Friday 24 June 2016

زہد کیا ہے؟

زہد باطنی اخلاق میں سے ہے جسے حاصل کرناہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ زہد کے معنی ہیں "دنیا سے بے رغبتی" اور "دنیا کی محبت سے دل کا خالی ہونا"۔ دل دنیا میں اٹکا ہوا نہ ہو، اس کی محبّت اس طرح دل میں پیوست نہ ہو کہ ہر وقت اسی کا دھیان، اسی کا خیال، اور اسی کی فکر ہے، اور اسی کےلیے دوڑ دھوپ ہو رہی ہے۔ اسی کا نام زہد ہے۔ 

یہ بڑا نازک مسئلہ ہے کہ دنیا کے بغیر گزارہ بھی نہیں ہے۔ دنیا کے اندر بھی رہنا ہے۔ جب بھوک لگتی ہے تو کھانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جب پیاس لگتی ہے تو پانی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ سر چھپانے اور رہنے کے لیے گھر کی بھی ضرورت ہے۔ کسبِ معاش کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ جب یہ سب کام انسان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان دنیا کے اندر بھی رہے، دنیا کی ضروریات بھی پوری کرے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دل میں دنیا نہ آئے، دل میں دنیا سے بےرغبتی پائی جائے۔ 

اسی بات کو مولانا روم ؒ نے ایک مثال سے سمجھایا ہے کہ انسان کی مثال کشتی جیسی ہے اور دنیا کی مثال پانی جیسی ہے۔ جیسے پانی کے بغیر کشتی چل نہیں سکتی اس لیے کہ اگر کوئ شخص خشکی پہ کشتی چلانا چاہے تو نہیں چلے گی۔ اسی طرح انسان کو زندہ رہنے کے لیے دنیا ضروری ہے، انسان کو زندہ رہنے کے لیے پیسہ چاہیے، کھانا چاہیے، پانی چاہیے، مکان چاہیے، کپڑا چاہیے، اور ان سب چیزوں کی اس کو ضرورت ہے اور یہ سب دنیا ہے۔

لیکن جس طرح پانی کشتی کے لیے اسی وقت تک فائدہ مند ہے جب تک وہ پانی کشتی کے نیچے ہے لیکن اگر وہ پانی کشتی کے اندر داخل ہو گیا تو وہ کشتی کو ڈبو دے گا، تباہ کر دے گا، اسی طرح دنیا کا یہ اسباب اور سازوسامان جب تک تمہارے چاروں طرف ہے تب تک کوئ ڈر نہیں ہے، اس لیے کہ یہ سازوسامان تمہاری زندگی کی کشتی کو چلائے گا۔ لیکن جس دن دنیا کا یہ سازوسامان تمہارے اردگرد سے ہٹ کر تمہاری زندگی کی کشتی میں داخل ہو گیا، اس دن تمہیں ڈبو دے گا۔ ۔ چنانچہ مولانا روم ؒ فرماتے ہیں کہ

آب اندر زیر کشتی پشتی است
آب در کشتی ہلاک کشتی است

یعنی جب تک پانی کشتی کے اردگرد ہو تو وہ کشتی کو چلاتا ہے، لیکن اگر وہی پانی کشتی کے اندر داخل ہوجاتا ہے تو وہ کشتی کو ڈبو دیتا ہے۔

ماخوذ از بیان "دنیا سے دل نہ لگاؤ"، از مفتی محّمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment