Saturday 27 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۸۰ - پہلا حصّہ

وَاِنۡ كَانَ ذُوۡ عُسۡرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيۡسَرَةٍ ‌ؕ وَاَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَيۡرٌ لَّـكُمۡ‌ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔

"اور اگر کوئ تنگدست (قرضدار) ہو تو اس کا ہاتھ کھلنے تک مہلت دینی ہے۔ اور صدقہ ہی کر دو تو یہ تمہارے حق میں کہیں زیادہ بہتر ہے، بشرطیکہ تم کو سمجھ ہو۔"

آج کل کے سودی نظام میں جب کوئ کسی کو سود پر قرضہ دیتا ہے تو اگر وہ وقت پر قرض اور سود کی قسط ادا نہ کر پائے  تو وہ سود بھی اس کے قرض میں جمع کر دیا جاتا ہے اور اس پر بھی سود لگا دیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قرض لینے والا جس نے تنگدستی کی وجہ سے قرض لیا تھا وہ مزید قرضوں کے بوجھ میں دبتا چلا جاتا ہے اور بہت ساری مثالوں میں بالآخر معاملہ دیوالیہ ہونے پر ختم ہوتا ہے، جس کے بعد اس شخص کو آئندہ قرض ملنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ یا تو اس کو کوئ قرض دیتا نہیں، یا پھر دیتا ہے تو بہت اونچی شرح سود پہ دیتا ہے جس سے اس کی مالی مشکلات اور بھی بڑھتی جاتی ہیں۔

اس کے برعکس اس آیت میں قرآن کریم یہ تعلیم دے رہا ہے کہ جس نے تہمارا قرض دینا ہے اگر وہ مالی مشکلات میں ہے تو اس کو اس وقت تک مہلت دے دو جب تک اس کے مالی حالات بہتر ہو جائیں۔ بلکہ اس کے بعد یہ ترغیب بھی دے دی کہ اس قرض کو معاف کر دو تو یہ تمہارے حق میں اور بھی بہتر ہے اور اس معافی کو صدقے سے تعبیر فرمایا، جس کا مطلب یہ ہے کہ معاف کر دینے کا ویسا ہی اجر ملے گا جیسا کہ اس مال کے صدقہ کردینے کا اجر ملتا۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

No comments:

Post a Comment