Saturday 13 May 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٧٢

لَّيۡسَ عَلَيۡكَ هُدَٮٰهُمۡ وَلَـٰڪِنَّ ٱللَّهَ يَهۡدِى مَن يَشَآءُ‌ۗ وَمَا تُنفِقُواْ مِنۡ خَيۡرٍ۬ فَلِأَنفُسِڪُمۡ‌ۚ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ٱبۡتِغَآءَ وَجۡهِ ٱللَّهِ‌ۚ وَمَا تُنفِقُواْ مِنۡ خَيۡرٍ۬ يُوَفَّ إِلَيۡڪُمۡ وَأَنتُمۡ لَا تُظۡلَمُونَ۔

"(اے پیغمبر!) ان (غیر مسلموں) کو راہِ راست پر لے آنا آپ کی ذمّہ داری نہیں ہے، لیکن الّٰلہ جس کو چاہتا ہے راہِ راست پر لے آتا ہے۔ اور جو مال بھی تم خرچ کرتے ہو وہ خود تمہارے فائدے کے لئے ہوتا ہے جبکہ تم الّٰلہ کی خوشنودی طلب کرنے کے سوا کسی اور غرض سے خرچ نہیں کرتے۔ اور جو مال بھی تم خرچ کرو گے تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تم پر ذرا بھی ظلم نہیں ہو گا۔"

بہت سے صحابہ رضی الّٰلہ عنہما غیر مسلموں کو اس مصلحت سے صدقہ و خیرات نہ دیتے تھے کہ شاید اسی تدبیر سے کچھ لوگ مسلمان ہو جائیں۔ اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ کسی بھی غیر مسلم کو اسلام پہ لے آنا آپ ﷺ کے ذمّہ فرض و واجب نہیں۔ یہ تو صرف الّٰلہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ لوگوں کے دلوں کو بدل دے اور انہیں ایمان پر لے آئے۔ اسی سلسلےمیں آگے فرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اس وجہ سے غیر مسلموں کو صدقہ و خیرات دینے سے نہیں رکنا چاہیے۔ مسلمان جو بھی مال خرچ کرے اس میں نیّت صرف اور صرف یہ ہونی چاہئے کہ الّٰلہ تعالی راضی ہو جائیں۔ جس طرح مسلمان الّٰلہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اسی طرح غیر مسلم بھی الّٰلہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ جیسی الّٰلہ کی رضا مسلمان کو صدقہ و خیرات دینے سے حاصل ہو گی، بالکل ویسے ہی الّٰلہ تعالیٰ کی رضا غیر مسلم حاجتمند کو بھی صدقہ و خیرات دینے سے حاصل ہو گی۔ جب الّلہ تعالیٰ نے اس میں فرق نہیں رکھا تو ہم یہ فرق کیوں کریں کہ ثواب حاصل کرنے کی نیّت سے صدقہ و خیرات نادار مسلمان کو تو دیں لیکن نادار غیر مسلم کو نہ دیں۔

یہاں یہ جاننا ضروری ے کہ یہ آیت نفلی صدقات کے بارے میں ہے، واجب صدقات مثلاً زکوٰة کے بارے میں نہیں، کیونکہ زکوٰة صرف غریب مسلمان کا حق ہے۔ ذکوٰة کی یہ پابندیاں صرف غیر مسلموں کے لئے نہیں بلکہ بعض صورتوں میں مسلمانوں کو بھی زکوٰة دینا جائز نہیں مثلاً شوہر کا بیوی کو اور بیوی کا شوہر کو زکوٰة دینا جائز نہیں، اسی طرح بعض صورتیں اور بھی ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

No comments:

Post a Comment