Wednesday 10 May 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٦٨

ٱلشَّيۡطَـٰنُ يَعِدُكُمُ ٱلۡفَقۡرَ وَيَأۡمُرُڪُم بِٱلۡفَحۡشَآءِ‌ۖ وَٱللَّهُ يَعِدُكُم مَّغۡفِرَةً۬ مِّنۡهُ وَفَضۡلاً۬‌ۗ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ۬.

"شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بے حیائ کا حکم دیتا ہے؛ اور الّٰلہ تم سے اپنی مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ الّٰلہ بڑی وسعت والا، ہر بات جاننے والا ہے۔"

جب انسان کےدل میں اس طرح کے خیالات آنے لگیں کہ میں اگر صدقہ و خیرات کروں گا تو میرے مال میں کمی ہو جائے گی، اور میں مفلس ہو جاؤں گا، اور حقِ تعالیٰ کی یہ تاکید سن کر بھی جس میں بار بار مستحق لوگوں پر اپنا مال خرچ کرنے کی ترغیب دلائ گئ ہے، اس کی مال خرچ کرنے کی ہمّت نہ ہو اور دل چاہے کہ اپنا مال خرچ نہ کرے اور بچا بچا کر رکھے، تو اس کو یقین کر لینا چاہئے کہ اس کے دل میں یہ خیالات شیطان کی طرف سے آ رہے ہیں۔ دوسری طرف اس کے دل میں اگر اس طرح کے خیالات آئیں کہ صدقہ و خیرات سے گناہ بخشے جائیں گے، اور مال میں بھی ترقّی اور برکت ہو گی، تو اس کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ خیالات الّٰلہ کی طرف سے آ رہے ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

No comments:

Post a Comment