Sunday 7 May 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٦١ تا ٢٦٤ ۔ ساتواں حصّہ

اس آیت میں صدقہ کے قبول ہونے کی ایک اور شرط کا بیان فرمایا گیا ہے کہ جو شخص لوگوں کے دکھاوے اور لوگوں میں اپنی شہرت اور تعریف ہو جانے کی غرض سے صدقہ خیرات کرتا ہے، ایسے شخص کو آخرت میں اپنے اس صدقے کا کچھ ثواب اور بدلہ نہیں ملے گا۔ ہر شخص کو اپنے اعمال کا وہی بدلہ ملتا ہے جس کی وہ نیّت کرتا ہے۔ جو شخص الّٰلہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیّت سے مال خرچ کرتا ہے، اسے الّٰلہ تعالیٰ کی رضا ملتی ہے، اور جو شخص لوگوں کی تعریف حاصل کرنے کی نیّت سے مال خرچ کرتا ہے، اسے لوگوں کی تعریف تو شاید مل جائے لیکن الّٰلہ کی رضا نہیں ملتی۔

اس آیت سے قبولیتِ صدقہ و خیرات کی یہ شرط معلوم ہوئ کہ جو کچھ بھی خرچ کرے خالصتاً الّٰلہ تعالیٰٰ کی رضا جوئ اور ثوابِ آخرت کی نیّت سے خرچ کرے، اس میں دکھلاوے اور شہرت حاصل کرنے کی نیّت نہ ہو۔ اپنی تعریف سننے کی غرض سے مال خرچ کرنا اپنے مال کو برباد کرنا ہے، کیونکہ لوگ زیادہ سے زیادہ ایک دفعہ تعریف کر دیں گے، دو دفعہ تعریف کر دیں گے، اور وہ الفاظ بھی ہوا میں تحلیل ہو جائیں گے، ہاتھ میں کچھ نہ آئے گا۔ اور آخرت میں ایسے خرچ کرنے کا کوئ اجر نہیں، اس لئے مال خرچ بھی کیا اور وہ ضائع بھی ہوا۔ 

اس جگہ "لَا يُؤۡمِنُ بِٱللَّهِ هِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأَخِرِ‌ۖ" (الّٰلہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا) کے اضافہ سے شاید اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جو شخص الّّٰلہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھے اس سے اس بات کی توقّع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ریاکاری اور لوگوں کو دکھانے کی نیّت سے کوئ کام کرے، ریا کاری اس بات کی علامت ہے کہ ابھی اس شخص کا ایمان پختہ نہیں ہوا۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

No comments:

Post a Comment