Sunday 21 February 2016

بیوی کے حقوق اور ان میں اعتدال

ایک صاحب نے پوچھا کہ بیوی کے حقوق کا خیال کیسے رکھا جائے اور اس میں اعتدال کیسے حاصل ہو؟ فرمایا، "کلیات تو آپ کو معلوم ہیں ہی اور جزئیات ہر ایک کے لیے الگ ہوتی ہیں اور اسی وقت معلوم ہوتی ہیں  جب انسان کو ان معاملات سے سابقہ پڑتا ہے۔ البتّہ کچھ موٹی موٹی باتیں یہ ہیں۔

  • فرمایا کہ بیوی پر ہر وقت تنقید نہ کرنا چاہیے کہ ابھی اس بات پر ٹوک دیا، پانچ منٹ بعد کسی اور بات پر ٹوک دیا، دس منٹ بعد کسی اور بات پر ٹوک دیا۔ بلکہ خاموشی سے سب کچھ دیکھتے اور نوٹ کرتے رہیے۔ پھر ایک دن جب کہ مناسب موقع ہو اس کو تنہائ میں بٹھا کر سنجیدگی سے بتائیے کہ فلاں فلاں کام کرنے کا صحیح طریقہ یہ نہیں بلکہ یہ ہے، اور ان ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ وغیرہ، وغیرہ۔ اس کے بعد اس کو چھوڑ نہ دیجیے بلکہ دیکھتے رہیے کہ کن باتوں میں تبدیلی ہوئ اور کن باتوں میں تبدیلی نہیں ہوئ۔ اس کے بعد پھر کسی دن اسی طرح اس کو تنہائ میں بٹھا کر نصیحت کیجیے۔ انشاٴالّلہ اس سے آہستہ آہستہ تبدیلی ہو جائے گی۔
  • فرمایا کہ ہمارے ہاں ایک بہت بری عادت ہے بالواسطہ تنقید کرنے کی جس کو طعنے دینا بھی کہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ بات کسی اور آدمی سے ہو رہی ہے، اس میں ایک جملہ بیگم کے بارے میں تنقید کردی یا ان ڈائریکٹلی ان کو سنا دیا کہ ان کو پتہ چلے مجھے کہا جا رہا ہے۔ یا یہ کہ کسی اور کا ذکر کرتے کرتے بیچ میں ایک جملہ کہہ دیا کہ فلاں موقع پہ تم نے بھی یہی حرکت کی تھی۔ یہ عادت زہر ہے۔ اس کو بالکل چھوڑ دینا چاہیے۔ جو کچھ کہنا ہو براہِ راست اکیلے میں کہنا چاہیے۔ دوسروں سے بات کرتے ہوئے بالواسطہ نہیں سنانا چاہیے۔ اس سے دلوں میں گرہ پڑ جاتی ہے۔
  • فرمایا کہ والدہ اور بیوی کے حقوق میں اعتدال رکھنا چاہیے۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اپنی والدہ کی خدمت کرنا آپ پر تو فرض ہے، آپ کی بیوی پر فرض نہیں۔ اسے خود سے تو خدمت کرنا چاہیے، اس لیے کہ ثواب ملے گا اور اس لیے بھی کہ والدہ خوش ہوں گی تو آپ خوش ہوں گے اور آپ کو خوش کرنا اس کیے ضروری ہے۔ لیکن بیوی کو والدہ کے تابع نہ بنا دینا چاہیے۔ 
  • فرمایا کہ شوہر بیوی کا تعلق بھی عجیب تعلق ہے۔ اس میں دو تعلق ہیں، دوستی و محبت کا تعلق، اور حاکم محکوم کا تعلق، اور دونوں تعلقات کاحق ادا کرنا چاہیے۔ نہ تو ایسا حاکم بن جائے کہ اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی بیوی بچے سہم جائیں، اور نہ ہی ایسا محبت میں مغلوب ہو جائے کہ اس کی کچھ وقعت اور عزّت ہی نہ رہے۔
  • فرمایا کہ گھر میں شوہر کو وقار سے رہنا چاہیے۔ مثلاً یہ کہ ویسے تو کسی کی دلجوئ کی نیّت سے مزاح کرنا ثواب کا کام ہے لیکن اس میں اتنا زیادہ مغلوب نہ ہو جائے کہ مسخرا ہی بن کر رہ جائے۔ یا یہ کہ جیسے اور دوستوں میں ہوتا ہے کہ اِس نے اس کو ایک مکّہ مار دیا، اس نے اس کو ایک ہاتھ مار دیا۔ اب یہ سوچے کہ بیوی بھی تو دوست ہے اس لیے اگر اس نے ایک ہاتھ مار دیا تو کیا ہوا۔ ایسی بے تکلّفی مناسب نہیں۔
  • فرمایا کہ شادی کے فوراً بعد جو شروع کے دن ہوتے ہیں، یہی سب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ یہی دن بننے کے بھی ہوتے ہیں اور بگڑنے کے بھی۔ ان دنوں میں جیسا تعلّق قائم ہو گیا پھر وہی تعلق عمر بھر رہتا ہے۔ ان دنوں میں محبت اور شوق کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے اور مغلوب ہو جانے کاخطرہ ہوتا ہے۔ اگر انسان ان دنوں میں اپنے کو سنبھالے رکھے تو آئندہ تعلق کی صحیح بنیاد پڑ جاتی ہے، اور اگر محبت کے ہاتھوں مغلوب ہو جائے تو پھر آئندہ تعلق کو صحیح کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ شروع کے دنوں میں آپ نے اسے روزانہ گھمانے پھرانے کی عادت ڈال دی۔ اب جب حالات معمول پر آئیں گے اور اس میں کمی ہو گی تو اسے شکایت ہو گی۔ اسی طرح اگر آپ نے اسے شروع میں بہت زیادہ خرچ کرنے کی عادت ڈال دی اور کچھ خیال نہ کیا کہ جس حساب سے اب خرچ ہو رہا ہے بعد میں اتنا پیسہ کہاں سے آئے گا، تو بعد میں خرچہ کم کرنے میں بہت تکلیف ہو گی۔ اسی لیے شروع سے تعلق کو صحیح کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ 
  • آخر میں فرمایا کہ مولانا شبّیر احمد عثمانی ؒ فرمایا کرتے تھے کہ "دنیا میں جنّت یہ ہے کہ زوجین ایک ہوں اور نیک ہوں۔" مطلب یہ کہ میاں بیوی میں آپس میں مناسبت ہو اور دونوں شریعت کے پابند ہوں۔
  • اسی سلسلے میں یہ بھی فرمایا کہ حقوق کے بارے میں اصول تو آپ کو معلوم ہیں ہی ، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کا استحضار ہو اور ہر ہر موقع پہ یہ دیکھا جائے کہ اس وقت کاتقاضہ کیا ہے۔

No comments:

Post a Comment