Tuesday 9 May 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٦٧

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَـٰتِ مَا ڪَسَبۡتُمۡ وَمِمَّآ أَخۡرَجۡنَا لَكُم مِّنَ ٱلۡأَرۡضِ‌ۖ وَلَا تَيَمَّمُواْ ٱلۡخَبِيثَ مِنۡهُ تُنفِقُونَ وَلَسۡتُم بِـَٔاخِذِيهِ إِلَّآ أَن تُغۡمِضُواْ فِيهِ‌ۚ وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ حَمِيدٌ۔

"اے ایمان والو! جو کچھ تم نے کمایا ہو اور جو پیداوار ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالی ہو اس کی اچھی چیزوں کا ایک حصّہ (الّٰلہ کے راستے میں ) خرچ کیا کرو؛ اور یہ نیّت نہ رکھو کہ بس ایسی خراب قسم کی چیزیں (الّٰلہ) کے نام پر دیا کرو گے جو (اگر کوئ دوسرا تمہیں دے تو نفرت کے مارے) تم اسے آنکھیں میچے بغیر نہ لے سکو۔ اور یاد رکھو کہ الّٰلہ ایسا بے نیاز ہے کہ ہر قسم کی تعریف اسی کی طرف لوٹتی ہے۔"

اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ بعض لوگ صدقے کے لئے خراب چیزیں لے آتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئ اور اس کی رو سے طیّب کے معنی عمدہ کے لیے گئے ہیں۔ بعض مفسّرین حضرات نے "طیّب" کی تفسیر حلال سے کی ہے کیونکہ کوئ بھی چیز پوری عمدہ اسی وقت ہوتی ہے جب وہ حلال بھی ہو۔ 

یہ تاکید اس شخص کے لیے ہے جس کے پاس عمدہ چیز بھی ہو اور وہ پھر بھی جان بوجھ کر الّٰلہ کی راہ میں نکمّی اور خراب چیز  صدقہ کرے۔ لیکن اگر ایسا کوئ غریب آدمی ہو جس کے پاس اچھی اور عمدہ چیز ہو ہی نہیں وہ اس ممانعت سے بری ہے، اور اس کی وہ ناقص چیز بھی الّٰلہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محم شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

No comments:

Post a Comment