Monday 22 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷۷

اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمۡ اَجۡرُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ‌ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ‏۔

"وہ لوگ جو ایمان لائیں، نیک عمل کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں، وہ اپنے ربّ کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہوں گے؛ نہ انہیں کوئ خوف لاحق ہو گا، نہ کوئ غم پہنچے گا۔"

اس آیت میں موٴمنین صالحین جو نماز و زکوٰة کے پابند ہیں ان کے اجرِ عظیم اور آخرت کی راحت کا ذکر ہے۔ "خَوۡفٌ" آئندہ پیش آنے والی کسی تکلیف و مصیبت کے اندیشہ کا نام ہے، اور "حزن" کسی مقصد و مراد کے فوت ہو جانے سے پیدا ہونے والے غم کو کہا جاتا ہے۔ غور کیا جائے تو عیش و راحت کی تمام انواع و اقسام کا ان دو لفظوں میں ایسا احاطہ کر دیا گیا ہے کہ آرام و آسائش کی کوئ جزئ اور کوئ قسم اس سے باہر نہیں۔ (از معارف القرآن)

حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں کہ الّٰلہ تعالیٰ نے ہم لوگوں کو محض اپنے فضل سے علم کی، عبادت کی، اور الّٰلہ کی یاد اور ذکر کی جو لذّت عطا فرمائ ہوئ ہے اگر اس لذّت کی اطلاع اور خبر بادشاہوں کو ہو جائے تو وہ تلواریں سونت کر ہمارے پاس آ جائیں کہ یہ لذّت ہمیں دے دو۔

 آج کل لوگ طرح طرح کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہیں، اس کے لئے کیا کیا علاج کرتے ہیں، اور پھر بھی اداسی اور پریشانی دور نہیں ہوتی۔ الّٰلہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ موٴمنین اور صالحین کے لیے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ نہ ان کو کوئ خوف لاحق ہو گا اور نہ انہیں کوئ غم پہنچے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی زندگی میں پریشانیاں نہیں آتیں یا صدمے نہیں آتے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو دل الّٰلہ تعالیٰ سے راضی ہو جاتا ہے پھر اسے الّٰلہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کسی بھی واقعے پر طبعی پریشانی یا اداسی تو ہوتی ہے لیکن عقلی اداسی یا پریشانی نہیں ہوتی، کیونکہ وہ ہر حال میں الّٰلہ کی رضا پہ راضی ہوتا ہے۔ انسان علاج کے طور پہ ہی صحیح لیکن ایک دفعہ ان آیتوں پہ عمل کر کے تو دیکھے۔ پھر انشاٴالّٰلہ اسے دل کی وہ لذّت حاصل ہو گی کہ الّٰلہ تعالیٰ اسے دنیا میں ہی وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ‏ کی نعمت عطا فرما دیں گے۔

No comments:

Post a Comment