Saturday 20 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷٦ - پہلا حصّہ

يَمۡحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرۡبِى الصَّدَقٰتِ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيۡمٍ۔ 

"الّٰلہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ اور الّٰلہ ہر اس شخص کو ناپسند کرتا ہے جو ناشکرا گناہگار ہو۔" 

یہاں سود کے ساتھ صدقات کا ذکر ایک خاص مناسبت سے لایا گیا ہے کہ سود اور صدقہ دونوں کی حقیقت میں بھی تضاد ہے، اور ان کے نتائج بھی متضاد ہیں۔

حقیقت کا تضاد تو یہ ہے کہ صدقے میں اپنا مال بغیر کسی معاوضے کے اور بغیر کسی بدلے کی امید کے دوسرے کو دے دیا جاتا ہے، اور سود میں بغیر کسی محنت کے، اور بغیر اس کے عوض میں کچھ دیے دوسرے کا مال لے لیا جاتا ہے۔ ان دونوں کے کرنے والوں کی نیّت میں یہ تضاد ہے کہ صدقہ دینے والا تو الّٰلہ تعالیٰ کی رضا اور ثوابِ آخرت کی امید پہ اپنے مال کو ظاہری اعتبار سے کم یا ختم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، جبکہ سود لینے والے کی نیّت یہ ہوتی ہے کہ کسی قسم کا خطرہ مول لیے اور کسی قسم کی محنت کیے بغیر اس کے مال میں اضافہ ہو جائے۔ قرآن کریم کی اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ صدقہ دینے والا جس کے مال میں بظاہر کمی ہونی چاہیے تھی الّٰلہ تعالیٰ اس کے مال کو اور اس مال کی برکت کو بڑھاتے ہیں، اورسود لینے والا جس کے مال میں بظاہر اضافہ ہوتا نظر آتا تھا الّٰلہ تعالیٰ اس سود سے حاصل شدہ مال کو یا اس کی برکت کو مٹا دیتے ہیں۔

مٹانے سے کیا مطلب ہے؟ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ یہ مٹانا اور بڑھانا آخرت کے متعلّق ہے کہ سود خور کا مال اس کے کچھ کام نہ آئے گااور اس کے لیے عذاب کا سبب بنے گا، جبکہ صدقہ و خیرات کرنے والوں کا مال آخرت میں ان کے لیے ابدی نعمتوں اور راحتوں کا ذریعہ بنے گا۔ بعض اور مفسّرین نے فرمایا کہ اس مٹانے اور بڑھانے کے کچھ اثرات دنیا میں بھی نظر آجاتے ہیں۔ مال حاصل کرنے کی ساری تگ و دو سے اصل مقصود کیا ہے؟ کیا محض اس بات سے خوش ہونا مقصود ہے کہ میرے بینک اکاؤنٹ میں رکھے پیسے کے نمبر بڑھتے جا رہے ہیں، یا اس کے ذریعے راحت، دل کا سکون اور اطمینان حاصل کرنا مقصودِ اصلی ہے؟ اگر ہر انسان خود انصاف سے غور کرے تو اسے پتہ چل جائے گا کہ راحتِ اصلی، دل کا سکون، دل کی خوشی اور اطمینان اسے حاصل ہے جس کے پاس مال بیشک کم ہو لیکن وہ اس میں سے صدقہ وخیرات کرتا ہو، یا اسے حاصل ہے جس حرام اور ناجائز طریقوں سے مال جمع کرتا ہو؟

آنحضرت ﷺ نے فرمایا: "سود اگرچہ کتنا ہی زیادہ ہو جائے مگر انجام کار نتیجہ اس کا قلّت ہے۔"

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

No comments:

Post a Comment