Sunday 14 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷۳

لِلۡفُقَرَآءِ ٱلَّذِينَ أُحۡصِرُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ لَا يَسۡتَطِيعُونَ ضَرۡبً۬ا فِى ٱلۡأَرۡضِ يَحۡسَبُهُمُ ٱلۡجَاهِلُ أَغۡنِيَآءَ مِنَ ٱلتَّعَفُّفِ تَعۡرِفُهُم بِسِيمَـٰهُمۡ لَا يَسۡـَٔلُونَ ٱلنَّاسَ إِلۡحَافً۬ا‌ۗ وَمَا تُنفِقُواْ مِنۡ خَيۡرٍ۬ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ۔

"(مالی امداد کے بطورِ خاص) مستحق وہ فقراء ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو الّٰلہ کی راہ میں اس طرح مقیّد کر رکھا ہے کہ وہ (معاش کی تلاش کے لئے) زمین میں چل پھر نہیں سکتے۔ چونکہ وہ اتنے پاک دامن ہیں کہ کسی سے سوال نہیں کرتے، اس لئے ناواقف آدمی انہیں مالدار سمجھتا ہے۔ تم ان کے چہرے کی علامتوں سے ان (کی اندرونی حالت) کو پہچان سکتے ہو (مگر) وہ لوگوں سے لگ لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔ اور تم جو مال بھی خرچ کرتے ہو الّٰلہ اسے خوب جانتا ہے۔"

حضرت ابنِ عبّاس رضی الّٰلہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت اصحابِ صفّہ کے بارے میں نازل ہوئ ہے۔ یہ وہ صحابہ تھے جنہوں نے اپنی زندگی علمِ دین حاصل کرنے کے لیے وقف کر دی تھی، اور آنحضرت ﷺ کے پاس مسجدِ نبوی سے متصّل ایک چبوترے پر آ پڑے تھے۔ طلبِ علم کی وجہ سے وہ کوئ معاشی مشغلہ اختیار نہیں کر سکتے تھے، مگر مفلسی کی سختیاں ہنسی خوشی برداشت کرتے تھے، کسی سے مانگنے کا سوال نہیں تھا۔ اس آیت نے بتایا کہ ایسے لوگ امداد کے زیادہ مستحق ہیں جو ایک نیک مقصد سے پوری امّت کے فائدے کے لیے مقید ہو کر رہ گئے ہیں اور سختیاں جھیلنے کے باوجود اپنی ضرورت کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔ (آسان ترجمہٴ قرآن، ازمفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم)

بیان القرآن (تالیف مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ الّٰلہ علیہ) میں ہے کہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ صدقہ ان حاجت مندوں کا حق ہے جو الّٰلہ تعالیٰ کی راہ میں یعنی دین کی خدمت کے لئے مقیّد ہو گئے ہوں اور خدمتِ دین میں مقیّد اور مشغول رہنے کی وجہ سے طلبِ معاش کے لئے ملک بھر میں چلنے پھرنے کا عادتاً امکان نہیں رکھتے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

No comments:

Post a Comment