Monday 29 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۸۰ - تیسرا حصّہ

اگر سطحی نظر سے دیکھا جائے تو سود پہ قرض دینے والے کا فائدہ ہی فائدہ ہے کہ اپنا مال بھی محفوظ کہ واپس کرنے والے کو ہر حال میں واپس ہی کرنا ہے چاہے اس کو اپنا گھر ہی کیوں نہ بیچنا پڑے۔ پھر سود کے ذریعے وہ زیادہ واپس آئے گا اور اصل مال سے بھی بڑھ جائے گا۔ پھر اگر وہ وقت پورا تک قرض اور سود نہ دے سکے گا تو اس کے ذمّے واجب الادا رقم میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔ اس میں تو ہر صورت میں مال بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس شریعت کہتی ہے کہ ایک تو جتنا قرض دیا اس سے زیادہ واپس نہیں لے سکتے۔ پھر اگر قرضدار مالی مشکل میں ہو تو اس کو مہلت دو، اور یا پھر معاف کر دو۔ بظاہر اس سے مال میں اضافہ تو کیا ہوتا، مال میں کمی ہوتی ہوئ نظر آتی ہے۔ پھر الّٰلہ تعالیٰ نے کیوں فرمایا کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں صورتوں کے کامیابی کے پیمانے مختلف ہیں۔ وہ شخص جس کا اوّل و آخر سب کچھ دنیا ہے، اس کے لیے مال کی مقدار بڑھنا ہی کامیابی کا واحد پیمانہ ہے۔ جس کے پاس لاکھ روپے ہیں وہ ہزار روپے والے سے زیادہ کامیاب ہے۔ جس کے پاس کروڑ روپے ہیں وہ لاکھ روپے والے سے زیادہ کامیاب ہے۔ اس کے بر عکس جس شخص کی نظر میں کامیابی کا دارومدار مال کی زیادتی پہ نہیں الّٰلہ تعالیٰ کی رضا پہ ہے، اس کے نزدیک کسی کو قرضے میں ادائیگی میں سہولت دے کے، کسی کو قرضہ معاف کر کے، اور کسی کو صدقہ دے کے الّٰلہ تعالیٰ کو راضی کر لینا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے، چاہے دوسروں کی نظر میں اس کا مال کم ہی کیوں نہ ہو رہا ہو۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ 

No comments:

Post a Comment