Saturday 16 July 2016

دنیا اور دین ایک ہیں

ایک حدیث میں رسول الّٰلہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ

"جو تاجر تجارت کے اندر سچائ اور امانت کو اختیار کرے تو وہ قیامت کے دن انبیاء، صدّیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔"

دوسری حدیث جو بظاہر اس کے متضاد ہے وہ یہ ہے کہ:

"تجّار (تجارت کرنے والے) قیامت کے دن فجّار (فاجر کی جمع، یعنی فاسق و فاجر اور گناہ گار، الّٰلہ تعالیٰ کی معصیتوں کا ارتکاب کرنے والا) بنا کر اٹھائے جائیں گے، سوائے اس شخص کے جو تقویٰ اختیار کرے، اور نیکی اختیار کرے، اور سچّائ اختیار کرے۔"

حقیقت میں دونوں حدیثوں میں کوئ تضاد نہیں ہے، بلکہ تاجروں کی دو قسمیں بیان کی گئ ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو انبیاء اور صدّیقین کے ساتھ ہو گی، اور ایک قسم وہ ہے جو فاسقوں اور فاجروں کے ساتھ ہو گی۔ دونوں قسموں میں فرق بیان کرنے کے لیے جو شرائط بیان فرمائیں وہ یہ ہیں کہ سچائ ہو امانت ہو، تقویٰ ہو، نیکی ہو، تو پھر وہ تاجر پہلی قسم میں داخل ہے اور اس کو انبیاء کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اور اگر یہ شرائط اس کے اندر نہ ہوں بکہ صرف پیسہ حاصل کرنا مقصود ہو، چاہے دوسرے کی جیب پر ڈاکہ ڈال کر ہو، دھوکہ دے کر ہو، جھوٹ بول کر ہو، فریب دے کر ہو، کسی بھی طریقے سے ہو، تو پھر وہ تاجر دوسری قسم میں داخل ہے کہ اس کو فاسقوں اور فاجروں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ 

اگر ان دونوں حدیثوں کو ہم ملا کر دیکھیں تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ جو تجارت ہم کر رہے ہیں اگر ہم چاہیں تو اس تجارت کو جنّت تک پہنچنے کا راستہ بنا لیں اور انبیاء علیہ السلام کے ساتھ حشر ہونے کا ذریعہ بنا لیں، اور اگر چاہیں تو اسی تجارت کو جہنّم کا راستہ بنا لیں اور فسّاق و فجّار کے ساتھ حشر ہونے کا ذریعہ بنا لیں۔ اور یہ بات صرف تجارت کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے، بلکہ دنیا کے جتنے کام ہیں، خواہ وہ ملازمت ہو، زراعت ہو، تجارت ہو، یا دنیا کا کوئ اور کام ہو، ان سب میں یہی بات ہے کہ اگر اس کو انسان ایک زاویئے سے دیکھے تو وہ دنیا ہے، اور اگر دوسرے زاویے سے دیکھے تو وہی دین بھی ہے۔ 

دین درحقیقت زاویہ نگاہ کی تبدیلی کا نام ہے، اور یہی زاویہ نگاہ جب بدل جاتا ہے تو قرآن کی اصطلاح میں اس کا نام تقویٰ ہے۔ یعنی میں دنیا کے اندر جو کچھ بھی کر رہا ہوں، چاہے کھا رہا ہوں، سو رہا ہوں، کما رہا ہوں، ملازمت کر رہا ہوں، اگر سب کچھ الّٰلہ کی رضا کے لیے کر رہا ہوں، الّٰلہ کے احکام کے مطابق کر رہا ہوں، الّٰلہ تعالیٰ کی مرضی پیش ِ نظر رکھ کر کر رہا ہوں، تو اسی کا نام تقویٰ ہے۔ یہ تقویٰ اگر پیدا ہو جائے اور پھر ا س تقویٰ کے ساتھ تجارت کریں تو یہ تجارت دنیا نہیں بلکہ دین ہے، اور یہ جنّت تک پہنچانے والی ہے، اور نبیوں کے ساتھ حشر کرانے والی ہے۔

ماخوذ از بیان "تجارت دین بھی، دنیا بھی"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment