Sunday 21 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷٦ - دوسرا حصّہ

اس آیت کے آخر میں الّٰلہ تعالی نے ارشاد فرمایا: "وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيۡمٍ"۔ "الّٰلہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے کسی کفر کرنے والے کو کسی گناہ کا کام کرنے والے کو۔"

اس میں اشارہ فرما دیا کہ جو لوگ سود کو حرام ہی نہ سمجھیں وہ کفر میں مبتلا ہیں، اور جو حرام سمجھنے کے باوجود عملاً اس میں مبتلا ہیں وہ گناہ گار فاسق ہیں۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

انسان جتنے بھی بڑے گناہ میں مبتلا ہو وہ گناہ گار تو ہوتا ہے لیکن جب تک وہ اسے دل میں گناہ سمجھتا رہے کافر نہیں ہوتا۔ ویسے تو یہ الّٰلہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ کون صاحبِ ایمان ہے، کون کافر، اور کون منافق، کیونکہ ایمان تو دل کے اندر ہوتا ہے اور کسی کے دل کا حال کسی دوسرے کو نہیں معلوم، لیکن شریعت کے اعتبار سے انسان کافر اسی وقت ہوتا ہے جب وہ الّٰلہ تعالیٰ کے دیے ہوئے یا رسول الّٰلہ ﷺ کے بتائے ہوئے کسی واضح صریح حکم کا انکار کرے اور یا تو یہ کہے کہ یہ تو گناہ ہی نہیں ہے، یا اس کو دلائل سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ اگر انسان کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ اپنے گناہوں کو چھوڑنا چاہے لیکن سب گناہ ایک ساتھ نہ چھوڑ سکے، تو اتنا تو کرے کہ ان کو دل میں غلط سمجھنا شروع کر دے اور الّٰلہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے کہ یا الّٰلہ! میں ان گناہوں میں مبتلا ہوں۔ ابھی مجھ میں ان کو چھوڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ آپ اپنے فضل و کرم سے مجھے ان کو چھوڑنے کی توفیق عطا فرما دیجئے۔ (آمین) یہ کرنا تو کسی وقت بھی کسی انسان کے اختیار سے باہر نہیں۔ ان گناہوں کو غلط سمجھنے سے انکار اور ان کو صحیح ثابت کرنے پہ اصرار نہ کرے کیونکہ جب اصرار کرتا ہے تو پھر بعض دفعہ توبہ کی توفیق بھی نہیں ملتی۔

آج بعض دفعہ مسلمانوں کی زبان سے سننے میں آتا ہے کہ سود تو اتنا عام ہو گیا ہے کہ اس سے بچنا اب ممکن نہیں رہا۔ علماء کو چاہیے کہ اسے حلال قرار دے دیں۔ (معاذ الّٰلہ) ان کو شاید یہ خیال نہیں رہتا کہ جس بات کو خود الّٰلہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں، صرف ایک جگہ نہیں بلکہ بار بار، حرام قرار دیا ہے کوئ بھی مولوی، مفتی یا عالم اسے کیسے حلال قرار دے سکتا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

No comments:

Post a Comment