Monday 11 July 2016

وعدہ خلافی ۲

 حضرت معاویہ ؓ چونکہ شام کے حکمران تھے اس لیے روم کی حکومت سے ان کی ہر وقت جنگ رہتی تھی۔ روم اس وقت کی سپر پاور سمجھی جاتی تھی اور بڑی عظیم الشان عالمی طاقت  تھی۔ ایک مرتبہ حضرت معاویہ ؓ نے ان کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کر لیا اور ایک تاریخ متعین کر لی کہ اس تاریخ تک ہم ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے۔ جنگ بندی کے معاہدے کے ختم ہونے سے پہلے حضرت معاویہ ؓ کے دل میں خیال آیا کہ جنگ بندی کی مدّت تو درست ہے لیک اس مدّت کے اندر میں اپنی فوجیں رومیوں کی سرحد پر لے جا کے ڈال دوں تا کہ جس وقت جنگ بندی کی مدّت ختم ہو اس وقت میں فوراً حملہ کر دوں۔ دشمن کے ذہن میں تو یہ ہو گا کہ جب جنگ بندی کی مدّت ختم ہو گی ، پھر کہیں جا کر لشکر روانہ ہو گا اور یہاں آنے میں وقت لگے گا۔ اس لیے وہ اس حملے کے یے تیّار نہیں ہو ں گے اور جلدی فتح حاصل ہو جائے گی۔ 

چنانچہ حضرت معاویہ ؓ نے اپنی فوجیں سرحد پر ڈال دیں اور فوج کا کچھ حصّہ سرحد کے اندر ان کے علاقے میں ڈال دیااور حملہ کے لیے تیّار ہو گئے۔ جیسے ہی جنگ بندی کے معاہدے کی آخری تاریخ کا سوج غروب ہوا فوراً حضرت معاویہ ؓ نے لشکر کو پیش قدمی کا حکم دے دیا۔ یہ چال بڑی کامیاب ثابت ہوئ اس لیے کہ وہ لوگ اس حملے کے لیے تیّار نہیں تھے۔ حضرت معاویہ ؓ کا لشکر شہر کے شہر، بستیاں کی بستیاں فتح کرتا ہوا چلا جا رہا تھا کہ اچانک دیکھا کہ پیچھے سے ایک گھڑ سوار دوڑتا چلا آ رہا ہے۔ اس کو دیکھ کر حضرت معاویہ ؓ رک گئے کہ شاید یہ امیر المومنین کا کوئ نیا پیغام لے کر آیا ہو۔ جب وہ اور قریب آیا تو حضرت معاویہ ؓ نے دیکھا کہ وہ حضرت عمر بن عبسہ ؓ ہیں۔ حضرت معاویہ ؓ نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ:
"وفأ لا عذر وفا لاعذر"

مومن کا شیوہ وفاداری ہے، غدّاری نہیں ہے، عہد شکنی نہیں ہے۔ حضرت معاویہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے تو کوئ عہد شکنی نہیں کی ہے۔ میں نے تو اس وقت حملہ کیا ہے جب جنگ بندی کی مدّت ختم ہو گئ ہے۔ حضرت عمر بن عبسہ ؓ نے فرمایا کہ اگرچہ جنگ بندی کی مدّت ختم ہو گئ تھی لیکن آپ نے اپنی فوجیں جنگ بندی کی مدّت کے دوران ہی سرحد پر ڈال دیں اور فوج کا کچھ حصّہ سرحد سے اندر بھی داخل کر دیا تھا۔ یہ جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی تھی اور میں نے اپنے ان کانوں سے حضورِ اقدس ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تمہارا کسی قوم کے ساتھ معاہدہ ہو تو اس وقت تک عہد نہ کھولے اور نہ باندھے یہاں تک کہ اس کی مدّت گزر جائے، یا ان کے سامنے کھلا کھلم یہ اعلان کردے کہ ہم نے وہ عہد ختم کر دیا۔ لہذا مدّت گزرنے سے پہلے یا عہد کے ختم کرنے کا اعلان کیے بغیر ان کے علاقے کے پاس لے جا کر فوجوں کو ڈال دینا حضور ِ اقدس ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق آپ کے لیے جائز نہیں تھا۔ 

اب آپ اندازہ لگائیے کہ ایک فاتح لشکر ہے جو دشمن کا علاقہ فتح کرتا ہوا جارہا ہے اور فتح کے نشے میں چور ہے۔ لیکن جب حضورِ اقدس ﷺ کا یہ ارشاد کان میں پڑا کہ اپنے عہد کی پابندی مسلمان کے ذمّے لازم ہے اسی وقت حضرت معاویہ ؓ نے حکم دے دیا کہ جتنا علاقہ فتح کیا ہے وہ سب واپس کر دو، چنانچہ پورا علاقہ واپس کر دیا اور اپنی سرحد میں دوبارہ واپس آ گئے۔  چونکہ یہاں پر کوئ زمین کا حصّہ پیشِ نظر نہیں تھا، اقتدار اور سلطنت مقصود نہیں تھی، بلکہ مقصود الّٰلہ تعالیٰ کو راضی کرنا تھا اس لیے جب الّٰلہ تعالیٰ کا حکم معلوم ہو گیا کہ وعدہ کی خلاف ورزی درست نہیں ہے، اور چونکہ یہاں وعدہ کی خلاف ورزی کا تھوڑا سا شائبہ پیدا ہو رہا تھا اس لئے واپس لوٹ گئے۔ یہ ہے وعدہ کہ جب زبان سے بات نکل گئ تو اب اس کی خلاف ورزی نہیں ہو گی۔ 

ماخوذ از بیان "وعدہ خلافی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment