Saturday 18 June 2016

مفلس کون ہے؟

حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے دریافت فرمایا کہ یہ بتاؤ مفلس کس کو کہتے ہیں؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، یا رسول الّٰلہ ﷺ! مفلس تو اس کو کہتے ہیں جس کے پاس دینار و درہم نہ ہوں، دولت نہ ہو۔ حضور ﷺ نے فرمایا وہ حقیقی مفلس نہیں۔ حقیقی مفلس وہ ہے کہ جب قیامت کے دن الّٰلہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو نیکیوں سے اس کا میزانِ عمل کا پلّہ بھرا ہوا تھا۔ بہت سی نیکیاں لے کر آیا تھا۔ نمازیں پڑھی تھیں، روزے رکھے تھے، تسبیحات پڑھی تھیں، الّٰلہ کا ذکر کیا تھا، تعلیم کی تھی، تبلیغ کی تھی، دین کی خدمات انجام دی تھیں، بہت ساری نیکیاں الّٰلہ تبارک و تعالیٰ کے دربار میں لے کر آیا تھا۔

لیکن جب اعمال پیش ہوئے تو پتہ چلا کہ نیکیاں تو بہت کی تھیں لیکن بندوں کے حقوق ادا نہ کیے تھے۔ کسی کو مارا تھا، کسی کو برا کہا تھا، کسی کا دل دکھایا تھا، کسی کو تکلیف پہنچائ تھی، کسی کی غیبت کی تھی، کسی کی جان پہ حملہ آور ہوا تھا، کسی کا مال کھایا تھا، کسی کی آبرو پہ حملہ آور ہوا تھا۔ ساری عبادتیں کی تھیں لیکن لوگوں کو اپنے ہاتھ سے، اپنی زبان سے، اور مختلف طریقوں سے تکلیف پہنچائ تھی۔

اب جب الّٰلہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوا، وہاں تو عدل ہے، انصاف ہے، اس لیے جن کے حق مارے تھے ان سے کہا گیا کہ تم اس سے اپنا حق وصول کرو۔ اب وہاں کا سکّہ روپیہ پیسہ تو ہے نہیں۔ وہاں کا سکّہ تو نیکیاں ہیں لہذا انہیں کے ذریعے تبادلہ ہو گا۔ چنانچہ جس کے پیسے کھائے تھے اس سے کہا جائے گا اس کی نیکیاں اس کے اعمال سے لیلو۔ اس نے بہت ساری نفلی نمازیں پڑھی تھیں وہ سب ایک صاحبِ حق کو مل گئیں، دوسری نمازیں دوسرا صاحبِ حق لے گیا، روزے تیسرا صاحبِ حق لے گیا، حج چوتھا صاحبِ حق لے گیا۔ جتنے نیک اعمال کیے تھے ایک ایک کر کے لوگ لے جاتے رہے یہاں تک کہ ساری نیکیاں ختم ہو گئیں۔ لیکن لوگ پھر بھی کھڑے ہیں کہ پروردگار ہمارا حق تو رہ گیا ہے، ہمارے بھی پیسے کھائے تھے، ہماری بھی غیبت کی تھی، اس سے ہمارا بھی بدلہ دلوائیے۔ الّٰلہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اب راستہ یہ ہے کہ تمہارے جو گناہ ہیں وہ تمہارے نامہ اعمال سے مٹا کر اس کے نامہ اعمال میں ڈال دیے جائیں۔ 

تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نیکیوں کا ڈھیر لے کر آیا اتھا لیکن بندوں کے حقوق کا معاملہ ہوا تو بجائے اس کے کہ وہ نیکیاں باقی رہتیں اور لوگوں کے گناہ بھی اس کی گردن پر ڈال دیے گئے۔ رسول اّٰللہ ﷺ نے فرمایا کہ حقیقت میں مفلس وہ ہے جو نیکیاں لے کر آیا تھا اور گناہوں کا بوجھ لے کر جا رہا ہے۔

اس لیے یہ حقوق العباد بہت ڈرنے کی چیز ہیں۔ لوگوں کے حقوق مارنا خواہ پیسے کی شکل میں ہو، یا عزّت کی شکل میں، یا جان کی شکل میں، یہ اتنا خطرناک معاملہ ہے کہ اور گناہ تو توبہ سے معاف ہو جاتے ہیں لیکن حقوق العباد توبہ سے بھی معاف نہیں ہوتے جب تک کہ وہ صاحبِ حق معاف نہ کرے۔

ماخوذ از بیان "دولت ِ قرآن کی قدر و عظمت"، مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment