Wednesday 29 June 2016

جھوٹ کی مروّجہ صورتیں

حضرت نے فرمایا کہ جھوٹ بولنا حرام ہے اور ایسا حرام ہے کہ کوئ ملّت کوئ قوم ایسی نہیں گزری جس میں جھوٹ بولنا حرام نہ ہو۔ یہاں تک کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ بھی جھوٹ بولنے کو برا سمجھتے تھے۔ افسوس کہ اب اس جھوٹ میں عام ابتلا ہے یہاں تک کہ جو لوگ حرام و حلال اور جائز و ناجائز کا اور شریعت پر چلنے کا اہتمام کرتے ہیں ان میں بھی یہ بات نظر آتی ہے کہ گویا انہوں نے بھی جھوٹ کی بہت سی قسموں کو جھوٹ سے خارج سمجھ رکھا ہے اور سمجھتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہی نہیں ہے۔ اس میں دوہرا گناہ ہے، ایک جھوٹ بولنے کا گناہ، اور دوسرے اس گناہ کو گناہ نہ سمجھنے کا گناہ۔ 

جھوٹا میڈیکل سرٹیفیکیٹ
حضرت نے مزید فرمایا کہ ایک صاحب جو بڑے نیک تھے، نماز روزے کے پابند، ذکر و اذکار کےپابند، بزرگوں سے تعلّق رکھنے والے، پاکستان سے باہر قیام تھا۔ ایک دفعہ پاکستان آئے تو میرے پاس بھی ملاقات کے لیے آ گئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کب واپس تشریف لے جا رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ابھی آٹھ دس روز اور ٹھہروں گا۔ میری چھٹّیاں تو ختم ہو گئیں البتّہ کل ہی میں نے مزید چھٹّی لینے کے لیے ایک میڈیکل سرٹیفیکیٹ بھجوا دیا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیسا میڈیکل سرٹیفیکیٹ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس میں یہ لکھا تھا کہ یہ اتنے بیمار ہیں کہ سفر کے لائق نہیں۔ میں نے کہا کہ کیا دین صرف نماز روزے کا نام ہے؟ ذکر و شغل کا نام ہے؟ آپ کا بزرگوں سے تعلّق ہے۔ پھر یہ میڈیکل سرٹیفیکیٹ کیسا؟ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں نے آج پہلی مرتبہ آپ کے منہ سے یہ بات سنی کہ یہ بھی کوئ غلط کام ہے۔ میں نے کہا کہ جھوٹ بولنا اور کس کو کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مزید چھٹّی کس طرح لیں؟ میں نے کہا کہ جتنی چھٹّیوں کا استحقاق ہے اتنی چھٹّی لو، مزید چھٹّی لینی ہی ہو تو بغیر تنخواہ کے لے لو، لیکن یہ جھوٹا سرٹیفیکیٹ بھیجنے کا تو جواز پیدا ہی نہیں ہوتا۔

جھوٹی سفارش
ایک اچھے خاصے پڑھے لکھے نیک اور سمجھدار بزرگ کا میرے پاس سفارشی خط آیا۔ اس وقت میں جدّہ میں تھا۔ اس خط میں یہ لکھا تھا کہ یہ صاحب جو آپ کے پاس آرہے ہیں یہ انڈیا کے باشندے ہیں، یہ اب پاکستان جانا چاہتے ہیں۔ لہذا آپ پاکستانی سفارت خانے سے ان کے لیے یہ سفارش کر دیں کہ ان کو ایک پاکستانی پاسپورٹ جاری کر دیا جائے اس بنیاد پہ کہ یہ پاکستانی باشندے ہیں اور ان کا پاسپورٹ یہاں سعودی عرب میں گم ہو گیا ہے۔

اب آپ بتائیے! وہاں عمرے ہو رہے ہیں، حج بھی ہو رہا ہے، طواف اور سعی بھی ہو رہی ہے، اور ساتھ میں یہ جھوٹ اور فریب بھی ہو رہا ہے، گویا کہ یہ دین کا حصّہ ہی نہیں ہے۔ اس کا دین سے کوئ تعلّق نہیں ہےشاید لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جب قصد اور ارادہ کر کے، باقاعدہ جھوٹ کو جھوٹ سمجھ کر بولا جائے، تب جھوٹ ہوتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر سے جھوٹا سرٹیفیکیٹ بنوا لینا، جھوٹی سفارش لکھوا لینا یا جھوٹے مقدّمات دائر کر دینا، یہ کوئ جھوٹ نہیں۔ حالانکہ الّٰلہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"ما یلفظ قول الا لدیہ رقیب عتید" (سورة ق: ۱۸)
یعنی زبان سے جو لفظ نکل رہا ہے وہ تمہارے نامہ اعمال میں ریکارٖڈ ہو رہا ہے۔

جھوٹا کیریکٹر سرٹیفیکیٹ
آج کل اس کا عام رواج ہو گیا ہے کہ جھوٹے سرٹیفیکیٹ حاصل کرتے ہیں یا دوسروں کے لیے جھوٹے سرٹیفیکیٹ جاری کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی کو کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت پیش آ گئ، اب وہ کسی کے پاس گیا اور جاری کرنے والے نے یہ لکھ دیا کہ میں ان کو پانچ سال سے جانتا ہوں، یہ بڑے اچھے آدمی ہیں، ان کا اخلاق و کردار بہت اچھا ہے۔ لیکن کسی کے حاشیہ و خیال میں یہ بات نہیں آتی کہ ہم یہ ناجائز کام کر رہے ہیں۔ بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نیک کام کر رہے ہیں، یہ تو باعثِ ثواب ہے کہ یہ ضرورت مند تھا، ہم نے اس کی ضرورت پوری کردی۔ حالانکہ اگر آپ اس کے کیریکٹر سے واقف نہیں ہیں تو آپ کے لیے ایسا سرٹیفیکیٹ جاری کرنا ناجائز ہے۔اس صورت میں سرٹیفیکیٹ دینے والا اور لینے والا دونوں گناہ گار ہوں گے۔ 

یاد رکھیے کہ یہ سرٹیفیکیٹ اور یہ تصدیق نامہ ایک گواہی ہے اور اس آیت
"الا من شھد بالحق و ھم یعلمون" ( سورة الزخرف۔۸۶)
 کی رو سے گواہی دینا اس وقت جائز ہے جب آدمی کو اس بات کا علم ہو اور یقین سے جانتا ہو کہ یہ واقع میں ایسا ہے۔ اور جھوٹی گواہی اتنی بری چیز ہے کہ حدیث میں رسول الّٰلہ ﷺ نے اس کو شرک کے ساتھ ملا کر ذکر فرمایا۔

ہمارے معاشرے میں جو جھوٹ کی وبا پھیل گئ ہے اس میں اچھے خاصے دیندار، پڑھے لکھے، نمازی، بزرگوں سے تعلّق رکھنے والے، وظائف اور تسبیح پڑھنے والے بھی مبتلا ہیں۔ وہ بھی اس کو ناجائز اور برا نہیں سمجھتے کہ یہ جھوٹا سرٹیفیکیٹ جاری ہو جائے گا تو یہ کوئ گناہ ہو گا، حالانکہ حدیث شریف میں حضور اقدس ﷺ نے یہ جو فرمایا کہ "اذ احدث کذب" اس میں یہ سب باتیں بھی داخل ہیں۔ یہ سب دین کا حصّہ ہیں اور ان کو دین سے خارج سمجھنا بدترین گمراہی ہے۔

ماخوذ از بیان "جھوٹ اور اس کی مروجّہ صورتیں" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment