Saturday 25 June 2016

فرمایا کہ انسان ذرا سوچے تو صحیح کہ یہ دنیا کس وقت تک کی ہے، ایک دن کی، دو دن کی، یا تین دن کی؟ کسی کو پتہ ہے کہ کب تک میں اس دنیا میں رہوں گا؟ کیا اس کو یقین ہے کہ اگلے گھنٹے بلکہ اگلے لمحے زندہ رہوں گا؟ بڑے سے بڑا سائنسدان، بڑے سے بڑا فلسفی، بڑے سے بڑا صاحبِ اقتدار نہیں بتا سکتا ہےکہ اس کی زندگی کتنی باقی ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان دنیا کا سازوسامان اکھٹّا کرنے میں لگا ہوا ہے، دن رات دنیا کی دوڑ دھوپ لگی ہوئ ہے، اور صبح سے شام تک اسی کا چکر چل رہا ہے۔ اور جس دن بلاوا آئے گا سب کچھ چھوڑ کر چلا جائے گا، کوئ چیز ساتھ نہیں جائے گی۔ 

لہذا قرآن کریم کی آیت: "وما الحیوٰة الدنیا الّا متاع الغرور" (سورہ حدید ۲۰) بتا رہی ہے کہ دنیاوی زندگی دھوکے کا سودا ہے۔ اس دھوکے کے سودے میں اس طرح نہ پڑ جانا کہ وہ تمہیں آخرت سے غافل کردے۔ اس دنیا سے ضرور گزرو مگر اس سے دھوکہ نہ کھاؤ۔ اگر یہ بات دل میں اتر جائے تو پھر چاہے تمہاری کوٹھیاں کھڑی ہوں یا بنگلے ہوں یا کارخانے ہوں، یا دنیا کا سازوسامان ہو یا مال ودولت ہو یا بینک بیلنس ہو، لیکن ان کی محبّت دل میں نہیں ہےتو پھر زاہد ہو۔ الحمدالّٰلہ پھر تمہیں زہد کی نعمت حاصل ہے۔ 

امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ خسارے کا سودا اس شخص کا ہے جس نے دنیا میں کمایا تو کچھ بھی نہیں اور قلّاش ہے مگر دل میں دنیا کی محبّت بھری ہے تو اس شخص کو زہد حاصل نہیں ہے۔ اس شخص کو زاہد نہیں کہیں گےاس لیے کہ دنیا کی محبّت میں مبتلا ہے اور ایسا شخص بڑے خسارے میں ہے۔

ماخوذ از بیان "دنیا سے دل نہ لگاؤ"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment