Friday 15 July 2016

معاشرے کی اصلاح کیسے ہو؟

بعض دفعہ ہمارے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ آج ہم دنیا میں دیکھ رہے ہیں کہ اصلاح ِ حال اور اصلاحِ معاشرہ کی نہ جانے کتنی کوششیں مختلف جہتوں اور مختلف گوشوں سے ہو رہی ہیں۔ کتنی انجمنیں، کتنی جماعتیں، کتنی پارٹیاں، کتنے جلسے، کتنے جلوس، کتنے اجتماع ہوتے ہیں ، اور ان سب کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ معاشرے میں پھیلی ہوئ برائیوں کا سدّ ِ باب کیا جائے، معاشرے کو سیدھے راستے پر لایا جائے، اور انسان کو انسان بنانے کی فکر کی جائے۔ 

دوسرے طرف اگر ہمارے معاشرے کی عمومی حالت کو بازاروں میں نکل کر دیکھیں، دفتروں میں جا کر دیکھیں، جیتی جاگتی زندگی کو ذرا تفصیل سے دیکھنے کا موقع ملے،تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ساری کوششیں ایک طرف اور خرابی کا سیلاب ایک طرف۔ معاشرے پر ان اصلاح کی کوششوں کا کوئ اثر نظر نہیں آتا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ زندگی کا پہیہ الٹی سمت میں گھوم رہا ہے، اگر ترقّی ہو رہی ہے تو برائ میں ہو رہی ہے۔ اکّا دکّا مثالیں اپنی جگہ ہیں لیکن بحیثیتِ مجموعی اگر پورے معاشرے پہ نظر ڈال کے دیکھا جائے تو کوئ بڑا فرق نظر نہیں آتا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

اس سوال کا جواب الّٰلہ تعالیٰ نے اس آیت میں عطا فرمایا ہے اور ہماری ایک بیماری کی تشخیص بھی فرما دی ہے۔

"اے ایمان والو!تم اپنے آپ کی خبر لو، اگر تم سیدھے راستے پر آ گئے تو جو لوگ گمراہ ہیں ان کی گمراہی تمہیں کوئ نقصان نہیں پہنچائے گی۔ تم سب کو الّٰلہ کی طرف لوٹنا ہے۔ وہاں پر الّٰلہ تعالیٰ تمہیں بتائیں گے کہ تم دنیا کے اندر کیا کرتے رہے ہو۔" (ترجمہ آیت نمبر ۱۰۵، سورة المائدہ)

اس آیت میں ہماری ایک بہت بنیادی بیماری یہ بتا دی کہ یہ اصلاح کی کوششیں جو ناکام نظر آتی ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص جب اصلاح کا جھنڈا لے کر کھڑا ہوتا ہے تو اس کی خواہش اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ اصلاح کا آغاز دوسروں سے کرے۔ وہ دوسروں کو تو دعوت دیتا ہے اور اصلاح کا پیغام دیتا ہےلیکن اپنی اصلاح سے اور اپنے حالات میں تبدیلی لانے سے غافل ہوتا ہے۔ ہماری شاید ہی کوئ محفل اور کوئ مجلس اس تذکرے سے خالی ہوتی ہو کہ لوگ تو یوں کرتے ہیں، یہ یہ برائیاں کرتے ہیں اور معاشرے کے اندر یہ ہو رہا ہے، لیکن کبھی اپنے گریبان کے  اندر منہ ڈال کر یہ دیکھنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ خود میں کتنا بگڑ گیا ہوں، میرے اپنے حالات کتنے خراب ہیں، خود مجھے اصلاح کی کتی ضرورت ہے۔ 

ایک حدیث میں حضور ِ اقدس ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص یہ کہے کہ ساری دنیا تباہ و برباد ہو گئ (یعنی دوسروں پہ اعتراض کر رہا ہے کہ وہ بگڑ گئے، ان کے اندر بے راہروی آ گئ، وہ گناہوں کا ارتکاب کرنے لگے) تو سب سے زیادہ برباد خود وہ شخص ہے۔

انسان کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اپنے شب و روز کا جائزہ لے اور پھر یہ دیکھے کہ میں کتنا کام الّٰلہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق اور اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کر رہا ہوں، اور کتنا کام اس کے خلاف کر رہا ہوں۔ اور اگر الّٰلہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کام کر رہا ہوں تو اس کی اصلاح کا کیا راستہ ہے؟الّٰلہ تعالیٰ یہ فکر ہمارے اور آپ کے دلوں میں پیدا فرما دے تو پہلے افراد کی اصلاح ہونا شروع ہو جائے گی۔ انہیں افراد کا مجموعہ معاشرہ بن جاتا ہے۔ اگر ہر شخص کو اپنی اصلاح کی فکر پیدا ہو جائے تو سارا معاشرہ خودبخود سدھر جائے۔ لیکن اگر ہر شخص دوسرے کی اصلاح کی فکر کرتا رہے گا اور اپنی اصلاح کی فکر چھوڑے رہے گا تو سارا معاشرہ خراب ہی رہے گا۔ 

ماخوذ از بیان "معاشرے کی اصلاح کیسے ہو" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment