Sunday 31 July 2016

والدین کے حقوق

حضرت عبدالّٰلہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ الّٰلہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب عمل کونسا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ محبوب عمل یہ ہے کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے۔ میں نے پھر پوچھا کہ نماز کے بعد سب سے زیادہ محبوب عمل کون سا ہے؟ آپ نے جواب میں فرمایا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک۔ میں نے پوچھا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کے بعد تیسرے نمبر پر محبوب عمل کون سا ہے؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ الّٰلہ کے راستے میں جہاد کرنا۔

بزرگوں نے فرمایا کہ جتنے حقوق العباد ہیں ان میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ اس سے زیادہ واجب الاحترام حق دنیا میں کسی اور کا نہیں ہے۔ کیونکہ الّٰلہ تعالیٰ نے والدین کو انسان کے وجود کا ذریعہ بنایا ہے اس لیے ان کا حق بھی سب سے زیادہ رکھا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کوئ شخص ایک مرتبہ اپنے والدین کو محبت کی نگاہ سے دیکھے تو اس کے بدلے میں الّٰلہ تعالی اس کو ایک حج اور عمرہ کے برابر ثواب عطا فرماتے ہیں۔ 

ایک اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی حضورِ اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آ کر عرض کیا کہ یا رسول الّٰلہ ﷺ! میرا دل بہت چاہتا ہے کہ میں الّٰلہ کے راستے میں جہاد کروں، اور جہاد سے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائیں اور اس پر مجھے اجر و ثواب عطا فرمائیں۔ حضورِ اقدس ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم واقعی ثواب حاصل کرنے کے لیے جہاد کرنا چاہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یا رسول الّٰلہ۔ میں صرف ثواب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول الّٰلہ ﷺ ! میرے والدیں زندہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور جا کر ان کی خدمت کرو، ا سلیے کہ اگر تمہیں اجر حاصل کرنا ہے تو پھر والدین کی خدمت کر کے تمہیں جو اجر حاصل ہو گا وہ اجر جہاد سے بھی حاصل نہیں ہو گا۔

ماخوذ از بیان "والدیں کی خدمت" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Saturday 30 July 2016

حضرت عبدالّٰلہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے ہی شخص راعی ہے، نگہبان ہے، ذمّہ دار ہے، اور ہر شخص سے قیامت کے روز اس کی ذمّہ داری اور نگہبانی کے بارے میں سوال ہو گا۔ امام یعنی سربراہ حکومت رعایا کے لیے ذمّہ دار ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں آخرت میں سوال ہو گا کہ تم نے ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا؟ ان کی کیسی تربیت کی؟ اور ان کے حقوق کا کتنا خیال رکھا؟ مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے۔ اس سے سوال ہو گا کہ ان  کی کیسی تربیت کی، ان کے حقوق کس طرح ادا کیے؟ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے۔ جو چیز اس کی نگہبانی میں دی گئ ہے اس کے بارے میں اس سے سوال ہو گا کہ تم نے اس کی کس طرح نگہبانی کی؟ نوکر اپنے آقا کے مال میں نگہبان ہے، یعنی اگر آقا نے پیسے دیے ہیں تو وہ پیسے اس کے لیے امانت ہیں، وہ اس کا ذمّہ دار ہے، اور آخرت کے دن اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا کہ تم نے اس امانت کا حق کس طرح ادا کیا؟

لہذا تم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی حیثیت سے راعی ہے اور جس چیز کی نگہبانی اس کے سپرد کی گئ ہے، قیامت کے روز اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا۔

حضرت نے مزید فرمایا کہ اس میں کوئ شک نہیں ہیں کہ آج کل زندگیاں بہت مصروف ہو گئ ہیں اور اوقات محدود ہو گئے ہیں۔ لیکن ہر شخص اتنا تو کر سکتا ہے کہ چوبیس گھنٹے میں سے پانچ دس منٹ روزانہ اس کام کے لیے نکال لے کہ اپنے ماتحتوں کو دین کی بات سنائے گا، مثلاً کوئ کتاب پڑھ کر سنا دے، کوئ وعظ پڑھ کر سنا دے، ایک حدیث کا ترجمہ سنا دے، جس کے ذریعے دین کی بات ان کے کان میں پڑتی رہے۔ اس سے انشاءالّٰلہ اس حدیث پر عمل کرنے کی سعادت حاصل ہو جائے گی۔

ماخوذ از بیان "اولاد کی اصلاح و تربیت" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

صدقہ جاریہ

حضرت نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ آدمی جب دنیا سے چلا جاتا ہے تو تین چیزیں اس کے لئے کارآمد ہوتی ہیں۔ ایک علم جسے وہ چھوڑ گیا جس سے لوگ نفع اٹھا رہے ہیں، مثلاً کوئ کتاب تصنیف کر گیا اور لوگ اسے پڑھ کے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، یا کوئ آدمی علم دین پڑھاتا تھا، اب اس کے شاگرد آگے علم پڑھا رہے ہیں۔ اس سے اس مرنے والے شخص کو بھی ثواب پہنچتا رہتا ہے۔ دوسرے یہ کہ کو ئ صدقہ جاریہ چھوڑ گیا، مثلاً کوئ مسجد بنا دی،کوئ مدرسہ بنا دیا، کوئ شفاخانہ بنا دیا، کوئ کنواں بنا دیا، اور لوگ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایسے عمل کا ثواب مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ اور تسری چیز نیک اولاد ہے جو وہ چھوڑ گیا۔ وہ اس کے حق میں دعائیں کریں تو اس کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔

ماخوذ از بیان "اولاد کی اصلاح و تربیت" از مفی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

اپنے گھر والوں کو آگ سے بچانا

"اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ اس پر سخت کڑے مزاج کے فرشتے مقرر ہیں جو الّٰلہ کے کسی حکم میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔" (ترجمہء آیت نمبر 6؛ سورة التحریم)

آج کل یہ منظر بکثرت دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک انسان اپنی ذات میں بڑا دیندار ہے، نمازوں کا اہتمام ہے، روزے رکھ رہا ہے، اور جتنے اوامر و نواہی ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کین اگر اس کے گھر والوں کو دیکھو تو ان میں نہ فرائضِ  دینیہ کو بجا لانے کا احساس ہے، اور نہ گناہوں کو گناہ سمجھنے کی فکر ہے۔ جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اپنی اولاد کو بھی  دین کی طرف لاؤ، گناہوں سے بچانے کی فکر کرو، تو اس کے جواب میں عام طور پر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے بڑی کوشش کی مگر کیا کریں، ماحول اور معاشرہ خراب ہے۔ ہم نے بہت سمجھایا مگر وہ مانتے نہیں ہیں۔ اب ان کا عمل ان کے ساتھ ہے اور ہمارا عمل ہمارے ساتھ ہے۔

قرآن کریم نے اس آیت میں  "آگ" کا لفظ استعمال کر کے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا کہ کہ ماں باپ کو اپنی اولاد کو گناہوں سے بچانے کے لیے کس حد تک ممکن کوشش کرنا چاہیے۔ اگر کہیں آگ لگی ہوئ ہو اور آپ کا نادان بچّہ اس آگ کو خوش منظر سمجھ کر اس کی طرف بڑھ رہا ہے، کیا اس وقت آپ اس پر اکتفا کریں گے کہ اپنے بچے کو دور سے بیٹھ کر نصیحت کرنا شروع کر دیں کہ بیٹا اس آگ میں مت جانا۔ اگر تم اس میں جاؤ گے تو جل جاؤ گے. کوئ حقیقی ماں باپ ایسا نہیں کر سکتے بلکہ وہ اپنے بچے کو آگ کی طرف جاتے دیکھ کرتڑپ اٹھیں گے اور جب تک وہ اپنے بچّے کو اٹھا کر آگ سے دور نہیں لے جائیں گے ان کو چین نہیں آئے گا۔

 اس آیت میں اشارہ اسی طرف ہے کہ جس طرح اپنی اولاد کو اس دنیا کی آگ سے بچانے کے لیے تڑپ اٹھتے ہو کم از کم اتنی ہی تڑپ اپنی اولاد کو آخرت کی آگ سے بچانے کے لیے بھی تو پیدا کرو۔ اس آگ سے بچانے کے لیے کیوں ایک دو مرتبہ کہہ کے مطمئن ہو جاتے ہو کہ ہم نے اپنا فریضہ ادا کر دیا۔

ماخوذ از بیان "اولاد کی اصلاح و تربیت" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Tuesday 19 July 2016

تقویٰ کے بغیر حقوق ادا نہیں ہو سکتے

شرعی اعتبار سے تو نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول سے منعقد ہو جاتا ہے لیکن رسول الّٰلہ ﷺ کی سنّت ہے کہ ایجاب و قبول سے پہلے ایک خطبہ دیا جاتا ہے جس میں حمد و سلام کے بعد عموماً قرآنِ کریم کی تین آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں۔ 

پہلی آیت جو تلاوت کی جاتی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے؛

"اے لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرو، اور تقویٰ اختیار کرو، جس نے تہیں ایک جان (یعنی حضرت آدم علیہ السلام)  سے پیدا کیا، اور اسی جان سے اس کی بیوی کو پیدا کیا (یعنی حضرت حوّا علیہ السلام) اور ان دونوں کے ذریعے دنیا میں بہت سے مرد اور عورت پھیلا دیے، اور اس سے ڈرو جس کے نام کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے (اپنے حقوق کا) مطالبہ کرتے ہو، اور رشتہ داریوں (کے حقوق) سے بھی ڈرو (یعنی اس کا خیال رکھو کہ رشتہ داروں کے حقوق پامال نہ ہونے پائیں)، اور الّٰلہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال و افعال پر نگراں ہیں۔ (سورة النساء:۱)

دوسری آیت جو تلاوت کی جاتی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے؛

"اے ایمان والو! الّٰلہ سے ڈرو (جیسا کہ اس سے) ڈرنے کا حق ہے، اور تم نہ مرو (موت نہ آئے) مگر اس حالت میں کہ تم الّٰلہ کے فرماں بردار ہو۔" (سورة آلِ عمران:۱۰۲)

تیسری آیت جو رسول الّٰلہ ﷺ نے خطبہ نکاح میں تعلیم فرمائ اس کا ترجمہ یہ ہے؛

"اے ایمان والو! الّٰلہ سے ڈرو اور سیدھی (سچّی) بات کہو، (اگر الّٰلہ سے ڈرو گے، اور سیدھی سچّی بات کہنے کی عادت ڈالو گے) تو الّٰلہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال کو قبول فرما لیں گے، اور تمہارے گناہوں کو معاف فرما دیں گے۔ جو شخص الّٰلہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرے گا تو وہ بڑی کامیابی حاصل کرے گا۔" (سورة الاحزاب ۷۰۔۷۱)

ان تینوں آیتوں میں جو چیز قدرِمشترک نظر آتی ہے اور جس کا حکم تینوں آیتوں میں موجود ہے، وہ ہے "تقویٰ اختیار کرنا" ان تینوں آیتوں کا آغاز اس حکم سے ہو رہا ہے کہ اے ایمان والو! الّٰلہ سے ڈرو، اور تقویٰ اختیار کرو۔ یہ جو عقدِ نکاح کے موقع پہ خاص طور پہ تقویٰ اختیار کرنے کی تاکید کی جا رہی ہے اور اس کو بار بار دہرایا جا رہا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ 

یوں تو انسان کو دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنے کے لیے تقویٰ لازمی شرط ہے جس کے بغیر انسان دنیا اور آخرت میں صلاح و فلاح حاصل نہیں کر سکتا، لیکن نکاح کا رشتہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے حقوق اور اس کی برکات اس وقت تک حاصل نہیں کی جا سکتیں جب تک دونوں فریقوں کے دلوں میں الّٰلہ کا خوف نہ ہو۔ اگر دلوں میں الّٰلہ کا خوف نہ ہو، الّٰلہ کے سامنے جواب دہی کا احساس نہ ہو، اور اس بات کا ادراک نہ ہو کہ ایک دن ہمیں الّٰلہ جلّ شانہ کے حضور حاضر ہو کر اپنے ایک ایک قول و فعل کا جواب دینا ہے، اس وقت تک صحیح معنوں میں ایک شخص دوسرے شخص کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ نہ بیوی شوہر کا حق ادا کر سکتی ہے، نہ شوہر بیوی کا حق ادا کر سکتا ہے، نہ ایک رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کاحق ادا کر سکتا ہے، نہ دوست دوست کا حق ادا کر سکتا ہے۔ جب تک دلوں میں یہ احساس نہ ہو کہ اگر میں نے دوسرے کا حق مار لیا تو شاید میں اس دنیا میں عدالت اور قانون سے تو بچ جاؤں لیکن الّٰلہ تعالیٰ کی عدالت میں نہیں بچ سکتا، اس وقت تک ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ماخوذ از بیان "خطبہء نکاح کی اہمیت" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Sunday 17 July 2016

تقویٰ کس طرح حاصل ہو؟

گزشتہ سے پیوستہ:

عموماً دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تقویٰ کس طرح حاصل  ہو؟ انسان کس طرح متقّی بنے؟ یہ زاویہ نگاہ کس طرح بدلا جائے؟ قرآن کی ایک آیت میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے:

یا ایھا الذین آمنو اتقو الّٰلہ و کونو مع الصادقین

"اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور سچّے لوگوں کی صحبت اختیار کرو۔" قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ جب وہ کسی کام کے کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس پر عمل کرنے کا راستہ بھی بتاتا ہے اور یہ الّٰلہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ وہ محض کسی کام کرنے کا حکم نہیں دیتے بلکہ ساتھ میں ہماری ضروریات، ہماری حاجات اور ہماری کمزوریوں کا احساس فرما کے ہمارے لیے آسان راستہ بھی بتاتے ہیں۔ اسی لیے قرآن کریم نے تقویٰ حاصل کرنے کا آسان طریقہ بتا دیا کہ جس شخص کو الّٰلہ تعالیٰ نے تقویٰ کی دولت عطا فرمائ ہو، جس کو صدق کی دولت حاصل ہو، اس کی صحبت اختیار کر لو۔ صحبت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جس شخص کی صحبت اختیار کی جاتی ہے اس کا رنگ رفتہ رفتہ انسان پر چڑھ جاتا ہے۔ 

الّٰلہ تعالیٰ نے کوئ کتاب رسول کے بغیر نہیں بھیجی۔ رسول تو کتاب کے بغیر آئے ہیں لیکن کوئ کتاب بغیر رسول کے نہیں آئ۔ اس لیے کہ انسان کی ہدایت اور رہنمائ کے لئے اور اس کو کسی خاص رنگ پر ڈھالنے کے لئے صرف کتاب کبھی کافی نہیں ہوتی۔ اگر کوئ شخص سوچے کہ میڈیکل سائنس کی ساری کتابیں تو بازار میں موجود ہیں، کیوں نہ میں ان کو خود پڑھ کر اور سمجھ کر ڈاکٹر بن جاؤں اور بیماروں کا علاج شروع کر دوں، تو سوائے قبرستان آباد کرنے کے وہ کوئ خدمت انجام دے نہیں سکتا۔ جب تک کوئ شخص کتابیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ کسی ماہر ڈاکٹر کی صحبت اختیار نہ کرے اور اس کے زیرِ نگرانی تربیت حاصل نہ کرے اس وقت تک وہ ڈاکٹر بن نہیں سکتا۔ اسی طرح بازار میں کھانا پکانے کی بیشمار کتابیں موجود ہیں، لیکن اگر کوئ شخص جس نے زندگی میں کبھی کھانا پکانا سیکھا نہ ہو، چاہے کہ صرف کتاب پڑھ کر وہ بریانی پکا لے تو خدا جانے وہ کیا ملغوبہ تیار کرے گا۔ 

یہی معاملہ دین کا ہے کہ صرف کتاب کسی انسان کو دینی رنگ میں ڈھالنے کے لیے کافی نہیں ہوتی جب تک کہ کوئ معلّم اور مربّی اس کے ساتھ نہ ہو۔صحابہ لفظ کے کیا معنی ہیں؟ صحابہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی صحبت اٹھائ۔ اسی طرح تابعین نے صحابہ کی صحبت سے اور تبع تابعین نے تابعین کی صحبت سے فیض حاصل کیا۔ جو کچھ دین ہم تک پہنچا ہے وہ صحبت کے ذریعے پہنچا ہے۔ لہذا الّٰلہ تعالیٰ نے بھی تقویٰ حاصل کرنے کا راستہ بتا دیا کہ اگر تقویٰ حاصل کرنا چاہتے ہو اس کا آسان راستہ یہ ہے کہ کسی متّقی کی صحبت اختیار کرو۔ اس صحبت کے نتیجے میں الّٰلہ تعالیٰ تہارے اندر بھی تقویٰ پیدا فر مادیں گے۔

ماخوذ از بیان "تجارت دین بھی، دنیا بھی" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Saturday 16 July 2016

دنیا اور دین ایک ہیں

ایک حدیث میں رسول الّٰلہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ

"جو تاجر تجارت کے اندر سچائ اور امانت کو اختیار کرے تو وہ قیامت کے دن انبیاء، صدّیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔"

دوسری حدیث جو بظاہر اس کے متضاد ہے وہ یہ ہے کہ:

"تجّار (تجارت کرنے والے) قیامت کے دن فجّار (فاجر کی جمع، یعنی فاسق و فاجر اور گناہ گار، الّٰلہ تعالیٰ کی معصیتوں کا ارتکاب کرنے والا) بنا کر اٹھائے جائیں گے، سوائے اس شخص کے جو تقویٰ اختیار کرے، اور نیکی اختیار کرے، اور سچّائ اختیار کرے۔"

حقیقت میں دونوں حدیثوں میں کوئ تضاد نہیں ہے، بلکہ تاجروں کی دو قسمیں بیان کی گئ ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو انبیاء اور صدّیقین کے ساتھ ہو گی، اور ایک قسم وہ ہے جو فاسقوں اور فاجروں کے ساتھ ہو گی۔ دونوں قسموں میں فرق بیان کرنے کے لیے جو شرائط بیان فرمائیں وہ یہ ہیں کہ سچائ ہو امانت ہو، تقویٰ ہو، نیکی ہو، تو پھر وہ تاجر پہلی قسم میں داخل ہے اور اس کو انبیاء کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اور اگر یہ شرائط اس کے اندر نہ ہوں بکہ صرف پیسہ حاصل کرنا مقصود ہو، چاہے دوسرے کی جیب پر ڈاکہ ڈال کر ہو، دھوکہ دے کر ہو، جھوٹ بول کر ہو، فریب دے کر ہو، کسی بھی طریقے سے ہو، تو پھر وہ تاجر دوسری قسم میں داخل ہے کہ اس کو فاسقوں اور فاجروں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ 

اگر ان دونوں حدیثوں کو ہم ملا کر دیکھیں تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ جو تجارت ہم کر رہے ہیں اگر ہم چاہیں تو اس تجارت کو جنّت تک پہنچنے کا راستہ بنا لیں اور انبیاء علیہ السلام کے ساتھ حشر ہونے کا ذریعہ بنا لیں، اور اگر چاہیں تو اسی تجارت کو جہنّم کا راستہ بنا لیں اور فسّاق و فجّار کے ساتھ حشر ہونے کا ذریعہ بنا لیں۔ اور یہ بات صرف تجارت کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے، بلکہ دنیا کے جتنے کام ہیں، خواہ وہ ملازمت ہو، زراعت ہو، تجارت ہو، یا دنیا کا کوئ اور کام ہو، ان سب میں یہی بات ہے کہ اگر اس کو انسان ایک زاویئے سے دیکھے تو وہ دنیا ہے، اور اگر دوسرے زاویے سے دیکھے تو وہی دین بھی ہے۔ 

دین درحقیقت زاویہ نگاہ کی تبدیلی کا نام ہے، اور یہی زاویہ نگاہ جب بدل جاتا ہے تو قرآن کی اصطلاح میں اس کا نام تقویٰ ہے۔ یعنی میں دنیا کے اندر جو کچھ بھی کر رہا ہوں، چاہے کھا رہا ہوں، سو رہا ہوں، کما رہا ہوں، ملازمت کر رہا ہوں، اگر سب کچھ الّٰلہ کی رضا کے لیے کر رہا ہوں، الّٰلہ کے احکام کے مطابق کر رہا ہوں، الّٰلہ تعالیٰ کی مرضی پیش ِ نظر رکھ کر کر رہا ہوں، تو اسی کا نام تقویٰ ہے۔ یہ تقویٰ اگر پیدا ہو جائے اور پھر ا س تقویٰ کے ساتھ تجارت کریں تو یہ تجارت دنیا نہیں بلکہ دین ہے، اور یہ جنّت تک پہنچانے والی ہے، اور نبیوں کے ساتھ حشر کرانے والی ہے۔

ماخوذ از بیان "تجارت دین بھی، دنیا بھی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Friday 15 July 2016

معاشرے کی اصلاح کیسے ہو؟

بعض دفعہ ہمارے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ آج ہم دنیا میں دیکھ رہے ہیں کہ اصلاح ِ حال اور اصلاحِ معاشرہ کی نہ جانے کتنی کوششیں مختلف جہتوں اور مختلف گوشوں سے ہو رہی ہیں۔ کتنی انجمنیں، کتنی جماعتیں، کتنی پارٹیاں، کتنے جلسے، کتنے جلوس، کتنے اجتماع ہوتے ہیں ، اور ان سب کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ معاشرے میں پھیلی ہوئ برائیوں کا سدّ ِ باب کیا جائے، معاشرے کو سیدھے راستے پر لایا جائے، اور انسان کو انسان بنانے کی فکر کی جائے۔ 

دوسرے طرف اگر ہمارے معاشرے کی عمومی حالت کو بازاروں میں نکل کر دیکھیں، دفتروں میں جا کر دیکھیں، جیتی جاگتی زندگی کو ذرا تفصیل سے دیکھنے کا موقع ملے،تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ساری کوششیں ایک طرف اور خرابی کا سیلاب ایک طرف۔ معاشرے پر ان اصلاح کی کوششوں کا کوئ اثر نظر نہیں آتا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ زندگی کا پہیہ الٹی سمت میں گھوم رہا ہے، اگر ترقّی ہو رہی ہے تو برائ میں ہو رہی ہے۔ اکّا دکّا مثالیں اپنی جگہ ہیں لیکن بحیثیتِ مجموعی اگر پورے معاشرے پہ نظر ڈال کے دیکھا جائے تو کوئ بڑا فرق نظر نہیں آتا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

اس سوال کا جواب الّٰلہ تعالیٰ نے اس آیت میں عطا فرمایا ہے اور ہماری ایک بیماری کی تشخیص بھی فرما دی ہے۔

"اے ایمان والو!تم اپنے آپ کی خبر لو، اگر تم سیدھے راستے پر آ گئے تو جو لوگ گمراہ ہیں ان کی گمراہی تمہیں کوئ نقصان نہیں پہنچائے گی۔ تم سب کو الّٰلہ کی طرف لوٹنا ہے۔ وہاں پر الّٰلہ تعالیٰ تمہیں بتائیں گے کہ تم دنیا کے اندر کیا کرتے رہے ہو۔" (ترجمہ آیت نمبر ۱۰۵، سورة المائدہ)

اس آیت میں ہماری ایک بہت بنیادی بیماری یہ بتا دی کہ یہ اصلاح کی کوششیں جو ناکام نظر آتی ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص جب اصلاح کا جھنڈا لے کر کھڑا ہوتا ہے تو اس کی خواہش اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ اصلاح کا آغاز دوسروں سے کرے۔ وہ دوسروں کو تو دعوت دیتا ہے اور اصلاح کا پیغام دیتا ہےلیکن اپنی اصلاح سے اور اپنے حالات میں تبدیلی لانے سے غافل ہوتا ہے۔ ہماری شاید ہی کوئ محفل اور کوئ مجلس اس تذکرے سے خالی ہوتی ہو کہ لوگ تو یوں کرتے ہیں، یہ یہ برائیاں کرتے ہیں اور معاشرے کے اندر یہ ہو رہا ہے، لیکن کبھی اپنے گریبان کے  اندر منہ ڈال کر یہ دیکھنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ خود میں کتنا بگڑ گیا ہوں، میرے اپنے حالات کتنے خراب ہیں، خود مجھے اصلاح کی کتی ضرورت ہے۔ 

ایک حدیث میں حضور ِ اقدس ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص یہ کہے کہ ساری دنیا تباہ و برباد ہو گئ (یعنی دوسروں پہ اعتراض کر رہا ہے کہ وہ بگڑ گئے، ان کے اندر بے راہروی آ گئ، وہ گناہوں کا ارتکاب کرنے لگے) تو سب سے زیادہ برباد خود وہ شخص ہے۔

انسان کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اپنے شب و روز کا جائزہ لے اور پھر یہ دیکھے کہ میں کتنا کام الّٰلہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق اور اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کر رہا ہوں، اور کتنا کام اس کے خلاف کر رہا ہوں۔ اور اگر الّٰلہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کام کر رہا ہوں تو اس کی اصلاح کا کیا راستہ ہے؟الّٰلہ تعالیٰ یہ فکر ہمارے اور آپ کے دلوں میں پیدا فرما دے تو پہلے افراد کی اصلاح ہونا شروع ہو جائے گی۔ انہیں افراد کا مجموعہ معاشرہ بن جاتا ہے۔ اگر ہر شخص کو اپنی اصلاح کی فکر پیدا ہو جائے تو سارا معاشرہ خودبخود سدھر جائے۔ لیکن اگر ہر شخص دوسرے کی اصلاح کی فکر کرتا رہے گا اور اپنی اصلاح کی فکر چھوڑے رہے گا تو سارا معاشرہ خراب ہی رہے گا۔ 

ماخوذ از بیان "معاشرے کی اصلاح کیسے ہو" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Thursday 14 July 2016

امانت کیا ہے؟

منافق کی تیسری علامت جو رسول الّٰلہ ﷺ نے بیان فرمائ وہ ہے "امانت میں خیانت"، یعنی یہ مسلمان کا کام نہیں ہے کہ وہ امانت میں خیانت کرے، بلکہ یہ منافق کا کام ہے۔ قرآن کریم میں الّٰلہ تعالیٰ کا ارشاد ہے؛

ان الّٰلہ یا مرکم ان تودو الامانات الی اھلھا (سورة النسأ: ۵۸)

یعنی الّٰلہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ امانتوں کو ان کے اہل تک اور ان کے مستحقین تک پہنچاؤ، اور اس کی اتنی تاکید فرمائ گئ ہے کہ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:

لا ایمان لمن لا امانة لہ (مسند احمد ۔ ج۳ ۔ ص ۱۳۵)

یعنی جس کے اندر امانت نہیں، اس کے اندر ایمان بھی نہیں۔ گویا کہ ایمان کا لازمی تقاضہ ہے کہ آدمی امین ہو۔ امانت میں خیانت نہ کرتا ہو۔

امانت کیا ہے؟
آج کل ہم لوگوں نے امانت کا مطلب اور مفہوم بہت محدود سمجھا ہوا ہے۔ ہمارے ذہنوں میں امانت کا تصوّر صرف یہ ہے کہ کوئ شخص پیسے لے کر آئے اور کہے کہ یہ پیسے آپ بطورِ امانت اپنے پاس رکھ لیجیے، جب ضرورت ہو گی میں آپ سے لے لوں گا، تو یہ امانت ہے۔ اور اگر کوئ شخص ان پیسوں کو کھا کے ختم کر دے یا جب وہ شخص اپنے پیسوں کو مانگنے آئے تو اس کو دینے سے انکار کر دے، تو یہ خیانت ہوئ۔ بیشک یہ بھی امانت میں خیانت کا حصّہ ہے لیکن قرآن و حدیث کی اصطلاح میں امانت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ 

عربی زبان میں امانت کے معنی یہ ہیں کہ کسی شخص پر کسی معاملے میں بھروسہ کرنا۔ اگر کوئ شخص کوئ کام یا کوئ چیز یا کوئ مال اس بھروسے پر کسی دوسرے کے سپرد کرے کہ یہ شخص اس سلسلے میں اپنے فریضے کو صحیح طور پر بجا لائے گا اور اس میں کوتاہی نہیں کرے گا، یہ امانت ہے۔ اگر امانت کی اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو بیشمار چیزیں اس میں داخل ہو جاتی ہیں۔ 

ملازمت کے اوقات امانت ہیں
مثلاً ایک شخص نے کہیں ملازمت کر لی اور ملازمت میں آٹھ گھنٹے ڈیوٹی دینے کا معاہدہ ہو گیا۔ یہ آٹھ گھنٹے آپ نے اس شخص کے ہاتھ فروخت کر دیے لہذا یہ اب آپ کے پاس اس شخص کی امانت ہیں جس کے یہاں آپ نے ملازمت کی ہے۔ اگر ان آٹھ گھنٹوں میں سے ایک منٹ بھی آپ نے کسی ایسے کام میں صرف کر دیا جس کی مالک کی طرف سے اجازت نہیں تھی، مثلاً ڈیوٹی کے اوقات میں دوست احباب آ گئے، اب ان کے ساتھ ہنسی مذاق ہو رہا ہے حالانکہ یہ وقت تمہارا بکا ہوا تھا۔ یہ امانت میں خیانت ہے۔

قرآن کریم نے فرمایا کہ ان لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے جو ناپ تول میں کمی کرتے ہیں۔ جب دوسروں سے وصول کرنے کا وقت آتا ہے تو پورا پورا وصول کرتے ہیں تا کہ ذرا بھی کمی نہ ہو جائے، لیکن جب دوسروں کو دینے کا وقت آتا ہے تو اس میں کم دیتے ہیں اور ڈنڈی مارتے ہیں۔ اب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ناپ تول میں کمی اسی وقت ہوتی ہے جب آدمی کوئ سودا بیچے اور اس میں ڈنڈی مار جائے، حالانکہ علماء نے فرمایا کہ ناپ تول کی کمی ہر چیز میں ہے۔ لہذا اگر کوئ شخص آٹھ گھنٹے کا ملازم ہے اور وہ پورے آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی نہیں دے رہا ہے تو وہ بھی ناپ تول میں کمی کر رہا ہے اور اس عذاب کا مستحق ہو رہا ہے۔

دفتر کا سامان امانت ہے
جس دفتر میں آپ کام کر رہے ہیں اس دفتر کا جتنا سامان ہے وہ سب آپ کے پاس امانت ہے۔ وہ سامان آپ کو اس لئے دیا گیا ہے ک آپ اس کو دفتری کاموں میں استعمال کریں لہذا اس کو ذاتی کاموں کے لیے استعمال نہ کریں اس لئے کہ یہ بھی امانت میں خیانت ہے۔ خیانت چھوٹی چیز کی ہو یا بڑی چیز کی، دونوں حرام اور گناہِِ کبیرہ ہیں، دونوں میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے اور اس لئے دونوں سے بچنا ضروری ہے۔ 

مجلس کی گفتگو امانت ہے
ایک حدیث میں حضور ِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجلسوں میں جو بات کی گئ ہو وہ بھی سننے والوں کے پاس امانت ہے۔ مثلاً دو تین آدمیوں نے آپس میں مل کر باتیں کیں۔ بے تکلفی میں، باہم اعتماد کی فضا میں راز کی باتیں کر لیں۔ اب ان باتوں کو ان کی اجازت کے بغیر دوسروں تک پپہنچانا بھی خیانت کے اندر داخل ہے اور ناجائز ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ راز کی بات مجلس میں ایک شخص نے سنی، اس نے جا کر دوسرے کو یہ تاکید کر کے سنا دی کہ یہ راز کی بات تمہیں بتا رہا ہوں، لیکن کسی اور سے مت کہنا۔ اب وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ یہ تاکید کر کے میں نے راز کا تحفّظ کر لیا۔ اب وہ دوسرا شخص آگے تیسرے شخص کو وہ راز کی بات اسی تاکید کے ساتھ بتا دیتا ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح آگے چلتا رہتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم نے امانت کا خیال کر لیا۔ حالانکہ جب وہ بات راز تھی اور دوسروں کو کہنے سے منع کیا گیا تھا تو پھر اس تاکید کے ساتھ کہنا بھی امانت کے خلاف ہے اور خیانت ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ امانت میں خیانت کے مصداق اتنے ہیں کہ شاید زندگی کا کوئ گوشہ ایسا نہیں ہے جس میں ہمیں امانت کا حکم نہ ہو اور ہمیں خیانت سے روکا نہ گیا ہو۔ لہذا اس حدیث کو ہر وقت یاد رکھنا چاہیے کہ تین چیزیں منافق کی علامت ہیں، بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدی کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے، اور اگر اس کے پاس کوئ امانت آئےتو اس میں خیانت کرے۔ الّٰلہ تعالیٰ ہم سب کی اس سے حفاظت فرمائے۔ آمین۔

ماخوذ از بیان "امانت میں خیانت" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

ملکی قانون کی پابندی کرنا واجب ہے

جس ملک میں بھی انسان رہتا ہو، چاہے وہ مسلم ملک ہو یا غیر مسلم ملک ہو، اس کے وہ تمام قوانین جو کسی گناہ یا معصیت پر مجبور نہیں کرتے، اور جو انسان کو کسی دوسرے انسان پر ناقابلِ برداشت ظلم پر مجبور نہیں کرتے، ان تمام قوانین کی پابندی شرعاً واجب ہے۔

حضرت مفتی محمد شفیع ؒ اس کی مثال میں حضرت موسی علیہ السلام کا قصّہ سنایا کرتے تھے کہ حضرت موسیٰ جب فرعون کے ملک میں رہتے تھے تو نبی بننے سے پہلے انہوں نے ایک قبطی کو مکّا مار کر قتل کر دیا تھا۔ حضرت موسی علیہ السلام اس قتل پر استغفار کیا کرتے تھے اور فرماتے کہ میرے اوپر ان کا ایک گناہ ہے اور میں نے ان کا ایک جرم کیا ہے۔ حضرت مفتی شفیع صاحب نے فرمایا کہ اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ قتل جان بوجھ کر نہیں کیا تھا بلکہ ایک مظلوم کی مدد فرمائ تھی۔ اور انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ مکّا مارنے سے وہ مر جائے گا اس لیے یہ حقیقتہً گناہ نہیں تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عصمت کے منافی بھی نہیں تھا۔ لیکن چونکہ صورت گناہ کی سی تھی اس لیے آپ نے اسے گناہ سے تعبیر فرمایا۔

اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ وہ قبطی جس کو موسیٰ علیہ السلام نے قتل کیا تھا وہ تو کافر تھا، اور کافر بھی حربی، لہذا اگر اسے جان بوجھ کر بھی قتل کرتے تو ایک حربی کافر کو قتل کرنے میں گناہ کیوں ہوتا؟ حضرت مفتی شفیع ؒ فرمایا کرتے تھے کہ یہ اس لیے گناہ ہوا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے شہر میں رہ رہے ہیں تو عملاً اس بات کا وعدہ کر رکھا ہے کہ ہم آپ کے ملک کے قوانین کی پابندی کریں گے، اور ان کا قانون یہ تھا کہ کسی کو قتل کرنا جائز نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو قتل کیا وہ اس قانون کی خلاف ورزی تھی، اسی لیے انہوں نے اسے گناہ سے تعبیر کیا اور اور اس سے استغفار کیا۔ لہذا ہر حکومت کا ہر شہری، چاہے حکومت مسلمانوں کی ہو یا غیر مسلم حکومت ہو، عملاً اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ وہ اس ملک کے ہر قانون کی پابندی کرے گا، جب تک وہ قانون کسی گناہ پر مجبور نہ کرے۔ 

ماخوذ از بیان "وعدہ خلافی" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Wednesday 13 July 2016

ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی گناہ ہے

حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس الّٰلہ سرّہ فرمایا کرتے تھے کہ وعدہ صرف زبانی نہیں ہوتا بلکہ وعدہ عملی بھی ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شخص ایک ملک میں بطور شہری کے رہتا ہے تو وہ شخص عملاً اس حکومت سے وعدہ کرتا ہے کہ میں آپ کے ملک کے قوانین کی پابندی کروں گا، لہذا اب اس شخص پر اس وعدے کی پابندی کرنا واجب ہے، جب تک اس ملک کا قانون اس کو کسی گناہ پر مجبور نہ کرے۔ 

مثلاً ٹریفک کا قانون یہ ہے کہ دائیں طرف چلو یا بائیں طرف چلو۔ یا یہ کہ جب جب سگنل کی لال بتّی جلے تو رکو اور ہری بتّی جلے تو چل پڑو۔ اب ایک شہری ہونے کی حیثیت سے آپ نے اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ ان قوانین کی پابندی کروں گا لہذا اگر کوئ شخص ان قوانین کی پابندی نہ کرے تو یہ وعدہ خلافی ہے اور گناہ ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کر لی تو اس میں گناہ کی کیا بات ہے؟ یاد رکھیے کہ یہ کئ اعتبار سے گناہ ہے۔ ایک تو اس حیثیت سے گناہ ہے کہ یہ وعدہ کی خلاف ورزی ہے۔ دوسرے اس حیثیت سے بھی گناہ ہے کہ یہ قوانین تو اس لیے بنائے گئے ہیں تا کہ نظم و ضبط پیدا ہو اور اس کے ذریعے سے ایک دوسرے کو نقصان اور تکلیف پہنچانے کے راستے بند ہوں لہذا اگر آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی اور اس سے کسی کو نقصان پہنچ گیا تو اس نقصان کی دنیا و آخرت کی ذمّہ داری آپ پر ہو گی۔

ماخوذ از بیان "وعدہ خلافی" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Monday 11 July 2016

وعدہ خلافی ۲

 حضرت معاویہ ؓ چونکہ شام کے حکمران تھے اس لیے روم کی حکومت سے ان کی ہر وقت جنگ رہتی تھی۔ روم اس وقت کی سپر پاور سمجھی جاتی تھی اور بڑی عظیم الشان عالمی طاقت  تھی۔ ایک مرتبہ حضرت معاویہ ؓ نے ان کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کر لیا اور ایک تاریخ متعین کر لی کہ اس تاریخ تک ہم ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے۔ جنگ بندی کے معاہدے کے ختم ہونے سے پہلے حضرت معاویہ ؓ کے دل میں خیال آیا کہ جنگ بندی کی مدّت تو درست ہے لیک اس مدّت کے اندر میں اپنی فوجیں رومیوں کی سرحد پر لے جا کے ڈال دوں تا کہ جس وقت جنگ بندی کی مدّت ختم ہو اس وقت میں فوراً حملہ کر دوں۔ دشمن کے ذہن میں تو یہ ہو گا کہ جب جنگ بندی کی مدّت ختم ہو گی ، پھر کہیں جا کر لشکر روانہ ہو گا اور یہاں آنے میں وقت لگے گا۔ اس لیے وہ اس حملے کے یے تیّار نہیں ہو ں گے اور جلدی فتح حاصل ہو جائے گی۔ 

چنانچہ حضرت معاویہ ؓ نے اپنی فوجیں سرحد پر ڈال دیں اور فوج کا کچھ حصّہ سرحد کے اندر ان کے علاقے میں ڈال دیااور حملہ کے لیے تیّار ہو گئے۔ جیسے ہی جنگ بندی کے معاہدے کی آخری تاریخ کا سوج غروب ہوا فوراً حضرت معاویہ ؓ نے لشکر کو پیش قدمی کا حکم دے دیا۔ یہ چال بڑی کامیاب ثابت ہوئ اس لیے کہ وہ لوگ اس حملے کے لیے تیّار نہیں تھے۔ حضرت معاویہ ؓ کا لشکر شہر کے شہر، بستیاں کی بستیاں فتح کرتا ہوا چلا جا رہا تھا کہ اچانک دیکھا کہ پیچھے سے ایک گھڑ سوار دوڑتا چلا آ رہا ہے۔ اس کو دیکھ کر حضرت معاویہ ؓ رک گئے کہ شاید یہ امیر المومنین کا کوئ نیا پیغام لے کر آیا ہو۔ جب وہ اور قریب آیا تو حضرت معاویہ ؓ نے دیکھا کہ وہ حضرت عمر بن عبسہ ؓ ہیں۔ حضرت معاویہ ؓ نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ:
"وفأ لا عذر وفا لاعذر"

مومن کا شیوہ وفاداری ہے، غدّاری نہیں ہے، عہد شکنی نہیں ہے۔ حضرت معاویہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے تو کوئ عہد شکنی نہیں کی ہے۔ میں نے تو اس وقت حملہ کیا ہے جب جنگ بندی کی مدّت ختم ہو گئ ہے۔ حضرت عمر بن عبسہ ؓ نے فرمایا کہ اگرچہ جنگ بندی کی مدّت ختم ہو گئ تھی لیکن آپ نے اپنی فوجیں جنگ بندی کی مدّت کے دوران ہی سرحد پر ڈال دیں اور فوج کا کچھ حصّہ سرحد سے اندر بھی داخل کر دیا تھا۔ یہ جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی تھی اور میں نے اپنے ان کانوں سے حضورِ اقدس ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تمہارا کسی قوم کے ساتھ معاہدہ ہو تو اس وقت تک عہد نہ کھولے اور نہ باندھے یہاں تک کہ اس کی مدّت گزر جائے، یا ان کے سامنے کھلا کھلم یہ اعلان کردے کہ ہم نے وہ عہد ختم کر دیا۔ لہذا مدّت گزرنے سے پہلے یا عہد کے ختم کرنے کا اعلان کیے بغیر ان کے علاقے کے پاس لے جا کر فوجوں کو ڈال دینا حضور ِ اقدس ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق آپ کے لیے جائز نہیں تھا۔ 

اب آپ اندازہ لگائیے کہ ایک فاتح لشکر ہے جو دشمن کا علاقہ فتح کرتا ہوا جارہا ہے اور فتح کے نشے میں چور ہے۔ لیکن جب حضورِ اقدس ﷺ کا یہ ارشاد کان میں پڑا کہ اپنے عہد کی پابندی مسلمان کے ذمّے لازم ہے اسی وقت حضرت معاویہ ؓ نے حکم دے دیا کہ جتنا علاقہ فتح کیا ہے وہ سب واپس کر دو، چنانچہ پورا علاقہ واپس کر دیا اور اپنی سرحد میں دوبارہ واپس آ گئے۔  چونکہ یہاں پر کوئ زمین کا حصّہ پیشِ نظر نہیں تھا، اقتدار اور سلطنت مقصود نہیں تھی، بلکہ مقصود الّٰلہ تعالیٰ کو راضی کرنا تھا اس لیے جب الّٰلہ تعالیٰ کا حکم معلوم ہو گیا کہ وعدہ کی خلاف ورزی درست نہیں ہے، اور چونکہ یہاں وعدہ کی خلاف ورزی کا تھوڑا سا شائبہ پیدا ہو رہا تھا اس لئے واپس لوٹ گئے۔ یہ ہے وعدہ کہ جب زبان سے بات نکل گئ تو اب اس کی خلاف ورزی نہیں ہو گی۔ 

ماخوذ از بیان "وعدہ خلافی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

Sunday 3 July 2016

وعدہ خلافی

منافق کی دوسری علامت جو رسول الّٰلہ ﷺ نے اس حدیث میں (جس کی تفصیل پچھلی پوسٹ میں آئ تھی) بیان فرمائ وہ یہ ہے کہ:
"و اذا وعد اخلف"
کہ جب وہ وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۔  مومن کا کام یہ ہے کہ جب وہ وعدہ کرتا ہے تو اس کو نبھاتا ہے، اس کو پورا کرتا ہے۔ چنانچہ شریعت کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئ وعدہ کیا، اور بعد میں اس وعدے کو پورا کرنے میں کوئ شدید عذر پیش آیا، یا کوئ رکاوٹ پیش آ گئ جس کی وجہ سے اس کے لیے اس وعدے کو پورا کرنا ممکن نہیں رہا تو اس صورت میں یہ وعدہ کرنے والا شخص اس دوسرے شخص کو بتا دے کہ اب میرے لیے اس وعدے کو پورا کرنا ممکن نہیں رہا اس لیے میں اس وعدے سے دست بردار ہوتا ہوں۔ لیکن جب تک اس وعدے کو پورا کرنے کی قدرت ہے اور کوئ شرعی عذر نہیں ہے اس وقت تک اس وعدے کو پورا کرے۔ 

حضورِ اقدس ﷺ نے ایسے ایسے وعدوں کو نبھایا کہ آج اس کی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔ حضرت حذیفہ بن یمان ؓ مشہور صحابی ہیں۔ جب یہ اور ان کے والد حضرت یمان ؓ مسلمان ہوئے تو تو مسلمان ہونے کے بعد حضورِ اقدس ﷺ کی خدمت میں مدینہ طیبہ آ رہے تھے۔ راستے میں ان کی ملاقات ابو جہل اور اس کے لشکر سے ہو گئ۔ اس وقت ابو جہل اپنے لشکر کے ساتھ حجور ِ اقدس ﷺ سے لڑنے کے لیے جا رہا تھا۔ ابو جہل نے ان لوگوں کو پکڑ لیا اور پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو۔ انہوں نے بتایا کہ ہم حضورِاقدس ﷺ کی خدمت میں مدینہ طیبہ جا رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ پھر تو ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے اس لیے کہ تم مدینہ جا کر ہمارے خلاف جنگ میں حصّہ لو گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد تو صرف حضور کی ملاقات اور زیارت ہے۔ ہم جنگ میں حصّہ نہیں لیں گے۔ ابو جہل نے کہا کہ اچھا ہم سے وعدہ کرو کہ جنگ میں حصّہ نہیں لو گے۔ انہوں نے وعدہ کر لیا تو ابو جہل نے آپ کو چھوڑ دیا۔ 

حضورِاقدس ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ غزوہ بدر کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہو چکے تھے اور راستے میں ملاقات ہو گئ۔ حضرت حذیفہ ؓ نے سارا قصّہ سنا دیا کہ اس طرح راستے میں ابو جہل نے پکڑ لیا تھا اور ہم نے بمشکل یہ وعدہ کر کے جان چھڑائ کہ ہم لڑائ میں حصّہ نہیں لیں گے۔ انہوں نے پھر درخواست کی کہ یا رسول الّٰلہ ﷺ! یہ بدر کا معرکہ ہونے والا ہے۔ ہماری بڑی خواہش ہے کہ ہم بھی اس میں شریک ہو جائیں۔ اور جہاں تک اس وعدہ کا تعلّق ہے ہو تو انہوں نے ہماری گردن پہ تلوار رکھ کے ہم سے وعدہ لیا تھا کہ ہم جنگ میں حصّہ نہیں لیں گے۔ اگر ہم وعدہ نہ کرتے تو وہ ہمیں نہ چھوڑتے اس لیے ہم نے وعدہ کر لیا۔

اگر اس وقت ہم جیسا کوئ ہوتا تو تاویلیں کر لیتا کہ یہ وعدہ تو ہم سے زبردستی لیا گیا تھا، یہ حالتِ عذر ہے اس لیے کہ کفّار کا مقابلہ ہے، اسطرف صرف ۳۱۳ افراد ہیں جن کے پاس صرف آٹھ تلواریں ہیں اور ان کا مقابلہ ایک ہزار مسلّح سورماؤں سے ہے، لیکن رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں! تم وعدہ کر کے آئے ہو اور زبان دے کے آئے ہو، اور اسی شرط پہ تمہیں رہا کیا گیا ہے کہ تم وہاں جا کر محمد رسول الّٰلہ ﷺ کی زیارت کرو گے لیکن ان کے ساتھ جنگ میں حصّہ نہیں لو گے، اس لیے میں تمہیں جنگ میں حصّہ لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ 

ایسا کیوں کیا گیا، اس لیے کہ یہ جہاد ملک حاصل کرنے کے لیے نہیں ہو رہا ہے، اقتدار حاصل کرنے کے لیے نہیں ہو رہا ہے۔ یہ تو صرف الّٰلہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہو رہا ہے۔ اور الّٰلہ تعالی کی رضا اسی میں ہے کہ جو وعدہ کر لیا گیا ہے اس کو نبھایا جائے۔  گناہ کا ارتکاب کر کے الّٰلہ تعالیٰ کو راضی نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے حضرت حذیفہؓ اور ان کے والد حضرت یمان ؓ دونوں کو غزوہ بدر جیسی فضیلت س محروم رکھا گیا اس لیے کہ یہ دونوں جنگ میں شرکت نہ کرنے کا وعدہ کر کے آئے تھے۔ یہ ہے وعدہ کا ایفأ۔ 

ماخوذ از بیان "وعدہ خلافی" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم