Thursday 11 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷۱

إِن تُبۡدُواْ ٱلصَّدَقَـٰتِ فَنِعِمَّا هِىَ‌ۖ وَإِن تُخۡفُوهَا وَتُؤۡتُوهَا ٱلۡفُقَرَآءَ فَهُوَ خَيۡرٌ۬ لَّڪُمۡ‌ۚ وَيُكَفِّرُ عَنڪُم مِّن سَيِّـَٔاتِڪُمۡ‌ۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعۡمَلُونَ خَبِيرٌ۬۔

"اگر تم صدقات ظاہر کر کے دو تب بھی اچھا ہے؛ اور اگر ان کو چھپا کر فقراء کو دو تو یہ تمہارے حق میں کہیں بہتر ہے۔ اور الّٰلہ تمہاری برائیوں کا کفّارہ کر دے گا؛ اور الّٰلہ تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔"

بظاہر یہ آیت فرض اور نفل سب صدقات کو شامل ہے، اور ہر طرح کے صدقے میں چھپا کر دینا ہی افضل ہے۔ چھپا کر دینے میں اپنے لیے بھی حفاظت ہے کہ ریا جیسے گناہِ کبیرہ کے ہو جانے کا اندیشہ ختم ہو جاتا ہے اور اخلاصِ نیّت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ سوائے دینے والے اور والے کے کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ کس انسان نے صدقہ دیا اور کتنا دیا۔ اسی طرح چھپا کر دینے میں لینے والے کی بھی حفاظت ہے کہ اس کی عزّتِ نفس محفوظ رہتی ہے اور وہ سب کے سامنے شرمندگی سے بچتا ہے۔ البتّہ اس صورت میں سب کے سامنے دینے کی بھی اجازت ہے کہ اگر اس کی امید ہو کہ دوسروں کو بھی اس کو دیکھ کر اس کی اقتداء کرنے کی ترغیب ہو گی۔

آگے اس کا جو ذکر فرمایا کہ الّٰلہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو معاف کر دیں گے یہ معافی صرف چھپا کر دینے کے لئے خاص نہیں, بلکہ اس کو چھپا کر دینے کے ساتھ ملا کر اس تنبیہ کے لئے فرمایا کہ اگر تمہیں چھپا کر دینے میں تنگی ہو کہ اس کا کوئ ظاہری فائدہ تو ہوا نہیں تو اپنا دل چھوٹا مت کرو کیونکہ الّٰلہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کر دیں گے اور اس سے بڑا فائدہ کیا ہو سکتا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

No comments:

Post a Comment