Saturday 25 June 2016

شیخ فرید الدین عطّارؒ یونانی دواؤں اور عطر کے بہت بڑے تاجر تھے اور اسی وجہ سے ان کو عطّار کہا جاتا ہے۔ ان کی دواؤں اور عطر کی بہت بڑی دکان تھی اور اس وقت وہ ایک عام قسم کے دنیا دار تاجر تھے۔ ایک دن وہ دکان پر بیٹھے ہوئے تھے اور دکان میں دوا اور عطر کی شیشیاں بھری ہوئ تھیں۔ اتنے میں ایک مجذوب قسم کا درویش ملنگ آدمی دکان میں داخل ہو گیا اور پوری دکان میں کبھی اوپر سے نیچے کی طرف دیکھتا، کبھی دائیں سے بائیں دیکھتا، کبھی ایک شیشی کو دیکھتا، کبھی دوسری شیشی کو دیکھتا۔ جب کافی دیر گزر گئ تو شیخ فریدالدین نے اس سے پوچھا کہ تم کیا دیکھ رہے ہو، کیا چیز تلاش کر رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ بس ویسے ہی یہ شیشیاں دیکھ رہا ہوں۔ شیخ فرید الدین نے پوچھا کہ تمہیں کچھ خریدنا بھی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں مجھے کچھ خریدنا تو نہیں ہے، بس ویسے ہی یہ شیشیاں دیکھ رہا ہوں۔ اور پھر ادھر ادھر الماری میں رکھی شیشیوں کی طرف نظر دوڑاتا رہا، بار بار دیکھتا رہا۔ شیخ فرید الدین نے دوبارہ پوچھا کہ بھائ آخر تم کیا دیکھ رہے ہو؟ اس درویش نے کہا کہ میں اصل میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ جب آپ مریں گے تو آپ کی جان کیسے نکلے گی؟ اس لیے کہ آپ نے یہاں اتنی ساری شیشیاں رکھی ہوئ ہیں۔ جب آپ مرنے لگیں گے اور آپ کی روح نکلنے لگے گی تو اس وقت آپ کی روح کبھی ایک شیشی میں داخل ہو جائے گی، کبھی دوسری شیشی میں داخل ہو جائے گی، اور اس کو باہر نکلنے کا راستہ کیسے ملے گا؟

شیخ فریدالدین اس وقت ایک دنیا دار تاجر تھے۔ ان کو یہ باتیں سن کر غصّہ آ گیا اور انہوں نے کہا کہ تو میری جان کی فکر کر رہا ہے۔ تیری جان کیسے نکلے گی؟ جیسے تیری جان نکلے گی ویسے میری بھی نکل جائے گی۔ اس درویش نے جواب دیا کہ میری جان نکلنے میں کیا پریشانی ہے؟ اس لیے کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ میرے پاس تجارت ہے، نہ دکان ہے اور نہ شیشیاں ہیں۔میری جان تو بس اس طرح نکلے گی۔ اتنا کہہ کر وہ درویش دکان کے باہر نیچے زمین پر لیٹ گیا اور کلمہ شہادت "اشھد ان لا الہ الا الّٰلہ و اشھد ان محمّدً ا رسول الّٰلہ" پڑھا، اور اس کی روح پرواز کر گئ۔

بس یہ واقعہ دیکھنا تھا کہ شیخ فرید الدین عطّار کے دل پر ایک چوٹ لگی کہ واقعتاً میں تو دن رات اسی دنیا کے کاروبار میں منہمک ہوں اور یہ ایک الّٰلہ کا بندہ سبک سر طریقے پر الّٰلہ تعالیٰ کی بارگاہ میں چلا گیا۔ بس اسی دن اپنا سب کاروبار چھوڑ کر دوسروں کے حوالے کیا، الّٰلہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور اسی راستے پر لگ کر اتنے بڑے شیخ بن گئے کہ دنیا کی ہدایت کا سامان بن گئے۔ 

ہم جیسے لوگوں کے لیے اس واقعہ سے یہ سبق لینا تو درست نہیں ہے کہ جس طرح وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر الّٰلہ تعالیٰ کے دین کے لیے نکل پڑے ہم بھی ان کی طرح نکل جائیں، لیکن اس واقعہ سے جو بات سبق لینے کی ہے وہ یہ ہے کہ اگر انسان کا دل دنیا کے سازوسامان میں، دنیا کے راحت و آرام میں ہر وقت اٹکا ہوا ہو، اور صبح سے شام تک دنیا حاصل کرنے کی دوڑ دھوپ میں لگا ہوا ہو، ایسے دل میں الّٰلہ تعالیٰ کی محبّت نہیں آتی۔ البتّہ جب الّٰلہ تعالیٰ کی محبّت دل میں آ جاتی ہے تو دنیا کا یہ سازوسامان انسان کے پاس ضرور ہوتا ہے لیکن دل اس کے ساتھ اٹکا ہوا نہیں ہوتا۔

ماخوذ از بیان "دنیا سے دل نہ لگاؤ"، از مفتی محمّد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment