Wednesday 31 May 2017

سود کے بارے میں رسول الّٰلہ ﷺ کے ارشادات - دوسرا حصّہ

- رسول الّٰلہ ﷺ نے سود لینے والے پر بھی لعنت فرمائ، اور سود دینے والے پر بھی۔ اور بعض روایات میں سودی معاملے پر گواہی دینے والے اور اس کا وثیقہ لکھنے والے پر بھی لعنت آئ ہے۔

- رسول الّٰلہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ چار آدمی ایسے ہیں کہ ان کے بارے میں الّٰلہ تعالیٰ نے لازم کر لیا ہے کہ ان کو جنّت میں نہ داخل کرے، اور جنّت کی نعمت نہ چکھنے دے۔ وہ چار یہ ہیں: ۱۔ شراب پینے کا عادی، ۲۔ سود کھانے والا، ۳۔ یتیم کا مال ناحق کھانے والا، اور ٤۔ اپنے والدین کی نافرمانی کرنے والا۔ 

- نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ آدمی جو سود کا ایک درہم کھاتا ہے وہ چھتیس مرتبہ بدکاری کرنے سے زیادہ سخت گناہ ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ جو گوشت مالِ حرام سے بنا ہو اس کے لیے آگ ہی زیادہ مستحق ہے۔ اسی کے ساتھ بعض روایات میں ہے کہ کسی مسلمان کی آبروریزی سود سے بھی زیادہ سخت گناہ ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ 

Tuesday 30 May 2017

سود کے بارے میں رسول الّٰلہ ﷺ کے ارشادات - پہلا حصّہ

- رسول الّلہ ﷺ نے فرمایا کہ سات مہلک چیزوں سے بچو! صحابہٴ کرام ؓ نے دریافت کیا، "یا رسول الّٰلہ ﷺ وہ کیا ہیں؟" آپ نے فرمایا:
"۱۔ الّٰلہ کے ساتھ (عبادت میں یا اس کی مخصوص صفات میں) کسی غیر الّٰلہ کو شریک کرنا،
۲۔ جادو کرنا،
۳۔ کسی شخص کو ناحق قتل کرنا،
٤۔ سود کھانا،
۵۔ یتیم کا مال کھانا،
٦۔ جہاد کے وقت میدان سے بھاگنا،
۷۔ کسی پاکدامن عورت پر تہمت باندھنا۔"

- رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے آج رات دو شخصوں کو دیکھا جو میرے پاس آئے، اور مجھے بیت المقدّس تک لے گئے۔ پھر ہم آگے چلے تو ایک خون کی نہر دیکھی جس کے اندر ایک آدمی کھڑا ہوا ہے، اور دوسرا آدمی اس کے کنارہ پر کھڑا ہے۔ جب یہ نہر والا آدمی اس سے باہر آنا چاہتا ہے تو کنارہ والا آدمی اس کے منہ پر پتھر مارتا ہے جس کی چوٹ سے بھاگ کر وہ پھر وہیں چلا جاتا ہے جہاں کھڑا تھا۔ پھر وہ نکلنے کا ارادہ کرتا ہے تو پھر یہ کنارہ کا آدمی یہی معاملہ کرتا ہے۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ان دونوں ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے بتلایا کہ خون کی نہر میں قید کیا ہوا آدمی سود کھانے والا (اپنے عمل کی سزا پا رہا) ہے۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Monday 29 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۸۰ - تیسرا حصّہ

اگر سطحی نظر سے دیکھا جائے تو سود پہ قرض دینے والے کا فائدہ ہی فائدہ ہے کہ اپنا مال بھی محفوظ کہ واپس کرنے والے کو ہر حال میں واپس ہی کرنا ہے چاہے اس کو اپنا گھر ہی کیوں نہ بیچنا پڑے۔ پھر سود کے ذریعے وہ زیادہ واپس آئے گا اور اصل مال سے بھی بڑھ جائے گا۔ پھر اگر وہ وقت پورا تک قرض اور سود نہ دے سکے گا تو اس کے ذمّے واجب الادا رقم میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔ اس میں تو ہر صورت میں مال بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس شریعت کہتی ہے کہ ایک تو جتنا قرض دیا اس سے زیادہ واپس نہیں لے سکتے۔ پھر اگر قرضدار مالی مشکل میں ہو تو اس کو مہلت دو، اور یا پھر معاف کر دو۔ بظاہر اس سے مال میں اضافہ تو کیا ہوتا، مال میں کمی ہوتی ہوئ نظر آتی ہے۔ پھر الّٰلہ تعالیٰ نے کیوں فرمایا کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں صورتوں کے کامیابی کے پیمانے مختلف ہیں۔ وہ شخص جس کا اوّل و آخر سب کچھ دنیا ہے، اس کے لیے مال کی مقدار بڑھنا ہی کامیابی کا واحد پیمانہ ہے۔ جس کے پاس لاکھ روپے ہیں وہ ہزار روپے والے سے زیادہ کامیاب ہے۔ جس کے پاس کروڑ روپے ہیں وہ لاکھ روپے والے سے زیادہ کامیاب ہے۔ اس کے بر عکس جس شخص کی نظر میں کامیابی کا دارومدار مال کی زیادتی پہ نہیں الّٰلہ تعالیٰ کی رضا پہ ہے، اس کے نزدیک کسی کو قرضے میں ادائیگی میں سہولت دے کے، کسی کو قرضہ معاف کر کے، اور کسی کو صدقہ دے کے الّٰلہ تعالیٰ کو راضی کر لینا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے، چاہے دوسروں کی نظر میں اس کا مال کم ہی کیوں نہ ہو رہا ہو۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ 

Sunday 28 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۸۰ - دوسرا حصّہ

طبرانی کی ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص یہ چاہے کہ اس کے سر پر اس روز الّٰلہ کی رحمت کا سایہ ہو جبکہ اس کے سوا کسی کو کوئ سایہ سر چھپانے کے لیے نہ ملے گا تو اس کو چاہیے کہ تنگدست مقروض (جس کے ذمّے قرض ہو) کے ساتھ نرمی اور مساہلت کا معاملہ کرے، یا اس کو معاف کر دے۔

مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی مفلس مقروض کو مہلت دے گا تو اس کو ہر روز اتنی رقم کے صدقہ کا ثواب ملے گا، جتنی اس مقروض کے ذمّے واجب ہے، اور یہ حساب میعادِ قرض پورا ہونے سے پہلے مہلت دینے کا ہے۔ جب میعادِ قرض پوری ہو جائے اور وہ شخص ادا کرنے پر قادر نہ ہو اس وقت اگر کوئ مہلت دے گا تو اس کو ہر روز اس کی دوگنی رقم صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔ 

ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص یہ چاہے کہ اس کی دعا قبول ہو یا اس کی مصیبت دور ہو تو اس کو چاہیے کہ تنگدست مقروض کو مہلت دے دے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Saturday 27 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۸۰ - پہلا حصّہ

وَاِنۡ كَانَ ذُوۡ عُسۡرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيۡسَرَةٍ ‌ؕ وَاَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَيۡرٌ لَّـكُمۡ‌ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔

"اور اگر کوئ تنگدست (قرضدار) ہو تو اس کا ہاتھ کھلنے تک مہلت دینی ہے۔ اور صدقہ ہی کر دو تو یہ تمہارے حق میں کہیں زیادہ بہتر ہے، بشرطیکہ تم کو سمجھ ہو۔"

آج کل کے سودی نظام میں جب کوئ کسی کو سود پر قرضہ دیتا ہے تو اگر وہ وقت پر قرض اور سود کی قسط ادا نہ کر پائے  تو وہ سود بھی اس کے قرض میں جمع کر دیا جاتا ہے اور اس پر بھی سود لگا دیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قرض لینے والا جس نے تنگدستی کی وجہ سے قرض لیا تھا وہ مزید قرضوں کے بوجھ میں دبتا چلا جاتا ہے اور بہت ساری مثالوں میں بالآخر معاملہ دیوالیہ ہونے پر ختم ہوتا ہے، جس کے بعد اس شخص کو آئندہ قرض ملنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ یا تو اس کو کوئ قرض دیتا نہیں، یا پھر دیتا ہے تو بہت اونچی شرح سود پہ دیتا ہے جس سے اس کی مالی مشکلات اور بھی بڑھتی جاتی ہیں۔

اس کے برعکس اس آیت میں قرآن کریم یہ تعلیم دے رہا ہے کہ جس نے تہمارا قرض دینا ہے اگر وہ مالی مشکلات میں ہے تو اس کو اس وقت تک مہلت دے دو جب تک اس کے مالی حالات بہتر ہو جائیں۔ بلکہ اس کے بعد یہ ترغیب بھی دے دی کہ اس قرض کو معاف کر دو تو یہ تمہارے حق میں اور بھی بہتر ہے اور اس معافی کو صدقے سے تعبیر فرمایا، جس کا مطلب یہ ہے کہ معاف کر دینے کا ویسا ہی اجر ملے گا جیسا کہ اس مال کے صدقہ کردینے کا اجر ملتا۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Friday 26 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷۹ - دوسرا حصّہ

اس آیت کا دوسرا جملہ ہے "وَاِنۡ تُبۡتُمۡ فَلَـكُمۡ رُءُوۡسُ اَمۡوَالِكُمۡ‌ۚ لَا تَظۡلِمُوۡنَ وَلَا تُظۡلَمُوۡنَ" یعنی "اگر تم توبہ کر لو اور آئندہ کے لیے سود کی باقی رقم چھوڑنے کا عزم کر لو تو تمہیں تمہارا اصل راٴس المال واپس مل جائے گا۔ نہ تم اصل مال سے زائد وصول کر کے کسی پر ظلم کر پاؤ گے، اور نہ کوئ اصل راس المال میں کمی یا دیر کر کے تم پر ظلم کر پائے گا۔" اس میں اصل راٴس المال واپس ملنے کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا ہے کہ انسان توبہ کر لے اور آئندہ کے لیے سود چھوڑنے کا عزم کرے، تب اصل راٴس المال ملے گا۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Thursday 25 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷۹ - پہلا حصّہ

فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ‌ۚ وَاِنۡ تُبۡتُمۡ فَلَـكُمۡ رُءُوۡسُ اَمۡوَالِكُمۡ‌ۚ لَا تَظۡلِمُوۡنَ وَلَا تُظۡلَمُوۡنَ۔

"پھر بھی اگر تم ایسا نہ کرو گے (اس کا ربط پچھلی آیت سے ہے جس میں سود چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا) تو الّٰلہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو۔ اور اگر تم (سود سے) توبہ کرو تو تمہارا اصل سرمایہ تمہارا حق ہے۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔"

یہ وعید اتنی شدید ہے کہ کفر کے سوا کسی اور بڑے سے بڑے گناہ پر قرآن کریم میں ایسی وعید نہیں آئ۔ الّٰلہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو اس کا مصداق بننے سے بچائے، اور ہم میں سے جو لوگ اس لعنت میں مبتلا ہیں ان کو جلد از جلد اس مصیبت سے نکلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ کون مسلمان ایسا ہوگا جو الّٰلہ پر ایمان رکھتا ہو، الّٰلہ کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہو، اس بات پر ایمان رکھتا ہو کہ قرآن کریم الّٰلہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اور اس کا دل اس تنبیہ کو سن کر نہ کانپ اٹھے۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Wednesday 24 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷۸

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوۡا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏۔

"اے ایمان والو! الّٰلہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی موٴمن ہو تو سود کا جو حصّہ بھی (کسی کے ذمّے) باقی رہ گیا ہو اسے چھوڑ دو۔ 

اس آیت کو شروع اس طرح کیا گیا کہ مسلمانوں کو خطاب کر کے اوّل  اتَّقُوا اللّٰہ کا حکم سنایا کہ الّٰلہ سے ڈرو، اس کے بعد اصل مسئلے کا حکم بتلایا گیا۔ یہ قرآن ِ حکیم کا وہ خاص طرز ہے جس میں وہ دنیا بھر کی قانون کی کتابوں سے ممتاز ہے کہ جب کوئ ایسا قانون بنایا جاتا ہے جس پر عمل کرنے میں لوگوں کو کچھ دشواری معلوم ہو تو اس سے پہلے اور اس کے بعد خدا تعالیٰ کے سامنے حاضری، ان کے سامنے اعمال کے پیش کیے جانے اور آخرت کے عذاب و ثواب کا ذکر کر کے مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں کو اس پر عمل کرنے کے لیے تیّار کیا جاتا ہے، اس کے بعد حکم سنایا جاتا ہے۔ یہاں بھی پچھلے عائد شدہ سود کی رقم کا چھوڑ دینا انسانی طبیعت پر بار ہو سکتا تھا، اس لیے پہلے  اتَّقُوا اللّٰہ فرمایا، پھر اس کے بعد حکم دیا کہ سود کا جو حصّہ بھی باقی ہے اس کو چھوڑ دو، اور آیت کے آخر میں فرمایا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ، یعنی اگر تم ایمان والے ہو۔ اس میں اشارہ اس طرف کر دیا کہ ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ حکمِ خداوندی کی اطاعت کی جائے۔ (معارف القرآن)

تشریح: تقوٰی کا مفہومِ ِ اصلی یہی ہے کہ ایسا ڈر جس کی وجہ سے انسان کسی کام کو چھوڑ دے، کسی کام سے رک جائے۔ قرآن میں بار بار اس کی تاکید آئ ہے کہ تقوٰی پیدا کرو، الّٰلہ سے ڈرو۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جب انسان کے دل میں یہ احساس بیٹھ جاتا ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ ہر وقت دیکھ رہے ہیں تو وہ خود بخود ان کی نافرمانی سے رکنے لگتا ہے۔ اس کی مثال بلا تشبیہ ایسی ہے کہ ہم بہت سے گناہ ایسے کرتے ہیں کہ اگر اس وقت والدین سامنے سے آ جائیں تو ہم ان کے سامنے وہ کام کرنے سے شرما جائیں، رک جائیں۔ الّٰلہ کی ذات تو والدین کی ذات سے بہت بڑی ہے۔ 

حضرت عمر رضی الّٰلہ عنہ جب خلیفہ تھے تو ایک دفعہ شہر سے باہر کہیں گئے۔ وہاں بھوک لگی تو کھانے کو کچھ تھا نہیں۔ وہاں ایک گڈریا بکریاں چرا رہا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس سے پوچھا کہ تمہاری اجازت ہو تو ہم ایک بکری کو دوہ کے اس کا دودھ پی لیں؟ اس نے جواب دیا کہ جناب، یہ بکریاں میری نہیں ہیں، ان کا مالک تو کوئ اور ہے، میں تو صرف معاوضے پر انہیں چراتا ہوں، اسی لیے میں مالک کی اجازت کے بغیر آپ کو ان کا دودھ دوہنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ حضرت عمر ؓ نے امتحاناً اس سے کہا کہ میں تمہیں ایک ایسی بات بتاتا ہوں جس میں تمہارا بھی فائدہ اور میرا بھی فائدہ۔ وہ یہ کہ تم ایک بکری مجھے بیچ دو۔ ہم اس کا دودھ پی لیں گے اور اسے کاٹ کر کھا لیں گے۔ ہمارا پیٹ بھر جائے گا اور تمہیں معاوضتاً رقم مل جائے گی۔ اگر مالک پوچھے تو کہہ دینا کہ بھیڑیا کھا گیا۔ اور بھیڑیے تو بکریوں کو کھاتے ہی رہتے ہیں اس لیے مالک کو تمہاری بات پہ شک بھی نہیں ہو گا۔ جب گڈریے نے یہ سنا تو بے اختیار یہ پکار اٹھا، "اے شہزادے! پھر الّٰلہ کہاں گیا؟"

یہ ہے اصل تقوٰی کہ جہاں کوئ دیکھنے اور نگرانی کرنے والا نہیں وہاں بھی دل میں احساس بیٹھا ہوا ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں اس لیے حرام کھانے کا تصوّر بھی ذہن میں نہیں آتا۔ افسوس کہ جتنا ہم لوگ رسول الّٰلہ ﷺ کے زمانے سے دور ہوتے گئے اتنا ہم میں ایسا اخلاقی انحطاط آتا گیا کہ آج ہم میں سے بظاہر بہت دینی اور مذہبی لوگوں میں بھی وہ تقوٰی اور وہ حرام حلال کی فکر باقی نہ رہی جو اس زمانے میں ایک چرواہے میں تھی۔

Monday 22 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷۷

اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمۡ اَجۡرُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ‌ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ‏۔

"وہ لوگ جو ایمان لائیں، نیک عمل کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں، وہ اپنے ربّ کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہوں گے؛ نہ انہیں کوئ خوف لاحق ہو گا، نہ کوئ غم پہنچے گا۔"

اس آیت میں موٴمنین صالحین جو نماز و زکوٰة کے پابند ہیں ان کے اجرِ عظیم اور آخرت کی راحت کا ذکر ہے۔ "خَوۡفٌ" آئندہ پیش آنے والی کسی تکلیف و مصیبت کے اندیشہ کا نام ہے، اور "حزن" کسی مقصد و مراد کے فوت ہو جانے سے پیدا ہونے والے غم کو کہا جاتا ہے۔ غور کیا جائے تو عیش و راحت کی تمام انواع و اقسام کا ان دو لفظوں میں ایسا احاطہ کر دیا گیا ہے کہ آرام و آسائش کی کوئ جزئ اور کوئ قسم اس سے باہر نہیں۔ (از معارف القرآن)

حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں کہ الّٰلہ تعالیٰ نے ہم لوگوں کو محض اپنے فضل سے علم کی، عبادت کی، اور الّٰلہ کی یاد اور ذکر کی جو لذّت عطا فرمائ ہوئ ہے اگر اس لذّت کی اطلاع اور خبر بادشاہوں کو ہو جائے تو وہ تلواریں سونت کر ہمارے پاس آ جائیں کہ یہ لذّت ہمیں دے دو۔

 آج کل لوگ طرح طرح کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہیں، اس کے لئے کیا کیا علاج کرتے ہیں، اور پھر بھی اداسی اور پریشانی دور نہیں ہوتی۔ الّٰلہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ موٴمنین اور صالحین کے لیے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ نہ ان کو کوئ خوف لاحق ہو گا اور نہ انہیں کوئ غم پہنچے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی زندگی میں پریشانیاں نہیں آتیں یا صدمے نہیں آتے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو دل الّٰلہ تعالیٰ سے راضی ہو جاتا ہے پھر اسے الّٰلہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کسی بھی واقعے پر طبعی پریشانی یا اداسی تو ہوتی ہے لیکن عقلی اداسی یا پریشانی نہیں ہوتی، کیونکہ وہ ہر حال میں الّٰلہ کی رضا پہ راضی ہوتا ہے۔ انسان علاج کے طور پہ ہی صحیح لیکن ایک دفعہ ان آیتوں پہ عمل کر کے تو دیکھے۔ پھر انشاٴالّٰلہ اسے دل کی وہ لذّت حاصل ہو گی کہ الّٰلہ تعالیٰ اسے دنیا میں ہی وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ‏ کی نعمت عطا فرما دیں گے۔

Sunday 21 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷٦ - دوسرا حصّہ

اس آیت کے آخر میں الّٰلہ تعالی نے ارشاد فرمایا: "وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيۡمٍ"۔ "الّٰلہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے کسی کفر کرنے والے کو کسی گناہ کا کام کرنے والے کو۔"

اس میں اشارہ فرما دیا کہ جو لوگ سود کو حرام ہی نہ سمجھیں وہ کفر میں مبتلا ہیں، اور جو حرام سمجھنے کے باوجود عملاً اس میں مبتلا ہیں وہ گناہ گار فاسق ہیں۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

انسان جتنے بھی بڑے گناہ میں مبتلا ہو وہ گناہ گار تو ہوتا ہے لیکن جب تک وہ اسے دل میں گناہ سمجھتا رہے کافر نہیں ہوتا۔ ویسے تو یہ الّٰلہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ کون صاحبِ ایمان ہے، کون کافر، اور کون منافق، کیونکہ ایمان تو دل کے اندر ہوتا ہے اور کسی کے دل کا حال کسی دوسرے کو نہیں معلوم، لیکن شریعت کے اعتبار سے انسان کافر اسی وقت ہوتا ہے جب وہ الّٰلہ تعالیٰ کے دیے ہوئے یا رسول الّٰلہ ﷺ کے بتائے ہوئے کسی واضح صریح حکم کا انکار کرے اور یا تو یہ کہے کہ یہ تو گناہ ہی نہیں ہے، یا اس کو دلائل سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ اگر انسان کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ اپنے گناہوں کو چھوڑنا چاہے لیکن سب گناہ ایک ساتھ نہ چھوڑ سکے، تو اتنا تو کرے کہ ان کو دل میں غلط سمجھنا شروع کر دے اور الّٰلہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے کہ یا الّٰلہ! میں ان گناہوں میں مبتلا ہوں۔ ابھی مجھ میں ان کو چھوڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ آپ اپنے فضل و کرم سے مجھے ان کو چھوڑنے کی توفیق عطا فرما دیجئے۔ (آمین) یہ کرنا تو کسی وقت بھی کسی انسان کے اختیار سے باہر نہیں۔ ان گناہوں کو غلط سمجھنے سے انکار اور ان کو صحیح ثابت کرنے پہ اصرار نہ کرے کیونکہ جب اصرار کرتا ہے تو پھر بعض دفعہ توبہ کی توفیق بھی نہیں ملتی۔

آج بعض دفعہ مسلمانوں کی زبان سے سننے میں آتا ہے کہ سود تو اتنا عام ہو گیا ہے کہ اس سے بچنا اب ممکن نہیں رہا۔ علماء کو چاہیے کہ اسے حلال قرار دے دیں۔ (معاذ الّٰلہ) ان کو شاید یہ خیال نہیں رہتا کہ جس بات کو خود الّٰلہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں، صرف ایک جگہ نہیں بلکہ بار بار، حرام قرار دیا ہے کوئ بھی مولوی، مفتی یا عالم اسے کیسے حلال قرار دے سکتا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Saturday 20 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷٦ - پہلا حصّہ

يَمۡحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرۡبِى الصَّدَقٰتِ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيۡمٍ۔ 

"الّٰلہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ اور الّٰلہ ہر اس شخص کو ناپسند کرتا ہے جو ناشکرا گناہگار ہو۔" 

یہاں سود کے ساتھ صدقات کا ذکر ایک خاص مناسبت سے لایا گیا ہے کہ سود اور صدقہ دونوں کی حقیقت میں بھی تضاد ہے، اور ان کے نتائج بھی متضاد ہیں۔

حقیقت کا تضاد تو یہ ہے کہ صدقے میں اپنا مال بغیر کسی معاوضے کے اور بغیر کسی بدلے کی امید کے دوسرے کو دے دیا جاتا ہے، اور سود میں بغیر کسی محنت کے، اور بغیر اس کے عوض میں کچھ دیے دوسرے کا مال لے لیا جاتا ہے۔ ان دونوں کے کرنے والوں کی نیّت میں یہ تضاد ہے کہ صدقہ دینے والا تو الّٰلہ تعالیٰ کی رضا اور ثوابِ آخرت کی امید پہ اپنے مال کو ظاہری اعتبار سے کم یا ختم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، جبکہ سود لینے والے کی نیّت یہ ہوتی ہے کہ کسی قسم کا خطرہ مول لیے اور کسی قسم کی محنت کیے بغیر اس کے مال میں اضافہ ہو جائے۔ قرآن کریم کی اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ صدقہ دینے والا جس کے مال میں بظاہر کمی ہونی چاہیے تھی الّٰلہ تعالیٰ اس کے مال کو اور اس مال کی برکت کو بڑھاتے ہیں، اورسود لینے والا جس کے مال میں بظاہر اضافہ ہوتا نظر آتا تھا الّٰلہ تعالیٰ اس سود سے حاصل شدہ مال کو یا اس کی برکت کو مٹا دیتے ہیں۔

مٹانے سے کیا مطلب ہے؟ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ یہ مٹانا اور بڑھانا آخرت کے متعلّق ہے کہ سود خور کا مال اس کے کچھ کام نہ آئے گااور اس کے لیے عذاب کا سبب بنے گا، جبکہ صدقہ و خیرات کرنے والوں کا مال آخرت میں ان کے لیے ابدی نعمتوں اور راحتوں کا ذریعہ بنے گا۔ بعض اور مفسّرین نے فرمایا کہ اس مٹانے اور بڑھانے کے کچھ اثرات دنیا میں بھی نظر آجاتے ہیں۔ مال حاصل کرنے کی ساری تگ و دو سے اصل مقصود کیا ہے؟ کیا محض اس بات سے خوش ہونا مقصود ہے کہ میرے بینک اکاؤنٹ میں رکھے پیسے کے نمبر بڑھتے جا رہے ہیں، یا اس کے ذریعے راحت، دل کا سکون اور اطمینان حاصل کرنا مقصودِ اصلی ہے؟ اگر ہر انسان خود انصاف سے غور کرے تو اسے پتہ چل جائے گا کہ راحتِ اصلی، دل کا سکون، دل کی خوشی اور اطمینان اسے حاصل ہے جس کے پاس مال بیشک کم ہو لیکن وہ اس میں سے صدقہ وخیرات کرتا ہو، یا اسے حاصل ہے جس حرام اور ناجائز طریقوں سے مال جمع کرتا ہو؟

آنحضرت ﷺ نے فرمایا: "سود اگرچہ کتنا ہی زیادہ ہو جائے مگر انجام کار نتیجہ اس کا قلّت ہے۔"

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

سورہٴ البقرہ: ۲۷۵ - تیسرا حصّہ

تیسرے جملے میں مشرکین کے اس قول کا کہ بیع (یعنی سامانِ تجارت کا خریدنا بیچنا) بھی تو رِبا (سود) کی طرح ہے، الّٰلہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا ہے کہ یہ لوگ بیع کو رِبا کے مثل اور برابر قرار دیتے ہیں حالانکہ الّٰل تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا ہے اور رِبا کو حرام قرار دیا ہے۔ جیسا کہ پہلے آیا ہے ان لوگوں کا اعتراض تو عقلی طور پر تھا کہ جب دونوں کامقصد نفع کمانا ہے تو دونوں کا حکم بھی ایک ہونا چاہیے، لیکن الّٰلہ تعالیٰ نے ان کے اس سوال کا جواب عقلی طور پر نہیں حاکمانہ طور پر دیا ہے۔  

دین میں عقل کا کہاں تک عمل دخل ہے اس میں لوگ عام طور سے دو طرح کی غلطی کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایک انتہا پہ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ دین کے معاملے میں عقل کا کوئ عمل دخل نہیں۔ کسی نے جو کہہ دیا یا باپ دادا سے جو کچھ سنا ہے وہی دین ہے، اس میں سوال کرنے کی کوئ گنجائش نہیں۔ وہ سوال کرنے کو گناہ اور دین کے کسی معاملے میں غور و فکر کرنے کو بے دینی سمجھتے ہیں۔ دوسری انتہا پہ وہ لوگ ہیں جو دین کے ہر ہر معاملے کو عقل کی کسوٹی پہ پرکھتے ہیں اور ہر حکم میں علّت تلاش کرتے ہیں۔ ان کا دین کی طرف رویّہ یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ حکم میری عقل میں آیا تو میں اسے مانوں گا، ورنہ نہیں مانوں گا۔ ان کے نزدیک دین میں حجّت قرآن و حدیث نہیں ان کی اپنی عقل ہو جاتی ہے۔

بزرگوں کا کہنا ہے کہ ہر ایک کا ایمان الگ ہوتا ہے۔ مثلاً ایک چرواہا ہے جس نے ساری عمر کوئ کتاب نہیں پڑھی اور سوائے بکریاں چرانے کے کوئ علم حاصل نہیں کیا۔ اس کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ دین کی موٹی موٹی باتوں پہ ایمان لے آئے اور زیادہ کھوج کرید میں نہ پڑے ورنہ وہ پریشان ہو گا۔ اس کے بر عکس وہ آدمی ہے جو ذہین بھی ہے اور اس نے دنیا کا علم بھی بہت حاصل کیا ہے۔ اس کے لیے یہ اوپر والا طریقہ صحیح نہیں کیونکہ اسے اس طریقے سے اطمینان نہیں ہو گا اور وہ ہمیشہ پریشان رہے گا۔ ایسے آدمی کے لیے بہتر ہے کہ وہ دین کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرے، زیادہ سے زیادہ پڑھے، زیادہ سے زیادہ سوالات کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کرے، اور جب دل و دماغ کو اطمینان ہو جائے تب الّٰلہ تعالیٰ پہ ایمان لائے۔

لیکن جب ایک دفعہ انسان کو اطمینان ہو جائے اور الّٰلہ پہ ایمان لے آئے، تو پھر الّٰلہ تعالیٰ کا ہر حکم ماننا پڑتا ہے چاہے اس کی وجہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے انسان کہیں ملازمت کرنے جاتا ہے۔ کوئ اسے مجبور نہیں کرتا کہ تم زبردستی اسی جگہ ملازمت کرو۔ انسان اس کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہے کہ یہاں تنخواہ مناسب ملے گی یا نہیں، یہاں کا کام میرے لیے مناسب ہے یا نہیں۔ لیکن یہ سب معلومات حاصل کرنے کے بعد جب ایک دفعہ وہ ملازمت اختیار کر لیتا ہے تو پھر وہ روز سوال نہیں کر سکتا کہ مجھے نو بجے روز کیوں آنا ہے، میں دس بجے کیوں نہیں آ سکتا، لنچ بریک ایک بجے کیوں ہوتی ہے، تین بجے کیوں نہیں ہوتی؟ اگر وہ شروع میں اس طرح کے سوال کرے گا تو اسے یہی کہا جائے گا کہ بھائ ضابطے سے کام کرنا ہے تو کرو نہیں تو یہ ملازمت چھوڑ دو۔ بعد میں پھر کام کرتے کرتے مختلف اصولوں کی وجوہات بھی سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔

دین کا معاملہ بھی بالکل اسی طرح ہے۔ یہ تو انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ الّٰلہ تعالیٰ پہ ایمان لائے یا نہ لائے۔ لیکن جو شخص ایمان لے آئے اور یہ کہہ دے کہ میں نے الّٰلہ تعالیٰ کو اس کائنات کا مالک اور قادرِ مطلق مانا، وہ الّٰلہ تعالیٰ سے یہ سوال کرنے کی جراٴت کیسے کر سکتا ہے کہ پہلے آپ مجھے اپنے ہر حکم کی وجہ بتائیں، پھر میں اس بات کا فیصلہ کروں گا کہ میں اس حکم کو مانوں گا کہ نہیں۔ مخلوق کی محدود عقل خالق کی حکمت کا احاطہ کیسے کر سکتی ہے؟

Wednesday 17 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷۵ - دوسرا حصّہ

دوسرے جملے میں الّٰلہ تعالیٰ نے سود خوروں کی اس سزا کی وجہ یہ بیان فرمائ ہے کہ ان لوگوں نے دو جرم کیے، ایک تو بذریعہ سود کے حرام مال کھایا، دوسرے یہ کہ اس کے حلال ہونے پہ اصرار کیا۔ اس بات کو تھوڑی تفصیل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 

 گناہ دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک تو وہ گناہ جن کو الّٰلہ تعالیٰ نےچھوٹے یا صغیرہ گناہ قرار دیا، اور فرمایا کہ جب انسان کسی بھی طرح کا صدقہ یا نیکی کا کام کرتا ہے، جس میں یہ تک شامل ہے کہ لوگوں سے کسی طرح کی تکلیف کو دور کردے مثلاً چلنے کے راستے سے کسی کانٹے یا جھاڑی کو ہٹا دے، تو ان صدقات کے بدلے وہ لوگوں کے صغیرہ گناہوں کو معاف فرماتے رہتے ہیں۔ دوسری طرح کے گناہ وہ ہیں جن کو الّٰلہ تعالیٰ نے بڑے گناہ یا کبیرہ گناہ قرار دیا ہے جو عام طور سے بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔  اگر انسان صغیرہ گناہوں پر اصرار کرے اور کبھی کبھار غلطی سے ہو جانے کے بجائے ارادتاً ان کو جان بوجھ کے کرتا ہی رہے اور ان پہ نادم نہ ہو تو وہ بھی کبیرہ گناہوں میں شامل ہو جاتے ہیں، یا یہ انکار کرے کہ یہ تو گناہ ہی نہیں ہیں تو معاذ الّٰلہ بعض دفعہ کفر تک نوبت پہنچتی ہے کیونکہ اس نے الّٰلہ تعالیٰ کے صریح حکم کا انکار کیا اور اس کی مخالفت کی۔

حضرت تھانویؒ نے فرمایا ہے کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو توبہ کی توفیق ہوئ لیکن اس کی ملازمت ناجائز ہے، اور اس کے پاس آمدنی کا کوئ دوسرا ذریعہ بھی نہ ہو اور اس ملازمت کو چھوڑنے کی صورت میں گھر والوں کے لیے فاقے کی نوبت آ جائے، ایسی صورت میں اسے چاہیے کہ اس ملازمت کو چھوڑے نہیں بلکہ کرتا رہے۔ لیکن ساتھ ساتھ دل میں الّٰلہ تعالیٰ سے ندامت کا اظہار اور استغفار کرتا رہے، اور ایسی شدّومد کے ساتھ دوسری جائز ملازمت ڈھونڈتا رہے جیسے کہ ایک بیروزگار آدمی ڈھونڈتا ہے، تو ایسی صورت میں انشاٴالّٰلہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیں گے اور اس کے لئے جائز آمدنی کا ذریعہ پیدا کر دیں گے۔

مقصود اس ساری بات کا یہ تھا کہ برا کام کرنا خود ایک گناہ ہے، لیکن اس کو  برا کام نہ سمجھنا اور اس کے صحیح ہونے پہ اصرار کرنا اس کو اور بہت بڑے گناہ میں بدل دیتا ہے۔ انسان گناہ فوراً چھوڑ نہ بھی سکے تو کم از کم اتنا تو کرے کہ اس کو دل سے گناہ سمجھتا رہے، اس پر نادم اور شرمندہ ہو، اور الّٰلہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے کہ یا الّٰلہ میرے لیے ایسے حالات پیدا فرما دیجئے کہ مجھے اس گناہ کو چھوڑنے کی توفیق عطا ہو جائے، تو انشاٴالّٰلہ اس برے کام کو چھوڑنے کی توفیق بھی ہو جائے گی اور اس کی نجات بھی ہو جائے گی۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Tuesday 16 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷۵ - پہلا حصّہ

اَلَّذِيۡنَ يَاۡكُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا كَمَا يَقُوۡمُ الَّذِىۡ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ‌ؕ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الۡبَيۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا‌ ۘ‌ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا‌ ؕ فَمَنۡ جَآءَهٗ مَوۡعِظَةٌ مِّنۡ رَّبِّهٖ فَانۡتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ وَاَمۡرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ‌ؕ وَمَنۡ عَادَ فَاُولٰٓٮِٕكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ‌ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏ ﴿۲۷۵﴾ 

"جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیکطان نے چھو کر پاگل بنا دیا ہو۔ یہ اس لئے ہو گا کہ انہوں نے کہا تھا کہ: "بیع بھی تو سود ہی کی طرح ہوتی ہے۔" حالانکہ الّٰلہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ لہذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آ گئ اور وہ (سودی معاملات سے) باز آ گیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے۔ اور اس (کی باطنی کیفیت) کا معاملہ الّٰلہ کے حوالے ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔"

سود یا رِبا ہر اس زیادہ رقم کو کہا جاتا ہےجو کسی قرض پر طے کر کے وصول کی جائے۔ مشرکین کا کہنا تھا کہ جس طرح ہم کوئ سامان فروخت کر کے نفع کماتے ہیں اور اس کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے، اسی طرح اگر قرض دے کر کوئ نفع کمائیں تو کیا حرج ہے؟ ان کے اس اعتراض کا جواب تو یہ تھا کہ سامانِ تجارت کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ اسے بیچ کر نفع کمایا جائے، لیکن نقدی اس کام کے لئے نہیں بنائ گئ کہ اسے سامانِ تجارت بنا کر اس سے نفع کمایا جائے۔ وہ تو ایک تبادلے کا ذریعہ ہے تا کہ اس کے ذریعے اشیائے ضرورت خریدی اور بیچی جا سکیں۔ نقدی کا نقدی سے تبادلہ کر کے اسے بذاتِ خود نفع کمانے کا ذریعہ بنا لیا جائے تو اس سے بے شمار مفاسد پیدا ہوتے ہیں۔(اس کی پوری تفصیل رسالہ "سود پر تاریخی فیصلہ" میں موجود ہے۔)

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از آسان ترجہ القرآن، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Monday 15 May 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٧٤

اَلَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمۡ بِالَّيۡلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً فَلَهُمۡ اَجۡرُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ‌ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَؔ۔

"جو لوگ اپنے مال دن رات خاموشی سے بھی اور علانیہ بھی خرچ کرتے ہیں وہ اپنے پروردگار کے پاس اپنا ثواب پائیں گے، اور نہ انہیں کوئ خوف لاحق ہو گا، نہ کوئ غم پہنچے گا۔"

اس آیت میں ان لوگوں کے اجرِ عظیم اور فضیلت کا بیان ہے جو الّٰلہ کی راہ میں خرچ کرنے کے عادی ہیں، تمام حالات و اوقات میں، رات میں اور دن میں، خفیہ بھی اور لوگوں کے سامنے بھی ہر حالت میں اپنا مال الّٰلہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بھی بتلا دیا کہ صدقہ و خیرات کے لئے کوئ وقت مقرّر نہیں۔ اسی طرح سے چھپ کے بھی اور لوگوں کے سامنے بھی، دونوں طرح سے الّٰلہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے، بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ خرچ کیا جائے۔ نیّت صرف یہ ہو کہ انسان لوگوں کو آرام پہنچائے، ان کی تکلیف دور کرے، الّٰلہ تعالیٰ کو راضی کرنا اور ثواب حاصل کرنا مقصود ہو، شہرت کمانا یا دوسروں کے منہ سے اپنی تعریف سننا مقصد نہ ہو۔ 

اسی ضمن میں ایک اور بات سمجھنے کی یہ ہے کہ لوگ جب رمضان المبارک کے مہینے میں نیک اعمال کرنے کی فضیلت سنتے ہیں تو اس میں بعض دفعہ اس حد تک غلو کرنے لگتے ہیں کہ اپنے سامنے دوسروں کو شدید تنگی میں مبتلا دیکھتے ہیں، ان کی مدد بھی کر سکتے ہیں، لیکن یہ سوچ کے نہیں کرتے کہ رمضان المبارک میں مال خرچ کریں گے تو زیادہ ثواب ملے گا۔ انسان جب کسی دوسرے انسان کو تکلیف میں مبتلا دیکھے تو اس وقت اس کی تکلیف دور کرنے کا جو ثواب ہے وہ بہت کم اعمال کا ہے، اور اس میں مسلم اور غیر مسلم کی بھی قید نہیں۔ ایسے موقع کو چھوڑنا نہیں چاہیے اور اگر اپنے اختیار میں ہو تو دوسرے کی تکلیف اور تنگی فوراً دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ انشاٴالّٰلہ ایسے موقع پہ مال خرچ کرنے کا جو اجر ملے گا وہ شاید رمضان میں بھی خرچ کرنے سے نہ ملتا۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Sunday 14 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷۳

لِلۡفُقَرَآءِ ٱلَّذِينَ أُحۡصِرُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ لَا يَسۡتَطِيعُونَ ضَرۡبً۬ا فِى ٱلۡأَرۡضِ يَحۡسَبُهُمُ ٱلۡجَاهِلُ أَغۡنِيَآءَ مِنَ ٱلتَّعَفُّفِ تَعۡرِفُهُم بِسِيمَـٰهُمۡ لَا يَسۡـَٔلُونَ ٱلنَّاسَ إِلۡحَافً۬ا‌ۗ وَمَا تُنفِقُواْ مِنۡ خَيۡرٍ۬ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ۔

"(مالی امداد کے بطورِ خاص) مستحق وہ فقراء ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو الّٰلہ کی راہ میں اس طرح مقیّد کر رکھا ہے کہ وہ (معاش کی تلاش کے لئے) زمین میں چل پھر نہیں سکتے۔ چونکہ وہ اتنے پاک دامن ہیں کہ کسی سے سوال نہیں کرتے، اس لئے ناواقف آدمی انہیں مالدار سمجھتا ہے۔ تم ان کے چہرے کی علامتوں سے ان (کی اندرونی حالت) کو پہچان سکتے ہو (مگر) وہ لوگوں سے لگ لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔ اور تم جو مال بھی خرچ کرتے ہو الّٰلہ اسے خوب جانتا ہے۔"

حضرت ابنِ عبّاس رضی الّٰلہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت اصحابِ صفّہ کے بارے میں نازل ہوئ ہے۔ یہ وہ صحابہ تھے جنہوں نے اپنی زندگی علمِ دین حاصل کرنے کے لیے وقف کر دی تھی، اور آنحضرت ﷺ کے پاس مسجدِ نبوی سے متصّل ایک چبوترے پر آ پڑے تھے۔ طلبِ علم کی وجہ سے وہ کوئ معاشی مشغلہ اختیار نہیں کر سکتے تھے، مگر مفلسی کی سختیاں ہنسی خوشی برداشت کرتے تھے، کسی سے مانگنے کا سوال نہیں تھا۔ اس آیت نے بتایا کہ ایسے لوگ امداد کے زیادہ مستحق ہیں جو ایک نیک مقصد سے پوری امّت کے فائدے کے لیے مقید ہو کر رہ گئے ہیں اور سختیاں جھیلنے کے باوجود اپنی ضرورت کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔ (آسان ترجمہٴ قرآن، ازمفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم)

بیان القرآن (تالیف مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ الّٰلہ علیہ) میں ہے کہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ صدقہ ان حاجت مندوں کا حق ہے جو الّٰلہ تعالیٰ کی راہ میں یعنی دین کی خدمت کے لئے مقیّد ہو گئے ہوں اور خدمتِ دین میں مقیّد اور مشغول رہنے کی وجہ سے طلبِ معاش کے لئے ملک بھر میں چلنے پھرنے کا عادتاً امکان نہیں رکھتے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Saturday 13 May 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٧٢

لَّيۡسَ عَلَيۡكَ هُدَٮٰهُمۡ وَلَـٰڪِنَّ ٱللَّهَ يَهۡدِى مَن يَشَآءُ‌ۗ وَمَا تُنفِقُواْ مِنۡ خَيۡرٍ۬ فَلِأَنفُسِڪُمۡ‌ۚ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ٱبۡتِغَآءَ وَجۡهِ ٱللَّهِ‌ۚ وَمَا تُنفِقُواْ مِنۡ خَيۡرٍ۬ يُوَفَّ إِلَيۡڪُمۡ وَأَنتُمۡ لَا تُظۡلَمُونَ۔

"(اے پیغمبر!) ان (غیر مسلموں) کو راہِ راست پر لے آنا آپ کی ذمّہ داری نہیں ہے، لیکن الّٰلہ جس کو چاہتا ہے راہِ راست پر لے آتا ہے۔ اور جو مال بھی تم خرچ کرتے ہو وہ خود تمہارے فائدے کے لئے ہوتا ہے جبکہ تم الّٰلہ کی خوشنودی طلب کرنے کے سوا کسی اور غرض سے خرچ نہیں کرتے۔ اور جو مال بھی تم خرچ کرو گے تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تم پر ذرا بھی ظلم نہیں ہو گا۔"

بہت سے صحابہ رضی الّٰلہ عنہما غیر مسلموں کو اس مصلحت سے صدقہ و خیرات نہ دیتے تھے کہ شاید اسی تدبیر سے کچھ لوگ مسلمان ہو جائیں۔ اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ کسی بھی غیر مسلم کو اسلام پہ لے آنا آپ ﷺ کے ذمّہ فرض و واجب نہیں۔ یہ تو صرف الّٰلہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ لوگوں کے دلوں کو بدل دے اور انہیں ایمان پر لے آئے۔ اسی سلسلےمیں آگے فرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اس وجہ سے غیر مسلموں کو صدقہ و خیرات دینے سے نہیں رکنا چاہیے۔ مسلمان جو بھی مال خرچ کرے اس میں نیّت صرف اور صرف یہ ہونی چاہئے کہ الّٰلہ تعالی راضی ہو جائیں۔ جس طرح مسلمان الّٰلہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اسی طرح غیر مسلم بھی الّٰلہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ جیسی الّٰلہ کی رضا مسلمان کو صدقہ و خیرات دینے سے حاصل ہو گی، بالکل ویسے ہی الّٰلہ تعالیٰ کی رضا غیر مسلم حاجتمند کو بھی صدقہ و خیرات دینے سے حاصل ہو گی۔ جب الّلہ تعالیٰ نے اس میں فرق نہیں رکھا تو ہم یہ فرق کیوں کریں کہ ثواب حاصل کرنے کی نیّت سے صدقہ و خیرات نادار مسلمان کو تو دیں لیکن نادار غیر مسلم کو نہ دیں۔

یہاں یہ جاننا ضروری ے کہ یہ آیت نفلی صدقات کے بارے میں ہے، واجب صدقات مثلاً زکوٰة کے بارے میں نہیں، کیونکہ زکوٰة صرف غریب مسلمان کا حق ہے۔ ذکوٰة کی یہ پابندیاں صرف غیر مسلموں کے لئے نہیں بلکہ بعض صورتوں میں مسلمانوں کو بھی زکوٰة دینا جائز نہیں مثلاً شوہر کا بیوی کو اور بیوی کا شوہر کو زکوٰة دینا جائز نہیں، اسی طرح بعض صورتیں اور بھی ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Thursday 11 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷۱

إِن تُبۡدُواْ ٱلصَّدَقَـٰتِ فَنِعِمَّا هِىَ‌ۖ وَإِن تُخۡفُوهَا وَتُؤۡتُوهَا ٱلۡفُقَرَآءَ فَهُوَ خَيۡرٌ۬ لَّڪُمۡ‌ۚ وَيُكَفِّرُ عَنڪُم مِّن سَيِّـَٔاتِڪُمۡ‌ۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعۡمَلُونَ خَبِيرٌ۬۔

"اگر تم صدقات ظاہر کر کے دو تب بھی اچھا ہے؛ اور اگر ان کو چھپا کر فقراء کو دو تو یہ تمہارے حق میں کہیں بہتر ہے۔ اور الّٰلہ تمہاری برائیوں کا کفّارہ کر دے گا؛ اور الّٰلہ تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔"

بظاہر یہ آیت فرض اور نفل سب صدقات کو شامل ہے، اور ہر طرح کے صدقے میں چھپا کر دینا ہی افضل ہے۔ چھپا کر دینے میں اپنے لیے بھی حفاظت ہے کہ ریا جیسے گناہِ کبیرہ کے ہو جانے کا اندیشہ ختم ہو جاتا ہے اور اخلاصِ نیّت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ سوائے دینے والے اور والے کے کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ کس انسان نے صدقہ دیا اور کتنا دیا۔ اسی طرح چھپا کر دینے میں لینے والے کی بھی حفاظت ہے کہ اس کی عزّتِ نفس محفوظ رہتی ہے اور وہ سب کے سامنے شرمندگی سے بچتا ہے۔ البتّہ اس صورت میں سب کے سامنے دینے کی بھی اجازت ہے کہ اگر اس کی امید ہو کہ دوسروں کو بھی اس کو دیکھ کر اس کی اقتداء کرنے کی ترغیب ہو گی۔

آگے اس کا جو ذکر فرمایا کہ الّٰلہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو معاف کر دیں گے یہ معافی صرف چھپا کر دینے کے لئے خاص نہیں, بلکہ اس کو چھپا کر دینے کے ساتھ ملا کر اس تنبیہ کے لئے فرمایا کہ اگر تمہیں چھپا کر دینے میں تنگی ہو کہ اس کا کوئ ظاہری فائدہ تو ہوا نہیں تو اپنا دل چھوٹا مت کرو کیونکہ الّٰلہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کر دیں گے اور اس سے بڑا فائدہ کیا ہو سکتا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Wednesday 10 May 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٦٨

ٱلشَّيۡطَـٰنُ يَعِدُكُمُ ٱلۡفَقۡرَ وَيَأۡمُرُڪُم بِٱلۡفَحۡشَآءِ‌ۖ وَٱللَّهُ يَعِدُكُم مَّغۡفِرَةً۬ مِّنۡهُ وَفَضۡلاً۬‌ۗ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ۬.

"شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بے حیائ کا حکم دیتا ہے؛ اور الّٰلہ تم سے اپنی مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ الّٰلہ بڑی وسعت والا، ہر بات جاننے والا ہے۔"

جب انسان کےدل میں اس طرح کے خیالات آنے لگیں کہ میں اگر صدقہ و خیرات کروں گا تو میرے مال میں کمی ہو جائے گی، اور میں مفلس ہو جاؤں گا، اور حقِ تعالیٰ کی یہ تاکید سن کر بھی جس میں بار بار مستحق لوگوں پر اپنا مال خرچ کرنے کی ترغیب دلائ گئ ہے، اس کی مال خرچ کرنے کی ہمّت نہ ہو اور دل چاہے کہ اپنا مال خرچ نہ کرے اور بچا بچا کر رکھے، تو اس کو یقین کر لینا چاہئے کہ اس کے دل میں یہ خیالات شیطان کی طرف سے آ رہے ہیں۔ دوسری طرف اس کے دل میں اگر اس طرح کے خیالات آئیں کہ صدقہ و خیرات سے گناہ بخشے جائیں گے، اور مال میں بھی ترقّی اور برکت ہو گی، تو اس کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ خیالات الّٰلہ کی طرف سے آ رہے ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Tuesday 9 May 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٦٧

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَـٰتِ مَا ڪَسَبۡتُمۡ وَمِمَّآ أَخۡرَجۡنَا لَكُم مِّنَ ٱلۡأَرۡضِ‌ۖ وَلَا تَيَمَّمُواْ ٱلۡخَبِيثَ مِنۡهُ تُنفِقُونَ وَلَسۡتُم بِـَٔاخِذِيهِ إِلَّآ أَن تُغۡمِضُواْ فِيهِ‌ۚ وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ حَمِيدٌ۔

"اے ایمان والو! جو کچھ تم نے کمایا ہو اور جو پیداوار ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالی ہو اس کی اچھی چیزوں کا ایک حصّہ (الّٰلہ کے راستے میں ) خرچ کیا کرو؛ اور یہ نیّت نہ رکھو کہ بس ایسی خراب قسم کی چیزیں (الّٰلہ) کے نام پر دیا کرو گے جو (اگر کوئ دوسرا تمہیں دے تو نفرت کے مارے) تم اسے آنکھیں میچے بغیر نہ لے سکو۔ اور یاد رکھو کہ الّٰلہ ایسا بے نیاز ہے کہ ہر قسم کی تعریف اسی کی طرف لوٹتی ہے۔"

اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ بعض لوگ صدقے کے لئے خراب چیزیں لے آتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئ اور اس کی رو سے طیّب کے معنی عمدہ کے لیے گئے ہیں۔ بعض مفسّرین حضرات نے "طیّب" کی تفسیر حلال سے کی ہے کیونکہ کوئ بھی چیز پوری عمدہ اسی وقت ہوتی ہے جب وہ حلال بھی ہو۔ 

یہ تاکید اس شخص کے لیے ہے جس کے پاس عمدہ چیز بھی ہو اور وہ پھر بھی جان بوجھ کر الّٰلہ کی راہ میں نکمّی اور خراب چیز  صدقہ کرے۔ لیکن اگر ایسا کوئ غریب آدمی ہو جس کے پاس اچھی اور عمدہ چیز ہو ہی نہیں وہ اس ممانعت سے بری ہے، اور اس کی وہ ناقص چیز بھی الّٰلہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محم شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Monday 8 May 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٦١ تا ٢٦٤ ۔ آٹھواں اور آخری حصّہ

اس پورے رکوع کا خلاصہ یہ ہوا کہ الّٰلہ کی راہ میں جو مال خرچ کیا جائے اس کے الّٰلہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہونے کی چھ شرائط ہیں:  

اوّل اس مال کا حلال ہونا جو الّٰلہ کی راہ میں خرچ کیا جائے، دوسرے رسول الّٰلہ ﷺ کی سنّت کے مطابق خرچ کرنا، تیسرے صحیح مصرف میں خرچ کرنا، چوتھے صدقہ و خیرات دے کے احسان نہ جتلانا، پانچویں ایسا کوئ رویّہ اختیار نہ کرنا جس سے ان لوگوں کی تحقیر ہو جن کو یہ مال دیا گیا ہے، چھٹے جو کچھ مال خرچ کیا جائے اخلاصِ نیّت کے ساتھ خالصتاً الّلہ تعالیٰ کی رضا جوئ کے لئے خرچ کیا جائے، اس میں نام و نمود اور شہرت حاصل کرنے کی نیّت نہ ہو۔

دوسری شرط یعنی رسول الّٰلہ ﷺ کی سنٰت کے مطابق خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خرچ کرتے وقت اس کا لحاظ رہے کہ کسی حقدار کی حق تلفی نہ ہو۔ اپنے اہل و عیال کو تنگی میں ڈال کر، اور ان کی رضا مندی کے بغیر ان کے اخراجات کم یا بند کر کے، صدقہ و خیرات کرنا کوئ نیکی کا کام نہیں۔ اسی طرح حاجتمند وارثوں کو محروم کرکے سارے مال کو صدقہ و خیرات یا وقف کر دینا بھی رسول الّٰلہ ﷺ کی تعلیم کے خلاف ہے۔ پھر کسی بھی وقت الّٰلہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ہزاروں صورتیں ہیں۔ سنّت کا طریقہ یہ ہے کہ انسان یہ دیکھے کہ اس وقت کہاں خرچ کرنے کی اہمیت اور ضرورت کی شدّت زیادہ ہے، پھر وہاں خرچ کرے۔ اسلام اعتدال کا مذہب ہے۔ کسی ایک جذبے کی شدّت سے مغلوب ہو کر اپنا سارا یا زیادہ مال وہاں خرچ کرنا، اور مالی فرائض و واجبات مثلاً گھر والوں یا رشتہ داروں کے حقوق کا خیال نہ رکھنا، یہ شریعت و سنّت کا طریقہ نہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Sunday 7 May 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٦١ تا ٢٦٤ ۔ ساتواں حصّہ

اس آیت میں صدقہ کے قبول ہونے کی ایک اور شرط کا بیان فرمایا گیا ہے کہ جو شخص لوگوں کے دکھاوے اور لوگوں میں اپنی شہرت اور تعریف ہو جانے کی غرض سے صدقہ خیرات کرتا ہے، ایسے شخص کو آخرت میں اپنے اس صدقے کا کچھ ثواب اور بدلہ نہیں ملے گا۔ ہر شخص کو اپنے اعمال کا وہی بدلہ ملتا ہے جس کی وہ نیّت کرتا ہے۔ جو شخص الّٰلہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیّت سے مال خرچ کرتا ہے، اسے الّٰلہ تعالیٰ کی رضا ملتی ہے، اور جو شخص لوگوں کی تعریف حاصل کرنے کی نیّت سے مال خرچ کرتا ہے، اسے لوگوں کی تعریف تو شاید مل جائے لیکن الّٰلہ کی رضا نہیں ملتی۔

اس آیت سے قبولیتِ صدقہ و خیرات کی یہ شرط معلوم ہوئ کہ جو کچھ بھی خرچ کرے خالصتاً الّٰلہ تعالیٰٰ کی رضا جوئ اور ثوابِ آخرت کی نیّت سے خرچ کرے، اس میں دکھلاوے اور شہرت حاصل کرنے کی نیّت نہ ہو۔ اپنی تعریف سننے کی غرض سے مال خرچ کرنا اپنے مال کو برباد کرنا ہے، کیونکہ لوگ زیادہ سے زیادہ ایک دفعہ تعریف کر دیں گے، دو دفعہ تعریف کر دیں گے، اور وہ الفاظ بھی ہوا میں تحلیل ہو جائیں گے، ہاتھ میں کچھ نہ آئے گا۔ اور آخرت میں ایسے خرچ کرنے کا کوئ اجر نہیں، اس لئے مال خرچ بھی کیا اور وہ ضائع بھی ہوا۔ 

اس جگہ "لَا يُؤۡمِنُ بِٱللَّهِ هِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأَخِرِ‌ۖ" (الّٰلہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا) کے اضافہ سے شاید اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جو شخص الّّٰلہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھے اس سے اس بات کی توقّع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ریاکاری اور لوگوں کو دکھانے کی نیّت سے کوئ کام کرے، ریا کاری اس بات کی علامت ہے کہ ابھی اس شخص کا ایمان پختہ نہیں ہوا۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

رسم پرستی کے نقصانات

ہمارے معاشرے میں اور بہت سی رسموں کی طرح یہ رسم بھی لازمی ہو گئ ہے کہ انسان جب کسی کی عیادت کے لئے جائے تو کوئ ہدیہ، تحفہ، مثلاً پھل، بسکٹ یا جوس وغیرہ لے کر جانا لازمی ہو گیا ہے۔ اور یہ اتنا ضروری ہے کہ بعض دفعہ جب یہ کچھ لے کر جانے کی استطاعت نہیں ہوتی تو لوگ عیادت کے لئے ہی نہیں جاتے، اور دل میں خیال ہوتا ہے کہ اگر خالی ہاتھ چلے گئے تو مریض یا اس کے گھر والے کیا سوچیں گے کہ یہ ایسے ہی خالی ہاتھ آ گئے۔ یہ ایسی رسم ہے کہ جس نے ہمیں عیادت کے عظیم ثواب سے محروم کر دیا ہے۔ عیادت کے لئے تحفہ لے کر جانا نہ فرض ہے، نہ واجب ہے اور نہ سنّت۔ پھر ہم نے نہ جانے کیوں خود ہی اس کو اپنے لئے فرض قرار دے دیا ہے۔ ایسی رسمیں جن کی شریعت میں کچھ حیثیت نہ ہو، جب ان کی وجہ سے دین کے کاموں میں خلل پڑنے لگے تو انہیں چھوڑ دینا بہتر ہے۔

ماخوذ از بیان "بیمار کی عیادت کے آداب"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Saturday 6 May 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٦١ تا ٢٦٤ ۔ چھٹا حصّہ

چوتھی آیت میں بھی اسی مضمون کو دوسرے عنوان سے اور بھی تاکید کے ساتھ اس طرح ارشاد فرمایا کہ اپنے صدقات کو برباد نہ کرو، زبان سے احسان جتلا کر یا برتاؤ سے ایذاء پہنچا کر۔

قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ زیادہ تر معاملات میں اصول کی تعلیم کی گئ ہے اور فروع کی تفصیل رسول الّلہ ﷺ کی احادیث میں ملتی ہے، یہاں تک کہ نماز جیسی عظیم عبادت کے لئے بھی حالانکہ قرآن میں بہت جگہ نماز پڑھنے کی تاکید آئ ہے، لیکن اس کی تفصیل کہ فجر میں کتنی رکعات پڑھنی ہیں، ظہر میں کتنی رکعات پڑھنی ہیں، کھڑے ہو کے کیا پڑھنا ہے، بیٹھ کے کیا پڑھنا ہے، یہ سب ہمیں احادیث سے اور رسول الّٰلہ ﷺ کی سنّت سے پتہ چلتا ہے۔ یہاں اس بات کے قرآن میں بار بار دوہرائے جانے سے کہ جس کو صدقہ دو، اس پہ زبان سے احسان نہ جتلاؤ، اور نہ ہی اسے اپنے رویّے سے تکلیف پہنچاؤ، الّٰلہ تعالیٰ کے نزدیک اس بات کی عظیم اہمیت معلوم ہوتی ہے۔

اس سے یہ واضح ہو گیا کہ جس صدقہ و خیرات کے بعد انسان احسان جتلائے یا مستحقین کو اذیّت پہنچائے، وہ صدقہ ضائع ہو گیا، اس کا کوئ ثواب نہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

Thursday 4 May 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٦١ تا ٢٦٤ ۔ پانچواں حصّہ

دوسری آیت میں صدقہ کرنے کے صحیح اور مسنون طریقے کا بیان اس طرح فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ الّٰلہ کی راہ میں خرچ کرنے کےبعد نہ احسان جتاتے ہیں، اور نہ جن کو صدقہ دیا گیا ہے ان کو کوئ تکلیف پہنچاتے ہیں ان کا ثواب ان کے رب کے پاس محفوظ ہے، نہ ان پر آئندہ کے لئے کوئ خطرہ ہے اور نہ ماضی پہ کوئ رنج و غم۔  

اس آیت میں صدقہ کے قبول ہونے کی دو منفی شرطیں بتائ گئ ہیں، یعنی وہ کام جو نہیں کرنے ہیں۔ پہلی شرط تو یہ کہ صدقہ دے کر احسان نہ جتائیں۔ دوسری یہ کہ جس کو صدقہ دیں اس کو عملاً ذلیل و خوار نہ سمجھیں، اور کوئ ایسا برتاؤ نہ کریں جس سے وہ اپنی حقارت و ذلّت محسوس کرے یا اس کی دلآزاری ہو۔ 

تیسری آیت "قَوۡلٌ۬ مَّعۡرُوفٌ۬" اسی بات کی مزید  تفصیل بیان کی گئ ہے کہ اگر کبھی کوئ سوال کرے اور اس وقت انسان کی ایسی حیثیت نہ ہو کہ دوسرے کی مدد کر سکے تو نرمی سے عذر کر دے کہ بھائ اس وقت میرے پاس مال نہیں ہے۔ بالفرض اگر سوال کرنے والا اپنی بدتمیزی سے غصّہ بھی دلا دے تو اس کی بدتمیزی سے درگزر کرنا اور خاموش رہنا ایسی خیرات دینے سے کہیں بہتر ہے جس کے دینے کے بعد انسان خیرات لینے والے کو اذیّت و تکلیف پہنچائے۔ 

یاد رکھنے کی بات ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ غنی و حلیم ہیں۔ ان کے لئے اس پوری دنیا کی حیثیت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں۔ اگر انسان کسی نادار پہ مال خرچ کرتا ہے تو اس سے الّٰلہ تعالیٰ کے خزانے میں کوئ اضافہ نہیں ہوتا۔ انسان جو خرچ کرتا ہے، اپنے فائدے،اپنی آخرت کو بہتر بنانے کے لئے خرچ کرتا ہے۔ اسی لئے کسی دوسرے کو دیتے ہوئے بھی انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ میں اس پہ کوئ احسان نہیں کر رہا، میں تو اپنے ذاتی فائدے کے لئے یہ مال خرچ کر رہا ہوں۔ مجھے تو اس کا مشکور ہونا چاہیے کہ یہ مجھ سے مال لے کے مجھے اخروی فائدہ پہنچا رہا ہے۔ اگر انسان یہ سوچ رکھ کے خرچ کرے گا تو کبھی دوسروں کی طرف سے ناشکری بھی ہو گی تو عفو و درگذر سے کام لے گا۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

سورہٴ البقرہ: ٢٦١ تا ٢٦٤ ۔ چوتھا حصّہ

عام اعمالِ صالحہ اور خصوصاً انفاق فی سبیل الّٰلہ (الّٰلہ کے راستے میں مال خرچ کرنا) کی مقبولیت اور اس کے ثواب میں اضافے کے لئے تین شرطیں ہیں۔

پہلی شرط یہ ہے کہ انسان جو مال الّٰلہ کی راہ میں خرچ کرے وہ پاک اور حلال ہو، کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ پاک اور حلال مال کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں فرماتے۔ اس میں آج کے زمانے کے ان لوگوں کے لئے بڑی تنبیہ ہے جو حرام ذرائع سے مال کمانے کے بعد اس میں سے کچھ حصّہ صدقہ اور خیرات کی نیّت سے نکال دیتے ہیں اور بزعمِ خود یہ سمجھ لیتے ہیں کہ میرا باقی مال پاک ہو گیا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس مال کا صدقہ بذاتِ خود الّٰلہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہی نہیں ہے اس کی وجہ سے باقی مال کیسے پاک ہو سکتا ہے۔ 

دوسری شرط یہ ہے کہ خرچ کرنے والے کی نیّت نیک ہو، یعنی اس کا مقصد صرف کسی ضرورتمند کی مدد کرنا اور الّٰلہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہو۔ اس کی نیّت غیر الّٰلہ کو راضی کرنے کی نہ ہو مثلاً یہ نیّت نہ ہو کہ اس سے لوگ مجھے اچھا سمجھیں گے اور میرا بہت نام ہو گا، یا کوئ اور ناجائز فائدہ اٹھانا مقصود نہ ہو۔

تیسری شرط یہ ہے کہ جس پہ خرچ کرے وہ بھی صدقہ کا مستحق ہو، کسی نااہل پہ خرچ کر کے ضائع نہ کرے۔ شریعت میں اس کی اتنی اہمیت ہے کہ مثلاً زکوٰة جب تک صاحبِ نصاب کو تلاش کر کے اس کے حوالے نہ کی جائے اس وقت تک زکوٰة ادا نہیں ہوتی۔ پیسہ صرف نکالنا مقصود نہیں ہے، اس کو صحیح جگہ پہنچانا بھی مقصود ہے۔ خصوصاً جو شخص ضرورت مند ہو لیکن کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاتا ہو اس کو ڈھونڈھ کر اس کی حاجت رفع کرنے کا بہت بڑا اجر ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

دین صرف زاویہ نگاہ کی تبدیلی کا نام ہے

حضرت ڈاکٹر عبدالحئ صاحب رحمتہ الّٰلہ علیہ فرماتے تھے کہ دین صرف زاویہ نگاہ کی تبدیلی کا نام ہے۔ صرف ذرا سا زاویہٴ نگاہ بدل لو تو یہی دنیا دین بن جائے گی۔ یہی سب کام جو تم اب تک دنیا کے کام سمجھ کر انجام دے رہے تھے، وہی سب کام عبادت بن جائیں گے اور الّٰلہ تعالیٰ کی رضا کے کام بن جائیں گے۔ شرط صرف یہ ہے کہ بس دو کام کر لو۔ 

پہلا کام تو یہ ہے کہ انسان اپنی نیّت درست کر لے۔ جو کام آج تک خالی الذّہن ہو کے یا بس دنیا کے تقاضے نبھانے کی نیّت سے انجام دے رہے تھے، اب ان کاموں کو اس نیّت سے نہیں کریں گے۔ آج سے ان کاموں کو اس نیّت سے کریں گے کہ میں یہ کام الّٰلہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے کر رہا ہوں۔ میں یہ کام اس لئے کر رہا ہوں کہ الّٰلہ تعالیٰ مجھ سے خوش ہو جائیں۔ انشاٴالّٰلہ اس نیّت کے کرنے سے ہی یہ کام عبادت میں شامل ہونا شروع ہو جائے گا۔

دوسرا کام یہ ہے کہ انسان یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ رسول الّٰلہ ﷺ اس کام کو کس طریقے سے انجام دیا کرتے تھے؟ اس کام کو کرنے میں سنّت کا طریقہ کیا ہے؟ جب وہ معلوم ہو جائے تو بس انسان اس کام کو رسول الّٰلہ ﷺ کی سنّت کے مطابق کرنے کی کوشش کرے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا تھا اتّباعِ سنّت اتنی عظیم الشّان عبادت ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر تم ہمارے رسول کی سنّت کا اتّباع کرو گے، تو تم تو ہم سے کیا محبّت کرو گے، ہم تم سے محبّت کرنے لگیں گے۔ ایک مسلمان کے لئے اس سے عظیم رتبہ کیا ہو سکتا ہے؟

ماخوذ از بیان "بیمار کی عیادت کے آداب"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Wednesday 3 May 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٦١ تا ٢٦٤ ۔ تیسرا حصّہ

پہلی آیت میں ارشاد فرمایا ہے کہ جو لوگ الّٰلہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یعنی حج میں یا جہاد میں، یا فقراء و مساکین اور بیواؤں یا یتیموں پر، یا اپنے عزیزوں یا دوستوں پر جو مالی مشکل میں ہوں ان کی مدد کی نیّت سے، اس خرچ کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئ شخص گیہوں کا ایک دانہ عمدہ زمین میں بوئے، اس دانے سے گیہوں کا ایک پودا نکلے جس میں سات خوشے گیہوں کے پیدا ہوں، اور ہر خوشے میں سو دانے ہوں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دانے سے سات سو دانے حاصل ہو گئے۔

مطلب یہ ہوا کہ الّٰلہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کا اجر و ثواب سات سو گنا تک پہنچتا ہے۔ ایک پیسہ خرچ کرے تو سات سو پیسوں کا ثواب حاصل ہو سکتا ہے، گو اس کی کچھ شرائط ہیں جو آگے آئیں گی۔ 

صحیح و معتبر احادیث میں ہے کہ ایک نیکی کا ثواب اس کا دس گنا ملتا ہے، اور سات سو گنا تک پہنچ سکتا ہے۔ حضرت عبدالّٰلہ ابن عبّاس رضی الّٰلہ عنہ نے فرمایا کہ جہاد اور حج میں ایک درہم خرچ کرنے کا ثواب سات سو درہم کے برابر ہے۔ (ابنَ کثیر، بحوالہٴ مسند احمد)

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ
بیمار کے لئے مسنون دعائیں پڑھنے کے فائدے

ان دعاؤں کے پڑھنے کا پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ ہم نے مریض کی عیادت کے وقت رسول الّٰلہ ﷺ کی سنّت پر عمل کیا اور وہ الفاظ کہے جو رسول الّٰلہ ﷺ کسی بیمار کی عیادت کے وقت کہا کرتے تھے۔ اور اتّباعِ سنّت وہ عظیم الشان عبادت ہے کہ قرآن کریم میں الّٰلہ تعالیٰ نے رسول الّٰلہ ﷺ سے خود خطاب فرمایا ہے کہ "کہہ دو کہ اگر تم الّٰلہ سے محبّت رکھتے ہو تو میری اتّباع کرو، الّٰلہ تم سے محبّت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔" (۳: ۳۱) ایک عام مسلمان کے لئے اس سے بڑا رتبہ کیا ہو سکتا ہے کہ جتنی دیر وہ کسی سنّت پہ عمل کرتا رہتا ہے، اتنی دیر وہ الّٰلہ تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے۔

دوسرے ایک انسان کے ساتھ ہمدردی کرنے کا ثواب حاصل ہو گا، اور دوسرےانسانوں بلکہ جانوروں تک کے ساتھ ہمدردی کرنا، ان کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرنا، ان کو آرام پہنچانے کی فکر کرنا، عظیم ترین عبادات میں شامل ہیں۔

تیسرے اپنے بھائ کے حق میں دعا کرنے کا ثواب حاصل ہوگا، اس لئے کہ دوسروں کے لئے دعا کرنا خود ایک عظیم الشان عبادت ہے۔

گویا اس چھوٹے سے عمل میں تین اتنی عظیم عبادتیں جمع ہو جاتی ہیں۔ دوسروں کی عیادت تو ہم سب کبھی نہ کبھی کرتے ہی ہیں لیکن خالی الذہن کسی کو دیکھنے جانے کے بجائے اگر انسان ذرا دھیان کرے اور اتباعِ سنّت کی نیّت کر لے کہ رسول الّٰلہ ﷺ بیمار کو دیکھنے جایا کرتے تھے ان کی اتّباع میں میں بھی اس بیمار کی عیادت کرنے جا رہا ہوں، یہ سوچ لے کہ میں الّٰلہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے اس شخص کو دیکھنے جا رہا ہوں، عیادت کے جو آداب ہیں ان پر عمل کرے کہ اس کا خاص خیال کرے کہ ایسا کوئ کام نہ کرے کہ اس کے جانے یا زیادہ بیٹھنے سے بیمار کو تنگی یا بے آرامی ہو، اور عیادت کے وقت مسنون دعا پڑھ لے، تو انشاٴ الّٰلہ عیادت کا یہ عمل ایک عظیم عبادت بن جائے گا۔

ماخوذ از بیان "بیمار کی عیادت کے آداب"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Tuesday 2 May 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٦١ تا ٢٦٤ ۔ دوسرا حصّہ

ان آیات میں سب سے پہلے الّٰلہ کی راہ میں خرچ کرنے کے فضائل کا بیان فرمایا گیا ہے۔ اس کے بعد ایسی شرائط کا بیان ہے جن کے ذریعے وہ صدقہ و خیرات الّٰلہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل بن جائے۔ اس کے بعد ایسی چیزوں کا بیان ہے جو انسان کے صدقہ و خیرات کو برباد کر کے انہیں نیکیوں کے بجائے گناہوں میں بدل دیتی ہیں۔

اس کے بعد دو مثالیں بیان کی گئ ہیں، ایک ان نفقات و صدقات کی جو الّٰلہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہو گئے، دوسرے ان نفقات و صدقات کی جو انسان کے کسی اور عمل کی وجہ سے الّٰلہ تعالیٰ کے نزدیک نا پسندیدہ ہو گئے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ
بیمار کے لئے کرنے والی مسنون دعا

عیادت کرنے کا تیسرا ادب یہ ہے کہ اگر موقع مناسب ہو، اور اس عمل کی وجہ سے مریض کو تکلیف نہ ہو، تو مریض کی پیشانی پہ ہاتھ رکھ کے یہ دعا پڑھیں:

اللھم رب الناس اذھب الباس انت الشافی لا شافی الل انت لا یغادر سقما۔ (ترمذی، کتاب الجنائز)

یعنی اے الّٰلہ، جو تمام انسانوں کے رب ہیں، تکلیف کو دور کرنے والے ہیں، اس بیمار کو شفاء عطا فرمائیے، آپ شفاء دینے والے ہیں، آپ کے سوا کوئ شفا دینے والا نہیں۔ اور ایسی شفاء عطا فرمائیے جو کسی بیماری کو نہ چھوڑے۔

یہ دعا جس کو یاد نہ ہو اس کو چاہیے کہ اس کو یاد کر لیں اور پھر یہ عادت بنا لیں کہ اگر کسی بیمار کے پاس جائیں تو موقع دیکھ کر یہ دعا ضرور پڑھ لیں۔

ماخوذ از بیان "بیمار کی عیادت کے آداب"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Monday 1 May 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٦١ تا ٢٦٤ ۔ پہلا حصّہ

مَّثَلُ ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمۡوَٲلَهُمۡ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِى كُلِّ سُنۢبُلَةٍ۬ مِّاْئَةُ حَبَّةٍ۬‌ۗ وَٱللَّهُ يُضَـٰعِفُ لِمَن يَشَآءُ‌ۗ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ (٢٦١) ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمۡوَٲلَهُمۡ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ثُمَّ لَا يُتۡبِعُونَ مَآ أَنفَقُواْ مَنًّ۬ا وَلَآ أَذً۬ى‌ۙ لَّهُمۡ أَجۡرُهُمۡ عِندَ رَبِّهِمۡ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ (٢٦٢) ۞ قَوۡلٌ۬ مَّعۡرُوفٌ۬ وَمَغۡفِرَةٌ خَيۡرٌ۬ مِّن صَدَقَةٍ۬ يَتۡبَعُهَآ أَذً۬ى‌ۗ وَٱللَّهُ غَنِىٌّ حَلِيمٌ۬ (٢٦٣) يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تُبۡطِلُواْ صَدَقَـٰتِكُم بِٱلۡمَنِّ وَٱلۡأَذَىٰ كَٱلَّذِى يُنفِقُ مَالَهُ ۥ رِئَآءَ ٱلنَّاسِ وَلَا يُؤۡمِنُ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأَخِرِ‌ۖ...(٢٦٤)

جو لوگ الّٰلہ کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیں اگائے (اور) ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اور الّٰلہ جس کے لئے چاہتا ہے (ثواب میں) کئ گنا اضافہ کر دیتا ہے۔ الّٰلہ بہت وسعت والا (اور) بڑے علم والا ہے۔ (٢٦١) جو لوگ اپنے مال الّٰلہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ کوئ تکلیف پہنچاتے ہیں، وہ اپنے پروردگار کے پاس اپنا ثواب پائیں گے؛ نہ ان کو کوئ خوف لاحق ہو گا، اور نہ کوئ غم پہنچے گا۔ (٢٦٢) بھلی بات کہہ دینا اور درگزر کرنا اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد کوئ تکلیف پہنچائ جائے۔ اور الّٰلہ بڑا بے نیاز، بہت بردبار ہے۔ (٢٦٣) اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر اس شخص کی طرح ضائع مت کرو جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے، اور الّٰلہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔۔۔(٢٦٤)

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ
مریض کے حق میں دعا کرو

عیادت کرنے کا دوسرا ادب یہ ہے کہ جب آدمی کسی کی عیادت کے لئے جائے تو پہلے مختصراً اس کا حال دریافت کرے کہ کیسی طبیعت ہے؟ جب وہ مریض اپنی تکلیف بیان کرے تو پھر اس کے حق میں دعا کرے۔ کیا دعا کرے، یہ بھی رسول الّٰلہ ﷺ نے سکھایا ہے، چنانچہ رسول الّٰلہ ﷺ بیمار کو ان الفاظ سے دعا دیا کرتے تھے۔

لاَ باَسَ طَھور اِن’ شَا ٴَ الّٰلہ (صحیح بخاری، کتاب المرض)

یعنی اس تکلیف سے آپ کا کوئ نقصان نہیں، آپ کے لئے یہ تکلیف انشاٴ الّٰلہ گناہوں سے پاک ہونے کا ذریعہ بنے گی۔ اس دعا میں ایک طرف تو مریض کو تسلّی دے دی کہ تکلیف تو آپ کو ضرور ہے لیکن یہ تکلیف گناہوں سے پاکی اور آخرت کے ثواب کا ذریعہ بنے گی۔ دوسری طرف یہ دعا بھی ہے کہ اے الّٰلہ! اس تکلیف کو اس بیمار کے حق میں اجر و ثواب کا سبب بنا دیجئے اور گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ بنا دیجئے۔

ماخوذ از بیان "بیمار کی عیادت کے آداب"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم