Monday 8 May 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٦١ تا ٢٦٤ ۔ آٹھواں اور آخری حصّہ

اس پورے رکوع کا خلاصہ یہ ہوا کہ الّٰلہ کی راہ میں جو مال خرچ کیا جائے اس کے الّٰلہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہونے کی چھ شرائط ہیں:  

اوّل اس مال کا حلال ہونا جو الّٰلہ کی راہ میں خرچ کیا جائے، دوسرے رسول الّٰلہ ﷺ کی سنّت کے مطابق خرچ کرنا، تیسرے صحیح مصرف میں خرچ کرنا، چوتھے صدقہ و خیرات دے کے احسان نہ جتلانا، پانچویں ایسا کوئ رویّہ اختیار نہ کرنا جس سے ان لوگوں کی تحقیر ہو جن کو یہ مال دیا گیا ہے، چھٹے جو کچھ مال خرچ کیا جائے اخلاصِ نیّت کے ساتھ خالصتاً الّلہ تعالیٰ کی رضا جوئ کے لئے خرچ کیا جائے، اس میں نام و نمود اور شہرت حاصل کرنے کی نیّت نہ ہو۔

دوسری شرط یعنی رسول الّٰلہ ﷺ کی سنٰت کے مطابق خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خرچ کرتے وقت اس کا لحاظ رہے کہ کسی حقدار کی حق تلفی نہ ہو۔ اپنے اہل و عیال کو تنگی میں ڈال کر، اور ان کی رضا مندی کے بغیر ان کے اخراجات کم یا بند کر کے، صدقہ و خیرات کرنا کوئ نیکی کا کام نہیں۔ اسی طرح حاجتمند وارثوں کو محروم کرکے سارے مال کو صدقہ و خیرات یا وقف کر دینا بھی رسول الّٰلہ ﷺ کی تعلیم کے خلاف ہے۔ پھر کسی بھی وقت الّٰلہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ہزاروں صورتیں ہیں۔ سنّت کا طریقہ یہ ہے کہ انسان یہ دیکھے کہ اس وقت کہاں خرچ کرنے کی اہمیت اور ضرورت کی شدّت زیادہ ہے، پھر وہاں خرچ کرے۔ اسلام اعتدال کا مذہب ہے۔ کسی ایک جذبے کی شدّت سے مغلوب ہو کر اپنا سارا یا زیادہ مال وہاں خرچ کرنا، اور مالی فرائض و واجبات مثلاً گھر والوں یا رشتہ داروں کے حقوق کا خیال نہ رکھنا، یہ شریعت و سنّت کا طریقہ نہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

No comments:

Post a Comment