Tuesday 14 June 2016

جنّت اور دوزخ کے درمیان مناظرہ

حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنّت اور دوزخ کے درمیان آپس میں مناظرہ اور مباحثہ ہو گیا کہ دونوں میں کون بہتر ہے۔ دوزخ نے کہا کہ میری شان اونچی ہے، اس لیے کہ میرے اندر بڑے بڑے جبّار اور متکبّر لوگ آ کر آباد ہوں گے۔ یعنی جتنے جابر اور متکبّر لوگ ہیں، بڑے منصب والے، بہت زیادہ مال و دولت والے، اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والے، بڑا کہنے والے، وہ سب میرے اندر آباد ہوں گے۔ اور اس بات پر اس نے فخر کیا۔ اس کے مقابلے میں جنّت نے کہا کہ میرے اندر کمزور اور مسکین قسم کے لوگ آباد ہوں گے۔ اور جنّت نے اس پر فخر کیا۔ پھر ان دونوں کے درمیان الّٰلہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا اور جنّت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تو جنّت ہے اور میری رحمت کا نشان اور علامت اور اس کا مورد ہے۔ تیرے ذریعے سے میں جس پر چاہوں گا اپنی رحمت نازل فرما دوں گا۔ اور دوزخ سے خطاب کرکے فرمایا کہ تو دوزخ ہے جو میرے عذاب کا نشان اور علامت اور اس کا مورد ہے۔ اور تیرے ذریعے سے میں جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا۔ اور دونوں سے میں میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں تم دونوں کو بھروں گا۔ جنّت کو ایسے لوگوں سے بھروں گا جن کے اوپر میری رحمت نازل ہوئ، اور دوزخ کو ایسے لوگوں سے بھروں گا جن کے اوپر میرا عذاب نازل ہو گا۔ 

حضرت نے مزید فرمایا کہ اس حدیث میں ایک بات جو خاص طور پر عرض کرنے کی ہے وہ یہ کہ نبی کریم ﷺ نے دو لفظ استعمال فرمائے، ایک "ضعفأ" اور دوسرے "مساکین"۔ ضعفأ کے معنی یہ ہیں کہ جسمانی اعتبار سے کمزور، مالی اعتبار سے کمزور، رتبے کے اعتبار سے کمزور، منصب کے اعتبار سے کمزور۔ اور مساکین جمع ہے مسکین کی۔ اور مسکین کے دو معنی آتے ہیں۔ ایک تو مسکین اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس پیسےنہ ہوں اور جو مفلس ہو۔ دوسرے مسکین اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس پیسے ہوں یا نہ ہوں، لیکن اس کے مزاج میں مسکینی ہو۔ چاہے اس کے پاس پیسے ہوں اور وہ مالدار بھی ہو، لیکن طبیعت میں تکبّر پاس سے نہیں گزرا، مسکینوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے، مسکینوں کو اپنے قریب رکھتا ہے، اس کی طبیعت میں عاجزی ہے، تکبّر کی بات کبھی نہیں کرتا، ایسا شخص مسکین کے زمرے میں داخل ہے۔

لہذا یہ شبہ نہ ہونا چاہیے کہ اگر کسی کے پاس مال ہے اور وہ خوش حال ہے تو وہ ضرور جہنّم میں جائے گا۔ الّٰلہ تعالیٰ بچائے ایسا نہیں ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر الّٰلہ تعالیٰ نے اس کو مال دیا ہے، دولت عطا فرمائ ہے، لیکن اگر طبیعت میں مسکینی اور عاجزی ہے، تکبّر نہیں ہے، دوسروں کے ساتھ برتاؤ اچھا ہے، اور الّٰلہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق پوری طرح ادا کرتا ہے تو وہ بھی انشأالّٰلہ مسکین کے زمرے میں داخل ہے۔ 

ماخوذ از بیان "غریبوں کی تحقیر نہ کیجیے"، مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment