Saturday 11 June 2016

جہیز کی شرعی حیثیت

جہیز کے معاملے میں سب سے زیادہ ذمّہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو کھاتے پیتے، امیر اور دولت مند گھرانے کہلاتے ہیں۔ اس عذاب سے نجات اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کھاتےپیتے اور امیر کہلانے والے لوگ اس بات کا اقدام نہ کریں کہ ہم اپنے خاندان میں شادی اور نکاح سادگی کے ساتھ کریں گے اور ان غلط رسموں کو ختم کریں گے۔ اس لیے کہ ایک غریب آدمی تو یہ سوچتا ہے کہ مجھے اپنی سفید پوشی برقرار رکھنے کے لیے اور اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے یہ کام کرنا ہی ہے۔ اگر لڑکی کو جہیز نہیں دیں گے تو سسرال والے طعنے دیں گے کہ کیا لے کر آئ تھی۔ 

آج جہیز کو شادی کا ایک لازمی حصہ سمجھ لیا گیا ہے۔ گھر گھرہستی کا سامان مہیا کرنا جو شوہر کے ذمے واجب تھا، وہ آج بیوی کے باپ کے ذمے واجب ہے۔ گویا کہ وہ باپ اپنی بیٹی اور اپنے جگر کا ٹکڑا بھی شوہر کو دے دے، اور اس کے ساتھ لاکھوں  روپیہ بھی دے، گھر کا فرنیچر مہیا کرے اور اس طرح وہ دوسرے کا گھر آباد کرے۔ شریعت میں اس کی کوئ اصل موجود نہیں۔ بس یہاں تک ٹھیک ہے کہ اگر کوئ باپ اپنی بیٹی کوئ چیز دینا چاہتا ہے تو وہ سادگی کے ساتھ دے دے۔ بہر حال جو متمول اور کھاتے پیتے گھرانے کہلاتے ہیں ان پر یہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کہ جب تک وہ اس سادگی کو نہیں اپنائیں گے اور اس کو ایک تحریک کی شکل میں نہیں چلائیں گے اس وقت تک اس عذاب سے نجات ملنی مشکل ہے۔ الّٰلہ تعالیٰ اپنی رحمت سے یہ بات ہمارے دلوں میں ڈال دے۔ آمین

ماخوذ از بیان "شوہر کے حقوق"، مفتی محمد تقی عثمانیؒ

No comments:

Post a Comment