Monday 20 June 2016

الّٰلہ تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے

حضرت عمر فاروق ؓ ایک دفعہ سفر پر جا رہے تھے۔ سفر کے دوران کچھ بھوک لگی۔ حضرت فاروقِ اعظم ؓ نے تلاش کیا کہ آس پاس کوئ بستی ہو لیکن کوئ بستی بھی نہیں۔ تلاش کرتے کرتے دیکھا کہ ایک بکریوں کا ریوڑ چر رہا ہے۔ خیال ہوا کہ اس بکری والے سے کچھ دودھ لے کر پی لیں تا کہ بھوک مٹ جائے۔ دیکھا کہ چرواہا بکریاں چرا رہا ہے۔ حضرت فاروقِ اعظم ؓ نے اس سے جا کر کہا کہ میں مسافر ہوں، مجھے بھوک لگی ہے، مجھے ایک بکری کا دودھ نکال دو تو میں پی لوں، اور اس کی قیمت جو تم چاہو وہ میں تم کو ادا کر دوں۔ چرواہے نے کہا کہ جناب! میں ضرور آپ کو دودھ دے دیتا لیکن یہ بکریاں میری نہیں ہیں، میں تو ملازم ہوں۔ بکریاں چرانے کے لیے میرے مالک نے مجھے رکھا ہوا ہے۔ جب تک میں اس سے اجازت نہ لے لوں مجھے آپ کو دودھ دینے کا حق نہیں۔

حضرت عمر فاروق ؓ لوگوں کو آزمایا بھی کرتے تھے۔ آپ نے اس سے کہا کہ میں تمہیں فائدے کی ایک بات بتاتا ہوں اگر تم اس پہ عمل کر لو۔ چرواہے نے پوچھا، وہ کیا؟ آپ نے فرمایا، ایسا کرو تم ان بکریوں میں سے ایک بکری مجھے بیچ دو۔ پیسے میں ابھی تمہیں دیتا ہوں۔ میرا فائدہ تو یہ ہو گا کہ مجھے دودھ مل جائے گا۔ ضرورت ہو گی تو میں اسے کاٹ کر گوشت بھی کھا لوں گا۔ جب مالک تم سے پوچھے کہ ایک بکری کہاں گئ تو کہہ دینا کہ بھیڑیا کھا گیا۔ اور بھیڑیا تو بکریوں کو کھاتا ہی رہتا ہے۔ مالک کہاں تمہاری تحقیق کرتا پھرے گا کہ بھیڑیے نے کھایا یا نہیں کھایا۔ تم ان پیسوں کو اپنی جیب میں رکھ کر ان کو اپنی ضروریات میں استعمال کرنا۔ اس میں تمہارا بھی فائدہ، میرا بھی فائدہ۔

اس چرواہے نے یہ بات سنی تو بیساختہ اس کے منہ سے نکلا، "یا ابن الملک! فاین الّٰلہ؟"اے شہزادے، الّٰلہ کہاں گیا؟ یعنی تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ میں مالک سے جا کر جھوٹ بول دوں اور یہ کہہ دوں کہ بکری کو بھیڑیا کھا گیا تو بیشک میرا مالک تو نہیں دیکھ رہا ہے لیکن الّٰلہ تو دیکھ رہا ہے۔ میں اس کے پاس جا کر اسے کیا جواب دوں گا؟

فاروقِ اعظم ؓ نے فرمایا کہ جب تک تجھ جیسے انسان اس امّت کے اندر موجود ہیں اس وقت تک اس امّت پر کوئ فساد نہیں آ سکتا۔

ماخوذ از بیان "دولتِ قرآن کی قدر و عظمت"، از مفتی محمّد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment