Tuesday 19 July 2016

تقویٰ کے بغیر حقوق ادا نہیں ہو سکتے

شرعی اعتبار سے تو نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول سے منعقد ہو جاتا ہے لیکن رسول الّٰلہ ﷺ کی سنّت ہے کہ ایجاب و قبول سے پہلے ایک خطبہ دیا جاتا ہے جس میں حمد و سلام کے بعد عموماً قرآنِ کریم کی تین آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں۔ 

پہلی آیت جو تلاوت کی جاتی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے؛

"اے لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرو، اور تقویٰ اختیار کرو، جس نے تہیں ایک جان (یعنی حضرت آدم علیہ السلام)  سے پیدا کیا، اور اسی جان سے اس کی بیوی کو پیدا کیا (یعنی حضرت حوّا علیہ السلام) اور ان دونوں کے ذریعے دنیا میں بہت سے مرد اور عورت پھیلا دیے، اور اس سے ڈرو جس کے نام کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے (اپنے حقوق کا) مطالبہ کرتے ہو، اور رشتہ داریوں (کے حقوق) سے بھی ڈرو (یعنی اس کا خیال رکھو کہ رشتہ داروں کے حقوق پامال نہ ہونے پائیں)، اور الّٰلہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال و افعال پر نگراں ہیں۔ (سورة النساء:۱)

دوسری آیت جو تلاوت کی جاتی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے؛

"اے ایمان والو! الّٰلہ سے ڈرو (جیسا کہ اس سے) ڈرنے کا حق ہے، اور تم نہ مرو (موت نہ آئے) مگر اس حالت میں کہ تم الّٰلہ کے فرماں بردار ہو۔" (سورة آلِ عمران:۱۰۲)

تیسری آیت جو رسول الّٰلہ ﷺ نے خطبہ نکاح میں تعلیم فرمائ اس کا ترجمہ یہ ہے؛

"اے ایمان والو! الّٰلہ سے ڈرو اور سیدھی (سچّی) بات کہو، (اگر الّٰلہ سے ڈرو گے، اور سیدھی سچّی بات کہنے کی عادت ڈالو گے) تو الّٰلہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال کو قبول فرما لیں گے، اور تمہارے گناہوں کو معاف فرما دیں گے۔ جو شخص الّٰلہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرے گا تو وہ بڑی کامیابی حاصل کرے گا۔" (سورة الاحزاب ۷۰۔۷۱)

ان تینوں آیتوں میں جو چیز قدرِمشترک نظر آتی ہے اور جس کا حکم تینوں آیتوں میں موجود ہے، وہ ہے "تقویٰ اختیار کرنا" ان تینوں آیتوں کا آغاز اس حکم سے ہو رہا ہے کہ اے ایمان والو! الّٰلہ سے ڈرو، اور تقویٰ اختیار کرو۔ یہ جو عقدِ نکاح کے موقع پہ خاص طور پہ تقویٰ اختیار کرنے کی تاکید کی جا رہی ہے اور اس کو بار بار دہرایا جا رہا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ 

یوں تو انسان کو دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنے کے لیے تقویٰ لازمی شرط ہے جس کے بغیر انسان دنیا اور آخرت میں صلاح و فلاح حاصل نہیں کر سکتا، لیکن نکاح کا رشتہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے حقوق اور اس کی برکات اس وقت تک حاصل نہیں کی جا سکتیں جب تک دونوں فریقوں کے دلوں میں الّٰلہ کا خوف نہ ہو۔ اگر دلوں میں الّٰلہ کا خوف نہ ہو، الّٰلہ کے سامنے جواب دہی کا احساس نہ ہو، اور اس بات کا ادراک نہ ہو کہ ایک دن ہمیں الّٰلہ جلّ شانہ کے حضور حاضر ہو کر اپنے ایک ایک قول و فعل کا جواب دینا ہے، اس وقت تک صحیح معنوں میں ایک شخص دوسرے شخص کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ نہ بیوی شوہر کا حق ادا کر سکتی ہے، نہ شوہر بیوی کا حق ادا کر سکتا ہے، نہ ایک رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کاحق ادا کر سکتا ہے، نہ دوست دوست کا حق ادا کر سکتا ہے۔ جب تک دلوں میں یہ احساس نہ ہو کہ اگر میں نے دوسرے کا حق مار لیا تو شاید میں اس دنیا میں عدالت اور قانون سے تو بچ جاؤں لیکن الّٰلہ تعالیٰ کی عدالت میں نہیں بچ سکتا، اس وقت تک ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ماخوذ از بیان "خطبہء نکاح کی اہمیت" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment