Thursday 14 July 2016

ملکی قانون کی پابندی کرنا واجب ہے

جس ملک میں بھی انسان رہتا ہو، چاہے وہ مسلم ملک ہو یا غیر مسلم ملک ہو، اس کے وہ تمام قوانین جو کسی گناہ یا معصیت پر مجبور نہیں کرتے، اور جو انسان کو کسی دوسرے انسان پر ناقابلِ برداشت ظلم پر مجبور نہیں کرتے، ان تمام قوانین کی پابندی شرعاً واجب ہے۔

حضرت مفتی محمد شفیع ؒ اس کی مثال میں حضرت موسی علیہ السلام کا قصّہ سنایا کرتے تھے کہ حضرت موسیٰ جب فرعون کے ملک میں رہتے تھے تو نبی بننے سے پہلے انہوں نے ایک قبطی کو مکّا مار کر قتل کر دیا تھا۔ حضرت موسی علیہ السلام اس قتل پر استغفار کیا کرتے تھے اور فرماتے کہ میرے اوپر ان کا ایک گناہ ہے اور میں نے ان کا ایک جرم کیا ہے۔ حضرت مفتی شفیع صاحب نے فرمایا کہ اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ قتل جان بوجھ کر نہیں کیا تھا بلکہ ایک مظلوم کی مدد فرمائ تھی۔ اور انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ مکّا مارنے سے وہ مر جائے گا اس لیے یہ حقیقتہً گناہ نہیں تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عصمت کے منافی بھی نہیں تھا۔ لیکن چونکہ صورت گناہ کی سی تھی اس لیے آپ نے اسے گناہ سے تعبیر فرمایا۔

اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ وہ قبطی جس کو موسیٰ علیہ السلام نے قتل کیا تھا وہ تو کافر تھا، اور کافر بھی حربی، لہذا اگر اسے جان بوجھ کر بھی قتل کرتے تو ایک حربی کافر کو قتل کرنے میں گناہ کیوں ہوتا؟ حضرت مفتی شفیع ؒ فرمایا کرتے تھے کہ یہ اس لیے گناہ ہوا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے شہر میں رہ رہے ہیں تو عملاً اس بات کا وعدہ کر رکھا ہے کہ ہم آپ کے ملک کے قوانین کی پابندی کریں گے، اور ان کا قانون یہ تھا کہ کسی کو قتل کرنا جائز نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو قتل کیا وہ اس قانون کی خلاف ورزی تھی، اسی لیے انہوں نے اسے گناہ سے تعبیر کیا اور اور اس سے استغفار کیا۔ لہذا ہر حکومت کا ہر شہری، چاہے حکومت مسلمانوں کی ہو یا غیر مسلم حکومت ہو، عملاً اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ وہ اس ملک کے ہر قانون کی پابندی کرے گا، جب تک وہ قانون کسی گناہ پر مجبور نہ کرے۔ 

ماخوذ از بیان "وعدہ خلافی" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment