Sunday 3 July 2016

وعدہ خلافی

منافق کی دوسری علامت جو رسول الّٰلہ ﷺ نے اس حدیث میں (جس کی تفصیل پچھلی پوسٹ میں آئ تھی) بیان فرمائ وہ یہ ہے کہ:
"و اذا وعد اخلف"
کہ جب وہ وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۔  مومن کا کام یہ ہے کہ جب وہ وعدہ کرتا ہے تو اس کو نبھاتا ہے، اس کو پورا کرتا ہے۔ چنانچہ شریعت کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئ وعدہ کیا، اور بعد میں اس وعدے کو پورا کرنے میں کوئ شدید عذر پیش آیا، یا کوئ رکاوٹ پیش آ گئ جس کی وجہ سے اس کے لیے اس وعدے کو پورا کرنا ممکن نہیں رہا تو اس صورت میں یہ وعدہ کرنے والا شخص اس دوسرے شخص کو بتا دے کہ اب میرے لیے اس وعدے کو پورا کرنا ممکن نہیں رہا اس لیے میں اس وعدے سے دست بردار ہوتا ہوں۔ لیکن جب تک اس وعدے کو پورا کرنے کی قدرت ہے اور کوئ شرعی عذر نہیں ہے اس وقت تک اس وعدے کو پورا کرے۔ 

حضورِ اقدس ﷺ نے ایسے ایسے وعدوں کو نبھایا کہ آج اس کی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔ حضرت حذیفہ بن یمان ؓ مشہور صحابی ہیں۔ جب یہ اور ان کے والد حضرت یمان ؓ مسلمان ہوئے تو تو مسلمان ہونے کے بعد حضورِ اقدس ﷺ کی خدمت میں مدینہ طیبہ آ رہے تھے۔ راستے میں ان کی ملاقات ابو جہل اور اس کے لشکر سے ہو گئ۔ اس وقت ابو جہل اپنے لشکر کے ساتھ حجور ِ اقدس ﷺ سے لڑنے کے لیے جا رہا تھا۔ ابو جہل نے ان لوگوں کو پکڑ لیا اور پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو۔ انہوں نے بتایا کہ ہم حضورِاقدس ﷺ کی خدمت میں مدینہ طیبہ جا رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ پھر تو ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے اس لیے کہ تم مدینہ جا کر ہمارے خلاف جنگ میں حصّہ لو گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد تو صرف حضور کی ملاقات اور زیارت ہے۔ ہم جنگ میں حصّہ نہیں لیں گے۔ ابو جہل نے کہا کہ اچھا ہم سے وعدہ کرو کہ جنگ میں حصّہ نہیں لو گے۔ انہوں نے وعدہ کر لیا تو ابو جہل نے آپ کو چھوڑ دیا۔ 

حضورِاقدس ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ غزوہ بدر کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہو چکے تھے اور راستے میں ملاقات ہو گئ۔ حضرت حذیفہ ؓ نے سارا قصّہ سنا دیا کہ اس طرح راستے میں ابو جہل نے پکڑ لیا تھا اور ہم نے بمشکل یہ وعدہ کر کے جان چھڑائ کہ ہم لڑائ میں حصّہ نہیں لیں گے۔ انہوں نے پھر درخواست کی کہ یا رسول الّٰلہ ﷺ! یہ بدر کا معرکہ ہونے والا ہے۔ ہماری بڑی خواہش ہے کہ ہم بھی اس میں شریک ہو جائیں۔ اور جہاں تک اس وعدہ کا تعلّق ہے ہو تو انہوں نے ہماری گردن پہ تلوار رکھ کے ہم سے وعدہ لیا تھا کہ ہم جنگ میں حصّہ نہیں لیں گے۔ اگر ہم وعدہ نہ کرتے تو وہ ہمیں نہ چھوڑتے اس لیے ہم نے وعدہ کر لیا۔

اگر اس وقت ہم جیسا کوئ ہوتا تو تاویلیں کر لیتا کہ یہ وعدہ تو ہم سے زبردستی لیا گیا تھا، یہ حالتِ عذر ہے اس لیے کہ کفّار کا مقابلہ ہے، اسطرف صرف ۳۱۳ افراد ہیں جن کے پاس صرف آٹھ تلواریں ہیں اور ان کا مقابلہ ایک ہزار مسلّح سورماؤں سے ہے، لیکن رسول الّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں! تم وعدہ کر کے آئے ہو اور زبان دے کے آئے ہو، اور اسی شرط پہ تمہیں رہا کیا گیا ہے کہ تم وہاں جا کر محمد رسول الّٰلہ ﷺ کی زیارت کرو گے لیکن ان کے ساتھ جنگ میں حصّہ نہیں لو گے، اس لیے میں تمہیں جنگ میں حصّہ لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ 

ایسا کیوں کیا گیا، اس لیے کہ یہ جہاد ملک حاصل کرنے کے لیے نہیں ہو رہا ہے، اقتدار حاصل کرنے کے لیے نہیں ہو رہا ہے۔ یہ تو صرف الّٰلہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہو رہا ہے۔ اور الّٰلہ تعالی کی رضا اسی میں ہے کہ جو وعدہ کر لیا گیا ہے اس کو نبھایا جائے۔  گناہ کا ارتکاب کر کے الّٰلہ تعالیٰ کو راضی نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے حضرت حذیفہؓ اور ان کے والد حضرت یمان ؓ دونوں کو غزوہ بدر جیسی فضیلت س محروم رکھا گیا اس لیے کہ یہ دونوں جنگ میں شرکت نہ کرنے کا وعدہ کر کے آئے تھے۔ یہ ہے وعدہ کا ایفأ۔ 

ماخوذ از بیان "وعدہ خلافی" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment