے، اور ان ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ وغیرہ، وغیرہ۔ اس کے بعد اس کو چھوڑ نہ دیجیے بلکہ دیکھتے رہیے کہ کن باتوں میں تبدیلی ہوئ اور کن باتوں میں تبدیلی نہیں ہوئ۔ اس کے بعد پھر کسی دن اسی طرح اس کو تنہائ میں بٹھا کر نصیحت کیجیے۔ انشاٴالّلہ اس سے آہستہ آہستہ تبدیلی ہو جائے گی۔
  • فرمایا کہ ہمارے ہاں ایک بہت بری عادت ہے بالواسطہ تنقید کرنے کی جس کو طعنے دینا بھی کہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ بات کسی اور آدمی سے ہو رہی ہے، اس میں ایک جملہ بیگم کے بارے میں تنقید کردی یا ان ڈائریکٹلی ان کو سنا دیا کہ ان کو پتہ چلے مجھے کہا جا رہا ہے۔ یا یہ کہ کسی اور کا ذکر کرتے کرتے بیچ میں ایک جملہ کہہ دیا کہ فلاں موقع پہ تم نے بھی یہی حرکت کی تھی۔ یہ عادت زہر ہے۔ اس کو بالکل چھوڑ دینا چاہیے۔ جو کچھ کہنا ہو براہِ راست اکیلے میں کہنا چاہیے۔ دوسروں سے بات کرتے ہوئے بالواسطہ نہیں سنانا چاہیے۔ اس سے دلوں میں گرہ پڑ جاتی ہے۔
  • فرمایا کہ والدہ اور بیوی کے حقوق میں اعتدال رکھنا چاہیے۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اپنی والدہ کی خدمت کرنا آپ پر تو فرض ہے، آپ کی بیوی پر فرض نہیں۔ اسے خود سے تو خدمت کرنا چاہیے، اس لیے کہ ثواب ملے گا اور اس لیے بھی کہ والدہ خوش ہوں گی تو آپ خوش ہوں گے اور آپ کو خوش کرنا اس کیے ضروری ہے۔ لیکن بیوی کو والدہ کے تابع نہ بنا دینا چاہیے۔ 
  • فرمایا کہ شوہر بیوی کا تعلق بھی عجیب تعلق ہے۔ اس میں دو تعلق ہیں، دوستی و محبت کا تعلق، اور حاکم محکوم کا تعلق، اور دونوں تعلقات کاحق ادا کرنا چاہیے۔ نہ تو ایسا حاکم بن جائے کہ اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی بیوی بچے سہم جائیں، اور نہ ہی ایسا محبت میں مغلوب ہو جائے کہ اس کی کچھ وقعت اور عزّت ہی نہ رہے۔
  • فرمایا کہ گھر میں شوہر کو وقار سے رہنا چاہیے۔ مثلاً یہ کہ ویسے تو کسی کی دلجوئ کی نیّت سے مزاح کرنا ثواب کا کام ہے لیکن اس میں اتنا زیادہ مغلوب نہ ہو جائے کہ مسخرا ہی بن کر رہ جائے۔ یا یہ کہ جیسے اور دوستوں میں ہوتا ہے کہ اِس نے اس کو ایک مکّہ مار دیا، اس نے اس کو ایک ہاتھ مار دیا۔ اب یہ سوچے کہ بیوی بھی تو دوست ہے اس لیے اگر اس نے ایک ہاتھ مار دیا تو کیا ہوا۔ ایسی بے تکلّفی مناسب نہیں۔
  • فرمایا کہ شادی کے فوراً بعد جو شروع کے دن ہوتے ہیں، یہی سب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ یہی دن بننے کے بھی ہوتے ہیں اور بگڑنے کے بھی۔ ان دنوں میں جیسا تعلّق قائم ہو گیا پھر وہی تعلق عمر بھر رہتا ہے۔ ان دنوں میں محبت اور شوق کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے اور مغلوب ہو جانے کاخطرہ ہوتا ہے۔ اگر انسان ان دنوں میں اپنے کو سنبھالے رکھے تو آئندہ تعلق کی صحیح بنیاد پڑ جاتی ہے، اور اگر محبت کے ہاتھوں مغلوب ہو جائے تو پھر آئندہ تعلق کو صحیح کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ شروع کے دنوں میں آپ نے اسے روزانہ گھمانے پھرانے کی عادت ڈال دی۔ اب جب حالات معمول پر آئیں گے اور اس میں کمی ہو گی تو اسے شکایت ہو گی۔ اسی طرح اگر آپ نے اسے شروع میں بہت زیادہ خرچ کرنے کی عادت ڈال دی اور کچھ خیال نہ کیا کہ جس حساب سے اب خرچ ہو رہا ہے بعد میں اتنا پیسہ کہاں سے آئے گا، تو بعد میں خرچہ کم کرنے میں بہت تکلیف ہو گی۔ اسی لیے شروع سے تعلق کو صحیح کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ 
  • آخر میں فرمایا کہ مولانا شبّیر احمد عثمانی ؒ فرمایا کرتے تھے کہ "دنیا میں جنّت یہ ہے کہ زوجین ایک ہوں اور نیک ہوں۔" مطلب یہ کہ میاں بیوی میں آپس میں مناسبت ہو اور دونوں شریعت کے پابند ہوں۔
  • اسی سلسلے میں یہ بھی فرمایا کہ حقوق کے بارے میں اصول تو آپ کو معلوم ہیں ہی ، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کا استحضار ہو اور ہر ہر موقع پہ یہ دیکھا جائے کہ اس وقت کاتقاضہ کیا ہے۔

شادی کے بعد دین کی تبلیغ

ایک صاحب نے، جن کی شادی عنقریب ہونے والی تھی، پوچھا، "بیگم کو دین کی تبلیغ کیسے کروں؟" فرمایا، "شادی کے فوراً بعد تو بالکل بھی نصیحت نہ کیجیے گا۔ ایک لفظ بھی اس سلسلے میں کہنے کی ضرورت نہیں۔ بس اپنے ذاتی عمل سے اس کو جتنی تبلیغ ہو تو ہو، مزید کچھ کہنے کیضرورت نہیں تا کہ وہ شروع میں گھبرا نہ جائے کہ میں کہا آ گئ۔ پھر رفتہ رفتہ جب بے تکلفی اور انس پیدا ہو جائے تو تدریجاً باتیں بتائ جائیں۔"، 

سابقہ سوویت یونین میں اسلام

ازبکستان کے سفر سے واپسی پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا، "سوویت یونین کے زمانے میں مذہب پر اتنی سخت پابندی تھی کہ داڑھی رکھنا، نماز پڑھنا، عربی کی تعیلم دینا، تمام شعائر پر سخت پابندی تھی۔ اور اگر کسی شخص کے بارے میں نماز پڑھنے یا عربی کی تعلیم دینے یا حاصل کرنے کی خبر مل جائے تو اسے بہت سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ اور لوگوں میں تو اتنی شعائر کی پابندی ہے نہیں اس لیے ان لوگوں کو تو اتنی تکلیف نیں ہوئ لیکن مسلمانوں کو تو بہت ہی زیادہ سختی برداشت کرنی پڑی۔ ان حالات میں بھی علمائے دین نے دین کو اس طرح زندہ رکھا کہ گھروں میں چھوٹے چھوٹے حجرے بنا رکھے تھے۔ مثلاً یہ کہ الماری کے پیچھے دیوار نہیں ہے بلکہ تھوڑی سی جگہ خالی ہے۔ رات کو دو تین بجے جب ساری دنیا سو جاتی تو یہ لوگ ان حجروں میں جا بیٹھتے اور چونکہ کتابیں تو رہی نہیں تھیں اس لیے سینہ بسینہ تعلیم دیا کرتے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ستّر سال کے ظلم و جبر کے باوجود وہاں اب تک کچھ نہ کچھ عربی جاننے والے مل جاتے ہیں۔ ورنہ وہاں کے عام مسلمانوں کو تو یہ تک خبر نہیں کہ شراب حرام ہے۔ یہ "ملّا" جو ہے یہ بہت ہی سخت جان چیز ہے۔ اسی لیے تو لوگ اس کی اتنی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے ہوتے ہوئے دین میں تحریف نہیں ہو سکتی۔"

دنیا میں اسلام پھیلانا

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں، جنہیں دنیا میں اسلام پھیلانے کا بہت زیادہ جوش تھا، حضرت نے فرمایا، "یہ تو بہت نیک خیال ہے کہ انسان پوری دنیا میں اسلام پھیلائے لیکن اس کا آغاز اپنی ذات سے کرنا چاہیے۔ جو شخص اپنے پانچ، چھ فٹ کے وجود پر اسلام نافذ نہ کر سکے وہ دنیا میں کیا اسلام نافذ کرے گا۔"

Saturday 20 February 2016

رمضان میں گناہ چھوڑنا

فرمایا کہ رمضان میں گناہ چھوڑنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو بہلائے کہ صرف اس ایک مہینے کے لیے تمام گناہ چھوڑ دوں۔ جب کبھی گناہ کا تقاضہ ہو اس وقت اسی بات کا مراقبہ کرے کہ صرف ایک مہینے کی تو بات ہے۔ اس طرح انشاٴالّٰلہ گناہ ترک کرنے میں سہولت ہو جائے گی۔

چالیس دن تک نماز پڑھنا

فرمایا کہ یہ ارادہ کر لینا چاہیے کہ فی الحال اگلے چالیس دن تک کوئ نماز نہیں چھوڑوں گا اور چاہے کتنی ہی سختی محسوس ہو اس چلّے کو پورا کر لیجیے۔ عموماً لوگوں کے تجربات سے یہی ظاہر ہوا ہے کہ ایک دفعہ انسان دل مضبوط کر کے یہ چلّہ پورا کر لے تو اسے نماز کی عادت ہو جاتی ہے۔

بغیر شوق کے نماز پڑھنا

ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ مولانا گنگوہی ؒ فرماتے تھے کہ خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جسے ساری عمر نماز میں لطف نہ آیا (لیکن وہ نماز پڑھتا رہا)۔" پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا کہ جسے ساری عمر نماز کا شوق نہ ہوا لیکن اس نے اپنے آپ کو مجبور کر کے اس لیے نماز پڑھی کہ اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ہے، اس کے اخلاص میں تو کوئ شبہ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اس چکر میں نہیں پڑنا چاہیے کہ اب تک نماز کا شوق کیوں نہیں پیدا ہوا بلکہ نماز پڑھتے رہنا چاہیے چاہے شوق ہو یا نہ ہو۔

تقویٰ اور فتویٰ

ایک صاحب نے کسی بات پر کہا کہ جو بھی چیز مشتبہ ہو اسے چھوڑ دینا چاہیے۔ اس پر حضرت نے فرمایا، "تقویٰ تو بڑی چیز ہے۔ ہم جیسے لوگ اگر فتویٰ پر عمل کر لیں تو یہی کافی ہے۔"

Thursday 18 February 2016

ہر بات کے لیے دعا کرنا

ایک صاحب نے عرض کیا، "حضرت اس دفعہ میں بیرون ِ ملک گیا تو الحمداللّہ حضرت کے بتائے ہوئے فارمولے پر عمل کرنے کی کافی توفیق وئ۔ جب بھی کوئ مشکل پیش آتی تھی تو فوراً اللّہ تعالیٰ سے دعا کرتا تھا کہ یا اللّہ اس مشکل کو دور فرما دیجیے۔ یہاں تک کہ اگر بس اسٹاپ پر بس کے آنے میں دیر ہوتی تھی تو بھی اللّہ تعالیٰ سے دعا کرتا تھا۔" حضرت یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور ان صاحب کے لیے دعا فرماتے رہے۔ پھر فرمایا، "بس بھائ۔ اصل حقیقت یہی ہے کہ انسان ہر ضرورت میں انہی کی طرف رجوع کرے اور انہیں سے مانگے۔ ہمارے بھائ ولی رازی صاحب نے ایک دفعہ بتایا کہ انہوں نے دیکھا کہ ان کی بہو بچے کو مار رہی تھی اور بچہ امّی امّی کر کے اپنی ماں سے ہی لپٹ رہا تھا۔ یعنی غور کرنے کی بات ہے کہ بچے کو ماں سے ایسی محبت ہوتی ہے کہ ماں بچے کو جب مار رہی ہوتی ہے تو اس وقت بھی وہ ماں سے ہی لپٹتا ہے اور ماں سے ہی فریاد کرتا ہے۔ انسان کو اللّہ تعالیٰ سے کم از کم اتنا تعلق تو ہو جتنا بچے کو اپنی ماں سے ہوتا ہے۔"

والدین کی خدمت کرنا

ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ والدین اگر پڑھائ کے وقت کوئ کام کہیں تو اس خیال سے عذر بیان کر سکتے ہیں کہ شاید ان کو ہمارا عذر معلوم نہ ہو لیکن اگر عذر معلوم ہونے کے بعد بھی وہ دوبارہ کہیں تو پھر پڑھائ چھوڑ کر ان کا کہا ہوا کام کر دینا چاہیے۔ اسی سلسلے میں ایک دفعہ یہ فرمایا کہ انشاٴاللّہ والدین کی خدمت میں جتنا بھی وقت صرف ہو گا اس سے آپ کے امتحان میں نقصان نہیں ہو گا۔ اور کسی کام سے نقصان ہو تو ہو، والدین کی خدمت سے نہیں ہو گا۔

بیماری میں صبر کرنا

ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ بیماری میں بے ساختہ کراہنا، رونا، یا کسی کے پوچھنے پر یا بیساختہ تکلیف کا اظہار کرنا، یا یہ کہنا کہ بہت شدید درد تھا کچھ بھی صبر کے منافی نہیں۔ صبر کے منافی صرف دو باتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسان کے دل میں الّلہ تعالیٰ سے یہ شکایت پیدا ہو کہ مجھ کو یہ تکلیف کیوں دی۔ دوسرے یہ کہ زبان سے شکایت کرے، مثلاً یہ کہ اس طرح کہے کہ (نعوذ بالّلہٰ) ان ساری تکلیفوں کے لیے میں ہی رہ گیا تھا۔ وغیرہ، وغیرہ۔ بیساختہ درد کا اظہار کرنا صبر کے بالکل بھی خلاف ںہیں۔

Wednesday 17 February 2016

دوسروں کو تکلیف نہ پہنچانا

فرمایا کہ عبادات بلاشبہ دین کا بہت اہم حصہ ہیں لیکن اس سے زیادہ اہم حصہ یہ ہے کہ ہماری ذات سے کسی کوتکلیف نہ پہنچے، نہ کسی قول سے، نہ کسی عمل سے۔

گناہ چھوڑنے کی اہمیت

ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ اس راستے میں دو کام ہیں، ایک گناہ چھوڑنا اور دوسرا ذکر الّلہ۔ ان میں سے بھی  اصل کام گناہ چھوڑنا ہے۔ اگر انسان تمام گناہ چھوڑ دے لیکن تمام عمر ذکر نہ کرے، تمام عمر ایک بھی نفل نماز نہ پڑھے، تو انشاٴاللّہ اس کی نجات ہو جائے گی، لیکن اس کا عکس ضروری نہیں۔

دوسروں کی غلطی کی نشاندہی کے آداب

ایک سلسلہٴ گفتگو میں فرمایا کہ اگر کوئ آپ کے سامنے ایسی بات کرے بھی جس کے بارے میں آپ جانتے بھی ہوں کہ یہ بات غلط ہے تو اس پر فوراً نہ ٹوکیے کہ یہ بات غلط ہے۔ اس وقت خاموش رہیے اور بعد میں کسی اور وقت نرمی اور خیر خواہی سے نشاندہی کر دیجیے۔ فوراً ٹوکنے سے اپنی بات کی مدافعت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور اور آدمی اپنی بات کی حمایت کرنے لگتا ہے۔ 

گناہ چھوڑنے کا طریقہ

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا، "ظاہری گناہ چھوڑنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے تمام گناہوں کی فہرست بنا لے اور اپنے باطنی معالج کو خط میں لکھ دے۔ اس اطلاع کرنے کا بھی اثر ہوتا ہے۔ پھر جو گناہ فوراً چھوٹ سکتے ہوں فوراً چھوڑ دے۔ اور جن کو فی الحال چھوڑنے میں دقّت ہو ، ان کو ذہن میں رکھے، فکر کرتا رہے اور کوشش کرتا رہے۔ وقتاً فوقتاً اپنے باطنی معالج کو خط میں لکھتا رہے کہ کتنے چھوٹے اور کتنے نہیں چھوٹے۔ ، اور دعا کرتا رہے۔ کامیابی کے یہی راز ہیں، فکر، ہمّت، دعا اور اطلاع۔ 

باطنی گناہ چھوڑنے کا طریقہ یہ ہے کہ جو واقعہ ایسا پیش آئے کہ جس میں کوئ باطنی گناہ معلوم ہوتا ہو، وہ خط میں لکھ کر اپنے باطنی معالج سے پوچھتا رہے کہ کیا یہ گناہ ہے، اور اگر ہے تو اس کا کیا علاج کروں۔"

یک رخا پن

ایک سوال کے جواب میں فرمایا، "یک رخا پن بھی ایک بیماری ہے کہ انسان ایک کام میں لگے تو دوسرا چھوڑ دے اور دوسرے میں لگے تو پہلا چھوڑ دے۔ ابھی تو آپ غیر شادی شدہ ہیں۔ جب شادی وغیرہ ہو گی تو بہت طرح کی ذمہ داریاں ہوں گی اور ہر تعلق کا الگ حق ادا کرنا پڑے گا۔ اس وقت کیا کیجیے گا؟ اس وقت تو یہ یک رخا پن ایک بیماری بن جائے گا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ایک نظم الاوقات بنا لیجیے۔ اس کے بعد ایک کام چھوڑ کر دوسرا کام شروع کرتے ہوئے چاہے طبیعت کو کتنی ی تکلیف ہو اور کتنا ہی گراں گزرے، اس نظم الاوقات پر سختی سے عمل کیجیے۔ انشاٴ الّلہ رفتہ رفتہ سہولت ہو جائے گی۔"

Tuesday 16 February 2016

زندگی میں توازن پیدا کرنا

ایک صاحب نے سوال کیا کہ "دین اور دنیا کے درمیان توازن کس طرح پیدا کیا جائے۔ مثلاً ہم لوگ میڈیسن پڑھتے ہیں تو اتنا زیادہ پڑھنے لگتے ہیں کہ اللّہ تعالیٰ کو (نعوذ باللّہ) بھول جاتے ہیں۔ اسی طرح کبھی قرآن پڑھنے میں اتنا مزا آتا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ انسان کچھ اور نہ کرے، بس بیٹھا قرآن ہی پڑھتا رہے۔" فرمایا، "اسلام اسی کا نام ہے کہ انسان ہر چیز کو ساتھ لے کر چلے۔ عبادت کا مطلب یہ نہیں کہ انسان ہر وقت اسی میں لگا رہےاور اپنے فرائض سے غافل ہو جائے۔ بلکہ اگر انسان اس نیّت سے میڈیسن پڑھے کہ اللّہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرے گا تو جتنا وقت وہ پڑھائ میں صرف کر رہا ہے اس کا ہر لمحہ عبادت ہے۔ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ انسان روٹین بنا لے مثلاً یہ کہ فجر کی نماز کے بعد اتنی دیر وہ عبادت کرے گا مثلاً قرآن پڑھے گا۔ اس کے بعد وہ کالج چلا جائے اور جتنا وقت پڑھائ کا حق ہے اس کو دے۔ اسی طرح آہستہ آہستہ توازن قائم ہو جائے گا۔"

متکبّر کے ساتھ تکبّر کرنا

فرمایا کہ متکبّر کے ساتھ بہ تکلّف تکبّر کرنا اس کے ساتھ بھلائ کرنا ہے کیوں کہ انسان اگر متکبّر کے ساتھ تواضع سے کام لے گا تو اس کے تکبّر میں اور اضافہ ہو جائے گا۔

احساسِ کمتری اور تواضع میں فرق

فرمایا کہ احساسِ کمتری کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو حقیر سمجھ کر مایوس ہو جائے کہ مجھ سے کوئ عمل نہیں ہو سکتا، اور اس کی بنا پر تقدیر سے شاکی ہو۔ یہ غلط ہے۔ لیکن ایک چیز ہے تواضع جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی بھی آدمی کو دیکھ کر یہ سوچے کہ کیا پتہ اس کا درجہ اللّہ تعالیٰ کے ہاں مجھ سے بلند ہو، اور کسی کو حقیر نہ سمجھے۔ اس حالت میں انسان ہر نعمت کو اپنے استحقاق سے بلند سمجھتا ہے، اس لیے وہ تقدیر کا شاکی نہیں ہوتا، بلکہ ہر نعمت پر احسان مند ہوتا ہے۔

Monday 15 February 2016

وسوسے پیدا ہونا ایمان کی علامت ہے

ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ دل میں وسوسے پیدا ہونا ایمان کی علامت ہے اور اچھی علامت ہے کیوں کہ چور وہیں جاتا ہے جہاں کچھ مال وغیرہ ہو ۔ جہاں کچھ ہو ہی نہیں وہاں چور کیوں جائے گا۔ اسی طرح شیطان بھی اسی دل میں وسوسے ڈالتا ہے جہاں ایمان موجود ہو۔ اس لیے وسوسوں کو آتے رہنے دیجیے اور ان کی پرواہ کیے بغیر اپنے کام میں لگے رہیے۔ 

تکبّر اور شکر

فرمایا کہ جب کبھی ایسا خیال دل میں آئے جس میں تکبّر کا شبہ ہو تو اللّہ تعالیٰ کی نعمتوں پر فوراً شکر ادا کریں کیوں کہ شکر اور تکبّر ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔

نماز ہر حال میں فرض ہے

ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ نماز پڑھنا ہر حال میں فرض ہے، چاہے اس میں خشوع و خضوع ہو یا نہ ہو اور چاہے دل کو سکون ملے یا نہ ملے۔ اللّہ تعالی کے دربار میں دن میں پانچ دفعہ حاضری لگانا ضروری ہے۔

دوستوں سے تعلق

ایک صاحب کو، جنہوں نے اصلاحی تعلق قائم کرنے کی درخواست کی تھی، یہ نصیحت فرمائ کہ اپنے دوستوں کے ساتھ جیسے آپ پہلے رہتے تھے ویسے ہی رہیے۔ کسی کو یہ احساس نہ ہو کہ آپ بہت خشک ہو گئے ہیں یا بہت کھردرے ہو گئے ہیں، یا اس ایک بات کے سوا کوئ بات ہی نہیں کرتے ہیں۔ ہاں البتّہ کبھی گناہ کا موقع آئے تو پھر ان سے الگ ہو جائیں اور کسی کی ناراضگی کی پرواہ نہ کریں۔

Sunday 14 February 2016

معالج پر بھروسہ

فرمایا کہ کسی بھی معاشرے میں یہ بات اخلاقی پستی کی انتہا ہے کہ مریض کو معالج پر یہ اعتماد نہ رہے کہ جو علاج یہ میرے لیے تجویز کر رہا ہے اس میں میرا فائدہ ہے یا اس کا اپنا فائدہ ہے۔ 

ایمان اور اطمینان

ایک طالب نے عرض کیا کہ دلائل سے اور عقل سے اور دنیا کی حقیقت میں غور کر کے لگتا تو ہے کہ ایک خالق اس کائنات کو بنانے والا ہے اور وہی اس کو چلا رہا ہے لیکن اطمینان نہیں ہوتا۔" فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللّہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ "میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ مرنے کے بعد کس طرح سے دوبارہ زندہ فرمائیں گے۔" سوال ہوا کہ "کیا تم کو ہماری قدرت پر ایمان نہیں؟" انہوں نے جواباً عرض کیا کہ "ایمان تو ہے مگر اطمینان چاہتا ہوں۔" فرمایا کہ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان اور چیز ہے اور اطمینان اور چیز ہے۔ آپ کو الحمداللّہ ایمان حاصل ہے، اطمینان کی فکر میں نہ پڑیے، اعمال میں لگے رہیے۔ انشاٴاللّہ انہی کے ذریعے اطمینان بھی حاصل ہو جائے گا۔

تکبّر کی تشخیص

ایک صاحب نے سوال کیا کہ مسجد میں کبھی ٹھیلے والے یا مزدور ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں تو ان کے کپڑے پسینے سے بھیگے ہوئے ہوتے ہیں اور پسینے کی بو آ رہی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ان سے تھوڑا الگ ہٹ کر کھڑا ہوتا تھا اور ان سے مل کر کھڑے ہونے میں تکلیف ہوتی تھی۔ لیکن پھر خیال ہوا کہ یہ کہیں تکبّر کی وجہ سے تو نہیں ہے۔ فرمایا کہ اس میں دو الگ باتیں ہیں۔ ایک تو یہ بات ہے کہ ان سے پسینے کی بو آتی ہے جس سے تکلیف ہوتی ہے ، اس وجہ سے ان سے الگ ہٹ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ تو ایک طبعی بات ہے جس میں کوئ گناہ نہیں۔ دوسری بات یہ ہو سکتی ہے کہ ان کو چھوٹا اور حقیر سمجھتے ہیں اور اسی لیے تکلیف ہوتی ہے کہ یہ غریب ٹھیلے والے اور مزدور میرے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اور اسی لیے آپ ان سے الگ ہٹتے ہیں۔ یہ تکبّر ہے اور اگر ایسا ہے تو اس کا اہتمام سے علاج کرنا چاہیے۔ علاج یہ ہے کہ ان سے زیادہ سے زیادہ مل کر کھڑے ہوں چاہے نفس کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔ 

صدقہ اور خیرات میں فرق

ایک صاحب نے سوال کیا کہ صدقہ اور خیرات میں کیا فرق ہے؟ فرمایا کہ صدقہ دینے کے لیے کسی کو اس کا مالک بنانا ضروری ہے لیکن خیرات ایسے مصارف میں بھی دی جا سکتی ہے جہاں کسی کو مالک نہیں بنایا جا سکتامثلاً مسجد کی تعمیر میں یا مدرسے میں۔ انہوں نے پوچھا کہ زیادہ ثواب کس میں ہے؟ فرمایا کہ جس کی جس وقت زیادہ ضرورت ہو اس وقت اسی میں زیادہ ثواب ہے۔

اللّہ کے راستے میں مال خرچ کرنا

فرمایا کہ لوگوں کو جب اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے تو وہ عموماً یہ عذر پیش کرتےہیں کہ ہمارے پاس تو مال ہی نہیں۔ ان سے میں کہا کرتا ہوں کہ کیا تمہارے پاس ایک روپیہ بھی نہیں۔ جس آدمی کے پاس سو روپے ہوں اور وہ ان میں سے ایک روپیہ اللّہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے اسے انشاؑاللّہ تعالیٰ وہی ثواب ملے گا جو اس آدمی کو ملے گا جس کے پاس ایک لاکھ روپے ہوں اور وہ ان میں سے ایک ہزار روپے اللّہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے۔ اللّہ تعالیٰ کے ہاں مقدار کی قیمت نہیں، نیّت اور اخلاص کی قیمت ہے۔

حبّ ِ مال کا علاج

فرمایا کہ حبّ ِمال نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان روزی کمانا چھوڑ دےاور گھر بار لوگوں میں تقسیم کردے۔ بلکہ صرف ان باتوں پہ عمل کرنے سے انشاأللّہ حبّ ِمال میں کمی ہو جائے گی۔ 

  • ارادہ کر لے کہ آئندہ انشاءاللّہ ایک پیسہ بھی ناجائز ذرائع سے نہیں حاصل کروں گا۔
  • ارادہ کر لے کہ آئندہ انشاأللّہ ایک پیسہ بھی ناجائز کاموں میں خرچ نہیں کروں گا۔
  • جو کچھ نعمتیں اللّہ تعالیٰ نے اسے عطا فرمائی ہوں ان پر اللّہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہے۔
  • واجب صدقات کے علاوہ بھی کچھ مال انفاق فی سبیل اللّہ میں خرچ کیا کرے۔اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ بزرگوں کا معمول رہا ہے کہ اپنی آمدنی کا کچھ مخصوص حصہ متعین کر کے مثلاً پانچ فیصد یا دس فیصد، ہر آمدنی سے اتنا الگ کر کے رکھ لیتے ہیں۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئ مصرف ِ خیر سامنے آتا ہے تو رقم نکالنے میں اپنے اوپر جبر نہیں کرنا پڑتا بلکہ وہ علیحدہ لفافہ پڑا یاد دلاتا رہتا ہے کہ یرے لیے کوئ مصرف تلاش کرو۔

حبّ. دنیا کا علاج

فرمایا کہ حبّ۔ دنیا کا ایک موؑثر علاج یہ ہے کہ صبح نماز کے بعد یا رات سونے سے پہلے انسان کوئ ایک وقت مقرّر کر لے اور روزانہ اس وقت بیٹھ کر تصوّر کیا کرے کہ میرا انتقال ہو گیا ہے، رشتہ دار مجھے اٹھا کر قبرستان لے جا رہے ہیں، انہوں نے مجھے دفنا دیا ہے اور اس کے بعد مجھ سے حساب کتاب ہو رہاہے۔ انشاأللّہ اس سے دنیا کی محبت میں ضرور کمی واقع ہو جائے گی۔

حق بات کہنے کا طریقہ

فرمایا، " حق بات کہنے میں بھی کسی کی دلآزاری نہ ہونی چاہیے۔ حق بات کوئ ڈنڈا نہیں ہوتی کہ اسے گھما کر دوسرے کے سر پر دے مارا جائے۔

بات کرنے کے طریقے

حضرت تھانوی رح نے فرمایا، "بات کرنے کے طریقے تین ہیں۔ پہلا یہ کہ بات صاف ہو اور لہجہ سخت ہو۔ دوسرا یہ کہ بات گول مول ہو اور لہجہ نرم ہو۔ تیسرا یہ کہ بات صاف ہو اور لہجہ نرم ہو۔ یہی تیسرا طریقہ سب سے افضل ہے اور رسول الّہ ﷺ کا یہی طریقہ تھا۔"

تفصیلی توبہ

ایک طالب کے بیعت کی درخواست کرنے پرایک بزرگ نے فرمایا، "بیعت نہ ضروری ہے اور نہ ہی مقصود ہے۔ مقصود صرف توبہ اور اصلاح ہے۔ رہی بیعت تو وہ سنت ضرور ہے لیکن اس کے لیے جلدی کرنے کی ضرورت نہیں۔ "

 ۔ توبہ کا طریقہ بزرگ نے یہ بتلایا کہ پہلےتوبہ کرنے والا دو رکعت نفل پڑھے، اس کے بعد یہ دوتسبیحیں پڑھے،
ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا۔۔۔
استغفراللہ ربی من کل ذنب۔۔۔

پھر اس کے بعد اپنے الفاظ میں اللہ تعالی سے دعا مانگے کہ اے اللہ ، میں نے بہت گناہ کیے ہیں، میں ٓا پ کے سامنے توبہ کرنا چاہتا ہوں، اور یہ ارادہ رکھتا ہوں کہ ٓاٗندہ کبھی گناہ نہ کروں۔ میری ہمت بہت کمزور ہے اس لیے ٓاپ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے استقامت عطا فرمائیے۔

یہ تو ہوئ اجمالی توبہ۔ اس کے بعد تفصیلی توبہ کرے۔ اس کا طریقہ یوں ہے۔ حقوق دو طرح کے ہوتے ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ حقوق اللہ میں حساب لگائے کہ بلوغت کے بعد سے ٓا ج تک کتنی نمازیں چھوٹیں۔ ان کا ایک چارٹ بنائے اور روزانہ کی نمازوں کے ساتھ بجائے نفل پڑھنے کے ایک قضا نماز ادا کر لے۔ اور یہ وصیت بھی لکھ دے کہ اگر میں مر جائوں تو میری اتنی نمازوں کا فدیہ ادا کردیا جائے۔ اسی طرح جتنے روزے توڑے ہوں ان کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا اور جتنے چھوٹے ہوں وہ رکھنے ہوں گے یا موت کی صورت میں ان کا فدیہ ادا کرنا پڑے گا۔ 

حقوق العباد میں جن جن کے ساتھ ٓاج تک زیادتی کی ہو یا تکلیف پہنچائی ہو ان کا حق ادا کرنا پڑے گا یا اس کی کسی طرح تلافی کرنی پڑے گی۔ 

اس کے بعد فرمایا کہ یہ چار تسبیحات روز پڑھا کرے،
سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم
سبحان اللہ والحمداللہ و لا الہ الا للہ و اللہ اکبر
استغفر اللہ ربی من کل ذنب و اتوب علیہ
درود شریف

صبح فجر کی نماز کے بعد وقت مقرر کر لے۔ اس میں تھوڑا بہت قرٓان شریف پڑھنے کا معمول بنا لے۔ پھر یہ تسبیحات۔ اس کے بعد اتنا روز پڑھے۔ معمولات میں ناغہ نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی پابندی بہت ضروری ہے۔ بے شک یہ معمول رکھے کہ صرف ایک رکوع روزانہ پڑھے گا مگر پھر اتنا ضرور پڑھے۔ کم مقدار سے شروع کرنا زیادہ بہتر ہے جس کو انسان جاری رکھ سکے بہ نسبت اس کے کہ بہت زیادہ شروع کردے اور پھر اس کو جاری نہ رکھ سکے۔

کلو ا و اشربو و لا تسرفو سے ماخوذ احکام از معارف القرآن

۱۔ کھانا پینا بقدر ضرورت فرض ہے۔
۲۔ جب تک کسی چیز کی حرمت کسی دلیل شرعی سے ثابت نہ ہو جائے ہر چیز حلال ہے۔
۳۔ جن چیزوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ممنوع کر دیا ان کا استعمال اسراف اور ناجائز ہے۔
۴۔ جو چیزیں اللہ نے حلال کی ہیں ان کو حرام سمجھنا بھی اسراف اور سخت گناہ ہے۔
۵۔ پیٹ بھر جانے کے بعد اور کھانا ناجائز ہے۔
۶۔ اتنا کم کھانا جس سے کمزور ہو کر ادائے واجبات کی قدرت نہ رہے درست نہیں ہے۔
۷۔ ہر وقت کھانے پینے کی فکر میں رہنا بھی اسراف ہے۔ 
۸۔ یہ بھی اسراف ہے کہ جب کبھی کسی چیز کو جی چاہے تو ضروری ہی اس کو حاصل کرے۔ 

اعتدال

فرمایا، "اعتدال وہ چیز ہے کہ اگر ایک انسان کو ساری عمر میں یہی ایک چیز حاصل ہو جائے تو پھر اسے کچھ اور حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔"

دل اور مال

فرمایا کہ دل اور مال کی مثال کشتی اور پانی کی سی ہے۔ جب تک پانی کشتی سے باہر اور اس کے نیچے رہے تو رحمت ہے لیکن اگر اس کے اندر داخل ہو جائے تو پھر ہلاکت ہے۔

اتّباعِ سنت

فرمایا کہ جتنا بھی کر سکتے ہوں، اٹھنے میں، بیٹھنے میں، کھانے میں، پینے میں حضور اکرم ﷺ کی سنتّوں پر عمل کرنے کی کوشش کیجیے۔
فرمایا کہ تین طرح کے گناہوں سے خاص طور پر بچنے کی کوشش کیجیے۔ آنکھ کے گناہوں سے (آنکھ غلط جگہ پر نہ پڑے)، کان کے گناہوں سے (کان غلط باتیں نہ سنیں)، زبان کے گناہوں سے(غیبت نہ کیجیے، جھوٹ نہ بولیے)

تکبّر کا علاج

ایک صاحب نے سوال پوچھا کہ اگر انسان کو یہ پتہ چلے کہ غیبت کرنا گناہ ہے تو وہ زبان بند رکھے گا اور غیبت نہیں کرے گا لیکن اگر نعوذ بالّلہ دل میں تکبّر کا خیال آئے تو اس کا کیا کر سکتا ہے؟" فرمایا، " اس سلسلے میں دو باتیں ہیں۔ پہلی تو یہ کہ دل میں جو خیال آتے ہیں وہ قابلِ مواخذہ نہیں ہوتے البتہ عمل سے کبر کا اظہار نہیں ہونا چاہیے۔ مثلاً یہ کہ کوئ آپ سے بات کر رہا ہو تو اس کی بات کو بے توجہی سے سنیں اور اہمیت نہ دیں کہ میں اتنے چھوٹے آدمی کی بات کیا سنوں، یہ نہیں ہونا چاہیے۔ عمل سے کسی طرح بھی اس کا اظہار نہیں ہونا چاہیے کہ آپ اپنے کو دوسرے سے بڑا سمجھتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر دل میں بھی یہ خیال کثرت سے آتا رہے گا کہ میں خدا نخواستہ کچھ ہوں تو اس کا اثر عمل پر بھی ہوگا۔ چنانچہ جب ایسا خیال آئے تو فوراً الّلہ تعالی کا شکر ادا کر لیجیے۔ شکر سے تکبر کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ مثلاً اگر یہ خیال آئے کہ میں نماز پڑھتا ہوں اور دوسرے نہیں پڑھتے تو فوراً دل میں الّلہ تعالی کا شکر ادا کیجیے کہ انہوں نے نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائ اور دوسروں کے لیے دعا کیجیے کہ الّلہ تعالیٰ انہیں بھی نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ تندرست آدمی جب بیمار کو دیکھتا ہے تو اس سے یہ نہیں کہتا کہ دیکھا تم بیمار ہو اور میں تندرست ہوں اس لیے میں تم سے برتر ہوں ، بلکہ اس کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے۔"

پھر فرمایا کہ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اگر کوئ واقعہ ایسا ہو کہ شک ہو کہ تکبّر تو نہیں کیا تو اپنے شیخ سے پوچھ لے۔