Sunday 19 June 2016

حقوق العباد کی اہمیت

کسی مسلمان کو تکلیف پہنچانا گناہ کبیرہ ہے۔ یہ ایسا ہی گناہ ہے جیسے شراب پینا، ڈاکہ ڈالنا، چوری کرنا گناہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم سرکارِ دو عالم ﷺ ایک مرتبہ بیت الّٰلہ شریف کا طواف فرما رہے تھے۔ حضرت عبدالّٰلہ ابن مسعود ؓ ساتھ تھے۔ حضرت عبدالّٰلہ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ کعبہ کو خطاب کر کے فرما رہے ہیں، اے الّٰلہ کے گھر! تو کتنی حرمت والا ہے، کتنی عظمت والا ہے، کتنے تقدّس والا ہے، کتنا مقدس ہے۔ حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے بعد رسول الّٰلہ ﷺ نےپھر کعبتہ الّٰلہ سے خطاب کر کے فرمایا کہ لیکن ایک چیز ایسی ہے جس کی عظمت، جس کا تقدّس تجھ سے بھی زیادہ ہے۔ حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ایکدم سے میرے کان کھڑے ہو گئے اور میں چونکا کہ وہ کونسی چیز ہے جس کی عزّت و حرمت اور جس کی عظمت بیت الّٰلہ سے بھی زیادہ ہے؟ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ چیز ہے ایک مسلمان کی جان، اس کا مال اور اس کی آبرو۔

اس کا کیا مطلب کہ ایک مسلمان کی جان، اس کے مال اور اس کی آبرو کی حرمت کعبتہ الّٰلہ سے بھی زیادہ ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئ شخص ناجائز طور پر کسی مسلمان کی جان پر حملہ آور ہوا؛ اس میں جان سے مارنا، زخمی کرنا، نقصان پہنچانا، تکلیف پہنچانا، کوئ بھی جسمانی تکلیف پہنچائ جائے، سب داخل ہیں۔ تو اس نے اتنا ہی بڑا گناہ کیا جیسے کوئ شخص کعبہ کو ڈھا دے، منہدم کر دے۔ 

آج ہم نے چند ظاہری عبادتوں کا نام دین رکھ لیا ہےکہ نماز پڑھی، روزہ رکھا، کچھ زکوٰة دے دی، کچھ نہیں دی، حج کرنے اور عمرہ کرنے کی دولت مل گئ۔ یہ عبادتیں اپنی جگہ بڑی دولتیں ہیں لیکن دین ان میں منحصر نہیں۔ دین کا وہ علم جسے فقہ کہتے ہیں اس کے چار حصّے ہیں۔ ان میں سے ایک حصّہ عبادات سے متعلّق ہے اور تین حصّے حقوق العباد سے متعلّق ہیں۔  لیکن ہم نے حقوق العباد کو دین سے بالکل خارج کر دیا ہے۔ کسی کو تکلیف پہنچا کر کسی کو خیال تک نہیں آتا کہ میں نے کوئ گناہ کا کام کیا، یا کوئ ناجائز کام کیا، یا الّٰلہ تبارک و تعالیٰ کو ناراض کرنے والا کام کیا۔ اگر کسی نے کسی کو ناحق کوئ تکلیف پہنچائ تو اس کی توبہ کی کوئ شکل نہیں جب تک کہ وہ صاحب ِ حق اس کو معاف نہ کردے۔

ماخوذ از بیان "دولتِ قرآن کی قدروعظمت"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment