Thursday 4 May 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٦١ تا ٢٦٤ ۔ پانچواں حصّہ

دوسری آیت میں صدقہ کرنے کے صحیح اور مسنون طریقے کا بیان اس طرح فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ الّٰلہ کی راہ میں خرچ کرنے کےبعد نہ احسان جتاتے ہیں، اور نہ جن کو صدقہ دیا گیا ہے ان کو کوئ تکلیف پہنچاتے ہیں ان کا ثواب ان کے رب کے پاس محفوظ ہے، نہ ان پر آئندہ کے لئے کوئ خطرہ ہے اور نہ ماضی پہ کوئ رنج و غم۔  

اس آیت میں صدقہ کے قبول ہونے کی دو منفی شرطیں بتائ گئ ہیں، یعنی وہ کام جو نہیں کرنے ہیں۔ پہلی شرط تو یہ کہ صدقہ دے کر احسان نہ جتائیں۔ دوسری یہ کہ جس کو صدقہ دیں اس کو عملاً ذلیل و خوار نہ سمجھیں، اور کوئ ایسا برتاؤ نہ کریں جس سے وہ اپنی حقارت و ذلّت محسوس کرے یا اس کی دلآزاری ہو۔ 

تیسری آیت "قَوۡلٌ۬ مَّعۡرُوفٌ۬" اسی بات کی مزید  تفصیل بیان کی گئ ہے کہ اگر کبھی کوئ سوال کرے اور اس وقت انسان کی ایسی حیثیت نہ ہو کہ دوسرے کی مدد کر سکے تو نرمی سے عذر کر دے کہ بھائ اس وقت میرے پاس مال نہیں ہے۔ بالفرض اگر سوال کرنے والا اپنی بدتمیزی سے غصّہ بھی دلا دے تو اس کی بدتمیزی سے درگزر کرنا اور خاموش رہنا ایسی خیرات دینے سے کہیں بہتر ہے جس کے دینے کے بعد انسان خیرات لینے والے کو اذیّت و تکلیف پہنچائے۔ 

یاد رکھنے کی بات ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ غنی و حلیم ہیں۔ ان کے لئے اس پوری دنیا کی حیثیت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں۔ اگر انسان کسی نادار پہ مال خرچ کرتا ہے تو اس سے الّٰلہ تعالیٰ کے خزانے میں کوئ اضافہ نہیں ہوتا۔ انسان جو خرچ کرتا ہے، اپنے فائدے،اپنی آخرت کو بہتر بنانے کے لئے خرچ کرتا ہے۔ اسی لئے کسی دوسرے کو دیتے ہوئے بھی انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ میں اس پہ کوئ احسان نہیں کر رہا، میں تو اپنے ذاتی فائدے کے لئے یہ مال خرچ کر رہا ہوں۔ مجھے تو اس کا مشکور ہونا چاہیے کہ یہ مجھ سے مال لے کے مجھے اخروی فائدہ پہنچا رہا ہے۔ اگر انسان یہ سوچ رکھ کے خرچ کرے گا تو کبھی دوسروں کی طرف سے ناشکری بھی ہو گی تو عفو و درگذر سے کام لے گا۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

No comments:

Post a Comment