Saturday 20 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷۵ - تیسرا حصّہ

تیسرے جملے میں مشرکین کے اس قول کا کہ بیع (یعنی سامانِ تجارت کا خریدنا بیچنا) بھی تو رِبا (سود) کی طرح ہے، الّٰلہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا ہے کہ یہ لوگ بیع کو رِبا کے مثل اور برابر قرار دیتے ہیں حالانکہ الّٰل تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا ہے اور رِبا کو حرام قرار دیا ہے۔ جیسا کہ پہلے آیا ہے ان لوگوں کا اعتراض تو عقلی طور پر تھا کہ جب دونوں کامقصد نفع کمانا ہے تو دونوں کا حکم بھی ایک ہونا چاہیے، لیکن الّٰلہ تعالیٰ نے ان کے اس سوال کا جواب عقلی طور پر نہیں حاکمانہ طور پر دیا ہے۔  

دین میں عقل کا کہاں تک عمل دخل ہے اس میں لوگ عام طور سے دو طرح کی غلطی کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایک انتہا پہ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ دین کے معاملے میں عقل کا کوئ عمل دخل نہیں۔ کسی نے جو کہہ دیا یا باپ دادا سے جو کچھ سنا ہے وہی دین ہے، اس میں سوال کرنے کی کوئ گنجائش نہیں۔ وہ سوال کرنے کو گناہ اور دین کے کسی معاملے میں غور و فکر کرنے کو بے دینی سمجھتے ہیں۔ دوسری انتہا پہ وہ لوگ ہیں جو دین کے ہر ہر معاملے کو عقل کی کسوٹی پہ پرکھتے ہیں اور ہر حکم میں علّت تلاش کرتے ہیں۔ ان کا دین کی طرف رویّہ یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ حکم میری عقل میں آیا تو میں اسے مانوں گا، ورنہ نہیں مانوں گا۔ ان کے نزدیک دین میں حجّت قرآن و حدیث نہیں ان کی اپنی عقل ہو جاتی ہے۔

بزرگوں کا کہنا ہے کہ ہر ایک کا ایمان الگ ہوتا ہے۔ مثلاً ایک چرواہا ہے جس نے ساری عمر کوئ کتاب نہیں پڑھی اور سوائے بکریاں چرانے کے کوئ علم حاصل نہیں کیا۔ اس کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ دین کی موٹی موٹی باتوں پہ ایمان لے آئے اور زیادہ کھوج کرید میں نہ پڑے ورنہ وہ پریشان ہو گا۔ اس کے بر عکس وہ آدمی ہے جو ذہین بھی ہے اور اس نے دنیا کا علم بھی بہت حاصل کیا ہے۔ اس کے لیے یہ اوپر والا طریقہ صحیح نہیں کیونکہ اسے اس طریقے سے اطمینان نہیں ہو گا اور وہ ہمیشہ پریشان رہے گا۔ ایسے آدمی کے لیے بہتر ہے کہ وہ دین کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرے، زیادہ سے زیادہ پڑھے، زیادہ سے زیادہ سوالات کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کرے، اور جب دل و دماغ کو اطمینان ہو جائے تب الّٰلہ تعالیٰ پہ ایمان لائے۔

لیکن جب ایک دفعہ انسان کو اطمینان ہو جائے اور الّٰلہ پہ ایمان لے آئے، تو پھر الّٰلہ تعالیٰ کا ہر حکم ماننا پڑتا ہے چاہے اس کی وجہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے انسان کہیں ملازمت کرنے جاتا ہے۔ کوئ اسے مجبور نہیں کرتا کہ تم زبردستی اسی جگہ ملازمت کرو۔ انسان اس کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہے کہ یہاں تنخواہ مناسب ملے گی یا نہیں، یہاں کا کام میرے لیے مناسب ہے یا نہیں۔ لیکن یہ سب معلومات حاصل کرنے کے بعد جب ایک دفعہ وہ ملازمت اختیار کر لیتا ہے تو پھر وہ روز سوال نہیں کر سکتا کہ مجھے نو بجے روز کیوں آنا ہے، میں دس بجے کیوں نہیں آ سکتا، لنچ بریک ایک بجے کیوں ہوتی ہے، تین بجے کیوں نہیں ہوتی؟ اگر وہ شروع میں اس طرح کے سوال کرے گا تو اسے یہی کہا جائے گا کہ بھائ ضابطے سے کام کرنا ہے تو کرو نہیں تو یہ ملازمت چھوڑ دو۔ بعد میں پھر کام کرتے کرتے مختلف اصولوں کی وجوہات بھی سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔

دین کا معاملہ بھی بالکل اسی طرح ہے۔ یہ تو انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ الّٰلہ تعالیٰ پہ ایمان لائے یا نہ لائے۔ لیکن جو شخص ایمان لے آئے اور یہ کہہ دے کہ میں نے الّٰلہ تعالیٰ کو اس کائنات کا مالک اور قادرِ مطلق مانا، وہ الّٰلہ تعالیٰ سے یہ سوال کرنے کی جراٴت کیسے کر سکتا ہے کہ پہلے آپ مجھے اپنے ہر حکم کی وجہ بتائیں، پھر میں اس بات کا فیصلہ کروں گا کہ میں اس حکم کو مانوں گا کہ نہیں۔ مخلوق کی محدود عقل خالق کی حکمت کا احاطہ کیسے کر سکتی ہے؟

No comments:

Post a Comment