Thursday 23 June 2016

اخلاق کیا ہیں؟



نبی کریم ﷺ نے فرمایا، "یاد رکھو کہ انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے۔ اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا جسم صحیح ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔" پھر فرمایا کہ خوب سن لو کہ وہ لوتھڑا جس کی وجہ سے سارا جسم صحیح ہوتا ہے یا خراب ہوتا ہے وہ انسان کا دل ہے۔

الّٰلہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سے احکام دیے ہیں جن کا تعلق ہمارے ظاہری جسم سے ہے مثلاً نماز جسم کی حرکات سے پڑھی جاتی ہے، روزہ میں ایک مخصوص وقت تک بھوکے پیاسے رہنا ہوتا ہے، زکوٰة ہاتھ سے دی جاتی ہے، حج کے اندر جسمانی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح الّٰلہ تعالیٰ نے بہت سے فرائض ہماری روح اور باطن سے متعلق رکھے ہیں۔ مثلاً حکم دیا کہ تواضع اختیار کرنی چاہیے، اپنے اندر اخلاص پیدا کرنا چاہیے، شکر کرنا چاہیے، صبر کرنا چاہیے۔ لیکن یہ سارے اعمال جسم کے اعمال نہیں ہیں، یہ روح کے اور باطن کے اعمال ہیں۔

تواضع کی حقیقت یہ ہے کہ انسان دل میں اپنے آپ کو بے حقیقت سمجھے کہ میری کوئ حقیقت نہیں ہے، میری کوئ قدرت نہیں ہے، میں تو ایک بیکس بے بس بندہ ہوں۔ یہ خیال اکثر دل کے اندر رہنے لگے، اسی کو تواضع کہتے ہیں۔ اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو کوئ بھی کام کرے مکمّل طور سے الّٰلہ تعالیٰ کی رضامندی اور خوشنودی کے لیے کرے، کسی انسان یا غیر الّٰلہ کی خوشنودی یا تعریف مقصود نہ ہو۔ صبر کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ناگوار بات پیش آ جائے تو انسان دل میں یہ خیال رکھے کہ جو کچھ بھی ہوا ہے الّٰلہ تبارک و تعالیٰ کی مرضی اور حکمت سے ہوا ہے، چاہے یہ مجھ کو کتنا ہی ناگوار ہو لیکن الّٰلہ تعالیٰ کی مصلحت اسی میں تھی۔ یہ تمام اعمال اسی طرح فرض ہیں جیسے نمازپڑھنا فرض ہے، روزہ رکھنا فرض ہے، زکوٰة دینا فرض ہے، لیکن یہ سارے اعمال جسم کے اعمال نہیں ہیں، یہ سارے دل کے، باطن کے، روح کے اعمال ہیں۔

بہت سے اعمال ظاہری اور جسمانی اعتبار سے گناہ قرار دیے گئے ہیں، مثلاً جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، رشوت لینا، سود کھانا، شراب پینا، ڈاکہ ڈالنا، یہ سارے کے سارے اعمال گناہ ہیں جو ہمارے ظاہری جسم سے متعلق ہیں، ہمارے اعضا سے سرزد ہوتے ہیں۔ اسی طرح الّٰلہ تعالیٰ نے بہت سے ایسے کاموں کو گناہ قرار دیا ہے جو ہمارے دل سے، ہمارے باطن سے، ہماری روح سے سرزد ہوتے ہیں۔ مثلاً تکبّر حرام ہے، حسد حرام ہے، عجب حرام ہے۔ 

تکبّر کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے کو دوسروں سےبرتر سمجھے، بڑا سمجھے اور دوسروں کو اپنے سے چھوٹا اور حقیر سمجھے۔ حسد کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کو دوسروں کو اچھے حال میں دیکھ کر اس قدر جلن ہو کہ نہ صرف اسے یہ خواہش ہو کہ مجھے بھی یہ چیزیں مل جائیں بلکہ یہ بھی چاہے کہ دوسرے سے یہ نعمتیں چھن جائیں۔ عجب کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے کو اچھا، بڑا اور قابلِ تعریف سمجھے چاہے دوسروں کو چھوٹا اور حقیر نہ سمجھے۔  

یہ تمام گناہ باطن سے، دل سے سرزد ہوتے ہیں، گو کہ جب یہ دل میں رچ بس جائیں تو ان کے اثرات جسم پہ بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ یہ بھی اتنے ہی حرام ہیں جتنا شراب پینا حرام ہے، جتنا سور کھانا حرام ہے، جتنا جھوٹ بولنا حرام ہے۔ 

انہی باطنی صفات  اور روح کی صفات جن میں سے بعض سے الّٰلہ تعالیٰ نے بچنے کاحکم دیا ہے اور بعض کو پیدا کرنے کا حکم دیا ہے، اخلاق کہا جاتا ہے۔ اچھے اخلاق جن کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے ان کو اخلاقِ فاضلہ کہتے ہیں، اور برے اخلاق جن کو دور کرنا چاہیے ان کو اخلاقِ رذیلہ کہتے ہیں۔  اخلاق کا اصل مطلب ایک دوسرے سے اچھی طرح بات کر لینا یا مسکرا دینا نہیں ہے۔ اخلاق کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کا باطن درست ہو جائے، اخلاقِ فاضلہ پیدا ہو جائیں، اخلاقِ رذیلہ دور ہو جائیں، اور انسان کا باطن الّٰلہ تبارک و تعالیٰ کے احکام کے مطابق ڈھل جائے۔

ماخوذ از بیان "دل کی بیماریاں اور طبیبِ روحانی کی ضرورت"، از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم   

No comments:

Post a Comment