Tuesday 16 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷۵ - پہلا حصّہ

اَلَّذِيۡنَ يَاۡكُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا كَمَا يَقُوۡمُ الَّذِىۡ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ‌ؕ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الۡبَيۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا‌ ۘ‌ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا‌ ؕ فَمَنۡ جَآءَهٗ مَوۡعِظَةٌ مِّنۡ رَّبِّهٖ فَانۡتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ وَاَمۡرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ‌ؕ وَمَنۡ عَادَ فَاُولٰٓٮِٕكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ‌ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏ ﴿۲۷۵﴾ 

"جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیکطان نے چھو کر پاگل بنا دیا ہو۔ یہ اس لئے ہو گا کہ انہوں نے کہا تھا کہ: "بیع بھی تو سود ہی کی طرح ہوتی ہے۔" حالانکہ الّٰلہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ لہذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آ گئ اور وہ (سودی معاملات سے) باز آ گیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے۔ اور اس (کی باطنی کیفیت) کا معاملہ الّٰلہ کے حوالے ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔"

سود یا رِبا ہر اس زیادہ رقم کو کہا جاتا ہےجو کسی قرض پر طے کر کے وصول کی جائے۔ مشرکین کا کہنا تھا کہ جس طرح ہم کوئ سامان فروخت کر کے نفع کماتے ہیں اور اس کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے، اسی طرح اگر قرض دے کر کوئ نفع کمائیں تو کیا حرج ہے؟ ان کے اس اعتراض کا جواب تو یہ تھا کہ سامانِ تجارت کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ اسے بیچ کر نفع کمایا جائے، لیکن نقدی اس کام کے لئے نہیں بنائ گئ کہ اسے سامانِ تجارت بنا کر اس سے نفع کمایا جائے۔ وہ تو ایک تبادلے کا ذریعہ ہے تا کہ اس کے ذریعے اشیائے ضرورت خریدی اور بیچی جا سکیں۔ نقدی کا نقدی سے تبادلہ کر کے اسے بذاتِ خود نفع کمانے کا ذریعہ بنا لیا جائے تو اس سے بے شمار مفاسد پیدا ہوتے ہیں۔(اس کی پوری تفصیل رسالہ "سود پر تاریخی فیصلہ" میں موجود ہے۔)

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از آسان ترجہ القرآن، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment