Saturday 30 July 2016

اپنے گھر والوں کو آگ سے بچانا

"اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ اس پر سخت کڑے مزاج کے فرشتے مقرر ہیں جو الّٰلہ کے کسی حکم میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔" (ترجمہء آیت نمبر 6؛ سورة التحریم)

آج کل یہ منظر بکثرت دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک انسان اپنی ذات میں بڑا دیندار ہے، نمازوں کا اہتمام ہے، روزے رکھ رہا ہے، اور جتنے اوامر و نواہی ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کین اگر اس کے گھر والوں کو دیکھو تو ان میں نہ فرائضِ  دینیہ کو بجا لانے کا احساس ہے، اور نہ گناہوں کو گناہ سمجھنے کی فکر ہے۔ جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اپنی اولاد کو بھی  دین کی طرف لاؤ، گناہوں سے بچانے کی فکر کرو، تو اس کے جواب میں عام طور پر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے بڑی کوشش کی مگر کیا کریں، ماحول اور معاشرہ خراب ہے۔ ہم نے بہت سمجھایا مگر وہ مانتے نہیں ہیں۔ اب ان کا عمل ان کے ساتھ ہے اور ہمارا عمل ہمارے ساتھ ہے۔

قرآن کریم نے اس آیت میں  "آگ" کا لفظ استعمال کر کے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا کہ کہ ماں باپ کو اپنی اولاد کو گناہوں سے بچانے کے لیے کس حد تک ممکن کوشش کرنا چاہیے۔ اگر کہیں آگ لگی ہوئ ہو اور آپ کا نادان بچّہ اس آگ کو خوش منظر سمجھ کر اس کی طرف بڑھ رہا ہے، کیا اس وقت آپ اس پر اکتفا کریں گے کہ اپنے بچے کو دور سے بیٹھ کر نصیحت کرنا شروع کر دیں کہ بیٹا اس آگ میں مت جانا۔ اگر تم اس میں جاؤ گے تو جل جاؤ گے. کوئ حقیقی ماں باپ ایسا نہیں کر سکتے بلکہ وہ اپنے بچے کو آگ کی طرف جاتے دیکھ کرتڑپ اٹھیں گے اور جب تک وہ اپنے بچّے کو اٹھا کر آگ سے دور نہیں لے جائیں گے ان کو چین نہیں آئے گا۔

 اس آیت میں اشارہ اسی طرف ہے کہ جس طرح اپنی اولاد کو اس دنیا کی آگ سے بچانے کے لیے تڑپ اٹھتے ہو کم از کم اتنی ہی تڑپ اپنی اولاد کو آخرت کی آگ سے بچانے کے لیے بھی تو پیدا کرو۔ اس آگ سے بچانے کے لیے کیوں ایک دو مرتبہ کہہ کے مطمئن ہو جاتے ہو کہ ہم نے اپنا فریضہ ادا کر دیا۔

ماخوذ از بیان "اولاد کی اصلاح و تربیت" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment