Thursday 23 June 2016

تصوّف شریعت کا ہی ایک حصّہ ہے

لوگ سمجھتے ہیں کہ تصوّف شریعت سے الگ کوئ چیز ہے۔خوب سمجھ لیجیے کہ تصوّف شریعت کا ہی ایک حصّہ ہے۔ انسان کے ظاہری اعمال و افعال سے متعلق دین کے جتنے احکام ہیں ان کے مجموعے کا نام شریعت ہے۔ اور انسان کے باطن کے اعمال و افعال سے متعلّق دین کے جتنے احکام ہیں ان کے مجموعے کا نام طریقت یا تصوّف ہے۔ باطن کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ اگر یہ درست نہ ہو تو ظاہری اعمال بھی بیکار ہو جاتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ انسان کے دل میں اخلاص نہیں ہے۔ اخلاص کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو کام بھی کرے صرف اور صرف الّٰلہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے کرے۔ یہ اخلاص ایک باطنی فعل ہے۔ اگر ایک شخص کو اخلاص حاصل نہیں ہے اور وہ نماز صرف اس لیے پڑھ رہا ہے کہ لوگ اسے متّقی پرہیزگار سمجھیں۔ اس صورت میں اس کے ظاہری اعمال تو درست ہیں لیکن چونکہ باطن میں اخلاص کی روح نہیں ہے اس لیے وہ ظاہری اعمال بیکار ہیں، بلکہ گناہ ہیں کیونکہ حدیث شریف میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھ رہا ہے وہ الّٰلہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کر رہا ہے۔

اسی لیے باطن کی اصلاح ظاہری اعمال کو درست کر نے کے لیے بھی لازمی ہے۔ اگر یہ نہیں ہو گی تو ظاہری اعمال بھی بیکار ہو جائیں گے۔ 

ماخوذ از بیان "دل کی بیماریاں اور طبیبِ روحانی کی ضرورت"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment